| تحریر: لال خان |
جوں جوں اس بوسیدہ نظام کا بحران بڑھتا ہے عام انسانوں پر اس کے نئے نئے قہر نازل ہوتے ہیں۔ وسطی اور شمالی پنجاب میں پچھلے کچھ دنوں سے چھائی ہوئی زہریلی دُھند (سموگ) سے پاکستان میں عوام کی زندگی ایک پہلے کبھی نہ دیکھی گئی اذیت سے دوچار ہوگئی ہے۔ آسمان اُوجھل کر دینے والی یہ آلودگی دہلی سے لے کر راولپنڈی تک پورے خطے میں انسانوں کے لیے سانس لینا مشکل کر رہی ہے اور زہریلے کیمیائی مادوں سے تکلیف دہ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس نظام کی بربادیاں صرف روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج، روزگار، پانی، نکاس اور ٹرانسپورٹ کی محرومیوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ زندگی کا ہر شعبہ اور ہر پہلو تلخیوں کی دلدل میں غرق ہو رہا ہے۔
اس آلودہ دھند یا سموگ پر شمالی بھارت اور پاکستان کے متاثرہ علاقوں میں بحث و تکرار شدت اختیار کرگئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے 48 گھنٹے میں مقامی حکومت کو ایک ٹھوس لائحہ عمل پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹروں سے چھڑکاؤ سے بھی کیا جائے اور بارش بھی کروانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام کا بحران جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں عام انسانی زندگی کے لیے عذابوں کی فراوانی پھیل رہی ہے جبکہ وسیع تر انسانی فلاح چونکہ زیادہ منافع بخش نہیں ہے اس لیے اس کے لئے تحقیق اور تدبیر پر توجہ نہیں ہے۔ یہ دھند اس شدت اور اذیت سے پہلے کبھی برداشت نہیں کرنی پڑی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ کم سے کم پیداواری اخراجات کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے لیے کیے جانے والے انتظامات اور آلات کے لیے اضافی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔ یہ رقم لگانے سے منافعوں میں کمی واقعہ ہوتی ہے۔ چنانچہ کچا کوئلہ اور خام تیل جلا یا جاتا ہے جس سے نکلنے والی زہریلی گیسوں اور مادوں کو ماحول میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خصوصاً بھارتی پنجاب میں بجلی بنانے کے ایسے بہت سے کارخانے ہیں جن میں کچا کوئلہ استعمال ہوتا ہے اور اسکی آلودگی کو روکنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ چونکہ پرندوں، ہواؤں اور آوازوں کی طرح اس آلودہ فضا کو کوئی ویزا درکار نہیں ہوتا اس لیے یہ قومی سرحدوں میں محدود نہیں رہتی۔
ہزاروں کارخانے لاہور کے آس پاس بھی ہیں جن میں آلودگی کی روک تھام اور مزدوروں کی جانوں کے تحفظ کے لیے درکار بنیادی آلات کبھی نصب نہیں کئے گئے۔ لاہور کے شمالی علاقے میں 900 کے لگ بھگ سٹیل، ماربل اور پلاسٹک کے ایسے انڈسٹریل یونٹس موجود ہیں جن سے خارج ہونے والے دھوئیں میں زہریلی دھاتی دھول، زنک، کاربن، کرومیم، کیڈیمم اور دیگر کئی ایسی زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ جن سے سانس کی تکلیف، گردے اور پھیپھڑوں کی بیماریو ں سمیت اعصاب پرانتہائی مہلک اثرات پڑتے ہیں جن کا علاج عام انسان کے لیے نئے عذاب لیے کھڑا ہوتا ہے۔ 2014ء میں لاہور اور دہلی کو ’’سموگ‘‘ کے حوالے سے بد ترین شہر وں کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔ پچھلے کچھ دنوں میں پنجاب میں 20 سے زاہد لوگ سموگ کی وجہ سے ہونے والے ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ نواز لیگ کی کرشمہ ساز حکمرانی میں نمائشی ترقی کے میٹروبس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں نے لاہور کی فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ ہزاروں درخت ان پراجیکٹوں کے لئے کاٹے گئے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں مسلسل گردو غبار اور دھول مٹی سے لدی فضا نے بھی اس سموگ میں خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔
حالیہ سموگ کی ایک اہم وجہ بارش کا نہ ہونابھی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو پھر اس نظام زر کا ایک اورشاخسانہ ہے۔ سولر اور وِنڈ انرجی وغیرہ جیسے توانائی کے جدید اور صاف ذرائع میسر ہونے کے باوجود بروئے کار نہیں لائے جا رہے ہیں کیونکہ وہ منافع بخش نہیں ہیں۔ اسی طرح تیل کی اجارہ داریاں ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
لیکن صرف فضا ہی آلودہ نہیں ہوتی ہے۔ سماجی زندگی کا تعفن اس نظام کی تنزلی سے مسلسل بڑھتا چلا گیا ہے۔ معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی تنزلی سماجی زندگی کو عذاب بنا رہی ہے۔ اسکی ایک شکل منافقت کی انتہا ہے جس میں زیادہ تر وارداتیے مذہبی روپ دھار کر بدکاری کی انتہا کردیتے ہیں۔ دوسری جانب بالادست اور درمیانے طبقات کی اولادیں مغربی بیہودگی اور رعونت میں مبتلا ہو کر عام انسانوں کو نیچ سمجھتے ہیں، بلکہ ا ن کی تضحیک باعث فخرسمجھتے ہیں۔ بڑی بڑی مہنگی اور بے ہودہ قسم کی گاڑیوں پر ایسے پھرتے ہیں جیسا ان راج ہو۔ ٹریفک کا یہ حال ہے کہ ایک دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے کی وحشت سے ہر موڑ پر انسانی زندگی خطرے میں رہتی ہے۔
منافعے پر مبنی اس طرز معیشت سے ٹریفک کا نظام بری طرح بگڑ چکا ہے۔ سڑکوں کی گنجائش اور نئی گاڑیوں کی آمد کی شرح میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جہاں تک سڑکوں کے پھیلاؤ یا چوڑا کرنے کا تعلق ہے تو اس کی بھی حدود ہیں اوراس مقصد کے لئے سبزے اور گرین بیلٹس کو برباد کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں ہر ماہ 16 ہزار سے زائد نئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سڑکوں پر آ رہی ہیں۔ اور لاہور میں یہ تعداد 3 ہزار ماہانہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس شرح سے سڑکوں کو بھلا کتنا اور کب تک چوڑا کیا جاسکتا ہے؟ ٹریفک جام بڑھتے جارہے ہیں، فضائی اور صوتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، ان شہروں میں ’’سموگ‘‘ اب معمول بنتی جا رہی ہے۔ اربوں روپے کے ایندھن اور کام کے لاکھوں گھنٹوں کا ضیاں اس کے علاوہ ہے۔ شہری زندگی کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو چکا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور فضائی آلودگی کا واحد حل اس نظام سے چھٹکارہ ہے جس میں صاف توانائی کے دوسرے ذرائع بروئے کار لائے جائیں اور نجی گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کر کے سماجی ٹرانسپورٹ کا وسیع نظام ترتیب دیا جائے۔ اس وسیع اور دور رس پلاننگ کی سکت نہ تو منڈی کی انارکی کے اس نظام میں ہے نہ ہی کاروں اور تیل کے کارٹیل ایسا ہونے دیں گے۔
دولت اور جائیداد کے لالچ کی ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں ہر کوئی دوسرے کو روند کر، زچ کر کے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔ معاشرے میں ایک کہرام مچا ہے۔ عام لوگ روٹی روزی کو ترس رہے ہیں اور حکمران طبقات کے بھاری اخراجات میک اپ، پلاسٹک سرجری اور حسن کی مصنوعی ترویج پر ہوتے ہیں۔ اندر سے انکے دل کالے اور باہر سے یہ کریمیں لگا کر جلدیں سفید کرنے کا کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن معاشرے 90 فیصد آبادی جس محرومی کی گہرائی میں گرتی چلی جارہی ہے اس کے بارے میں ان حکمرانوں کو کوئی پرواہ ہے نہ ہوسکتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی پر بحث بھی محض فیشن بن گیا ہے کیونکہ اس مسئلہ کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس پر بات کرنے کوکوئی ’’سول سوسائٹی‘‘ تیار نہیں۔ سابق نو آبادیاتی ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ میکسیکو میں آلودگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر انسان سانس کے ساتھ روزانہ چار ڈبیاں سگریٹ کے برابر کاربن مونو آکسائیڈ جسم میں لے جاتا ہے۔ چین میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افراد سموگ کی وجہ سے جان ہار بیٹھتے ہیں۔ وہاں 17 فیصد اموات سموگ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر آلودگی پیدا کرنے والے کوئلے کے پاور پلانٹ چین سے اکھاڑ کر اب پاکستان میں لگائے جا رہے ہیں اور یہاں کے حکمران ڈھٹائی اور بے شرمی سے اسے کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ پاور پلانٹ بجلی کے ساتھ ساتھ کینسر کے مریض بھی بڑے پیمانے پر پیدا کرتے ہیں۔
دولت اور طاقت کی ہوس میں آلودہ یہ حکمران طبقات اور انکی بگڑی ہوئی نسلیں جس وحشت کا شکار ہوچکی ہیں اس سے درندگی کی نفسیات ہی جنم لے سکتی ہے۔ لیکن ان کی اس پراگندگی کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ تمام تر دولت ہونے کے باوجود ان کو شاید لاشعوری طور پر یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ یہ ناانصافی چل نہیں سکتی۔ یہ محروم اور مجبور محنت کش انسان ایک آتش فشاں کی طرح اندر سے پک رہے ہیں۔ جس دن یہ انفرادی قہر اور غصہ ایک اجتماعی طبقاتی جدوجہد کے لاوے کی شکل اختیار کر گیا تو یہ نہ صرف ان حکمرانوں کے اقتدارکو بلکہ ان کے اس پورے نظام کو جلا کر بھسم کردیں گے۔ استحصال اور ظلم سے آزاد انسانی معاشرے کو جنم دیں گے۔ جہاں نہ کوئی ذلت رہے گی نہ استحصال، کوئی حاکم رہے گا نہ محکوم۔
متعلقہ: