| تحریر: لال خان |
آج سے پندرہ سال قبل 7 اکتوبر 2001ء کو امریکی سامراج کی سربراہی میں مغربی سامراجیوں کے عسکری الحاق ’نیٹو‘ نے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا تھا۔ ظاہری طور پر وہ چند مہینوں میں پورے افغانستان پر مکمل تسلط کا دعویٰ کرنے لگے۔ اس کے بعد ’جمہوریت‘ سے لے کر ’انسانی حقوق‘ اور ’تعمیر نو‘ تک کے ڈھونگ رچائے گئے۔ لیکن گزشتہ پندرہ سال میں افغانستان کی صورتحال کسی بہتری کی بجائے بدتر اور پیچیدہ ہی ہوتی چلی گئی ہے۔ اس جارحیت کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان بلکہ پورا خطہ لہولہان ہے اور بربادیوں کی داستان بن کے رہ گیا ہے۔
نہ صرف لبرل اور سیکولر بلکہ بہت سے ’بائیں بازو‘ کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو بھی امریکہ کی براہ راست مداخلت کے نتیجے میں بنیاد پرستی اور خونریز انتشار کے خاتمے کی امید تھی۔ اقوام متحدہ جیسے سامراجی گماشتگی کے سرخیل ادارے اور نام نہاد ’عالمی کمیونٹی‘ کے ذریعے عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی عالمی سامراجیوں کے ٹولے افغانستان میں ’امداد‘ اور فوجی جبر کے امتزاج سے مسائل حل کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سامراجی طاقتوں نے افغانستان میں بڑی ’انویسٹمنٹ‘ کی۔ یورپی ریاستوں نے 200 ارب ڈالر جبکہ امریکی سامراج نے 700 ارب ڈالر سے زائد رقوم صرف کیں۔ لیکن ان رقوم کا وسیع حصہ کسی تعمیر پر نہیں بلکہ جنگی تباہ کاریوں پر خرچ کیا گیا جس سے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور جنگ سے وابستہ ہر طرح کے سرمایہ داروں نے خوب منافع کمایا۔ سینکڑوں ارب ڈالر کی اس بہتی گنگا میں امریکی جرنیلوں اور ریاست کے دوسرے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی خوب ہاتھ دھوئے۔ بربادی کے بعد نام نہاد تعمیر کے اربوں ڈالر کے پراجیکٹ بھی کنسٹرکشن کی سامراجی اجارہ داریوں نے حاصل کئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 1979ء میں پاکستانی اور خلیجی حکمرانوں کے ذریعے شروع کئے گئے امریکی ڈالر جہاد کے بعد سے ’مجاہدین‘ اور پھر طالبان نے افغانستان کو تاراج کیا، عوام پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور بالخصوص خواتین کی زندگیوں کو عذاب مسلسل بنا کے رکھ دیا۔ لیکن یہ ڈالر جہاد بھی تو افغانستان میں اپریل 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج نے ہی شروع کروایا تھا۔ سی آئی اے نے ہی ضیا الحق جیسے خونخوار حکمرانوں اور ان کے ریاستی خفیہ اداروں کے ذریعے یہاں جہادی گروہوں کو پروان چڑھایا تھا اور ان کی خود کار فنانسنگ کے لئے منشیات کے منافع بخش دھندے کا نیٹ ورک استوار کیا تھا جو اس کے بعد پھیلتا ہی چلا گیا۔ بعد ازاں مغربی کارپوریٹ میڈیا اور ان کے مقامی حواریوں کے تمام تر پراپیگنڈے کے برعکس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1990ء کی دہائی میں طالبان کے ابھار میں امریکی سامراج کی آشیر آباد اور مالی کمک کا کلیدی کردار تھا۔ 1996ء میں طالبان کا کابل پر قبضہ یقینی بنانے کے لئے امریکہ کے گھاگ سفارتکار رابرٹ اوکلے کے ہاتھ 30 ملین ڈالر کیش رقم پاکستان کی ’جمہوری حکومت‘ کے تعاون سے قندھار بھیجی گئی تھی۔ رابرٹ اوکلے خود C-130 طیارے پر یہ پیسے لاد کر افغانستان لایا تھا اور ملا عمر کے حجرے میں جا کر اس کو ’ڈلیور‘ کئے تھے۔ نقد پیسے لینے کی وجہ یہ تھی کہ ملا عمر بینکاری کے سودی نظام کو خلاف شریعت سمجھتا تھا! یہ ان بنیاد پرستوں اور آج کل ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے علمبردار امریکی سامراج کے گھناؤنے چہرے کی صرف معمولی سی جھلک ہے۔
آج کل پاکستانی ریاستی اداروں پر دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے اور وہ خود بھی بار بار صفائیاں پیش کرتے پھر رہے ہیں کہ ’اچھے‘ اور ’برے‘ طالبان کے درمیان تفریق کو ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن امریکی پالیسی ساز خود مصالحت اور ٹکراؤ کی ملی جلی پالیسی پر گامزن ہیں۔ سامراج اور بنیاد پرستوں کے درمیان مفادات کے پرانے یارانے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ ڈالر جہاد کے ہراول ’کمانڈر‘ گلبدین حکمت یار کے ساتھ امریکہ کے کٹھ پتلی افغان صدر اشرف غنی کا حالیہ معاہدہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ گلبدین حکمت یار 1970ء کی دہائی کے وسط سے ہی اس جہادی کھیل کا اہم فریق رہا ہے اور اس کے بارے مشہور ہے کہ سوویت یونین کے خلاف لڑائی سے زیادہ وقت اس نے دوسرے جہادی گروہوں کے خلاف کاروائیوں میں صرف کیا ہے۔
2001ء کی جارحیت کے بعد مختصر عرصے میں امریکی فوجوں نے کابل پر کنٹرول تو حاصل کر لیا لیکن ریاست، سیاست اور سفارت کے ہر پہلو کو سامراجی مفادات اور ضروریات کے تحت ہی استوار کیا گیا۔ لیکن افغانستان کی یہ پیوند شدہ کٹھ پتلی ریاست انتہائی کھوکھلی ہے اور کوئی عزم رکھتی ہے نہ حوصلہ۔ یہ سارا سیٹ اپ مختلف علاقائی جنگی سرداروں کے درمیان قائم کئے گئے نحیف سے توازن پر مبنی ہے۔ کابل اور چند دوسرے شہری مراکز سے باہر اس کی رِٹ موجود نہیں ہے۔ کرپشن میں یہ ریاست اور سیاست اپنی مثال آپ ہے۔ فوجیوں کا بگھوڑا پن معمول ہے۔ اس ’نیشنل آرمی ‘کی حالت یہ ہے کہ ٹریننگ کے لئے امریکہ جانے والے بہت سے فوجی افسران وہاں بھاگ کر غائب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح عام سپاہیوں کی جانب سے افسران پر گولی چلانے کے واقعات ہر روز ہوتے ہیں۔
طالبان کو ختم کرنے کے لئے جو جنگ شروع کی گئی تھی آج پندرہ سال بعد اس کا نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان کے اکثریتی حصوں خصوصاً جنوب اور مشرق میں سامراجیوں اور ان کی کٹھ پتلی افغان حکومت کو طالبان گروہوں کے وسیع قبضے کا سامنا ہے۔ پچھلے ہفتے قندوز پر طالبان کا قبضہ موجودہ صورتحال کا آئینہ دار ہے۔ ہر کچھ ہفتوں بعد کسی اہم شہر پر طالبان کا حملہ یا قبضہ معمول بن چکا ہے۔ اس وقت افغانستان کے اہم صوبے ہلمند کے 15 اضلاع میں سے 13 طالبان یا مزاحمت کرنے والے دوسرے گروہوں کے قبضے میں ہیں۔ امریکیوں نے افغانستان میں 130000 سے زیادہ فوجی بھیجے لیکن پھر بھی اسے مطیع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
معصوم لوگوں کی زندگیاں لٹنے کا سلسلہ اس جارحیت کے بعد تیز تر ہی ہوا ہے۔ 2001ء کے بعد تقریباً ایک لاکھ افغان باشندے اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بالواسطہ اثرات سے لقمہ اجل بننے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ 2005ء تک اس جنگ میں عام انسانوں کی اموات کی شرح 0.6 فیصد تھی جو کہ 2015ء میں ہولناک حد تک بڑھ کر کل ملکی اموات کا 10 فیصد ہو چکی ہے۔
ڈالر جہاد کے آغاز سے لے کر آج تک، عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کی اس پراکسی جنگ، خانہ جنگی اور براہ راست جارحیت میں افغانستان کے عام باسی ہی سماجی ، ثقافتی اور معاشی طور پر برباد ہوئے ہیں۔ 40 لاکھ سے زیادہ دربدر ہو کر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان گنت زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔ آغاز میں اس ’نیو گریٹ گیم‘ کے اہم فریق امریکہ، فرانس، سعودی عرب، پاکستان اور برطانیہ تھے لیکن اب افغانستان کے معدنی وسائل کو نوچنے کے لئے کئی نئے کھلاڑی اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس سے خلفشار کی پیچیدگی بڑھی ہے، خونریزی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب طالبان اور دوسرے ناموں سے پکارے جانے والے بیشمار جہادی گروہ مختلف سامراجی قوتوں کے ہاتھوں بکتے نہیں ہیں بلکہ ٹھیکیداری نظام کے تحت ہر پراجیکٹ میں کرائے پر وقتی ’خدمات‘ فراہم کرکے زیادہ منافع کماتے ہیں۔
گزشتہ کچھ دہائیوں میں افغانستان بربادی کی داستان اور علامت بن چکا ہے۔ لیکن اس کی تاریخ میں آسودگی، ترقی اور بہتری کے ابواب بھی ملتے ہیں۔ امان اللہ خان کا دور اقتدار افغانستان میں ترقی پسند رجحانات کا عہد تھا جس میں سماجی آزادی کے کئی اقدامات اٹھائے گئے۔ لیکن سب سے اہم باب 28 اپریل 1978ء کا ثور انقلاب تھا جس کے تحت صدیوں کی قبائلی پسماندگی، جاگیر داری اور سرمایہ داری کے خلاف انقلابی اقدامات کئے گئے اور جو جرات مندانہ اصلاحات شروع کی گئیں ان کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اس انقلاب کو کچلنے کے لئے سی آئی اے کی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ آپریشن ’سائیکلون‘ کا آغاز روسی فوجوں کی مداخلت سے چھ ماہ قبل کیا گیا تھا۔ آج اسلامی بنیاد پرستی کی بربریت ہو یا سامراجی قوتوں کی وحشت، افغانستان اور دنیا بھر کے عوام کے لئے وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ افغان عوام کی تقدیر اس پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جب تک بربادیوں کا ماخذ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ریاستی اقتدار قائم رہیں گے تب تک یہ سلگتا ہوا انتشار کروڑوں زندگیوں کو جہنم بنائے رکھے گا۔ مستقبل کی نجات بلند اور وسیع پیمانے پر ایک نئے ثور انقلاب کی متقاضی ہے۔
متعلقہ:
افغانستان: سامراجی ’گریٹ گیم‘ کی بربادیاں
افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار کون؟