انحراف کا انجام!

| تحریر: لال خان |

سنا ہے کہ پیپلزپارٹی بلکہ دونوں پیپلز پارٹیوں ( پارلیمانی اور سادہ برانڈ) کے اندرونی انتخابات بھی ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات اتنی خفیہ کاروائی کے ذریعے کیے یا کروائے گئے کہ انکی بھنک تک بھی پارٹی کے ششدر کارکنان تک نہیں پہنچی۔ انہی کو پچھلے 40 سال کی طرح پارٹی کے عہدہ داروں کے فیصلوں اور نتائج کا علم میڈیا کے ذریعے ہی ہوا ہے۔ ایسے’’انتخابات‘‘ پر بھلا کون اعتبار کرے گا؟ وہ نامہ نگار یا نمائندگان جو میڈیا کے سامنے انکے ’’نتائج‘‘ کا اعلان بھی کررہے ہونگے اُن کا خود ان پر کتنا یقین ہوگا؟ انکے ضمیر اور غیرت کی ابتری کی انتہا کیا ہوگی؟ لیکن جن پارٹی کارکنان نے نئی عہدیداریوں کی خبریں سنیں وہ اس سارے کھلواڑ سے اگر گھن نہیں کھائیں گے تو کیا کریں گے؟ اس سے پارٹی کی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ ساکھ پہلے ہی کتنی بچی ہے!
ppp zardari bilawalپنجاب اور دوسرے علاقوں میں پارٹی کی اس ساکھ کی نام نہاد بحالی کی بھی اصلیت ظاہر ہوگئی ہے۔ نظاموں سے لڑنا تو درکنار یہ تو نواز شریف کی نحیف اور کھوکھلی حکومت کی مزاحمت سے بھی فرار اختیار کررہے ہیں۔ اگر سیاسی گھاگ ہونے سے یہ مراد ہے اوریہ جوڑ توڑ کی سیاست کہلاتی ہے توپھر اس سیاست کاکردار کتنا گھناؤنا ہے۔ جب پارٹیوں میں ایسے عہدیدار مسلط کیے جائیں جو اعلیٰ قیادت کی وقتی پسند پر پورے اترتے ہوں تو پھر پارٹیاں نہیں قیادتوں کی پیروکاری ہی باقی رہ جاتی ہے۔ جب قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کاسہ لیسی کی مقابلہ بازی کا تماشا لگا ہو تو پھر عوام کہاں ؟پارٹی کے نظریات کیا ؟اور مقاصد کون سے رہ جاتے ہیں؟ پیپلزپارٹی 1967ء کے جنم کے وقت کوئی بالشویک لینن اسٹ پارٹی نہ سہی لیکن انقلابی سوشلزم کے نام لیو ا جذبے کو عوام میں سرشار کرنے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کا سندیسہ دینے والی پارٹی ضرور بن گئی تھی۔ کم از کم عوام میں تاثریہی بنا تھا۔ آج اگر ہم پارٹی کی کیفیت کا جائزہ لیں تو اس میں 1967ء والی پارٹی کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ زرداری صاحب کی حالیہ تشریف آوری سے پیشتر بلاول کو ابھارتے ہوئے چند لیڈروں نے پارٹی کی انتہائی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے کافی ہاتھ پاؤں مارے تھے، لیکن ان چند ماہ میں بھی سوشلزم او ر انقلاب کا واضح پروگرام اور پیغام دینے سے بلاول گریزاں ہی رہا۔ صرف نواز شریف کے خلاف نعرہ بازی اور قومی شاونزم سے عوام میں کوئی نیا جذبہ اور بغاوت کی شورش پیدا نہیں کی جاسکتی۔ لیکن زرداری صاحب نے آتے ہی پارلیمنٹ اور جمہوریت کا پھر سے نیا تماشا شروع کردیا ہے۔ سڑکوں پر لوگوں نے تو کیا آنا تھا، زرداری صاحب نے پھر بھی اس خوف سے کہ کہیں واقعی عوام باہر ہی نہ نکل پڑیں ساری سیاست کو پارلیمنٹ کے سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے ایوان کی آسائش میں آرام کرنے کے لیے بٹھا دیا۔ انقلابی سوشلزم سے پارٹی قیادت اتنی خوفزدہ ہے کہ ان کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں عوام اس راستے پر باہر ہی نکل پڑیں۔ ایسے میں جوڑ توڑ کی سیاستیں اور پارلیمانی ڈرامہ بازی کو تحریکیں ردی کو ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں۔
کئی مرتبہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ قیادت والے افراد کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں، انکو اور انکے حواریوں کو اتنا بھی احساس نہیں ہے کہ یہاں کی مخلوق اس جمہوریت سے کتنی تنگ ہے جس نے اس کو مفلسی اور ذلت خلاف کچھ نہیں دیا۔ وہ اس پارلیمنٹ سے حقارت رکھتے ہیں جس میں حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی بے معنی نورا کشتی چلتی ہے اور عوام کے دکھوں کا ذکر بھی محض پارلیمانی تقاریر میں اپنے منجھے ہوئے مقرر ہونے کی نمائش کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ سویلین اور فوجی حاکمیتوں کے تضاد سے عوام کس حد تک بیزار ہیں اس کا اندازہ بھی شاید ان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے محلات کے شہزادوں اور شاہوں کے درباری لگانے سے خوفزدہ ہیں۔ پھر ایک دن یہ جرنیلوں سے اکڑتے ہیں، ان کے حواری صفائیاں دیتے ہیں اور پھر یہی لیڈر کچھ عرصے بعد آن کر اسی فوج کی عظمت کے گیت گاتے نہیں تھکتے۔ عوام کیا اتنے ہی کند ذہن اور پست دماغ ہیں؟ یہ شاید عوام کو وہی بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں جن کو کسی سمت بھی ہانکا جاسکتا ہے۔ انہیں شاید جلد ہی عوام اپنی ذہانت اور جرأت کی جھلک دکھلائیں گے۔
لیکن زرداری اور پیپلز پارٹی کی دوسری اعلیٰ قیادت پر کرپشن کے الزامات درحقیقت ان کے لیے نہایت ہی مفید ہیں۔ کیونکہ کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ میں ان کے اصل انحراف اور پارٹی کی بنیادوں سے نظریاتی غداری کے کردار اوجھل سے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس نے کتنی اور کس طرح کی کرپشن کی، ا س نظام زر میں معیشت اور معاشرت کی بنیاد ہی کرپشن پر ہے۔ اسکی سیاست بھلا کیسے کرپشن سے مبرا ہوسکتی ہے؟ لیکن پارٹی کی بنیادی سوچ اور نظریات طبقاتی کشمکش کے ناقابل مصالحت کردار پر مبنی تھے۔ پارٹی پر سب سے بڑا وار اس ’’مصالحت‘‘ اور ’’مفاہمت‘‘ (Reconciliation) کی پالیسیوں نے کیا جس میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سیاست سے نہ صرف مصالحت کی گئی بلکہ ان رجعتی بالادست طبقات کو پارٹی کی بالائی قیادت پر مسلط کردیا گیا۔ نیشنلائزیشن کی جگہ پرائیویٹائزیشن، انقلاب کی جگہ اصلاحات، سوشلزم کی جگہ لبرلزم، محنت کشوں کی جمہوریت کی جگہ دولت والوں کی جمہوریت، عوام کی پنچائتوں کی جگہ بورژوا پارلیمنٹ اور منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی جگہ انسان دشمن منڈی کی معیشت کی جانب پارٹی کو الٹا دینا، انہی انحرافات نے اِن کو محنت کش عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے اور پارٹی کی یہ حالت زار ہمارے سامنے ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی صرف بنیادی دستاویزات میں سوشلزم اور طبقاتی کشمکش کا ناقابلِ مصالحت پروگرام ہی پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ 1968-69ء کی تحریک، پاکستان کا 1971ء میں ٹوٹنے کا تجربہ اور پیپلز پارٹی کی دسمبر1971ء سے جولائی1977ء تک کی حکومت کے تجربات اور آمریت کے اسباق پر ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھری میں جو نتائج اخذ کیے اور مستقبل میں نجات کا راستہ اختیار کرنے کی پارٹی اور عوام کو جووصیت کی وہ بھی اسی طبقاتی کشمکش کی ناقابلِ مصالحت جدوجہد اور عوام کی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجات کا ہی پیغام تھا۔ لیکن بھٹو کوکون جانتا ہے! اس کی دھندلی پرکشش یادوں کواسکی تصویروں اور بینروں کے ذریعے دولت اور طاقت کی ہوس کو بجھانے کے لیے ہی استعمال کیاجارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 40 سال سے پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو کے بنیادی منشور اور جیل میں اس کی آخری تصنیف کی ہدایات کے یکسر الٹ اور دشمن پالیسیاں ہی اپنائے جارہی ہے اور بھٹو کے رومانس کو پوری طرح استعمال بھی کرتی چلی جارہی ہے۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کھلواڑ بھی اب دم توڑرہا ہے، اس کے موثر ہونے اور حمایت حاصل کرنے کی صلاحیت بھی تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے۔
موجودہ حکمران سیاست میں تمام سیاسی پارٹیاں اب اسی نظام زر کی نمائندگی کررہی ہیں۔ یہاں دوسری سیاسی لڑائیوں کی طرح قدامت پرستی اور لبرلزم کی لڑائی کافی سطحی اس لیے بن جاتی ہے چونکہ ان متحارب رجحانات کی اقتصادی بنیاد تو ایک ہی ہوتی ہے۔ ایسے میں سیکولرازم اور لبرلزم میں سے سامراجی گماشتگی کی جب بدبو آتی ہے تو وہ متعفن ہوجاتا ہے۔ ملائیت اور بنیاد پرستی اس قسم کے سیکولرازم سے کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر رجعت کی وحشت معاشرے کو تاراج کررہی ہے تو اس کو سامراجی حمایت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آخر یہ انہی کی تو پیداوار ہے۔ پیپلز پارٹی اسی ریاست اور سامراج کے ذریعے اقتدار کی متمنی بن چکی ہے۔ قیادت نے پارٹی کو سرمائے کی سیاست کے راستے پر دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں اس کے احیا کے راستے میں پارٹی پر مسلط سرمایہ دار نودولتیے اور دوسرے کالے دھن کے فنانسر حائل ہیں، جن کی دولت پارٹی کے فیصلے کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف محنت کش عوام کو اپنے مقاصد کے حصول اور ذلتوں کی زندگی سے نجات کے لیے ایک 1967ء سے بھی زیادہ ریڈیکل سوشلزم والی پیپلز پارٹی درکار ہے۔