مشرق وسطیٰ: اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!

| تحریر: لال خان |

2011ء کے عرب انقلاب کی المناک پسپائی کے بعد آج جو عرب دنیا کی حالتِ زار ہے وہ ایک نئی بغاوت کے آثار پیش کررہی ہے لیکن فی الوقت یہ خطہ شدید بحران اور انتشار کا شکار ہے۔ ’عرب بہار‘ کہلانے والے انقلابی ریلے نے مصر، تیونس، لیبیا اور یمن کی حاکمیتوں کو اکھاڑ پھینکا تھا اور اسرائیل سے لے کر مراکش اور الجزائر تک حکمرانوں کے ایوان، اس دھماکہ خیز بغاوت سے لرز اٹھے تھے۔

بیروزگاری عرب انقلاب کی بنیادی وجوہات میں سے ایک تھی۔

بحراوقیانوس سے لے کر بحر ہند تک کا سارا خطہ جس انقلابی طوفان کی زد میں آیا تھا اس سے خلیجی ریاستوں کی بادشاہتوں سے لے کر شام کی حاکمیت تک ڈگمگانے لگی تھی۔ اس انقلاب کی پسپائی کی وجہ ایک ایسی انقلابی قیادت اور پارٹی کا فقدان تھا جو ان تحریکوں میں شریک ہوکر ان کی رہنمائی کرتے ہوئے بغاوت کا رخ سرمائے کے اس جبر کے خلاف موڑ دیتی جو ہر ذلت اور محرومی کی بنیادی وجہ ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کا تاریخی، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے سب سے اہم ملک مصر ہے۔ مصر میں انقلابی فتح پورے خطے کے مستقبل کو روشن کرے گی اور یہاں تحریک کی تنزلی سارے مشرقِ وسطیٰ کو مزید بربادیوں کی کھائی میں دھکیلنے کا باعث بن رہی ہے۔ 1990ء کی دہائی سے 2010ء تک کے عرصے میں مصر کے فوجی آمر حسنی مبارک نے آئی ایم ایف کے نسخوں کے تحت معاشی ترقی اور شرح نمو میں بڑا اضافہ کیا تھا جس کے پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ معیشت دانوں اور مفکروں نے بہت گُن گائے تھے۔ لیکن دنیا بھر کی طرح بورژوا معیشت کے اعداد و شمار کی بلندی کے باوجود مصر میں بھی اس سامراجی ادارے کے ’ترقی‘ کے نسخوں سے آبادی کی بھاری اکثریت مزید غربت، ذلت اور محرومی میں گرتی چلی گئی۔ یہی غم وغصہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹا اور حسنی مبارک کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جب کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں اخوان المسلمین کا ’مورسی‘ صدر بنا تو معاشی پالیسی اس کی بھی اسی آئی ایم ایف کے نسخوں کے مطابق ہی تھی۔ اس سے چند ماہ میں ہی انقلاب کا پہلے سے دگنی طاقت کا ایک اور ریلا زیادہ شدت سے ابھرا اور مورسی کو معزول ہونا پڑا۔ ایسے میں قیادت سے محروم تحریک کو فوجی جرنیل عبدالفتح سیسی نے ہائی جیک کرکے اپنی نیم آمریت مسلط کردی۔ اس وقت تک یکے بعد دیگرے دو مرتبہ حکمرانوں کا دھڑن تختہ کر کے عوام بھی تھکاوٹ اور کوئی ٹھوس نتائج حاصل نہ ہونے پر کسی حد تک مایوسی سے دوچار ہو چکے تھے۔ نسبتاً سکوت کی اس کیفیت میں ’ سیسی ‘نے سیاسی اور معاشی جبر سے معاشرے کو دبانے کا سلسلہ شروع کردیا۔
اقتدار کو کسی حد تک جبر کے ذریعے مستحکم کرنے کے بعد سیسی نے مصر کے ایک نخلستان شرم الشیخ کے مقام پر سینکڑوں بیرونی حکمرانوں اور انکے نمائندوں کو دعوت دے کر بلایا۔ یہاں آنے والے بیشتر عرب اور خلیجی حکمران عرب انقلاب کے ریلے اور خصوصاً مصر میں ممکنہ طور پر ایک بار پھر انقلاب کی اٹھان کے خوف سے لرزاں تھے۔ اسی لیے انہوں نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے اربوں ڈالر سیسی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے اس پر نچھاور کردیئے۔ اس میٹنگ میں اہم ترین شخصیت آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈ ہی تھی۔ اس نے اُس صورتحال کو ’’موقع ملنے کے لمحات‘‘ قرار دیا تھا۔ آج اس کے ڈھائی سال بعد استحکام کم اور مصر انتشار کا زیادہ شکار ہے۔ آئی ایم ایف اب مصر سے 12 ارب ڈالر کے نئے’’قرضے‘‘ پر مذاکرات کررہا ہے اور زیادہ کڑی شرائط عائد کررہا ہے۔ جس سرمایہ کاری کے تسلسل سے آمد کی امید تھی وہ سوکھ چکی ہے۔ پہلے سے موجود سرمایہ کار بھی راہِ فرار اختیار کررہے ہیں۔ عوام کی حالت اس نیم آمریت کے تحت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔ 14 فیصد سرکاری افراطِ زرکے باوجود ایک نیا’’ویٹ‘‘(ویلیو ایڈڈ ٹیکس) لگا یا جارہا ہے۔ تیل کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کی جارہی ہے۔ سرکاری بیوروکریسی کی نچلی پرتوں سے برطرفیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ خلیجی ریاستیں جو پہلے ہی 15 سے 20 ارب ڈالر کی امداد دے چکی ہیں اب ہاتھ کھینچ رہی ہے۔ مصر کی کرنسی کو مصنوعی طور پر زیادہ قدر پر رکھا گیا ہے، جبکہ بلیک مارکیٹ میں ڈالردوتہائی زیادہ قیمت پر ہی خریداجاسکتا ہے۔ کرنسی میں یہ بحران اتنا شدید ہوگیا ہے کہ مصر کی ملاں اشرافیہ کے ادارے ’جامعہ الازہر‘ نے ایک فتوے کے ذریعے بیرونی کرنسی رکھنا ’گنا ہ کبیرہ‘ قرار دے دیا ہے۔ دوسری جانب مصر کی دوتہائی معیشت اب غیر رسمی یا کالے دھن پر مبنی ہے۔ 40 فیصد یونیورسٹی گریجویٹ اور نوجوان بیروزگار ہیں۔ مصر میں ڈاکٹروں کی بڑی کھیپ ہر سال فارغ التحصیل ہوتی ہے، لیکن ان کی اکثریت مصر کی بجائے سعودی عرب جا کر کام کرتی ہے۔
موجودہ حالات کے برعکس اگر ہم اس دور کا جائزہ لیں جب عرب میں سوشلسٹ اور بائیں بازو کی تحریکوں کا ابھار تھا، اس وقت مصر میں بائیں بازو کے پاپولسٹ رہنما جمال عبدالناصر نے ہر گریجویٹ کو سرکاری ملازمت دینے کی گارنٹی دے رکھی تھی۔ تب کم از کم تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے کوئی بھی بیروزگار نہیں ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب مصر کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو دس دس سال کے انتظار کے بعد بھی ملازمت نہیں ملتی۔ ’سیسی‘ اندر سے ایک نئے انقلاب سے خوفزدہ ہے، اسی لیے وہ شاید حسنی مبارک کی طرح بے دریغ اور جارحانہ پالیسیوں کی بجائے کچھ میانہ روی سے چلنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن اس نظامِ زر کے بحران میں ہر پالیسی اس لیے ناکام ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں معاشرے کو ترقی دینے کی صلاحیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن اگر مصر میں یہ صورتحال ہے تو باقی عرب دنیا میں بھی بحران شد ت اختیارکرتا جارہا ہے۔ برطانوی اخبار ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ کے مطابق آئی ایم ایف نے یہ انتباہ کیا ہے کہ عراق، ایران، اومان، الجزائر، سعودی عر ب، بحرین، لیبیا اور یمن ایسے ممالک ہیں جن کے بجٹ کے خسارے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب ان کو اُدھار لینا پڑے گا، کیونکہ ان کے زر مبادلہ کے زخائر 5 سال کے اندر ختم ہوجائیں گے۔ اس وقت عرب دنیا کی 35 کروڑ 70 لاکھ آبادی میں اکثریت غربت، بیروزگاری اور خانہ جنگیوں یا انتشار کا شکار ہے۔ داعش جیسے مذہبی جنونی گروہوں کی بربریت زوروں پر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کش اور نوجوان جہاں اسلامی بنیاد پرستی کو مسترد کرتے ہیں اور اس کا شکار بھی ہیں لیکن کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں شدید محرومی کے حالات میں ان بربریت کی قوتوں کو کچھ مادی بنیادیں بھی میسر آتی ہیں۔ سروے کے مطابق 19 فیصد عرب نوجوان ان میں شمولیت کو غلط نہیں سمجھتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ نوجوانوں کی بیروزگاری اور سماجی ومعاشی بیگانگی ہے۔ مالیاتی سرمائے کا دہشت گردی سے رشتہ اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ شام میں عام نوجوانوں کو جس ملازمت میں سب سے زیادہ اجرت حاصل ہوتی ہے وہ مذہبی دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت ہی ہے۔
1980ء سے2010ء کے دوران اس خطے کی آبادی دوگنا ہوئی لیکن وسائل اور آمدن میں ایک چوتھائی اضافہ بھی نہیں ہوسکا تھا۔ سب سے بڑی اور امیر خلیجی ریاست سعودی عرب میں حالات اس حدتک بگڑ چلے ہیں کہ جس حکومت کو ہر سال 226000 نئے روزگاردینا تھے وہ 2015ء کے سا ل میں صرف49000 نوکریاں فراہم کرسکی ہے۔ پوری عرب دنیا میں صرف 35 فیصد افراد ایسے ہیں جن کو کسی بہتر مستقبل کی امید ہے۔ اس سے عوام کی اس نظام سے مایوسی اور مستقبل کی تاریکی سے جنم لینے والی پریشانی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ ’عرب انقلاب‘ سے پیشتر پورے خطے میں 12 سے 15 فیصد بے روزگاری تھی۔ اس انقلاب کی پسپائی کے بعد اب یہ شرح 25 سے 30 فیصد ہوچکی ہے۔ عرب ممالک کے عوام خصوصاً نوجوانوں میں اضطراب اور ہلچل بڑھ رہی ہے۔ انکی بڑی اکثریت اسلامی پارٹیوں اور مذہبی دہشت گرد تنظیموں سے بھی نفرت کرتی ہے۔ لیکن ان کے سامنے اس نہ ختم ہونے والی اذیت سے نجات کا کوئی راستہ واضح نہیں ہورہا۔ عالمی سطح پر سرمایہ داری کا مسلسل زوال اور عرب حکمرانوں کا یہ معاشی اور سیاسی جبر سامراج کے اپنے جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق ایک بڑے دھماکے کے حالات پیدا کررہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ لوگ جمہوری اور مصنوعی سیاسی ڈھانچوں میں تبدیلی تک نہیں رکیں گے۔ یہ اس معاشی اور معاشرتی انقلاب کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ جائیں گے۔ 2011ء کے انقلاب کے اصل محرکات بیروزگاری، غربت، سیاسی و معاشی جبر کے نجات کی جستجو ہی تھی۔ یہ جستجوحتمی منزل تک پہنچنے کیلئے سماج میں انقلابی طلاطم جاری رکھے گی۔

متعلقہ:

عرب انقلاب، پانچ سال بعد