کشمیر: انتخابات، ’بائیکاٹ‘ یا انقلاب؟

| تحریر: نجیب نگارش |

یورپ کے اندر صنعتی اور سرمایہ دارانہ انقلاب کے نتیجہ میں جدید قومیں ظہور پذیر ہوئیں تھیں، اس وقت سرمایہ داری کے ترقی پسند انہ کردار میں جہاں جاگیر داری کا خاتمہ اور سیکولر ریاست کا قیام اہم تھا وہاں بورژوا پارلیمنٹ کا قیام، بادشاہت اور شخصی حکومتوں کے مقابلے میں ایک انقلابی اقدام تھا۔ فرانس کے 1789ء کے انقلاب میں آزادی اظہار، مساوات اور جمہوریت کے نعرے بلند ہوئے جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کے انتہائی ریڈیکل نعرے تھے جن کے گرد بورژوا انقلابات نے جنم لیا۔
محنت کش طبقے کی جدوجہد کے نتیجے میں یورپ کی فلاحی ریاستیں اور جمہوریت کی حاصلات محنت کش طبقے کے لیے کسی حد تک حوصلہ افزا تھیں۔ مگر جیسے جیسے سرمایہ داری یورپ سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلتی گئی اس کا کردار زیادہ رجعتی ہوتا گیا، بالخصوص ان خطوں میں جہاں اسے اوپر سے مسلط کیا گیا۔ مالیاتی و صنعتی سرمائے کی برآمد اور منڈیوں پر قبضے کی لڑائی میں سامراجیت اور نوآبادیات نے جنم لیا۔ پھر نوآبادیاتی خطوں میں انقلابات کے نتیجے میں اس سامراجی غلبے کے خلاف لڑائی کا آغاز ہوا۔ اس کی کلاسیکل مثال امریکہ تھی جہاں برطانوی اور فرانسیسی سامراج کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کے بعد امریکہ بورژوا جمہوریت کا مرکز بنا۔ اس میں اہم کردار یورپ کے ان آبادکاروں کا تھا جو یورپ میں شخصی حکمرانی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کے دوران جلا وطن ہو گئے تھے۔
تیسری دنیا کے ممالک میں جس رجعتی انداز میں سرمایہ داری مسلط کی گئی اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹنا اور لوٹ مار کرنا تھا۔ اس کے لیے مفتوح اقوام کے اندر رنگ، نسل، مذہب، ذات پات، برادری سمیت ہر طرح کے تعصبات پر وان چڑھائے گئے اور تقسیم کروا ور حکمرانی کروکے تحت سامراجی غلبے کو مضبوط کیا گیا۔ ایسے میں تیسری دنیا کے اندر سرمایہ داری مشترک اور غیر ہموار شکل میں مسلط تو کر دی گئی مگر قدیم جاگیرداری اور قبائلی سماج کی باقیات کے خاتمے کے لیے سرمایہ دار طبقے نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس میں اتنی سکت تھی۔ ان سرمایہ داروں کا صرف ایک ہی مقصد تھا، نجی ملکیت میں اضافہ اس کا تحفظ اور منافع۔
برصغیر کی تقسیم بھی ’تقسیم اور حکمرانی‘ انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر کی گئی اور تقسیم کے بعد دونوں طرف جس طبقے کے ہاتھ میں اقتدار سونپا گیا وہ شروع سے ہی عالمی سرمائے کاغلام اور اس کا مطیع تھا۔ نتیجتاً یہاں جس قسم کی ریاستیں پروان چڑھیں وہ شروع ہی سے کسی انقلاب کی بجائے سامراج سے سمجھوتے کا نتیجہ ہونے کے باعث سماج سے کٹی ہوئی تھیں۔ ایسے میں یہاں کی جمہوریت اور آمریت کے درمیان فرق کرنا مشکل رہا ہے۔ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ سرمایہ دار طبقے کی تاریخی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں جس قسم کے انتخابات کروائے جاتے ہیں وہ انتہائی فراڈ اور ڈھونگ ہوتے ہیں۔ یہاں پر کس نے حکومت کرنی ہے کونسی پارٹی کامیاب ہو گی اس کے فیصلے عالمی سامراج اور عالمی مالیاتی اداروں کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ عوام کو جس قسم کے ووٹنگ کے پراسیس میں ڈالا جاتا ہے اس کی حقیقت اب محنت کشوں پر کافی حد تک آشکار ہو چکی ہے۔ جتنے بھی امیدوار الیکشن میں حصہ لیتے ہیں ان کے پیچھے سرمائے کی پشت پناہی ہوتی ہے، پارٹیاں مالیاتی سرمائے کے بل بوتے پر بنائی جاتی ہیں۔ میڈیا سرمائے کا محافظ اور اس ساری لوٹ مار کا حصہ ہے۔ ریاست کا آئین، قانون، ادارے سب نجی ملکیت اور سرمائے کے محافظ ہیں۔ ایسے میں بورژوا پارلیمنٹ بھی حکمران ریاست کا اہم ستون ہے جس کا مقصد محنت کش طبقے کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور سرمائے کی حکمرانی کو مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تیسری دنیا کے ممالک میں تمام پالیسیاں بشمول حکومتوں کی تشکیل، عالمیسامراجی اداروں کی مرضی ومنشا سے بنتی ہیں وہاں تیسری دنیا کی محکوم اقوام کے اندر ہونے والے بورژوا انتخابات سب سے بڑا کھلواڑ ہیں۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں آنیوالے انتخابات پر نظر دوڑا ئیں تو مضحکہ خیز صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد سے پاکستانی ریاست کا کردار جہاں ایک طرف عالمی سامراج کی غلامی رہا ہے وہاں دوسری طرف محکوم قومیتوں کے لیے یہ ریاست ایک قید خانے سے کم نہیں۔ بلوچستان، سندھ، پختونخواہ کو جس جبر کے تحت اس ریاستی ڈھانچے میں جکڑا گیا ہے وہاں پر ریاست جموں وکشمیر کے حوالے سے ہمیشہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک حاکم کارہا ہے اور سامراجی نقطہ نظر سے ہمیشہ کشمیر کو نوآبادی کے طورپرلیا گیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1975ء میں پہلی بار آزادکشمیر اسمبلی کے براہ راست انتخابات کروائے گئے، اس سے پہلے شخصی بنیادوں پر اور بیوروکریسی کے ذریعے اس خطے کو کنٹرول کیا جاتا رہا۔ 1975ء کے اندرہونے والے انتخابات پاکستان کے اندر محنت کش طبقے کی عظیم لڑائی جو 1968-69ء میں لڑی گئی، اس کا نتیجہ تھے۔ مگر یہ حقیقت اپنیجگہ ہے کہ مظفرآباد میں بننے والی ہر حکومت کا فیصلہ اسلام آباد کے ایوانوں میں ہوتا ہے جہاں مسلم کانفرنس پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے اندر فوجی اشرافیہ کے کنٹرول میں رہی ہے وہاں دوسری جماعتیں چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ وغیرہ اس کے فیصلے پاکستانی حکمران ہی کرتے ہیں۔
انتخابات سے پہلے ہی نام نہاد آزادکشمیر میں ایک فضا بنائی جاتی ہے کہ اسی کی حکومت بنے گی جسے وفاق یعنی پاکستانی حکمران طبقہ بنانا چاہے گا۔ نتیجتاً یہاں کے حکمران طبقے کے لوگ کا سہ لیسی اور پاکستانی حکمرانوں کی چاپلوسی میں آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اس بدترین غلامی کے نتیجے میں انہیں مظفرآباد کی حکومت سونپی جاتی ہے جو شروع دن سے ہی پاکستانی حکمرانوں کے دُم چھلہ ہوتے ہیں اور جسے ایک چیف سیکرٹری اور مری میں بیٹھا ہوا ایک فوجی براہ راست کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں کی نام نہاد پارلیمنٹ یعنی اسمبلی اور وزیر اعظم اور صدر براہ راست چیف سیکرٹری اور JOC مری کے آگے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کونسل نامی سامراجی ادارہ جس کا سربراہ براہ راست وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے وہ کشمیر کے تمام مالیاتی معاملات کو براہ راست کنٹرول کرتا ہے۔ کروڑوں روپے کے فنڈز اور بجٹ جو آزادکشمیر کے لوگوں کے لیے بظاہر مختص ہوتے ہیں کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہونے کی صورت میں ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔ آزادکشمیر کونسل کی ایک نشست کروڑوں میں بکتی ہے۔ اسی طرح اسمبلی کے امیدوار کی قابلیت کا اندازہ اس کی غلامی اور چاپلوسی کے معیار سے لگایا جاتا ہے۔ مہاجرین کی 12 نشستیں آزادکشمیر کی حکومت کے قیام کے لیے بلیک میلنگ کے کام آتی ہیں جنہیں براہ راست پاکستانی ریاست مسلط کرتی ہے۔
ایسے میں قومی غیر ت اور خود مختاری کا رونا رویا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کو غداری قرار دے دیا جاتا ہے مگر مسئلہ صرف اتنا نہیں۔ مارکس نے بہت پہلے لکھا تھا کہ محکوم اقوام کے بالادست طبقے سامراجی حکمرانوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر استحصال اور جبر میں براہ راست شامل ہوتے ہیں اور محکوم قومیتوں کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ جہاں ایک طرف عالمی سرمائے کی مالیاتی جکڑ بندی اور حکمران ریاست اور محکوم ریاست کے بالادست طبقے کا فطری اتحاد ہوتا ہے وہاں قوم پرست اس بنیادی نقطے کو نظراندازکرتے ہیں۔ ان کی جانب سے انتخابات کا کبھی بائیکاٹ ہوتا ہے اور پھر اندر سے سودے بازی کی جاتی ہے اور محکومیت کا کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ مگر سرمائے کی اس سیاست میں محنت کش طبقے سے ایک سچ ہمیشہ جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے اوروہ ہے طبقاتی تضاد۔ لینن نے کہا تھا کہ ہر قوم کے اندر دو قومیں ہوتی ہیں، ایک حاکم اور دوسری محکوم یعنی محنت کش طبقات، ان دونوں کے مفادات یکسر متضاد ہوتے ہیں۔ پچھلے 69 سالوں سے حکمرانوں کی سیاست کی یہی کوشش رہی ہے کہ یہ بنیادی سچ شعوری طور پر پاکستان مقبوضہ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے چھپایا جائے، جہاں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو گالی دینا سکھایا جاتا ہے وہاں مظفرآباد کے بالا دست طبقے اور مقبوضہ علاقے کی اپر کلاس کی پاکستانی حکمرانوں سے جڑت اور کاسہ لیسی پر بات نہیں کی جاتی۔
مارکسسٹ بورژواپارلیمنٹ کے کردار کو بے نقاب کرتے ہیں اور اس کے متبادل مزدور جمہوریت اور قومی آزادی کی کھلم کھلاحمایت کرتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بورژوا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرتے ہیں (اگرچہ بعض غیر معمولی حالات میں ایسا کیا بھی جا سکتا ہے، خاص طور پر ایسے انقلابی حالات میں جب عوام خود بورژوا جمہوریت کو مسترد کر چکے ہوں)۔ ایساکیوں ہے؟ درحقیقت لینن کی ایک پوری کتاب اسی سوال کا احاطہ کرتی ہے۔ اپنی کتاب ’’بائیں بازو‘‘ کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری میں لینن اس کی وضاحت کرتا ہے کہ محنت کش طبقہ جب تک اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی پر نہیں اترتا تب تک اس کی وسیع ترپرتوں کے اندر بورژوا جمہوریت کے حوالے سے ابہام ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرستوں یا ’الٹرا لیفٹ‘ رجحانات کی خواہشات کے برعکس پاکستانی وانڈین مقبوضہ کشمیر میں لوگ انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ ایسا عام طور پر وہ اپنے روز مرہ کے مسائل کے حل کی تلاش میں کرتے ہیں۔ مارکسسٹوں کا کام ایک طرف کھڑے ہو کر محنت کشوں کو انقلاب کے بھاشن دینا نہیں ہے جیسا کہ بائیں بازو کے چھوٹے چھوٹے فرقہ پرور گروہوں کی نفسیات ہوتی ہے، بلکہ مارکسسٹ طریقہ کار یہ ہے کہ انقلابی نعروں کو انتخابی مہم میں عوام کے مسائل اور مطالبات کے ساتھ مربوط کیا جائے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی محدودیت اور منافقت کو بے نقاب کیا جائے۔ بورژوا پارلیمانیت کو کسی ’’بائیکاٹ‘‘ کے ذریعے نہیں بلکہ محنت کشوں اور عوام کے شانہ نشانہ عمل میں شریک ہو کر ہی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ عوام زندگی کے تجربات سے سیکھتے ہیں، مارکسسٹ ان کی شعوری سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ چلتے ہیں مگر وہ اس نظام کاحصہ نہیں بنتے، نہ ہی اس بورژوا سیاست میں خود کو ضم کر لیتے ہیں بلکہ عوام کی جدوجہد میں شریک ہو کر اس نظام کو بے نقاب کرتے ہیں، ان کے بنیادی مطالبات کو عبوری پروگرام (Transitional Program) کے ذریعے سوشلسٹ انقلا ب سے جوڑتے ہیں جو کہ محنت کشوں کا پنچائتی جمہوری نظام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی مسئلے پر بغیر کسی ابہام کے مارکسسٹ اپنا واضح موقف پیش کرتے ہیں، یعنی حق خود ارادیت کا دفاع بشمول حق علیحدگی۔ مگر یہاں پر بھی مارکسسٹ ایک بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے، وہ ہے پرولتاری بین الاقوامیت۔ بورژوا قوم پرستی تنگ نظری اور تعصب پر مبنی نظریہ ہے جو قومی مسئلے کو استعمال کر کے محنت کشوں کی عالمی جڑت کے خلاف سرمائے کی حاکمیت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اس کے برعکس مارکسسٹ اس سے آگے کی بات کرتے ہیں، وہ قوموں کی آزادانہ حیثیت، پرولتاری جمہوریت اور برابری کی بنیاد پر سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل کے لیے ناقابل مصالحت جدوجہد کرتے ہیں۔ جہاں مارکسسٹوں کا فریضہ عالمی سرمائے اور سامراج کے کردار کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے، بورژوا پارلیمنٹ سمیت حکمران ریاست کے تمام اداروں کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے وہیں پر بورژوا قوم پرستی کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کرنی ضروری ہوتی ہے۔ سماج کی پچھڑی ہوئی پرتوں کے لئے اپنی تمام تر رومانوی کشش کے باوجود اکیسویں صدی میں جہاں ساری دنیا عالمی سرمائے کی جکڑ بندی میں آچکی ہے ایسے میں بورژوا قوم پرستی تاریخی طور پر متروک نظریہ ہے۔ سرمائے کے گلوبل کردار کے نتیجے میں اور سامراج کی عالمی جکڑ کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کے عہد کا حقیقی انقلابی نظریہ صرف اور صرف سوشلزم اور پرولتاری بین الاقوامیت ہے۔ مارکس کے نعرے ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘ کے تحت آج قومی مسئلے سمیت طبقاتی مسئلے کا حل، بورژواپارلیمنٹ کے متبادل مزدور جمہوریت کی تشکیل اور حقیقی انسانی نجات کا فریضہ آج پرولتاریہ یعنی محنت کش طبقے اور محکوم قومیتوں کے نوجوانوں کے سرپر آن پڑا ہے۔
لینن نے جہاں بورژوا پارلیمنٹ کے حوالے سے مارکسی موقف کی وضاحت کی ہے وہیں پر قوموں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے وہ لکھتا ہے کہ بورژوا قوم پرستی اورپرولتاری بین الاقوامیت دو قطعی طور پر متضاد نظریات ہیں ان میں سے ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو نہ صرف بورژوا پارلیمنٹ کے کردار کو سمجھنا ہو گا بلکہ اس کے خلاف لڑنے کا درست طریقہ کار ڈھونڈنا ہو گااور ساتھ ہی بورژوا قوم پرستی، ’بائیکاٹ ازم‘ اور فرقہ وارانہ سوچ کے خلاف طبقاتی جدوجہد کے کردارکو سمجھنا ہوگا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کسی بھی مسئلے کا کوئی حقیقی حل موجود نہیں۔ 45 لاکھ آبادی پر مشتمل نام نہادآزاد کشمیر کو آج جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے ان کا حل اس نظام کے اندر ممکن نہیں۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں آباد بکھری ہوئی آبادی کے لیے پانی کا مسئلہ، انفراسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی بنیادی سہولیات، جدید تعلیم، روزگارکی فراہمی، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، لینڈ سلائیڈنگ، درختوں کے بڑھتے ہوئے کٹاؤ کا خاتمہ اور اس کے متبادل بائیو گیس کی فراہمی اور سب سے بڑھ کر مشترکہ ثقافت کا پروان چڑھانا، قومی یکجہتی، گلگت بلتستان کے ساتھ زمینی راستے بہتر بنانا، لائن آف کنٹرول کا خاتمہ، انڈین مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور آزاد خود مختارقومیت کی تشکیل، برادری ازم، علاقائی ازم اور قبیلائی سوچ کا خاتمہ، طبقاتی تضاد کا خاتمہ اور غیر طبقاتی سماج کی تشکیل صرف اور صرف طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نہ صرف پاکستانی اور ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے محنت کشوں کی آپس میں جڑت بلکہ پاکستان وہندوستان کے محکوم عوام اور محنت کش طبقے کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت، صرف انہی بنیادوں پر ابھرنے والی تحریک ہی اس خطے کے محنت کشوں کو صدیوں کے جبر سے نجات دلا سکتی ہے۔ یہی انقلابی تحریک آگے چل کر برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

متعلقہ:

کشمیر: عوام سے بیگانہ اقتدار کے انتخابات

کشمیر: اطاعت سے انکار!

کشمیر: عوام کے مسائل اور الیکشن 2016ء