| تحریر: راہول |
شام میں جنگ کی تباہی، بربادی، دہشت گردی، بم دھماکے اور لوگوں کے قتل عام کے بارے آج سے پانچ سال قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن مسلسل سامراجی مداخلت، بنیاد پرستوں کی وحشت اور پراکسی جنگ نے ایک پرامن اور تہذیب یافتہ معاشرے کو اس قدر دہشت کی آگ میں جھونک دیا ہے جو شاید ہی انسانی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھی گئی ہو۔ عراق پر امریکہ کی چڑھائی کے پندرہ سال سے بعد آج مشرق وسطیٰ تاریخ کی بدترین خونریزی اور انتشار سے دوچار ہے۔ اب یہی سامراجی قوتیں خطے کے امن کو ’’بحال‘‘ کرنے کا ناٹک کرنے میں مصروف ہیں۔ غربت اور آگ میں جھلستی عوام کے لئے یہ سوائے زخموں پر نمک چھڑکنے کے اور کچھ بھی نہیں۔
9 ستمبر کو جنیوا میں ہونے والے ایک اجلاس، جس میں روسی وزیر خارجہ سرجی لیروف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری شامل تھے، سے عالمی میڈیا اور تجزیہ نگار کافی زیادہ امیدیں لگا کر بیٹھے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ دونوں ممالک (روس اور امریکہ) شام میں مشترکہ سینٹر قائم کریں گے جس کا مقصد دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم، النصرہ و دیگر جہادی گروہوں کے خلاف کاروائی کرنا ہوگا۔ جبکہ حلب (Aleppo) میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے اور امدادی سرگرمیوں کے لئے جنگ بندی کی جائے گی۔ معاہدے کی شروعات سے ہی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات موجود تھے لیکن مجبوری کے تحت ایک ایسا معاہدہ طے پا گیاجس کا کچھ ہی روز میں ٹوٹ کر بکھرنا ناگزیر تھا۔ جب اس معاہدے کو ایک قرارداد کی صورت میں منظوری کے لئے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بحث کے لئے لایا جانا تھا تب ہی امریکہ نے اس دستاویز کو مکمل طور پر سامنے لانے سے روک لیا جس کے متعلق روسی ڈپلومیٹ ویٹلی چورکن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ امریکہ معاہدے کی دستاویزات کونسل کے سامنے نہیں لانا چاہتا اور ہم ایسے کسی معاہدے کو قبول نہیں کرسکتے جس کی تفصیل ہمیں معلوم ہی نہ ہو۔ دوسری جانب امریکہ نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم سکیورٹی خدشوں کے باعث تفصیلات سامنے لانے سے قاصر ہیں۔ ڈیل کے بعد امریکہ کا یہ بیان اس کی روس کے ساتھ حالیہ ’دوستی‘ اور ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے لئے اٹھائے گئے اقدام پر اس کی ’’سنجیدگی‘‘ کو اچھی طرح ظاہر کرتا ہے۔
کچھ دنوں بعد منظوری ملی اور معاہدے پر عمل کا وقت آیا تو یہ ڈیل اپنے آغاز سے ہی ناکام ہونے کے ساتھ ایک ہفتے کے اندر اندر ہی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے بعد اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔ حلب میں جاری شامی افواج اور النصرہ فرنٹ کے درمیان لڑائی بند نہ ہو سکی، روسی بمباری بھی جاری رہی اور فریقین ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے۔ روسی میڈیا امریکہ کے خلاف پراپیگنڈا کرتا رہا کہ امریکی النصرہ فرنٹ کو بچانا چاہتے ہیں اور ان کے خلاف کاروائی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ آخر کار 3 اکتوبر کو امریکہ نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ روس سے کئے گئے جنگ بندی کے معاہدے کو معطل کررہا ہے کیونکہ روس اور شام کی جانب سے بمباری کا سلسلہ نہیں تھم رہا جوکہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے جبکہ دوسری جانب روس کا مسلسل امریکہ پر یہ الزام رہا کہ وہ النصرہ فرنٹ سمیت کئی گروہوں کی شام میں حمایت کررہا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کے بعد فرانس کے وزیر خارجہ جین مارک ایرولٹ بھی اس کُشتی میں کود پڑے اور دونوں ممالک کے درمیان معاملات سلجھانے کی کوشش کرنے لگے جس کے بعد روسی وزیر خارجہ کی جانب سے ایک بار پھر معاہدے پر عمل درآمدکی یقین دہانی کروائی جارہی ہے۔ آنے والے چند دنوں میں فرانسیسی وزیر امریکہ کا بھی دورہ کریں گے جہاں اس پر عمل کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی اس خبر کے بعد مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکہ کو شام میں مداخلت کو درگزر کرتے ہوئے روس سے بات چیت جاری رکھنی چاہیے‘‘۔ اسی قسم کی کئی اور تجاویز امریکہ کے کئی سنجیدہ پالیسی سازوں اور جریدوں کی جانب سے آرہی ہیں اور ممکن ہے کہ کوئی پیش رفت ہو بھی جائے لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس جنگ بندی سے کچھ حاصل ہوبھی سکے گا یا نہیں۔
شام کے معاملے میں یہ کوئی ایسا پہلا معاہدہ نہیں تھا۔ اس سے قبل کئی جنگ بندیوں کے کھلواڑ کئے گئے لیکن ہر معاہدے نے عوام کو پہلے سے زیادہ برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اس قسم کے معاہدوں کی بنیاد ہی عالمی اور علاقائی قوتیں سامراجی عزائم پر رکھتی ہیں جن کے درمیان ٹکراؤ موجود ہے۔ یہ ٹکراؤ کسی بھی عملی معاہدے کو جنم نہیں دے سکتا۔
اس سال جولائی میں النصرہ فرنٹ ایک اور نام ’جبۃ النصرہ الاہل الشام‘ کے نام سے منظرعام پر آیا ہے جس نے خود کو القاعدہ سے الگ تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اس قسم کے اور کئی سارے دھڑے آج شام اورپورے مشرقی وسطیٰ میں دیکھے جاسکتے ہیں جو اس خونریزی کو جاری رکھنے کے لئے سامراجی طاقتوں کے اہم مہرے ہیں۔ بنیادی طور پر آج کل سب سے زیادہ امن پسندی کا ڈھونگ کرنے والا امریکی سامراج ہی اس خطے کی بربادی کااصل ذمہ دار ہے۔
امریکی سامراج نے پچھلے لمبے عرصے سے جو پالیسیاں مشرقی وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کے لئے تشکیل دی تھیں اب وہ ایک ایک کر کے ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ اوباما اس پورے عرصے میں جہاں لیبیا میں یورپی طاقتوں کے ساتھ اپنے عزائم کے خاطر اتحاد کر بیٹھا وہیں ایران کے ساتھ عراق پر، روس کے ساتھ شام پر غیر مستحکم اتحاد کئے گئے۔ اسی طرح اس کے اپنے خلیجی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بھی اب متضاد نوعیت کے ہیں۔ یہ تمام ممالک اپنے اپنے مقاصد اور لوٹ کے لئے خطے میں سرگرم ہیں اور ان کے اتحاد میں بھی نفاق چھپے ہیں۔ اسی تشویش کا اظہار گزشتہ دنوں امریکی صدارتی امیدواروں کے درمیان ہوئے دوسرے مناظرے میں کیا گیا جہاں خطے کی صورتحال اور خاص طور پر شام پر کوئی ٹھوس موقف رکھنے سے دونوں فریقین قاصر رہے جوکہ مستقبل میں سامراجی منصوبہ بندی کے بحران کی کھلی عکاسی کرتا ہے۔
امریکی سامراج کی داخلی کمزوری کے پیش نظر اس کے ماضی کے تمام اتحادی آج اسے آنکھیں دکھاتے ہیں۔ اسرائیل کی ناراضگی کو ابھی حال ہی میں ایک بڑی امداد کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالیہ 38 بلین ڈالر کی امریکی فوجی امداد ماضی میں دی گئی امدادوں سے کہیں زیادہ ہے۔ شام کے معاملے پر ترکی سے بھی امریکی اختلافات کا سلسلہ ابھی تک نہیں تھما ہے۔ حال ہی میں روس اور ترکی کے درمیان گیس پائپ لائن کا ایک تاریخی معاہدہ طے پایا گیا ہے جس کے بعد اردگان کی جانب سے روسی صدر پیوٹن کو شام میں بھرپور حمایت کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ آج مشرقی وسطیٰ میں طاقتوں کا ایک نیا لیکن انتہائی نحیف توازن موجود ہے۔
اس ساری صورتحال میں روس اور امریکہ کاتعلق آج خطے میں ایک اہم تبدیلی ہے۔ شام میں روس کی جانب امریکہ کا جھکاؤ خطے میں اس کی کمزوری اور بے بسی کو ظاہر کرتاہے۔ اس کا اظہار خود اوباما نے پچھلے دنوں کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ شام میں انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے لیکن پھر بھی شام مسلسل ان کی پریشانی کا باعث ہے۔ یہ درحقیقت اعتراف شکست کے مترادف ہے۔ امریکی سامراج کی ایسی کیفیت نے ہی روس کو خطے میں مداخلت پر آمادہ کیا۔ روس بظاہر دنیا کو اب دوبارہ ایک طاقتور ملک کے طورپر نظر آنے لگا ہے لیکن داخلی طور پر انتہائی بحران زدہ معیشت کی وجہ سے اتنا ہی کمزور ہے۔ دوسری جانب امریکی سامراج اب شام میں عراق کی طرز پر ریاست کا مکمل انہدام نہیں چاہتا ہے۔ اس کا مطلب موجودہ کیفیت سے بھی بڑا انتشار ہو گا۔ اسی لئے بشارت الاسد کو مجبوری میں مشروط طور پر قبول کیا جارہا ہے۔
امریکی سامراج کے خطے میں تیزی سے زوال اور کمزوری کی بدولت مشرقی وسطیٰ میں ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے مختلف علاقائی قوتیں اپنے سامراجی عزائم کے تحت پرکرنے کی کوششوں میں ہیں۔ خلیجی بادشاہتیں پہلے سے کہیں زیادہ خود سر ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں یمن میں ایک جنازے پر سعودی بمباری میں 140 افراد کو ہلاک کردیا گیا جبکہ 500 سے زائد افراد اس میں زخمی ہوئے۔ اس حملے پر دنیا بھر میں لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس قسم کے واقعات کے ذریعے سعودی عرب خطے میں اب اپنے تسلط کے لئے وحشت کا سہارا لے رہا ہے کیونکہ مسلسل گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور معاشی بحران کی زد میں آئی یہ بادشاہت اب اندر سے کھوکھلی ہوتی جارہی ہے جس نے اسے زیادہ وحشی کر دیا ہے۔ یمن میں حوثی باغی (جنہیں ایران کا حمایت یافتہ سمجھا جاتا ہے) اور سعودی عرب ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ اس جنگ میں (جو بڑی حد تک یکطرفہ ہے اور سعودی جارحیت پر مبنی ہے) یہ پہلے سے پسماندہ ملک بالکل برباد ہو رہا ہے۔ اس تنازعے کے باعث پندرہ لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوچکے ہیں۔ یمن کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور اس علاقے میں حوثیوں کی اکثریت ہے۔ حوثی یمنی آبادی کا تقریباً چالیس فیصد ہیں۔ سعودی حکمران یمن میں اپنی کٹھ پتلی حکومت چاہتے ہیں۔ ایسے میں جہاں عوام میں ان کے خلاف ایک نفرت موجود ہے وہاں ایران کی مداخلت بھی ایک حقیقت ہے۔ گزشتہ سال عرب انقلاب کے دوران جب علی عبداﷲ صالح کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو اس کے نائب صدر منصور ہادی کوسعودی پشت پناہی سے صدر ’منتخب‘ کروایا گیا۔ لیکن عوام کی بڑی تعداد اپنے تلخ حالات زندگی کے تحت اس نئے حکمران کو بھی کوئی حمایت دینے کو تیار نہیں تھی۔ ایسے میں حوثیوں نے ہادی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور ملک کے بیشتر حصوں بالخصوص شمالی علاقوں پر قابض ہو گئے۔ حکومتی کرپشن اور سامراج کے خلاف ان کے نعرے عوام میں خاصے مقبول ہیں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ یمن کی اس جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ خطے کی تقریباً تمام بڑی جابر قوتیں موجود ہیں جس کااظہار گزشتہ سال ہونے والے حملے کے دوران ہوا جس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، اومان، مراکش اور سوڈان وغیرہ کی ریاستیں سعودی حکمرانوں کے ساتھ شامل تھیں۔ شدید معاشی بحران کے باوجود بھی سعودی بادشاہت نے اس سال مشرقی وسطیٰ میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدے ہیں اور سعودی عرب کو سب سے زیادہ اسلحہ امریکہ فروخت کر رہا ہے۔ مذکورہ بالا حملے میں بھی امریکی بم استعمال کئے گئے تھے جن کے ٹکڑوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ یوں یمنی عوام کے اس قتل عام میں امریکہ بھی برابر کا شریک ہے۔
شام اس وقت ایک سلگتا ہوا ایشو ہے۔ ساحل سے ملنے والے بچے کی لاش ہو یا بمباری کے بعد دھول میں اٹا وہ سہماں ہوا بچہ ہو، دنیا بھر کے عام لوگوں میں شامی عوام کے ساتھ ہمدردی اور جنگ سے نفرت موجود ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں اس ملک میں پونے چار لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 80 لاکھ افراد آج بے گھری کا شکار ہو کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سامراجی گِدھ اپنے مفادات کی جنگیں لڑ رہے ہیں اور شامی عوام کی نسلوں کو برباد کیا جارہا۔ ایسی صورتحال میں ان سامراجی قوتوں کے درمیان معاہدے شام کا امن واپس لوٹانے سے قاصر ہیں۔ درجنوں مسلح جہادی گروہوں اور کئی عالمی اور علاقائی قوتوں کی مداخلت کے پیش نظر صورتحال اتنی پرانتشار اور پیچیدہ ہے کہ کوئی معاہدہ قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن 2011ء میں مشرقی وسطیٰ میں ابھرنے والی تحریکوں نے ثابت کیا تھا کہ محنت کش عوام اور نوجوان جب اٹھ کھڑے ہوں تو بڑی سے بڑی اور جابر سے جابر ریاستیں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ واحد قوت جو اس خطے میں امن اور استحکام کی ضامن ہو سکتی ہے وہ وہاں کے محنت کش اور نوجوان ہیں جنہیں ایک مرتبہ پھر تاریخ کے میدان میں اتر کر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اقتداروں کا خاتمہ کرنا ہو گا جو تمام تر جنگ اور بربادی کی بنیاد ہیں۔
متعلقہ: