| تحریر: لال خان |
ہر سال 8 مارچ دنیا بھر میں خواتین کے بین الاقوامی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ ترقی پسند خواتین، جن میں سے اکثریت محنت کش خواتین کی نمائندگی کررہی تھی، کی 1910ء میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ اس میں سرکردہ کردار جرمنی کی سرگرم کارکن کلارا زیٹکن نے ادا کیا تھا۔ لیکن اس دن کو عالمی طور پر شہرت اور پذیرائی اس وقت حاصل ہوئی جب روس میں انقلابی تحریک کا آغاز 1917ء کے موسمِ بہار میں اسی خواتین کے عالمی دن کے مظاہرے سے ہوا۔
زار شاہی کے روس میں پرانا بازنطینی (Byzantine) کیلنڈر رائج تھا۔ اس کے مطابق یہ 23 فروری تھی لیکن جارجیائی (Gregorian) کیلنڈر، جو آج کل رائج ہے اور اُس وقت بھی بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں چلتا تھا، اس کے مطابق 8 مارچ کی تاریخ بنتی تھی۔ زار شاہی روس میں جہاں ایک طرف بادشاہت کی مطلق العنانیت اور ہولناک جبر تھا وہاں محنت کشوں اور خصوصاً خواتین محنت کشوں کے استحصال اور ظلم کی بھی انتہا ہو رہی تھی۔ اس جبر وستم، بھوک، غربت اور محرومی سے اکتائی ہوئی یہ مزدور اور گھریلو خواتین، جن کا تعلق محنت کش گھرانوں سے تھا، ایک بپھرے ہوئے طوفان کی طرح پیٹروگراڈ کی سڑکوں پر نکل آئیں اور ریاستی فوجوں اور پولیس کے دستوں پر یلغاربول دی۔ تمام تر ریاستی جبر ان کو پسپا اور منتشر نہیں کرسکا۔ بلکہ اس کے برعکس خواتین کے اس جلوس کی پیش قدمی جاری رہی اور انکے ارادے اتنے آہنگ اور جذبے اتنے آہن تھے کہ ریاستی طاقتوں کو ہی پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اس عالمی یوم خواتین کے جلوس نے جیسے پورے مزدور طبقے کے ضمیر اور احساس کو جگا دیا تھا۔ مزدوروں کی بھاری پرتیں صنعتی کارخانوں کو بند کرنے لگیں اور پورے روس میں محنت کشوں کی تحریک نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ ہزاروں سال پرانی زار شاہی کے اقتدار کا ہی خاتمہ ہوگیا۔ زارنکولاس کا تختہ الٹ گیا، اس کا تاج اچھل گیا اور بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔
آج اس روز کو پورے سو سال ہوگئے ہیں۔ خواتین کی جرات اور طاقت بھرے جذبے نے خواتین کے عالمی دن کو دنیا بھر میں اور آنے والی اس طبقاتی نظام کی تاریخ میں اس کے خلاف بغاوت کی ایک علامت کے طور پر ثبت کردیا تھا۔ اس حوالے سے2017 ء کا بین الاقوامی یوم خواتین خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
انقلاب روس لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بازنطینی کیلنڈر کے مطابق 26 اکتوبر اورجارجیائی کیلنڈر کے مطابق 6 اور 7 نومبر1917 ء کی رات کو ایک سوشلسٹ فتح سے ہمکنار ہوا تھا۔ اس میں خواتین کا کردار بھی اہمیت کا حامل تھا۔ لینن نے انقلاب کے بعد لکھا کہ ’’خواتین مزدوروں کی حمایت اور شراکت کے بغیر یہ انقلاب اس طرح فتحیاب نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ سوشلسٹ انقلاب کے بعد نئی بالشویک حکومت نے عورتوں کے حقوق اور مانگوں کے لیے جو اقدامات کیے وہ تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں آئے تھے۔ خواتین مزدوروں کی اجرتوں کو مردوں کے برابر کردیا گیا۔ آئین میں گھریلو محنت و مشقت کو سوشلسٹ ریاست نے صنعتی محنت کے برابر کا درجہ دیا۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے متعصب او ر تضحیک آمیز رویوں کو ختم کرنے کے لیے خواتین کو ریاستی طاقت کی ہر پرت پر نمائندگی دی گئی۔ گھریلو محنت کو کم کرنے کے لیے کمیونٹی کچن اور بچوں کی نگہداشت کے لیے ہر محلے میں بچوں کے کنڈر گارٹن قائم کیے گئے۔ زچگی کے دوران خواتین محنت کشوں کو پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینے کا سوشلسٹ قانون بنایا گیا۔ اسی طرح ہر شعبہ زندگی میں انقلابی بنیادوں پرجو سماجی تبدیلیاں کی گئیں وہاں خواتین کو معاشرے میں مردوں کے برابر مقام اور عزت دینے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے۔ وہ سماجی ڈھانچے جو خواتین کو جکڑنے اور ان کو کمتر کرنے کے بابت تھے، ان کو ختم کرنے اوریکسر تبدیل کردینے کا عمل شروع ہوا۔ لیکن 1924-25 ء کے بعد سٹالن کی قیادت میں انقلاب کی زوال پذیری اور افسر شاہی کا آمرانہ راج قائم ہونے کا عمل شروع ہوا۔ اس سے خواتین کو انقلاب سے ملنے والی حاصلات پرنہ صر ف کاری ضربیں لگنی شروع ہوئیں بلکہ ایسے معاشرتی اداروں کی بحالی بھی ہونے لگی جوماضی میں خواتین کو جکڑنے کا باعث ہوا کرتے تھے۔
آج دنیا بھر میں خواتین دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہیں۔ یورپ، امریکہ اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں عورت کی آزادی ادھوری اور اذیت ناک ہے۔ اجرتوں سے لے کر سماجی رویوں تک، ہر شعبے میں خواتین مردانہ جبر کا شکار ہیں۔ پسماندہ ممالک میں حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ کہیں مذہبی توجیہات کے نام پر، کہیں رسموں اور رواجوں کی آڑ میں، کہیں ثقافتی روایات کے جبر سے خواتین کو مطیع رکھا جاتا ہے اور انکی محنت اور زندگی کو ایک استحصالی جکڑ میں بند کیا جاتا ہے۔ لبرل اور سیکولر حکمران خواتین کوانکی تصاویر، انکی نمائش اور اشتہاری مہمات کے ذریعے اپنی پیداواری اشیا کی فروخت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس منڈی کی معیشت میں منافع خوری کے لیے یہ دولت والے، عورت کو ان مصنوعات سے مختلف نہیں سمجھتے۔ لیکن درمیانے اور بالادست طبقات کی مختلف پرتوں میں عورت کو چادروچار دیواری کی گھٹن میں قید کر کے عزت اور ناموس کے نام پر اپنی ملکیت کا اثاثہ سمجھ کر ان کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ان کی آزادی کو صلب کرکے معاشرے میں کو ئی فعال، جراتمندانہ کردار اور سماجی عوامل میں شراکت اور مداخلت سے کاٹ کر تنہائی اور بیگانگی کے تعفن میں بند کردیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آزادی نسواں کے عمل میں خواتین کی طبقاتی تفریق بھی ایک فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہے۔ بالادست طبقات کی خواتین چاہے مذہبی ہوں یا لبرل، ان کا جہاں ’اور‘ہے، اور محنت کرنے والی دہقان اور مزدور خواتین کا جہاں کچھ اور ہی ہے۔ ان کے مسائل، ان کی زندگی کے حالات، انکی ضروریات اور مانگیں بالکل مختلف اور مفادات ناقابل مصالحت ہوتے ہیں۔ اس لیے گھروں میں نوکرانیوں سے کام کروانے اور انکی محنت کا استحصال کرنے والی خواتین جب آزادی نسواں کی باتیں کرتی ہیں تو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ دولت کی پرتعیش زندگیاں گزارنے والی خواتین، جو ایک وقت میں لاکھوں کی شاپنگ کرتی اور میک اپ کرواتی ہیں، ان کی زندگی میں بھلا ان دہقان خواتین کے مسائل اور زندگیوں سے کیا مماثلت ہوسکتی ہے جو تپتی دھوپ میں فصلیں کاٹتی ہیں اور گرم حبس میں کھیتوں میں بیج بوتی ہیں، جو فیکٹریوں اور کارخانوں میں 16 گھنٹے تک بھی کام کرتی ہیں، اجرت پھر بھی مرد مزدوروں سے کم پاتی ہیں۔ پھر کام سے ’’فارغ‘‘ ہو کر گھروں کی صفائی، برتن اور کپڑے دھونے، کھانا پکانے اوربچوں کو سنبھالتے ہوئے ان کو چین اور سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آتا۔ اس لیے خواتین کی نجات محنت کش طبقے اور غریب عوام کی نجات کے ساتھ منسلک ہے۔ لیکن اس طبقاتی جدوجہدمیں وہ تب ہی جڑ سکتی ہیں جب ان کو مرد محنت کشوں کا کوئی خوف وخطرہ نہ ہو۔ وہ ان کے شانہ بشانہ اس جبرو استحصال کے نظام کے خلاف لڑائی میں اسی صورت چل سکتی ہیں جب مرد مزدور اور نوجوان ان کو برابر سمجھیں۔ دل سے ان کو کمتر نہ سمجھیں اور ان پر ہونے والے صنفی جبر کے خلاف بھی ایسی ہی نفرت رکھتے ہوں جیسی خواتین کے دلوں میں ہوتی ہے۔ یہی جڑت اس طبقاتی یکجہتی اور جدوجہد کو ابھار سکتی ہے جو اس نظام زر کی ذلت کو اکھاڑ کر، معاشرے کو محرومی سے پاک کر کے آزادی نسواں کے سفر کی منزل قریب تر کر سکتی ہے۔