سرمایہ داری کے بحران میں سلگتی دنیا

| تحریر: مجلس ادارت ’طبقاتی جدوجہد‘ |

آج کرہ ارض پر نسل انسان شاید تاریخ کے سب سے غیر معمولی، پرپیچ، پیچیدہ اور متضاد نوعیت کے حامل عہد میں سے گزر رہی ہے۔ اس عہد کی بنیادی خاصیت غیر معمولی واقعات کا ایک تسلسل ہے جو درحقیقت سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت اور نامیاتی زوال پزیری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ 2008ء میں امریکہ سے شروع ہو کر دنیا بھر میں پھیل جانے والے معاشی بحران نے وہ نسبتاً مستحکم معاشی بنیاد ہلا کے رکھ دی ہے جس پر کئی دہائیوں سے سرمایہ دارانہ سیاست، سفارت اور سماج بظاہر کسی بڑی تبدیلی کے بغیر قائم تھے۔ نتیجہ مسلسل انتشار، عدم استحکام اور ہلچل ہے جس کے نتائج متضاد نوعیت کے ہیں۔ امریکی سامراج کی داخلی کمزوری اور عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں کے آپسی تضادات نے کئی خطوں مثلاً مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں صورتحال کو اور بھی الجھا دیا ہے۔ انقلابی تحریکوں یا عوامل کے ساتھ رجعتی خونریز خانہ جنگیوں، جنگوں، عفریت کی طرح پھیلتی دہشت گردی، ریاستی جبر اور دوسرے رجعتی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ عہد نہ تو 1960ء کی دہائی کی طرح دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں اور انقلابات کا عہد ہے اور نہ ہی 1980ء اور 1990ء میں بالخصوص چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں جنم لینے والے رد انقلابی عوامل اور وسیع پیمانے پر حاوی مایوسی اور رجعت کا دور ہے۔ البتہ اس میں جمود کے ادوار آتے رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر انقلاب اور رد انقلاب ہمیں صحیح معنوں میں آج ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ کامریڈ ٹراٹسکی کے الفاظ میں آج ’’نسل انسان متروک سرمایہ داری کی موت کی طوالت کی اذیت سے دوچار ہے۔ ‘‘مارکسی قیادت میسر نہ آنے پر انقلابی تحریکیں پسپائی اور رد انقلاب کا شکار ہوتے نظر آتی ہیں اور ایسے میں ساتھ ہی کسی اور ملک، کسی دوسرے خطے میں نئی تحریکوں کا ابھار نظر آتا ہے۔ اپنی خواہشات کے تابع ’’تناظر‘‘ دماغ میں تخلیق کر کے اسے معروض پر مسلط کرنے والے خود ساختہ انقلابیوں کے برعکس یہ کوئی یکسر انقلابی عہد نہیں ہے، دوسری طرف یہ یکسر رد انقلابی اور رجعتی عہد بھی نہیں ہے۔ عالمی انقلاب کی پیش قدمی اور پسپائی کی کشمکش مسلسل جاری و ساری ہے جس کی سب سے بنیادی وجہ تحریکوں کو انقلابی قیادت کا میسر نہ آنا ہے۔ ایک بات بہرحال واضح ہے کہ 2008ء سے پہلے کا معمول ٹوٹ چکا ہے اور دنیا تیز اور بڑی تبدیلیوں کے دور میں داخل ہو چکی ہے جس کا دورانیہ اور نتائج خود سرمایہ داری کی طوالت، کیفیت اور انقلابی مارکسزم کی قوتوں کی بڑھوتری کے ساتھ مشروط ہیں۔
کانگریس کی مجوزہ دستاویز ’’بین الاقوامی پیش منظر 2016ء‘‘ میں ہم نے موجودہ بین الاقوامی صورتحال اور تناظر پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے لیکن 2008ء کے بعد اٹھنے والی تحریکوں اور ان کے مضمرات کا مختصراً جائزہ یہاں لینے کی ضرورت ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب، یورپ میں بڑی تحریکیں اور ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ تحریک دنیا کو ہلا دینے والے واقعات تھے۔ پورا مشرق وسطیٰ انقلابات کی لپیٹ میں تھا اور سامراج کی کوکھ سے اٹھنے والا ’آکو پائی‘ کا نعرہ بھی پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ یہ سب کچھ 2008ء کے معاشی بحران کا عالمی سطح پر پہلا بڑا سیاسی اظہار تھا جس نے پوری دنیا میں اثرات مرتب کئے اور انقلابات کو قصہ ماضی قرار دے کر تاریخ کے خاتمے کا اعلان کرنے والے سامراجی دانشوروں کے نام نہاد مقالے(Thesis) کو تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیا۔ عرب انقلاب کا آغاز تیونس سے ہوا جہاں بن علی کی 24 سال پر مبنی آمریت کا دھڑن تختہ عوام نے کر دیا لیکن مصر اس انقلاب کا حوالہ بن گیا جہاں پہلے حسنی مبارک اور پھر مورسی کی حکومتوں کا خاتمہ عوام کی سرکش تحریک نے کیا۔ اسرائیل، بحرین، سعودی عرب، عراق، مراکش، یمن، شام غرضیکہ مشرق وسطیٰ اور نواحی خطوں میں اس انقلابی زلزلے کے جھٹکے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ لیکن آج پورا مشرق وسطیٰ رد انقلابات، خانہ جنگی اور انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ تیونس میں عوام کی زندگیوں میں کچھ تبدیل نہیں ہو پایا، مصر میں جنرل السیسی کی آمریت ایک بار پھر بدترین جبر کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، شام کی فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں ڈھائی لاکھ سے زائد بے گناہ لقمہ اجل بن چکے ہیں، عراق ٹوٹ پھوٹ کر سلگ رہا ہے، یمن کو سعودی جارحیت اور خانہ جنگی جلا رہی ہے۔ مہاجرین کے بحران اور دہشت گردی کی پے درپے کاروائیوں نے اس انتشار کو یورپ کے اندر تک پہنچا دیا ہے۔ نسل انسان کے سامنے ’’سوشلزم یا بربریت‘‘ کا جو تناظر، سوال یا چیلنج فریڈرک اینگلز نے آج سے سو سال سے بھی پہلے رکھا تھا اس کی سچائی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی نسبت آج کہیں زیادہ واضح ہے۔ جس طرح عرب انقلاب کی اٹھان کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے تھے بالکل اسی طرح رد انقلاب کے عالمگیر اثرات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن طبقاتی جدوجہد ختم ہوئی ہے نہ مٹ سکتی ہے، سرمایہ داری کا بحران جتنا گہرا ہے اس کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں انقلاب کی ایک نئی اٹھان کو شاید اب کی بار پانچ دہائیوں کا وقت درکار نہیں ہو گا۔
یورپ بالخصوص گزشتہ پانچ سال سے مسلسل تحریکوں کی لپیٹ میں ہے۔ سائریزا کی اصلاح پسند قیادت کی کھلی غداری کے پیش نظر تحریک وقتی طور پر پسپا ضرور ہوئی ہے لیکن یونان کا بحران شدت ہی اختیار کر رہا ہے اور موجودہ کیفیت زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی۔ حالیہ عرصے میں مزدور دشمن اصلاحات کے خلاف فرانس پر تشددمظاہروں اور ہڑتالوں کی لپیٹ میں رہا ہے، ہولاند حکومت نے جبر اور پارلیمانی چالبازیوں سے یہ قانون پاس تو کروا لیا ہے کہ اس سے محنت کشوں کی نفرت اور غم و غصے میں اضافہ ہی ہوا ہے جو آنے والے وقت میں ناگزیر طور پر اپنا اظہار کرے گا۔ سپین میں پوڈیموس اور برطانیہ میں جیرمی کاربن کا ابھار، لیبر پارٹی میں ریڈیکلائزیشن اور شدت پکڑتی ہوئی طبقاتی کشمکش، ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کا ووٹ بڑی پیش رفتیں ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی نظام سے نفرت کا برنی سینڈرز کی مقبولیت کی شکل میں اظہار وہاں معروضی صورتحال میں بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ برنی سینڈرز کی ہیلری کلنٹن سے مصالحت اور اس کی حمایت کے اعلان کے بعد یہ تضادات ختم نہیں ہوں گے بلکہ عوام کی بے چینی نئی شکلوں میں اپنا اظہار کرے گی، ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت سے پتا چلتا ہے کہ متبادل کی عدم موجودگی میں یہ بے چینی کس طرح سیاسی افق کے دونوں اطراف میں اپنا اظہار کر سکتی ہے۔ بحیثیت مجموعی یورپ اور امریکہ میں تیزی سے رونما ہونے والے ان واقعات اور پیش رفتوں سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کی ترقی یافتہ ترین شکلوں میں بھی اصلاح پسندی کی گنجائش ختم ہو چکی ہے، نظام کا بحران محنت کشوں پر مسلسل معاشی حملوں اور آسٹیریٹی کا متقاضی ہے اور شدت پکڑتی ہوئی طبقاتی کشمکش نیا معمول ہے۔ ترکی میں حالیہ ناکام فوجی بغاوت نے ترک سماج میں پکنے والے شدیدتضادات کو ایک بار پھر عیاں کیا ہے۔ اس کُو کی ناکامی کے بعد طیب اردگان نے وسیع پیمانے پر ریاستی جبر کا آغاز کیا ہے اور ضیا الحق کی طرز پر سماج کی اسلامائزیشن کا عمل تیز تر کر دیا ہے لیکن یہ اقدامات تضادات کو شدید تر ہی کررہے ہیں، آنے والے دنوں میں ترک ریاست بالخصوص فوج میں مزید پھوٹ یا پھر محنت کشوں اور نوجوانوں کی جانب سے وسیع پیمانے کی طبقاتی بغاوت ہمارے لئے قطعاً حیران کن نہیں ہونی چاہئے۔
لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی تحریکیں پاپولسٹ قیادتوں کی اصلاح پسندانہ اور مصالحت پر مبنی روش کی وجہ سے پیچھے گئی ہیں۔ وینزویلا میں PSUV پارلیمانی انتخابات ہار گئی ہے اور محنت کش طبقے کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ داری پر کاری ضربیں نہیں لگائی جاتیں تو دائیں بازو کے صدارتی اقتدار میں آنے اور رد انقلاب کی راہ ہموار ہو گی۔ لیکن یہ رد انقلاب وہ تازیانہ بھی ثابت ہو سکتا ہے جو محنت کش طبقے کو ایک بار پھر تحریک میں اترنے اور انقلاب کا عمل آگے بڑھانے پر مجبور کر دے۔ کم و بیش یہی صورتحال بولیویا اور ایکواڈور میں ہے۔ برازیل میں ڈلما روزیف کے خلاف دائیں بازو کا کامیاب پارلیمانی کُو درحقیقت حکمران طبقات کے زیادہ جارحانہ حملوں کا پیش خیمہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور چینی معیشت کی سست روی سے خطے کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور چند ایک کے سوا خطے کی تمام معیشتیں بحران کا شکار ہیں۔ انقلاب اور رد انقلاب کی یہ کشمکش آنے والے عرصے میں بھی اتار چڑھاؤ کے ساتھ لاطینی امریکہ میں جاری رہے گی۔
چین کی مسلسل معاشی زوال پزیری نے اسے دیوہیکل ٹائم بم بنا دیا ہے جو انقلابی دھماکے میں پھٹے گا تو پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دے گا۔ ہندوستان میں نریندرا مودی بنیاد پرستی کی تمام تر رجعت اور وحشت کے باوجود محنت کشوں پر بڑے حملے کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، 2 ستمبر 2015 ء کی ’’بھارت بند‘‘ عام ہڑتال میں 15 کروڑ محنت کشوں کی شمولیت نے ہندوستانی پرولتاریہ کی انقلابی صلاحیت کو ثابت کیا تھا۔ 2016ء کی حالیہ عام ہڑتال اس سے بھی بڑی تھی جس میں 18 کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا۔ پابندیاں اٹھنے کے بعد ایرانی معیشت اگر نمو پاتی ہے تو اس سے نہ صرف مسلسل معاشی جبر سے نڈھال ایرانی محنت کشوں کو سنبھلنے کا موقع ملے گا بلکہ معاشی نمو کے انتہائی غیر مساوی ثمرات سے سماجی تضادات پھٹ بھی سکتے ہیں۔
2008ء کے بعد یورپ اور امریکہ میں ہونے والی نام نہاد معاشی بحالی برائے نام اور ناکام ہے اور اپنی سب سے ’’حوصلہ افزا‘‘ صورتوں میں بحران سے قبل کے حالات سے بہت نیچے ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار ایک نئے معاشی بحران کا پتا دے رہے ہیں۔ بالخصوص برطانیہ اگلے ڈیڑھ سال کے دوران ایک گہرے معاشی بحران میں دھنس سکتا ہے۔ روس، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسی ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ باقاعدہ Recession میں ہیں۔ عالمی معیشت کی سست روی کے پیش نظر تیل کی قیمتوں میں کمی نے ماضی میں بجٹ سرپلس میں رہنے والے سعودی عرب جیسے ممالک کو کئی دہائیوں میں پہلی بار کٹوتیاں کرنے، قرض لینے اور نجکاری کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے دور رس سماجی اور سیاسی مضمرات ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے اپنے پالیسی ساز اور معیشت دان طویل عرصے تک چلنے والی معاشی سست روی (Secular Stagnation) یا بحران کا تناظر دے رہے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ سرمایہ داری جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں قبل از بحران کی معاشی سطح پر دوبارہ نہیں پہنچ سکتی ہے۔ قرضوں کے پھیلاؤ کے جس طریقہ کار سے سرمایہ داری کو کئی دہائیوں تک چلایا جاتا رہا ہے وہ آج اس نظام کے پاؤں کی سب سے بڑی بیڑی بن چکا ہے اور عالمی معیشت قرضوں کے پہاڑ تلے دبی چلی جا رہی ہے۔ تاریخ نے سیاسی اور سماجی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت اس نظام سے چھین لی ہے۔ اس عہد کی ایک بنیادی خاصیت یہ بھی ہے ایک تحریک سے پسپا ہونے کے بعد زیادہ لمبے عرصے تک رد انقلاب کے حملے برداشت کرنے کی گنجائش بھی محنت کشوں کے پاس بہت محدود ہے۔ حالات زندگی جس قدر تلخ اور سرمایہ داری کے معاشی حملے جس قدر سخت ہیں اس کے پیش نظر انقلابی تحریکوں کے مابین وقفہ دہائیوں سے سالوں تک سکڑ گیا ہے۔
انقلابی نظرئیے کے طور پر مارکس اور اینگلز کی زندگیوں میں مارکسزم اور پہلی انٹرنیشنل پیرس کمیون کی خونی شکست کے بعد وسیع عوامی قوت (Mass Force) نہیں بن پائے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک دوسری اور تیسری انٹرنیشنل کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کی شکل میں ہی مارکسزم کو وسیع عوامی بنیادیں میسر آئیں۔ دوسری انٹرنیشنل مصالحت اور اصلاح پسندی جبکہ تیسری انٹرنیشنل سٹالنزم کے نظریاتی انحراف میں غرق ہو کر بکھر گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی عروج میں ترقی یافتہ ممالک میں اصلاح پسندی کو مادی بنیادیں میسر آئیں اور مارکسزم کی قوتیں انتہائی محدود ہو گئیں۔ اس عہد میں تیسری دنیا اور سابق نوآبادیاتی ممالک میں انقلابات کا طویل سلسلہ ہمیں نظر آتا ہے اور پرولتاری بوناپارٹ ازم کا مظہر اس کی اہم خاصیت تھی جس نے چین اور ویت نام سے لے کر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور کیوبا تک مختلف شکلوں میں سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کیا اور ماسکو یا بیجنگ کی طرز پر سٹالنسٹ اقتدار قائم ہوئے، سوشلزم کی مسخ شدہ شکل ہونے کے باوجود یہ ترقی پسند اقدامات تھے لیکن زمان و مکان میں ان کی محدودیت ناگزیر تھی۔ چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سٹالنسٹ ریاستوں کے انہدام نے سٹالنزم کی تاریخی متروکیت کا اعلان کر دیا لیکن سرمایہ داروں نے پوری دنیا میں ’سوشلزم‘کی موت کا اعلان کیا۔ بالخصوص 1990ء کے بعد کا عرصہ انقلابی مارکسزم کی قوتوں کے لئے انتہائی کٹھن اور دشوار تھا۔ مزدور تحریک بہت پیچھے چلی گئی اور نظریات کو تقریباًہر جگہ عملاً ’پچھلی نشستوں ‘ پر دھکیل دیا گیا۔ لیکن اس نظام کے رکھوالوں کی خواہشات کے برعکس ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ نہیں ہو پایا اور آج عالمی سرمایہ داری ایک ایسے گہرے اور طویل معاشی بحران میں دھنس چکی ہے جس کا موازنہ 1929ء سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری پر آج عملی اور نظریاتی طور پر پوری دنیا میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ موجودہ عہد میں تمام تر انتشار اور متضاد نوعیت کی پیش رفتوں کے باوجود معروضی حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں جن میں آنے والے عرصے میں مارکسی قوتیں تیزی سے نمو پا سکتی ہے۔ سماج ایک ایسی بھٹی میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں ماضی پگھل رہا ہے اور مستقبل تعمیر ہو رہا ہے۔ سٹالنزم اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ اصلاح پسندی آج تاریخی طور پر متروک ہو چکی ہے اور ایک کے بعد دوسری جگہ پر محنت کش اسے مسترد کر رہے ہیں۔ اس عمل کا اظہار روایتی پارٹیوں کے اندر اور باہر، دونوں طریقوں سے ہو رہا ہے۔ یورپ میں سائریزا سے لے کر پوڈیموس اور جیرمی کاربن تک، ریڈیکل بائیں بازو کے نئے رجحانات کا ابھار اور امریکہ میں خود کو سوشلسٹ قرار دینے والے برنی سینڈرز کی مقبولیت (کچھ سال پہلے تک امریکی سیاست میں ایسا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا) اس سمت کا پتا دیتی ہے جس طرف ان ممالک کی سیاست گامزن ہے۔ لیکن بحران اتنا شدید ہے کہ اصلاح پسندی اپنی انتہائی ریڈیکل اشکال میں بھی نامراد ہے جیسا کہ یونان میں سائریزا کی مثال نے ثابت کیا ہے۔ ایسے میں حالات اور واقعات محنت کش طبقے کو پہلے سے زیادہ ریڈیکل نتائج اخذ کرنے پر مجبور کریں گے اور انقلابی سوشلزم اور مارکسزم کے نظریات کے لئے زرخیز زمین میسر آ پائے گی۔