| تحریر: خکولا باچا |
2016 ء گزر گیا ہے اور ہر سال کی طرح یہ سال بھی آبادی کی وسیع اکثریت کے لئے مصیبتوں سے بھرپور تھا۔ سرمایہ داری میں نجی ملکیت کا تصور جہاں پیداواری قوتوں کے لئے خود ایک بیڑی بنتی جا رہا ہے وہاں اس نے معاشرتی اخلاقیات اور سماجی رویوں کے بنانے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ جہا ں پر اجتماعی طور پر غریب اورمحنت کش طبقے کا کئی حوالوں سے استحصال جاری ہے وہاں آبادی کا بہت بڑا حصہ جو خواتین پرمشتمل ہے، دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہے۔ جنسی تشدد سے لے کر معاشی محرومی ان کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ ہر روزایسی کئی خبریںآتی ہیں جس میں عورتوں پر ظلم وستم کی ایک طویل داستان کا ذکر ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جب بھی کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو ان کی پیدائش پر افسوس کیا جاتا ہے اور شروع دن سے ہی اسکا استحصال شروع ہوجاتا ہے۔ ان کو تربیت کے دوران ایک خاص سماجی کردار تک محدود کر دیاجاتا ہے جس سے پھر ان کااستحصال کیا جاتا ہے۔
گھر میں بھی لڑکوں کے مقابلے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھاجاتا ہے۔ اول تو لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا گوارا نہیں سمجھا جاتا اور اگر تعلیم کا موقع مل بھی جائے تواس طبقاتی تعلیمی نظام کی دگرگوں کیفیت میں وہ تعلیم بھی معیاری نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنسی برابری میں پاکستان کی کیفیت ہتک آمیز ہے جس میں 188 میں سے پاکستان 147 ویں نمبر پر ہے۔ بمشکل 12 فیصد خواتین تعلیم تک رسائی حاصل کر پاتی ہیں اور ان میں بھی خاطر خواہ تعداد بورژوا اور پیٹی بورژوا خواتین پر مشتمل ہے اور 3 فیصد سے بھی کم خواتین ہائی سکول تک پہنچ پاتی ہیں۔ پورے ملک میں لڑکیوں کے پرائمری سکولوں کی تعداد 30,200 ہے جبکہ لڑکوں کے لیے 84,400 سکول ہیں۔ لڑکیوں کے لئے 3300 مڈل سکول ہیں جبکہ لڑکوں کے لئے 5200۔ لیکن آبادی کے تناسب کے لحاظ سے لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے یہ بہت کم ہیں۔ جو تعداد موجود ہے ان میں سے بھی زیادہ تر سکولوں کا تو سرے سے وجود ہی نہیں ہے اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔ پاکستان میں زیاد ہ تر لڑکیوں کو پرائمری سکول تک پڑھنے کی اجازت مل پاتی ہے اس سے آگے نہیں پڑھنے دیا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام خیال موجودہے کہ عورت گھر کے لئے بنی ہو تی ہے اور وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتی اور اس کو تعلیم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح کے کئی اور دقیانوسی تصورات اس معاشرے کے عمومی شعور کی غما زی کرتے ہیں۔ ماں کی شکل میں عورت گھر اور خاندان کا محور ہوتی ، سماج کے تمام تر تانے بانے اس کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں وہ اکائی جو مستقبل کی تعمیر پر گامزن ہوتی ہے اس کی اپنی تربیت کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ سماج میں عمومی پسماندگی کی ایک اہم وجہ خواتین کی تعلیم اور تربیت کی روک تھام ہے جس کے ناگزیر اثرات نئی نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔
صحت کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں تو یہاں بھی عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں علاج کے کوئی خاص سہولت موجود نہیں ہے جس کے وجہ سے خواتین پرانے اورغیرسائنسی علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ اور اس کے نتیجہ میں زیادہ تر خواتین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ لاکھ خواتین زچگی کے دوران اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔
خواتین جب بھی گھر کا چولھاجلانے کے لئے گھر سے نکلتی ہیں تو ان کو جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محلوں سے لیکر چوراہوں تک، سکولوں سے لے کر دفاتر اور ہسپتالوں تک پسماندہ پدر سری سماج کی بھوکی نظریں ان کا تعاقب کرتی رہتی ہیں، ہر جگہ ہرلمحہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیاجاتا ہے۔ ہیومین رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کی مطابق پاکستان کی 70 سے 90 فیصد خواتین کسی نہ کسی قسم کے تشدد کی شکار ہوئی ہیں۔ 2004ء سے 2016ء میں ریکارڈ کی گئی رپورٹ کی مطابق پاکستان میں جنسی تشدد کا شکا ر ہونے والی خواتین کی تعداد 4734 ہے۔ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی تعداد 15,222 ہے۔ صرف صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں پچھلے پانچ سالوں میں 54 جوڑوں کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا، اور یہ صرف وہ تعداد ہے جن کی کسی نہ کسی شکل میں رپورٹ موجود ہے حقیقی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جن خواتین کو جلایا گیا ان کے تعداد1535 ہے۔ اغوا ہونے والی خواتین کی تعداد 5508 سے بھی زیادہ ہے۔ ایک محنت کش عورت گھر کے کام کاج سنبھا لنے کے ساتھ ساتھ جب محنت کے منڈی میں اپنے قوت محنت بیچتی ہے تو وہا ں بھی اس کا دگنا استحصال کیاجاتا ہے۔ ان سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور مردوں کی نسبت اجرت بھی کم دی جاتی ہے۔ پاکستان میں سالانہ 800 خواتین ان مسائل سے تنگ آکر خود کشی کرلیتی ہیں، اور جو خود کشی نہیں کرتیں وہ ہر روز مرتی ہیں۔
یہ تمام مسائل صرف علامات ہیں ، اصل کام اس بیماری کے جڑوں تک پہنچنا ہے۔ ہم مارکسسٹ سمجھتے ہے کہ عورت ہمیشہ سے سماجی طور پر غلام نہیں تھی مگر کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے جب اس سے معاشی خود مختیاری چھین لی گئی اور ان کو سماجی طور پر غلام کیا گیا۔ اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو عورت نے انسان کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ زراعت جیسی کئی اہم دریافتیں عورت کے وجہ سے ہوئی ہیں۔ لیکن پھر بعد میں ایک ایسے وقت میں پہنچ کر جب عورت کا پیداوار میں کردار محدود ہوگیا اور انہیں معاشی طور مرد پر انحصار کرنا پڑا تب سے عورت کے سماجی حیثیت بدل گئی۔
آج ہمیں مختلف ’این جی اوز‘ نظر آتی ہیں جو عورت کی آزادی کی بات کرتی ہیں لیکن اصل میں ان کا مقصد مختلف ہوتا ہے۔ وہ عورت کے جسم پر کپڑا کم کرنے کو آزادی کہتے ہیں۔ جو ایک انتہا سے دوسری انتہاہے اور استحصال کی ایک دوسری شکل ہے۔ این جی او والے یورپ کو مثال بنا کر عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یورپ میں عورت کے سماجی حیثیت دیکھیں تو اصل میں خواتین ساتھ سب سے زیادہ ظلم یورپ میں ہوتا ہے ، جس نے عورت کو نمائش کی چیز بناکر رکھ دیا ہے۔ سرمایہ داری کے بحران نے ترقی یافتہ ممالک میں عورت کی آزادی کو بدترین غلامی میں بدل دیا ہے۔ صرف امریکہ میں 1 کروڑ 20 بیس لاکھ سنگل والدین میں سے 80 فیصدسنگل مدرز ہیں جنہیں اکیلے ہی بچوں کی پرورش اور کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے۔ 18سال سے کم عمرہر 4 میں سے 1 (تقریباً ایک کروڑ 74 لاکھ) بچے باپ کے بغیر پرورش پا رہے ہیں اوران کی آدھی سے زیادہ تعداد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق باقیوں کی نسبت سنگل مدرز کے لیے روزگار کے مواقع نہایت ہی محدود ہیں اور اگر روزگار مل بھی جائے تو ان کو انتہائی کم اجرت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے 39.6 فیصد غربت میں اور 51.9 فیصد اتھاہ غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ حاصلات اور آزادیاں ہیں جو یہاں کے ’آزاد خیال‘ لبرل سماج پر تھوپنے کے در پے ہیں۔ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے یہ مدرپدر آزادی بے ہودگی کی طرف تو لے جا سکتی مگر حقیقی معنوں میں عورت کو آزاد نہیں کر سکتی۔ این جی اوز کا مقصد لوگوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد سے ہٹانا ہو تا ہے جس سے سرمایہ داری کو تقویت ملتی ہے۔ این جی اوز دوسروں کے زخموں کی نمائش کے ذریعے منافعے بٹورتی ہیں اور اگر معاشرے سے زخم مٹ جائیں تو ان کے پاس کاروبار کا کوئی موضوع ہی نہیں رہے گا۔ ان کی بقا زر کے اس نظام میں ہے جو لوگوں پر ظلم وستم کرتا رہے اور این جی اوز ان کو کیش کرواتی رہیں۔
عورت کی آزادی تب ممکن ہے جب اس کو معاشی طور پر آزاد کیا جائے اور اس سے گھریلوں کام کا بوجھ اتار لیا جائے اور ریاست وہ بوجھ اٹھائے۔ اس کے لیے معیشت میں ایک استحکام اور بحالی ہونی چاہیے جو عورت کو تعلیم ، روزگار اور دیگر شعبوں میں یکساں مواقع فراہم کرسکے جس سے عورت معاشی طور پر خود مختار ہو جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام ،جو ایک مسلسل بحران میں ہے ، اس میں بحالی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے عورت کی آزادی کا حل اس نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکنے میں مضمر ہے۔ یہ سب ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس سے معیشت میں وہ استحکام اور ترقی آئے گی جس سے عورت حقیقی معنوں میں آزاد ہو گی۔