| تحریر: دانیال عارف |
28 اکتوبر 2016ء کو کشمیر ٹائمز نے لکھا :’’وادی کشمیر میں معمول کی زندگی 112ہویں روز بھی مفلوج رہی۔ وادی کے مختلف شہروں میں چھاپوں، گرفتاریوں اور گھروں کی بلاوجہ تلاشی کے خلاف مظاہرے ہوئے اور جھڑپیں بھی ہوئیں‘‘۔
جولائی سے شروع ہونے والے مظاہرے اب تک بے خوف لڑائی کے ساتھ شہادتوں، گرفتاریوں اور پیلٹ گن کے چھروں سے لگے گھاؤ کھانے کے باوجود جاری ہیں۔ کشمیر میں ابھرنے والی بغاوت نے ایک بار پھر کشمیر ی نوجوانوں کی لڑاکا جدوجہد کی میراث کو زندہ کیا ہے۔ موجودہ شورش میں ابھی تک ایک سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ پندرہ ہزار افراد زخمی اور نو ہزار سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ چار ہزار افراد ایسے ہیں جن کے چہرے پر پیلٹ گن کے چھروں کے زخم آئے ہیں۔ جہاں ایک بار پھر کشمیری عوام بلاخوف و خطر آگے بڑھے ہیں وہیں انقلابی قیادت کی عدم موجودگی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
تقسیم کشمیر کے زخم
تقسیم سے پہلے 1941ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کا کل رقبہ 86163 مربع میل تھا۔ جس میں گلگت بلتستان و لداخ، جموں اور کشمیر شامل تھے۔ برصغیر کے خونی بٹوارے کے بعد ریاست کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھی پاک و ہند نے ہی کیا۔ 22 اکتوبر 1947ء کو پاکستانی قبائلیوں نے کشمیر پر یلغار کی جس کے جواب میں ہندوستانی فوج نے براہ راست مداخلت کی۔ شروع میں تو پاک فوج نے براہ راست مداخلت نہ کی لیکن مئی 1948ء میں پاکستان نے بھی اپنی افواج کشمیر میں اتاریں جس سے نومولود ریاستوں کے درمیان جنگ (جو کہ ابھی تک کشمیر تک محدود تھی) چھڑنے کا خطرہ پیدا ہوا۔ اس کے پیش نظر اقوام متحدہ کی مداخلت سے یکم جنوری 1949ء میں جنگ بندی کا اطلاق ہوا۔ جنگ کے اختتام تک صوبہ جموں جس کا کل رقبہ 12378 مربع میل تھا کے 2498 مربع میل پر پاکستان اور 9880 مربع میل پر بھارت کا قبضہ ہوا۔ صوبہ کشمیر جس کا کل رقبہ 8539 مربع میل تھااس میں سے 2409 مربع میل پر پاکستان اور 6131 مربع میل پر بھارت کا قبضہ ہو گیا۔ سرحدی صوبے کا کل رقبہ 63554 مربع میل تھا اس میں سے 33740 مربع میل بھارتی قبضے میں جبکہ 29814 مربع میل پاکستان کے قبضے میں چلا گیا۔ لداخ کا تقریباًسارا علاقہ بھارتی کنٹرول میں چلا گیا جبکہ گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان نے کنٹرول میں لے لیا۔ پاک بھارت قبضے میں آنے والے دونوں حصوں پر تقسیم کے بعد دہلی اور اسلام آباد کی ایما پر کٹھ پتلی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن کی اصل طاقت درج بالا حکومتوں کے ہاتھوں میں ہی مرکوز رہی۔
عوامی بغاوت
جہاں پاکستان و ہندوستان کی لاغر سرمایہ داری وہاں بسنے والے کروڑوں انسانوں کو بنیادی سہولیات دینے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ناکام ہوئی ہے وہیں ان دونوں خصی ریاستوں کے زیر کنٹرول کشمیر میں کسی قسم کی ترقی ناممکن تھی۔ معاشی محرومیوں نے زندگی کو اجیرن بنا دیا جس کے خلاف عوام کے اندر سیز فائر لائن (موجودہ کنٹرول لائن) کے دونوں اطراف غم و غصہ شدت اختیار کرتا گیا۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں ان محرومیوں و محکومی کے خلاف قومی آزادی کی جدوجہد کی تحریک نے زور پکڑا جس کے نتیجے میں قوم پرست پارٹیوں کا جنم ہوا جن میں آزادی اور انقلاب کے لئے لڑائی لڑنے والے بے لوث کارکنان نے حصہ لیااور ان محرومیوں کے خلاف ان کارکنا ن نے ناقابل مصالحت لڑائی لڑی اور اس سفر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جہاں اس پار آزادی کی تحریک نے زور پکڑا وہیں لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب بھی عوامی غم و غصہ کا اظہار بارہا ہواہے۔ اس میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی 1987ء کی بغاوت جدوجہد کی عظیم مثال ہے جس کا سفر سالوں پر محیط رہا اور بھارتی حکومت کو وقتی پسپائی پر مجبور کیا گیا۔
الغرض کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کشمیر کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں نے بلا خوف و خطر بارہا مظفرآباد و سرینگر کی کٹھ پتلی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پاک و ہند کی سامراجی ریاستوں کو بھی چیلنج کیا۔ اس سفر میں ایک لاکھ سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ لاکھوں زخمی ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ قید و بند ہوئے لیکن سفر ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا!
تحریک کامیاب کیوں نہ ہوئی؟
اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور موجودہ نظام کو کشمیر کے عوام نے میدان عمل میں آکر بار بار للکارا ہے اور ناقابل مصالحت لڑائی لڑی ہے۔ اس میں کشمیر ی عوام جب بھی میدان میں اترے موت کے خوف کو اپنے پاؤں تلے روند کر آگے بڑھے۔ محرومی و محکومی سے پسی ہوئی عوام جب بھی اپنا اظہار کرتی ہے تو اس کی لڑاکا صلاحیتوں اور کچھ کر جانے کی چاہ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی تخت و تاج کو اکھاڑ پھینکے۔ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ان غیر معمولی حالات میں درست قیادت میسر آئے جو اس تحریک کو منظم کر کہ مطلوبہ مقاصد اور منزل تک پہنچائے۔ مگر بد قسمتی سے کشمیر میں موجود قیادت کے پاس نہ کوئی انقلابی نظریہ تھا نہ ہی طریقہ کا ر اور لائحہ عمل کہ اس تحریک کو منظم کر کے وہ انقلاب برپا کر سکے جس میں عوام کی معاشی اور سماجی نجات پنہاں ہے۔ جہاں مقامی حکمرانوں کے ایک حصے نے اپنا قبلہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کی طرف کر لیا اور ان ہی کے دم چھلہ بن کر مظفر آباد اور سرینگر کے ایوانوں پر براجمان ہوئے وہیں قوم پر ست قیادت بھی درست نظریہ و لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث تذبذب کا شکار رہی۔ اس تذبذب نے اس خلا کو جنم دیا جس میں کہیں مذہبی عنصر سرایت کر گیا تو کہیں قیادت بھٹک کر پاک و ہند کی ایجنسیوں کی گود میں جا بیٹھی۔ بکاؤ قیادت کی اس پالیسی نے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بدگمانی اور مایوسی کی لہر کو جنم دیا اور تحریک وقتی پسپائی کا شکار ہوئی۔
دوسری جانب مذہبی عنصر کے سرایت کر جانے اور پاکستانی ریاست کی پالتو بنیاد پرست قوتوں کی مداخلت کے باعث ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں تحریک محدود ہو گئی۔ پاکستانی ریاست کی مداخلت کے باعث کشمیر کی تحریک آزادی کو شدید نقصان پہنچا۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر جموں، کشمیر(وادی) اور لداخ پر مشتمل ہے۔ وادی کشمیر مسلم اکثریت پر مشتمل ہے۔ جموں میں مسلمان 33.45 فیصد جبکہ ہندو، سکھ اور بدھ 66.55 فیصد ہیں۔ اسی طرح لداخ میں مسلمان 46.40 فیصد جبکہ ہندو سکھ اور بدھ 52.6 فیصد ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور ان کے پروردہ ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ کی مداخلت کے باعث ایک طرف بھارتی فوج کو جبر کا جواز فراہم ہوتا ہے کہ یہ تحریک پاکستانی اشاروں پر چل رہی ہے اور بھارتی حکمران قومی شاؤنزم ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف اس سے یہ تحریک وادی تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے یا پھر صرف جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں تک محدود رہتی ہے۔ اگر کہیں باقی ماندہ علاقوں میں تحریک ابھرتی بھی ہے تو اس سے شعوری طور پر پہلو تہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاک و ہند کی ریاستوں کا آپسی مصنوعی جنگی جنون اور میڈیا پر واہیات تکرار کا مقصد بھی اس جدوجہد کو گھائل کرنا ہے کیونکہ ایک حقیقی عوامی تحریک سے دونوں طرف کے حکمران خوفزدہ ہوتے ہیں۔ کشمیری قیادت کے ایک حصے میں نظریاتی دیوالیہ پن اس حد تک ہے کہ وہ سامراج کے گماشتہ ادارے اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری سے آزادی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ یقینابھیانک جرم اور غداری ہے، کشمیر کے ان جرات مند عوام سے جنہوں نے آزادی کی اس لڑائی میں اپنا سب کچھ قربان کیا ہے۔
موجودہ تحریک
مسلسل ہونے والے واقعات اور تلخ حالات انسان کو ہر وقت جھنجھوڑ رہے ہوتے ہیں اور غیر معمولی ادوار میں یہ اپنا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کے پیچھے کار فرما عوامل کا سمجھنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ عوام کے اندر موجود محرومی اور محکومی کے جذبات ان کے شعور پر اثرات مرتب کر رہے ہوتے ہیں جو اپنا اظہار اچانک اور دھماکہ خیز انداز میں کر تے ہیں۔ موجودہ تحریک بھی محرومیوں و محکومی کے خلاف پکنے والے غصے کا ایک اظہار ہے جس کا آغاز برہان وانی کی موت کے بعد ہوا۔ اس قسم کی تحریکیں عوامی غیض و غضب کا اظہار ہوتی ہیں جو کسی بھی شکل میں اپنا اظہار کر سکتی ہیں۔ ان تحریکوں کو تقسیم کرنا اور مجتمع ہوتے ہوئے عوامی قہر کو زائل کرنا حکمرانوں اور سرمائے کے آلہ کاروں کا مقصد ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی حکمرانی کو طوالت دے سکیں۔ موجودہ تحریک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے جہاں درست قیادت کا سوال ایک بار پھر عوام کی لڑاکا جدوجہد کے سامنے کھڑا ہے۔ اس صورتحال میں قیادت کے خلا کو پاکستانی حکمران اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف تو بھارتی ریاست درمیانے طبقے کے ذریعے قومی شاؤنزم اور جنگی جنون ابھار کر طبقاتی ہمدری کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف اسے یہ جواز مل رہا ہے کہ یہ شورش پاکستانی ایما پر ہو رہی ہے۔ اس سے یقیناًوادی سے بڑھ کر لداخ اور جموں کے دیگر علاقوں تک شورش کے پھیلاؤ کے امکانات مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔
قیادت کا سوال اور تحریک کے فرائض
جب بھی عوامی بغاوت ابھرتی ہے سرمایہ داری کے رکھوالے اسے مختلف تعصبات میں الجھا کر پسپا کرنے کے در پے ہوتے ہیں۔ جبکہ انقلابی قیادت کا یہ فریضہ ہوتاہے کہ وہ بپھری ہوئی اور غیر منظم تحریک کو منظم کرتے ہوئے اور انقلابی نظریات اور پروگرام سے لیس کرتے ہوئے مطلوبہ اہداف کی جانب لے جائے۔ بکھری ہوئی اور علیحدہ علیحدہ تحریکیں اپنی منزلوں تک نہیں پہنچ سکتیں۔ کشمیر کی لڑائی کو مذہبی رنگ دے کر رجعتی بنیادوں پر لڑا نہیں جا سکتا بلکہ زائل ہی کیا جا سکتا ہے۔ وادی سمیت لداخ اور جموں تک اس تحریک کے پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ اس سے بڑھ کر لائن آف کنٹرول کے اس پار تک اس کا پھیلاؤ اسے مزید توانا کرے گا۔ ہندوستانی محنت کشوں کی جڑت اور یکجہتی حاصل کرنے کی کوشش بھی لازم ہے۔ اس لڑائی میں ہمیں اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہوگی۔ قیادت کا ایک حصہ اگر کہہ رہا ہے کہ پاکستانی حکمران آزادی دلائیں گے تو ہمیں ان کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ یہ کھرب پتی سرمایہ دار حکمران جو اپنے ممالک میں محنت کش عوام کا بدترین استحصال کر رہے ہیں بھلا کشمیریوں کے دوست اور ہمدرد کیسے ہو سکتے ہیں؟ پاکستان میں ہماری اس لڑائی کے ساتھی پاکستان کے محنت کش اور پسے ہوئے عوام ہی ہو سکتے ہیں جنہیں ان حکمرانوں نے برباد کر رکھا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے وہ محنت کرنے والے کروڑوں استحصال زدہ انسان ہمارا ساتھ ضرور دیں گے جنہیں اس نظام نے زندہ درگور کر دیا ہے۔ خطے کی تمام محکوم قومیتوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر اس لڑائی کو انقلابی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے لازم ہے قومی آزادی کی تحریک کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ اس پورے خطے میں ابھرنے والی بغاوت اور برصغیر کے محکوموں کی طاقت لے کر جب ہم میدان عمل میں آئیں گے تو اپنے پر چلنے والی ہر گولی کا بدلہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس جبر و استحصال کے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالوں کو ماضی کا قصہ بنا کر لیں گے۔
متعلقہ: