’پابندی‘ کی اموات

| تحریر: لال خان |

ثقافتی محرومی اور سماجی گھٹن کے ماحول میں شراب نوشی کے ہاتھوں اموات ایک معمول بن چکی ہیں۔ پولیس کے مطابق پنجاب کے ضلعے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کرسمس کی رات کو زہریلی شراب پینے سے کم از کم 42 افراد ہلاک اور کئی بیمار ہو چکے ہیں۔ آزادانہ تحقیقات میںیہ تعداد کہیں زیادہ سامنے آئے گی۔ منگل کی شام تک الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں زہریلی شراب کا شکار 78 افراد لائے جا چکے تھے جن میں 10 کی حالت خطر ناک تھی۔ ان میں کچھ زندگی بھر کے لیے مفلوج یا متاثر رہ سکتے ہیں۔ ابھی تک 35 افراد کی نظر کا معائنہ کیا جا چکا ہے کیونکہ زہریلی میتھا ئل الکوحل کے نتیجے میں اکثر بینائی چلی جاتی ہے۔
پریس رپورٹس کے مطابق مقامی عیسائی کمیونٹی پولیس پر الزام دھر رہی ہے۔ لیکن مرنے والوں میں عیسائی اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ بشپ جوزف ارشد کے مطابق انہیں اطلاعات ملی ہیں کہ یہ شراب چٹیانہ تھانے کے مال خانے سے لائی گئی تھی۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا تاخیر ز دہ بیان آیا کہ مرنے والوں کو شراب پینے سے پہلے اسکی جانچ کر لینی چاہیے تھی۔ کیسی بے حسی اور طعنہ آمیزی ہے۔ مرنے والوں کے لواحقین کو اس صدمے اور غم کے ساتھ شاید اپنے مستقبل، روزگار اور تحفظ کی زیادہ فکر لاحق ہو گی۔
شراب پر پابندی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے آخری مہینوں میں عائد کی گئی تھی۔ اس سے کچھ سال قبل بھٹو نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شراب نوشی کا سر عام اعتراف کیا تھا جس پر سامعین نے بہت تالیاں بجائی تھیں اور داد دی تھی۔ سرمایہ داری میں گنجائش نہ ہونے کے باعث 70ء کی دہائی میں بھٹو کی اصلاح پسندانہ پالیسیاں عوام کے مسائل حل نہ کر سکیں اور پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ منشور کے گرد جنم لینے والی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ اس کیفیت میں رد انقلاب اور رجعت کو پنپنے کا موقع ملا اور پیپلز پارٹی حکومت بحران میں گھرتی چلی گئی۔ امریکی سامراج کے ساتھ بھٹو کی بڑھتی ہوئی کشیدگی میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دی تھی۔
پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اسلامی جماعتوں کی زیر قیادت سامراج کی حمایت سے پی این اے کی تحریک کو ابھارا گیا۔ پاکستان کی دائیں بازو کی بورژوازی بھی اس کی پشت پناہی کر رہی تھی جو پیپلز پارٹی حکومت کے پہلے دو سالوں کی اصلاحات سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ اگرچہ دائیں بازو کی اس ’تحریک‘ کی بنیاد شہری علاقوں کی پیٹی بورژوازی (درمیانے طبقے) اور سماج کے پسماندہ حصوں پر تھی لیکن بھٹو کی عوامی حمایت کمزور پڑ چکی تھی۔ بھٹونے جھکتے ہوئے شراب پر پابندی اور دوسرے نجی نوعیت اور دکھاوے کے اقدامات کیے، لیکن یہ اسکو بچانے کی بجائے مزید گراتے ہی چلے گئے کیونکہ اب ملا اس کی حکومت کے خلاف مزید زہریلے ہوتے گئے۔ بالآخر بھٹو کو پاکستان کے پہلے اسلامی بنیاد پرست آمر جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں پھانسی چڑھا دیا گیا۔
ضیا کی سفاک آمریت کے دوران اسلام کو حکومت کے جبرکے لیے استعمال کیا گیا۔ نجی اور ذاتی زندگی کے معاملات اور اخلاقیات میں مداخلت کے ساتھ فرقہ وارانہ تعصبات کو ابھارتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ فوجی حکومت نے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو شدید معاشی، سماجی اور ثقافتی حملوں کا نشانہ بنایا۔ سرمایہ دارانہ اور سامراجی اجارہ داریوں کے مفادات کو فروغ دیا گیا۔ شراب پر پابندی کو نئی شدت سے نافذ کیا گیا او ر ریاست اور اسلامی گروہوں کی دہشت میں اس کا ایک گھونٹ پینے پر بھی پر کوڑوں، قید اور سماجی تضحیک جیسی زمانہ قدیم کی سزائیں عام ہوئیں۔ ضیا کے بعد کی تمام جمہوری اور فوجی حکومتوں نے اس پابندی کوجاری رکھا، لیکن سیاست اور ریاست کی اشرافیہ کی شامیں کبھی بھی خشک نہیں ہوئیں۔
طبقاتی سماجوں میں ایک مخصوص ذہنیت جنم لیتی ہے کہ اوپر سے احکامات اور ریاست اور غیر ریاستی جابر قوتوں کی جانب سے سزاؤں اور تادیبی کاروائیوں کے ذریعے سماج سے برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ سماج پر مسلط رجعت کے نزدیک مے نوشی گناہ اور ناپاک حرکت تھی جسے طاقت کے ذریعے کچلنا ضروری تھا۔ یہ آمرانہ ذہنیت زیادہ تر مذہبی، قوم پرستانہ، نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ تعصبات اور مطلق العنان شاؤنزم پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن جبر کے ان اقدامات کا حتمی مقصد حکمران طبقات کی مراعات اور منافعوں کا تحفظ ہو تا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالمانہ قوانین اور لوگوں کی سماجی اور نجی زندگیو ں میں جبر سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
حکمران طبقات کی منافقت کا یہ عالم ہے وہ خود ہر طرح کی بلا نوشی اور جنسی بد مستیوں کی رنگ رلیاں مناتے ہیں جبکہ عوام کے لیے شراب پر پا بندی اور دیگر سماجی اور ثقافتی پابندیاں عائد ہیں۔ اس سے سماج میں بے قراری بڑھتی ہے او رلوٹ مار کا یہ نظام مزید کمزور ہوتا ہے۔ جب شراب نوشی سماجی زندگی میں ایک مسئلہ اور سماجی و معاشی ترقی میں رکاوٹ بن جائے تو اس صورت میں شراب پر پابندی کا مناسب جواز موجود ہوتا ہے۔ لیکن فرد کی رائے کے بر خلاف حکمران مذہبی فرقے کی اخلاقیات مسلط کرنے کے رجعتی مقصد کے تحت شراب پر پابندی ناکام ہی ہوتی ہے۔ ایسی پابندی کا فائدہ سمگلروں اور جرائم پیشہ گروہوں کو ہی پہنچتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شراب کا استعمال الٹا بڑھ جاتا ہے۔ سکینڈینیویا، لاطینی امریکہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور ہندوستان کی کچھ ریاستوں میں ایسی پابندیوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
پاکستان میں شراب نوشی کی فی کس شرح ہندوستان کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔ پابندی کے بعد سے اس میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔ امیروں کے لیے یہ پابندی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دولت مند خواتین و حضرات اپنے پر تعیش لیکن فن تعمیر کے حوالے سے بیہودہ محلات اور کلبوں میں سکاچ وسکی، برڈو وائن، فرنچ کونیئیک، روسی واڈکا، انگلش جن، میکسیکو کی ٹکیلا اور نجانے کیسے کیسے جام نوش فرماتے ہیں۔ لیکن جبر، استحصال، بیگانگی اور محرومی کا شکار عوام کو ایک گھونٹ کے لیے بھی جان پر کھیلنا پڑتا ہے۔ غریب لوگ اکثر گھریلو شراب پر گزارہ کرتے ہیں جس میں میتھا نول کی موجودگی کا امکان ہوتا ہے جو کہ عام طور پر اینٹی فریزنگ اور ایندھن میں استعمال ہوتی ہے۔ پابندی میں کشید کی گئی اس شراب میں ملاوٹ نا گزیر ہوتی ہے اور اکثر میتھائل الکوحل کو کشید کر کے ایتھائل الکوحل بننے سے پہلے ہی کچی حالت میں فروخت کر دیا جاتا ہے، بالخصوص تہواروں کے موقع پر۔ ان شراب فروشوں کے منافعے امیروں کو شراب سپلائی کرنے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ پولیس اور سیاستی حکام اپنا حصہ الگ وصول کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ کہ یہ غریب لوگ اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں؟ اس کے جواب نفسیاتی محرومی سے لے کر روز مرہ کے غم بھلانے تک، کئی ہو سکتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور طبقات کی اس پابندی پر خاموشی اس ملک پر مسلط اخلاقیات کی تنگ نظری اور اس کا پرچار کرنے والوں کی نظریاتی اور استدلالی شکست کا ثبوت ہے۔ قانون بظاہر یہی ہے کہ اگر آپ کسی کو ہماری تقدیروں کے مالکان کے نزدیک کوئی نا پسندیدہ کام نہ کرنے پر قائل نہیں کر سکتے تو ریاست اس زبر دستی کی پابندی کی صورت میں جھپٹتی ہے۔ رجعت اسے ہی کہتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ کہ استعمال کو روکنے کی بجائے پابندی لگانے سے استعمال بڑھ جاتا ہے۔ یہ ریاست اور حکمرانوں کی اخلاقی اتھارٹی کی گراوٹ کی ایک اور شکل ہے۔ ان کی منافقت عیاں ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دہرے معیار اور جعلی دھونس پر مبنی پابندیاں کب تک چلیں گی؟ اس میں طبقاتی امتیاز ہے۔ یہ منافق اور بے ایمان اشرافیہ چہرے اور لباس پر نیکو کاری کے جتنے بھی ناٹک رچا لیں عوام سے حقیقت زیادہ عرصے تک چھپائی نہیں جا سکتی۔ یہ ایک سماجی رجعت، مالیاتی بد عنوانی اور اخلاقی دیوالیہ پن اور منافق طبقے کی نشانیاں ہے۔ ایسے حکمران طبقات کا تاریخی مقدر صرف بربادی ہے۔ اس آفاقی قانون سے ان کے بڑے بڑے واعظ اور ماہرین بھی انہیں نہیں بچا سکتے۔

متعلقہ:

ووڈکا، چرچ اور سینما

منافقت کے بہروپ