اداریہ جدوجہد
ایک وقت تھا جب فلموں کا راج ہوا کرتا تھا۔ آج فلمی صنعت برباد ہے، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا کا راج ہے۔ فلمی ہیروز اور ہیروئینوں کی بجائے ’اینکر پرسن‘ آگئے ہیں۔ فلمی اداروں کا فن عوام کو محظوظ کرنے کے لیے ہوا کرتا تھا۔ ٹیلی وژن کے اینکر عوام کو خوفزدہ اور بدمزہ کر کے تعفن پھیلاتے ہیں۔ فلمیں دیکھنا ایک تفریح تھی۔ ٹاک شوز دیکھنا ایک اذیت ہے۔ فلمی اداکار ظاہری طور پر ہی سہی اپنے چاہنے والوں کے سامنے مسکراہٹ اور خوش دلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہ اینکر پرسن عام زندگی میں اپنے دیکھنے والوں کی جانب رعونت اور بدتہذیبی کے تاثرات ہی دیتے ہیں۔ اس نظام میں پیسے تو سبھی لیتے ہیں۔ غریب جب امیر ہو جائیں تو ان میں اکڑ توآہی جاتی ہے، لیکن آج کا میڈیا اور اس کے اداکار جس وحشت سے وفاداریاں بدلتے ہیں، جس طرح ننگے لالچ اور پیسے کی ہوس کا شکار ہیں، جس تضحیک سے وہ عوام کو گھٹیا سمجھتے ہیں، یہ سب اُن کی ’’نئی اخلاقیات‘‘ کا اظہار ہے جو اس کارپوریٹ میڈیا کی ثقافت کی بنیاد ہے۔
سول سوسائٹی کو اظہار رائے کا بڑا شوق ہے۔ اظہار کے حق کے لیے درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات بہت شور مچاتے ہیں۔ لیکن روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم علاج اور روزگار کے حق سے نہ ان کو کوئی غرض ہے نہ پرواہ! میڈیا آزاد ہے۔ یہ ایک ایسی آزادی ہے جس میں کالے دھن والوں نے منشیات اور تاوان جیسے جرائم سے کہیں بڑے پیمانے پر بلیک میلنگ کے ذریعے دولت کے اجتماع اور منافع خوری کی انتہا کردی ہے۔ میڈیا پر تقریباً ساری سرمایہ کاری کالے دھن کی ہے۔ اسی کے مفادات کے لیے رائے عامہ بنائی جاتی ہے۔ ان چینلوں کے مالکان سیاست اور ریاست دونوں کو اپنے تابع سمجھتے ہیں۔ سیاست اتنی کرپٹ اور بے بنیاد ہے کہ اس کو میڈیا کا سہارا چاہیے۔ ریاست اندر سے اتنی کھو کھلی ہے کہ اس کو اپنا سماجی رتبہ اور تقدس قائم رکھنے کے لیے میڈیا کی پردہ پوشی چاہیے اور حب الوطنی اور ریاستی محکومی کے جذبات عوام پر مسلط رکھنے کا کاروبار بھی درکار ہے۔ ایسے میں ’میڈیا کی آزادی‘ یہاں کے عوام کے لیے ایک محکومی اور محرومی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کا مالیاتی جبر بھی ہے اور نشریات کے خنجر بھی ہیں۔
میڈیا کے مالکان اور اینکر حضرات طالبان اور دہشت گرد سرداروں کی طرح لالچ میں وفاداریاں بھی مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ اب ان کو صرف کرائے پر ہی لیا جاسکتا ہے، خریدا نہیں جاسکتا۔ کچھ بڑے چینل ایجنسیوں اور رجعت کے ہاتھوں میں ہیں، کچھ دوسرے سامراجیوں کے ’لبرل سیکولر‘ پے رول پر ہیں۔ سیاست کی طرح صحافت میں بھی عوام کی کوئی نمائندگی ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔ میڈیا پہلے ایک رائے عامہ بناتا ہے، پھر اسی رائے عامہ کے زور پر اس استحصالی نظام اور ظالم ریاست کے جواز فراہم کرتا ہے۔ عام طور پر چھوٹی موٹی خبریں وہ صحیح دیتا ہے تاکہ ایک اعتبار اور اعتماد پیدا کیا جائے، جسے استعمال کرتے ہوئے کسی اہم اور فیصلہ کن خبر کو غلط انداز میں پیش کرکے عوام کو گمراہ کرسکے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انداز کوئی بھی ہو، زور کسی طرف بھی ہو، خبریں اور سرخیاں تمام میڈیا پر ایک ہی چلتی ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ ہے۔ کیونکہ سب نے ایسی خبروں کو ہی تقویت دینی ہوتی ہے جو عوام کی سوچ اور شعور کو مجروح کرتی ہوں۔ نا ن ایشوز کی بھر مار ہے۔ اصل مسائل پیش کرنے سے انکار ہے۔
وسیع تر عوام تک رسائی کے لئے انقلابیوں کو جہاں بورژوا میڈیا کو استعمال کرنے کا موقع ملے، کرنا چاہئے۔ لیکن اس میڈیا کے ذریعے کسی تحریک یا عوام میں بغاوت کے جذبات کو ابھارنے کا خیال ایسا ہی ہے جیسے کوئی اسی فوج، ریاست، سیاست اور حاکمیت سے انقلاب کروانے کی توقع کرے۔ اگر کچھ ایسا لکھا یا کہا جائے جو حکمران مفادات پر کہیں کاری ضرب لگاتا ہو تو فوراً کاٹ دیا جاتا ہے۔ ریاست کے انتہائی جابر اداروں سے بھی زیادہ زہریلا اور رجعتی یہ ’’آزاد‘‘ کارپوریٹ میڈیا بن چکا ہے۔
جہاں ایک انقلابی سوشلزم کی سرکشی میں ریاست سمیت اس نظام کے تمام اداروں کا خاتمہ لازمی ہے، وہاں انقلابی نظریات اس میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ اس کو اکھاڑ کر ہی محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک پھیلا ئے جا سکتے ہیں۔ لینن کے وقتوں میں بھی انقلابی پارٹی اپنے پرچے وغیرہ کے بغیر کسی بیگانے ذریعے پر انحصار نہیں کرسکتی تھی۔ انقلاب کے دوران اور اس کی فتح کے بعد اس کارپوریٹ میڈیا کو ضبط کر کے محنت کشوں کے مفادات کا پابند بنایا گیا تھا۔ تاہم سوشلسٹ انقلاب کا کلیدی فریضہ محنت کرنے والوں کو فکر معاش سے آزاد کرنا ہے۔ پیٹ میں روٹی ہو گی تب ہی ذہن گہرائی میں سوچ پائے گا اور اظہارِ رائے بھی کرسکے گا۔ وہ رائے جو اشتراکی ہو گی، خود غرضی اور دولت کی ہوس پر مبنی نہیں! سرمائے کی نہیں، انسان کی رائے !