| تحریر: لال خان |
موجودہ حکمرانوں کے ترقیاتی منصوبوں کے پراپیگنڈے کی نمائش ہو یا حالیہ صوبائی اور مستقبل کے وفاقی حکمرانوں کے نان ایشوز کا واویلا۔ اس سنگین بحرانی معاشرے میں برباد عام انسان ہی ہورہے ہیں۔ میڈیا پر اس ترقی اور الزام تراشی کی لایعنی بحث بظاہر ایک پاگل پن لگتا ہے۔ لیکن اس معاشرے میں رائج نظام زر کے ستم عوام میں تیزی سے ذہنی بیماری او ر پاگل پن پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی نئی رپورٹ پاکستان میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض کے بارے میں چونکا دینے والے اعدادوشمار پیش کررہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں اور ماہرین نفسیات نے ملک میں اس بگڑتے ہوئے عوام کے ذہنی توازن کی سب سے بڑی وجہ غربت، بیروزگاری، ’’سیکیورٹی‘‘ کا خوف اور دوسرے سماجی واقتصادی مسائل بیان کی ہے۔ نہ صرف اس تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ یہ صرف آبادی کے اس حصے کے اعدادوشمار ہیں جن تک اس تحقیقی ادارے کی رسائی ہوسکی ہے۔ ان کے لیے علاج کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور انکے ورثا ایک عرصے تک مختلف مقامات پر ٹکریں مارتے مارتے ان کا علاج کروانے میں ناکام ہو کر تھک جاتے ہیں اور اس کشمکش میں ہار کر ان کو اس بھیانک معاشرے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
بی بی سی کے اس مضمون میں اس موضوع پر لکھا ہے کہ ’’پنجاب میں بورے والا کے قریب صوفی بزرگ بابا حاجی شیر کے مزار پر ملک بھر سے لائے گئے ذہنی مریض اپنی زندگی کے کئی موسم زنجیروں میں درختوں سے بند ھے بسر کررہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بیشتر افراد قابل تشخیص اور قابل علاج ذہنی امراض کے ساتھ جکڑے رہتے ہیں اور انکے خاندانوں کو کسی معجزے کی امید نے جکڑ رکھا ہے۔ گزشتہ چند سالو ں میں یہاں آنے والے ’’پاگلوں‘‘ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ مزار پر لائے جانے والوں کے ساتھ ان کے لواحقین بھی پناہ گزینوں کی طرح وہیں بسیرا کرلیتے ہیں لیکن کئی مریض مزار کے ہی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ امید شاید انکے گھر والوں کا ساتھ چھوڑجاتی ہے اور گھر والے ان کا!‘‘
لیکن یہ تو اس معاشرے اور نظام کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ اس ملک میں تو ذہنی طور پر ٹھیک مریضوں کے علاج کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ یہاں تقریباً 82 فیصد آبادی غیریا نیم سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہے۔ ایسے میں لوگ اگر پاگل پن کے علاج کے لیے مزاروں، پیروں فقیروں اورجادو ٹونے کا آسرا لیتے ہیں تو اس کی وجہ ذہنی اور شعوری پسماندگی کم اور مالی محرومی زیادہ ہے۔ عموماً زیادہ تر تجزیہ نگار ان توہماتی علاج کے طریقوں کا عوام کی جہالت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں لیکن آج کے عوام اتنے بھی جاہل نہیں ہیں۔ ملک کے کئی پسماندہ ترین علاقوں مثلاً بلوچستان کے دور دراز دیہاتوں میں بھی ایسے افراد ملتے ہیں جن کے سیاسی اور سماجی شعور بہت سی بڑی اور مہنگی یونیورسٹیوں کے نام نہاد عالموں سے زیادہ بلند ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف پسماندگی کا نہیں۔ سادہ سی بات ہے لوگوں کے پاس علاج کروانے کے پیسے ہی نہیں ہیں۔ وہ اپنی اس اقتصادی بے بسی میں کئی مرتبہ جان بوجھ کر ایک نفسیاتی کاوش کے تحت اس توہماتی علاج کے ذریعے کو اپناتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کوئی چارہ کار ہی نہیں رہتا۔ جہاں تک سرکاری ہسپتالوں اور علاج کے مراکز کا تعلق ہے تو جس طرح اس شعبے میں بے دردی سے نجکاری کی جارہی ہے یہ سرکاری ہسپتال اور ڈسپنسریاں محض سیمپل کے طور پر ہی رہ جائینگے۔
بالادست طبقے کے اس سیاسی اکھاڑے میں اس طبقے کے تمام حصوں اور گروہوں کے کھلاڑیوں نے محنت کش عوام کے زخموں، بیماری اور علاج کا ایک کھلواڑ بنا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی بھی حکومت آجائے علاج کا بجٹ سب سے آخری نمبر پر سب سے قلیل ہی رہتا ہے۔ موجودہ حکمران عوام کے دکھ درد اور بیماری کا واویلا کرتے ہوئے کئی ہسپتالوں ا ور ہیلتھ سکیموں کے اعلان پر اعلان کیے جارہے ہیں۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن سکرینیں ان کے سرکاری اشتہارات سے بھری پڑی ہیں۔ حزب’’مخالف‘‘ کے سیاست دان عوام کے ان زخموں پر شور مچاتے جارہے ہیں، ان کے دکھ درد کے مرثیے پڑھ رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی سکیموں سے اب علاج نہیں ملتا بلکہ ٹھیکیداروں کی ہی چاندی ہوتی ہے۔ اس درد اور بیماری کی اذیت کو بھی وہ سیاسی رنگ بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ساری سیاست جس نظام کی نمائندہ ہے اس کو اب سیمنٹ یا کپڑا بنانے کی بجائے زخموں اور بیماری کا بیوپار کرنے سے زیادہ شرح منافع حاصل ہوتی ہے۔
اگر ہم ذہنی امراض کے علاج کے لیے ہی سہولیات کا جائزہ لیں تو 20 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں صرف پانچ ایسے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نفسیاتی امراض کا علاج ہوتا ہے اور ماہرین نفسیات کی تعداد تین سو سے بھی کم ہے۔ بی بی سی کا یہی مضمون بتاتا ہے کہ ’’گو کہ بڑے شہروں میں نجی سطح پر نفسیاتی علاج کی سہولیات موجود ہیں لیکن عوام کی اکثریت یہ مہنگا علاج کروا نہیں سکتی‘‘۔ باقی بیماریوں کے لیے بھی سہولیات کی فراہمی کی کیفیت اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لیکن یہاں کوئی ایسی پارٹی اور قیادت موجود نہیں ہے جو عوام کے ان سلگتے ہوئے مسائل، جن کی وجہ سے انکی زندگیاں جہنم بن رہی ہیں، پر کوئی پروگرام اور لائحہ عمل دے سکے یا تحریک چلا سکے۔ یہاں آف شور کمپنیوں والے آف شور کمپنیوں والوں کے خلاف ’’آف شور کمپنیوں‘‘ کے نام پر ہی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ کبھی کسی سیاست دان نے یہ بیان نہیں دیا کہ تعلیم، علاج، روزگار، رہائش، روٹی، کپڑا اور مکان، انصاف، پانی اور نکاس عوام کی بنیادی سماجی واجتماعی ضروریات ہیں۔ یہ اس معاشرے کا حق ہے۔ اور حقوق پیسوں سے اگر ملیں تو پھر اس معاشرے کو فلاحی تو درکنار انسانی معاشرہ کہنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ بس یہ آئینی ترامیم ہی کرسکتے ہیں۔ اور کرتے جارہے ہیں۔ ایسے آئین، قانون اور ترامیم سے اس محنت کرنے والی خلق کا کیا واسطہ جس سے ان کی بد سے بدتر ہوتی زندگانیوں کو کوئی سہولت، کوئی رعایت، کوئی معمولی سا افاقہ بھی نہ حاصل ہوسکے۔
ویسے 18 ویں ترمیم نے صوبائی حکومتوں کو محکموں کی تقسیم کرکے حکمرانوں کی نااہلی اور نظام کے بانجھ پن کو زیادہ بے نقاب کردیا ہے۔ اختیارات کی منتقلی یا صوبوں کو دینے سے اس نظام میں عام انسانوں کے لیے کوئی بہتری حاصل نہیں کی جاسکتی جس کی تاریخی اور اقتصادی معیاد ہی ختم ہوچکی ہے۔ اکثر بڑی پارٹیاں اپنی ناکامیوں کا شور مچا کر نان ایشوز پر واویلے کررہی ہیں۔ لیکن عوام اتنے بھی بے شعور نہیں ہیں کہ انکی اصلیت اور فریب کو اب بھی نہ پہچان پائیں۔ دوسری جانب صحت اور علاج کے شعبے پر قابض ہونے والے کارپوریٹ مگر مچھ ہر سیاسی پارٹی کی اس انداز میں فنڈنگ کرتے ہیں کہ انکے انسانی زخموں کے کاروبار کی منافع خوری میں کوئی کمی لانے کی جرات ہی نہ کرسکے۔ تعلیم کا بھی یہی حال ہے۔ تعلیم کے بیوپاری ہر سیاسی جماعت پر براجمان ہیں۔ سرمائے کی سیاست کو سرمایہ داروں کے مفادات کے مطابق ڈھلنا ہوتا ہے۔ ورنہ نودولتیوں اور وڈیروں کی سیاسی، سماجی اور مالیاتی حیثیت اور وجود بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن حکمرا ن جتنے بھی ستم کرلیں وہ سارے معاشرے کو تو پاگل نہیں بنا سکتے۔ چاہے ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کرجائے ان لٹیرے حکمرانوں کو انسانی جسم اور ذہن کی محنت کا استحصال اپنے منافعوں کے لیے درکار ہے۔ لیکن جہاں پاکستان میں وہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد عام انسان اس معاشرے کے ستم برداشت کرتے کرتے اپنے ذہنی توازن کھوچکے ہیں وہاں یہ ستم ڈھانے والوں کی پہچان بھی کروڑوں محنت کشو ں کو بہت واضح ہوچکی ہے۔ نفرت بھی انتہاؤ ں پر ہے۔ بغاوت بھی دماغوں میں سلگ رہی ہے۔ اس بغاوت کو ایک انقلاب بنا کر اس نظام کو بدلنا ہوگا۔ یہ حکمران پیسے کی ہوس اور لالچ کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ خود ان کی ذہنی حالت مشکوک ہے۔ کروڑوں انسانوں کو متاثر کرتی یہ ذہنی بیماریاں ایک بیمار نظام کے سماجی تعفن کی پیداوار ہیں۔ منافع خوری کی ذہنی بیماری میں مبتلا یہ حکمران اور ان کا نظام سارے سماج کو غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
متعلقہ: