دربارِ وطن میں جب اِک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا، کچھ دُور تو نالے جائیں گے
(فیض احمد فیضؔ)