رپورٹ : انقلابی طلبہ محاذ (RSF)
29 اپریل بروز ہفتہ کو مشال خان انقلابی طلبہ محاذ (RSF)، جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فرنٹ (JKNSF)، پاکستان ٹریڈیونین ڈیفنس کیمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام طبقاتی جدوجہد اور مشال ریولوشنری فرنٹ کے تعاون سے پشاور پریس کلب میں مشال خان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن اس محفل کے انعقاد سے پہلے کے حالات و واقعات کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔
13 اپریل کو عبدالولی خان یونیورسٹی کے تئیس سالہ طالب علم کو گستاخی کے بے بنیاد الزام پر تشدد کا نشانہ بناکر بہیمانہ انداز میں شہید کیا گیا، ابتدا میں خوف و ہراس کی بنا پر لوگوں میں غم و غصہ ہونے کے باوجود، وہ کچھ نہ کر سکے۔ طلبہ کی مختلف ترقی پسند تنظیموں کی جانب سے اس عمل کی شدید مذمت کی گئی جس کی وجہ سے ریاستی اداروں میں ہلچل پیدا ہوئی اور کئی مجرموں کو گرفتار بھی کیا گیا، اوائل میں بنیاد پرست تنظیموں، جن کے طلبہ مشال پر وحشیانہ تشدد میں ملوث تھے، کی طرف سے خاموشی دیکھنے میں آئی۔ کراچی سے لیکر کشمیر تک طلبہ تنظیموں نے بھرپور احتجاج بھی کیے۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ہمت اور جرات ملی اوراسی وجہ سے ہی مشال کے آبائی گاؤں ’زائیدہ‘ میں مشال کے ہمسائے جرگے کی شکل میں اس کے والد کے پاس اظہار تعزیت کے لئے گئے۔ لیکن مشال کی وفات کے بعد مختلف نان ایشوز نے جوں جوں اخبارات اور میڈیا میں اپنی جگہ بنائی اسی طرح ہی بنیاد پرست عناصر میدان میں اترنے شروع ہوئے، پہلے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں پھر مردان میں ملاؤں اور بنیاد پرستوں کے احتجاج دیکھنے کو ملے اور علی الاعلان دھمکیاں دی جانے لگیں اور مشال کے قاتلوں کو رہا کرنے کے مطالبے بھی کیے گئے۔ اسی بنیاد پرستی سے جنگ لڑنے کے لیے منظم ہو کر ’مشال ریولوشنری فرنٹ‘ کی مقامی طور پر بنیادیں رکھی گئیں جس کے قائدین میں پاکستان ٹریڈیونین ڈیفنس کمپئین کے ساتھیوں سمیت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور دیگر ترقی پسند پارٹیوں کے دوست شامل ہیں۔ اسی پلیٹ فارم کے زیراہتمام مختلف جگہوں پر جہاں سیمینار ہو رہے ہیں وہاں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے ساتھی قانونی چارہ جوئی کے لیے بھی مشال کے خاندان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر لڑ رہے ہیں۔
اس پلیٹ فارم کے زیر اہتمام 27 اپریل کو چکدرہ فشنگ ہٹ پر مشال خان کے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کو ناکام بنانے کے لیے ریاستی اداروں نے من گھڑت کہانی کی بنیاد پر فشنگ ہٹ تک جانے والے تمام راستوں کو بلاک کر دیا اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں، خوف وہراس پھیلایا گیالیکن اس سب کے باوجود 200 سے زائد لوگوں نے کئی میل پیدل سفر کر کے اپنی شرکت یقینی بنائی۔ PTUDC کے رہنماؤں غفران احد اور شیرین یار سمیت دیگر دوستوں اور ساتھیوں نے اس مجمع سے خطاب کیا۔
اسی طرح 28 اپریل کو درگئی میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیاگیا۔ اسی روز ہی مردان میں بنیاد پرستوں نے مظاہرے کیے اور لوگوں میں خوف کا سما باندھا گیا۔ درگئی میں یہ بات زیر بحث آئی کہ اس موجودہ نظام کے اندر مشال خان کو کیسے انصاف مل سکتا ہے، وہ تو خود اس طبقاتی نظام کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا، مشال اور سارے مجبوروں اور محکوموں کے ساتھ یہ استحصالی نظام بھلا کیا انصاف کر سکتا ہے۔ مشال کے ساتھ انصاف کا واحد راستہ اس طبقاتی نظام کا خاتمہ ہے۔
29 اپریل کا پشاور کا تعزیتی ریفرنس اسی سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ پروگرام میں آویزاں بینر پر فیض کی نظم تحریر کی گئی:
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے…
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے…
جبکہ اس کے ساتھ کارل مارکس کی وہی تصویر آویزاں تھی جو کہ مشال کے ہاسٹل کے کمرے میں لگی ہوئی تھی، یہ تصویر لگا کر اپنی انقلابی سوچ، افکار اور نظریات کا پرچار ہی مشال کا جرم تھا۔ پروگرام کی ابتدا سے 20 منٹ پہلے پشاور پریس کلب کے باہر جماعت اسلامی اور دیگر بنیادپرست تنظیموں نے ہنگامہ کیا اور مشال کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو ختم کرنے کی چتاؤنی بھی دی۔ لیکن کشمیر، راولپنڈی اور پختونخواہ کے مختلف اضلاع سے آنے والے انقلابی ساتھیوں نے اتنہائی نا مساعد حالات میں جواں جذبوں کے ساتھ اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ پشاور یونیورسٹی اور دیگراداروں کے وہ ساتھی جن کے دل مشال کے قتل کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہے تھے، ان کو اور ان کے گھر والوں کو دھمکیاں دے کر پروگرام میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ بہت سی ماؤں نے مامتا کے واسطے دے کر اپنے بچوں کو روک دیا کہ کہیں انکے مشال کو بھی اندھیروں کی تارکیوں میں نہ ڈبو دیا جائے۔
بہرحال 29 اپریل کی تقریب سے ایشین مارکسسٹ ریویو (AMR) کے ایڈیٹراور PTUDC کے انٹرنیشنل سیکرٹری ڈاکٹر لال خان، قائداعظم یونیورسٹی کی سابقہ پروفیسر اور معروف سیاسی و سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری، پختونخواہ اولیسی تحریک کے ڈاکٹر سَید عالم محسود، RSF پختونخواہ کے آگنائزر سنگین باچا، JKNSF کے مرکزی صدر بشارت علی خان نے خطاب کیا، جبکہ ممبرآرگنائزنگ کمیٹی مشال خان ریولوشنری فرنٹ اور PTUDC پختونخواہ کے رہنماغفران احد نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔
RSF کے سنگین باچا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشال خان کا جس جدوجہد کی پاداش میں بہیمانہ قتل کیا گیا آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ مشال کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ مشال خان کے نظریات مارکسزم کے نظریات تھے، اس کی جنگ یونیورسٹی میں رائج انتظامیہ کی بدعنوانی سے تھی۔ ہم ان نظریات کو سماج کی ہر پرت تک لے کر جائیں گے اور ایک فتح مند سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہم مشال خان کے خون کا انتقام لیں گے۔ JKNSF کے مرکزی صدر بشارت علی نے کہا کہ باقی ماندہ تمام تر اداروں کی طرح تعلیمی اداروں میں بھی ضیاالحق کے رجعتی دور میں مذہبی بنیاد پرستانہ منافرتیں پھیلائی گئیں اور آج اس نظام، ریاست و سیاست کا اظہار مشال خان کے قتل کی صورت میں ہورہا ہے۔ مشال خان طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ لیکن کسی فرد کو ختم کر دینے سے اسکے نظریات و افکار کو نہیں مٹایا جا سکتا۔ آج ہزاروں نوجوان مشال کی اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ مشال جیسے ان نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے۔ پختونخواہ اولیسی تحریک کے سَید عالم محسود نے کہا کہ پاکستان بہت پیچیدہ ملک ہے جہاں رجعتی ریاستی پالیسیوں نے ملک کو ایک قبرستان بنا کر رکھ دیا ہے اور معصوموں کا خون بہانا معمول بن چکا ہے۔ مشال خان شہید نے اسی رجعتی نظام کو بے نقاب کیا ہے۔ مشال خان ایک ہونہار طالب علم تھا جو تعلیم کے ساتھ محکوم طالب علموں کے حق کی آواز بھی بلند کرتا رہا، انتظامیہ کی بدعنوانی کو بھی بے نقاب کرتا رہا، جس کی پاداش میں انتظامیہ کی طرف سے پورا ماحول تیار کیا گیا۔ سو شل میڈیا کے جعلی اکاؤنٹ بنوائے گئے، یونیورسٹی حدود میں بنیاد پرستوں کو بلوایا گیا اور اس معصوم کو حق کی آواز اٹھانے پر بے دردی سے خاموش کر دیا گیا۔ ہم نے مشال خان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ مشال خان کے قتل اور اس بعد کی کارکردگی نے ریاستی پالیسیوں کولوگوں کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ توہین جیسے قوانین کو ہمیشہ بنیاد پرستوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ ہر فرد کی آزادی پر جو قدغنیں لگائی جاتی ہیں اسکے خلاف بھی آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اور ان بے گناہوں کا بھی سوچنا چاہیے جو توہین کے بے بنیاد الزامات کی زد میں جیلوں میں سڑ رہے ہیں، مذہب کی ریاست سے علیحدگی کے بغیر ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ مشال خان کی سوچ ہماری سوچ ہے، ان رجعتی رحجانات کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر لال خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا کام مشال کی وفات پر ماتم کرنا نہیں ہے، بلکہ مشال تو اندھیروں کی اس دنیا میں جگنوکی مانند ہے۔ منڈی کی معیشت میں ہر چیز بکتی ہے، جج سے لیکر عدالتیں، صحافت و سیاست سب کی بولی لگتی ہے۔ اس منڈی میں مشال کو انصاف مل ہی نہیں سکتا۔ آج کا ملا ماضی والا ملا نہیں ہے بلکہ کالے دھن سے مالامال ہے۔ کا لے دھن کی سرائیت معاشرے کے رگوں میں کروائی جا رہی ہے۔ یہ مذہبی جنونیت، بنیاد پرستی اور دہشت گردی اسی کا لی معیشت کی پیداوار ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں مذہبی جنونیت کی بنیادیں نہیں رہی ہیں، مشال کی جدوجہد نے میڈیا کے تمام تر پروپیگنڈے کو رد کر دیا ہے کہ تمام پشتوں بنیاد پرست اور دہشتگر د ہیں۔ موجودہ نظام میں پاکستان میں کبھی بھی ریاست کو مذہب سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، بھارت ایک نام نہاد سیکولر ملک ہے لیکن وہاں بھی تو روزانہ درجنوں لوگ مذہب کے نام پر قتل ہوتے ہیں، مسئلہ موجودہ نظام کی متروکیت کا ہے۔ سرمایہ داری اور مذہبی بنیاد پرستی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں، موجودہ جدید مذہبی بنیاد پرستی کا حقیقی موجد 1956ء میں امریکی پالیسی ساز جان فاسٹر ڈولس تھا، جس نے مصر میں اخوان المسلمین، انڈونیشیا میں وحدت المسلمین اور پاکستان میں جماعت اسلامی کو پروان چڑھایا۔ آج پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے افق پر ضیا کی باقیات براجمان ہی، جن کے کالے دھن کے ان داتاؤں کے ساتھ گہرے مالی تعلقات وابستہ ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا میں کبھی بھی نہ سچ لکھا جا تا ہے نہ دکھایا جاتا ہے۔ اصلی صحافت و ثقافت کا آغاز ہی اس نظام کے خاتمے کے بعد ہو گا۔ آج رجعت ہے مگر ہمیشہ نہ تھی، نہ رہے گی۔ یہاں 1968-69ء بھی ہوا ہے جس نے سماج کے تمام تانے بانے ہلا کر رکھ دیے تھے۔ آج کا وقت کٹھن ضرور ہے لیکن سب سے تاریک پہر ہی تاریکی کا آخری پہر ہوتا ہے۔ مشال کا انتقام صرف اور صرف اس طبقاتی نظام کو ختم کر کے، سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی لیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد غفران احد نے پروگرام کے باقاعدہ خاتمے کا اعلان کیا۔