| تحریر: عمر شاہد |
سپین میں دسمبر 2015ء کے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی ہنگ پارلیمنٹ کے نتیجے میں کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے میں ناکام رہی اسی لئے چھ ماہ بعد سپین میں دوبارہ انتخابات 27 جون کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج نے سیاسی تعطل کم و بیش قائم رکھا ہے، سپین کے قانون کے مطابق 350 اراکین کی پارلیمنٹ میں حکومت سازی کے لئے سادہ اکثریت یعنی 176 ارکان کی ضرورت ہے۔ اس بار پھر کوئی پارٹی بھی سادہ اکثریت لینے میں ناکام ہوئی ہے جس کے بعد تجزیہ نگاروں کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں فریقین کے مابین سخت حالات میں مذاکرات ہو نگے جس کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ نتائج کے مطابق دائیں بازو کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی 33.03 فیصد ووٹوں سے 137 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ سوشل ڈیموکریٹ PSOE، پچاسی نشستیں (22.67 فیصد ووٹ) حاصل کر کے ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر اپنی ساکھ بچانے میں کامیاب ہو ئی ہے۔ 9 مئی کو یونائیٹڈ لیفٹ (جس کا اہم حصہ کمیونسٹ پارٹی ہے) اور پوڈیموس کے مابین بننے والا انتخابی اتحاد ’یونیڈوس پوڈیموس‘ (لفظی معنی ’’متحدہو کر ہم کر سکتے ہیں‘‘) ایک اہم پیش رفت تھی لیکن تمام تر تجزیوں کے برخلاف یہ اتحاد 21.11 فیصد ووٹ (71سیٹیں) ہی حال کر سکا۔ اگر دسمبر کے انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو اس بائیں بازو کے اتحاد کی مجموعی نشستوں میں کوئی کمی وبیشی نہیں ہوئی۔ انتخابات سے پہلے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بائیں بازو کا یہ اتحاد ’’انتخابات میں اہم کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے اور ان کا مجموعی ووٹ بنک 25.6 فیصد تک بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ PSOE سے بھی بڑی بائیں بازو کی طاقت بن سکتا ہے‘‘ تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ ریاستی CIS ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق یونائیٹڈ لیفٹ کے 30 سالہ لیڈر ’البرٹو گیرزون‘ ملک میں قائم مقام وزیر اعظم ’ماریانو روجائے‘ اورپوڈیموس کے لیڈر ’پابلو ایگلسیاس‘ سے بھی زیادہ پسندیدہ رہنما بن چکے ہیں۔
سپین میں ہونے والے حالیہ انتخابات 1975ء میں فرانکو آمریت کے خاتمہ کے بعد اہم انتخابات ثابت ہوئے ہیں۔ ان انتخابات نے سپین کے معاشرے میں موجود طبقاتی تفریق کو جہاں ایک طرف عیاں کیا ہے تو دوسری طرف برسوں سے رائج دو پارٹی نظام کو بھی چیلنج کیا۔ سماج میں پائی جانے والی بے چینی اور ریڈیکلائزیشن کا اظہار سیاسی افق پر انتخابی عمل کے دوران ہوا جس میں تھوڑے عرصے پہلے بننے والی بائیں بازو کی جماعت پوڈیموس دسمبر 2015ء میں 20.66 فیصد ووٹوں کے ساتھ 69 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ فرانکو کی آمریت کے خاتمے کے بعد سے سپین کا سیاسی افق دو پارٹیوں، دائیں بازو کی پیپلز پارٹی (PP) اور سپین سوشلسٹ ورکرز پارٹی (PSOE) میں تقسیم تھا۔ PSOE سپین کی قدیم ترین پارٹیوں میں شمار ہوتی ہے جس کی بنیاد میڈرڈ میں 2 مئی 1879ء کو ہسپانوی محنت کشوں نے رکھی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی بنیاد یں فرانکوآمریت کے سابق وزیر مینائل فراگا کے 1976ء میں قائم ہونے والے پیپلز الائنس میں ملتی ہیں۔ 1977ء سے یکے بعد دیگرے ان دونوں پارٹیوں کی حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ لیکن اب محنت کشوں کی مضبوط ترین روایت PSOE نظریاتی دیوالیہ پن اور دائیں بازو کی پالیسیوں کے باعث اپنی عوامی حمایت کھو رہی ہے۔ 2012ء سے 2015ء تک پارٹی کا ووٹ بنک 28.7 فیصد سے کم ہوتا ہوا 22.01 فیصد رہ گیا ہے، حکمران PP کے خلاف ایک نام نہاد حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کے بعد اس کی حمایت میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق PSOE کے40 سال سے زائد عمر کے ووٹرزقدامت پرست جماعتوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں جبکہ زیادہ تر نوجوان ووٹرز بائیں بازو کی نئی جماعتوں مثلاً پوڈیموس کی حمایت کر رہے ہیں۔ پچھلے سال مئی میں ہونے والے علاقائی انتخابات میں کئی اہم شہروں اور علاقوں میں PSOE اور PP کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات میں بھی اہم کامیابیاں پوڈیموس اور دیگر بائیں بازو کی جماعتوں نے حاصل کیں، پوڈیموس کے حمایت یافتہ کونسلروں نے کہا کہ انہوں نے یہ حلف صرف سرکاری جمع خرچ کے لیے لیا ہے اور ان کا وعدہ ہے کہ وہ بادشاہ کے نہیں بلکہ محنت کش طبقے کے وفادار رہیں گے۔ اسی طرح البرٹو گیرزون نے اخباری نمائندگان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں کچھ ہو رہا ہے جو میری طرح کا کمیونسٹ جو ملک کو جمہوریہ بنانا چاہتا ہے عوامی رائے عامہ کے مطابق سب سے قابل قدر سیاست دان بن چکا ہے‘۔ انہوں نے پوڈیموس کے ساتھ بننے والے اتحاد پر کہا کہ ’ ہم طبقاتی جدوجہد میں یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنا چاہیے، وہ (پوڈیموس) پوسٹ مارکسسٹ ہیں لیکن ہماری سمت اور جڑیں ایک ہی ہیں‘۔ نہ جانے ’’پوسٹ مارکسزم‘‘ سے البرٹو کی کیا مراد ہے، تاہم کٹوتیوں اور محنت کشوں پر حملوں کے خلاف پوڈیموس اور یونائیٹڈ لیفٹ کا اتحاد خوش آئند ہے۔ البرٹو گیرزون درحقیقت پوڈیموس کے لیڈر ایگلسیاس سے بھی زیادہ ریڈیکل پروگرام دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کٹوتیوں کی پالیسیاں جاری رہی تو یورپی یونین بھی ختم ہو سکتی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے دسمبر کے انتخابی پروگرام کے مطابق اصلاحات کا نفاذ، کٹوتیوں کی پالیسیوں کا خاتمہ، حکمران جماعت کے عوام دشمن قوانین کا خاتمہ، بجٹ خسارے میں کمی اور ریاستی سرمایہ کاری میں اضافہ شامل ہیں۔ یہ یقیناًکوئی انقلابی سوشلسٹ منشور تو نہیں ہے لیکن روایتی بائیں بازو کے برعکس خاصا ’ریڈیکل‘ ضرور ہے۔ PSOE نے اپنے سابقہ 8 سالہ دور حکومت میں بھی کٹوتیوں کی ’نرم ‘ پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جس کی وجہ سے آبادی کا اہم حصہ سوچنے اور سیاسی رائے بدلنے پر مجبور ہوا ہے۔
ہسپانوی سیاسی منظر نامے میں گزشتہ کچھ سالوں میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کی اہم وجہ مروجہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ہے۔ انتخابی عمل میں حکمران طبقے کی خواہشات کے برعکس کوئی بھی پارٹی اتحاد بناکر ’نارمل‘حالات بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یورپی سامراجی آقاؤ ں کو PSOE اور PP کے تابعدار اتحاد کی اشد ضرورت تھی جو کہ سخت مزدور دشمن پا لیسیوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کے عزائم کو فروغ دے سکیں۔ لیکن دائیں بازو کے ساتھ اتحاد بنانے سے PSOE کا انہدام ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے یہ اتحاد بن نہ سکا، تاہم اب انتخابات کے بعد بھی حکومت بنانے کے لئے ایسا اتحاد خارج از امکان نہیں ہے۔ سیاسی منظر نامے میں قومی شاؤنزم کو فروغ دیا جا رہا ہے اور کیٹالونیا کے قومی مسئلے کو ہوا دی جارہی ہے۔
لینن نے واضح کیا تھا کہ انقلابی عمل کی اولین نشانیوں میں سے ایک حکمرانوں کی پرانے طریقوں سے حکمرانی میں ناکامی ہے جو کہ سپین میں نظر آرہا ہے۔ اس منظر نامے میں محنت کش طبقات کے مابین بڑھتی ہوئی بے چینی کا اظہار پوڈیموس اور یونائیٹڈ لیفٹ کی مقبولیت کی شکل میں ہورہا ہے۔ 2008 ء میں شروع ہونے والے مالیاتی و اقتصادی بحران کے بدترین اثرات یورپ پر پڑے، سپین جو کہ یورپی یونین میں پانچویں بڑی معیشت ہے اس وقت سخت معاشی بحران کا شکار ہے۔ سرمایہ داری کے بوسیدہ جسم میں بحرانات ایک مہلک بیماری کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ سپین میں بھی بحران سے پہلے تک ایک لمبے عرصے سے سستے قرضوں، پراپرٹی ببل، مالیاتی مارکیٹوں اور دیگر سٹے بازیوں جیسے مصنوعی طریقوں سے معیشت کو چلایا جاتا رہا۔ وہ تمام عوامل جو ایک وقت میں سرمایہ داری کو آگے بڑھانے میں مدد کرتے ہیں وہی عوامل بحران لانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس بحران کے اثرات سپین کے لئے بدترین ثابت ہوئے جس میں تمام عرصے کی خوشحالی کا فریب عیاں ہوا۔ معاشی بحران کی وجہ سے کئی کمپنیاں دیوالیہ ہوئیں جس سے بلند پیمانے پر بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ اس کیفیت میں یورپی یونین اور عالمی مالیاتی اداروں کے ایما پر PSOE کے بعد PP کی حکومت نے سخت کٹوتیوں کے پروگرام پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیا۔ ا ن اقدامات کی وجہ سے سماج پر گہرے منفی اثرات پڑے، غیر سرکاری تنظیم اوکسفیم کی رپورٹ کے مطابق OECD ممالک میں بحران زدہ یونان اور میکسیکو جیسے ممالک سے بھی زیادہ سماجی تفریق سپین میں پائی جا رہی ہے۔ معاشی بحران کے آغاز کے بعد 23 لاکھ افراد غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث محض سات سالوں میں عام محنت کش کی تنخواہ میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے نجی کمپنی کا ایک اوسط سی ای او (CEO) ایک عام محنت کش سے 158 گنا زیادہ کما رہا ہے۔ ملک سے ’ٹیکس ہیونز‘ میں سرمائے کی منتقلی کی شرح 2000 فیصد ہو چکی ہے۔ ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 100 فیصد کو چھو رہا ہے۔ حکومتی دعوو ں کے برعکس بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بکھرتی سرمایہ داری نے بے روز گار نوجوانوں کی ایک پوری نسل پیدا کی ہے جنہیں کبھی روزگار ملا ہی نہیں اور نہ ہی ملنے کی امید ہے۔ ملک میں لیبر اصلاحات کے بعد مستقل روزگار کی بجائے عارضی ملازمتوں کی شرح زیادہ ہے۔ سرمایہ دارو ں کو سستی محنت کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے اوسط اجرت تیزی سے کم ہو رہی ہے، مثال کے طور پر اس وقت کل لیبر فورس کے محض 8 فیصد محنت کش ہی مستقل ملازم ہیں اور ان میں بھی ہر تیسر ی ملازمت پارٹ ٹائم ہے یعنی دن میں چند گھنٹے یا ہفتوں میں چند دن ہی کام دستیاب ہے۔ عارضی ملازمتوں کا اوسط دورانیہ 50 دنوں تک رہ چکا ہے۔ قومی ادارہ برائے شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق نئے عارضی ملازمت کے معاہدوں میں تنخواہ کی شرح اوسط تنخواہ سے 39 فیصد کم ہے۔ اس بحران کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ’کریڈٹ سوئس‘ کی رپورٹ کے مطابق 20 فیصد امیر ترین افراد سپین کی 68.8 فیصد دولت پر قابض ہیں جبکہ باقی 80 فیصد آبادی کے پاس صرف 31.2 فیصد حصہ ہے۔ سپین کے زیادہ تر نوجوا ن روزگار کی تلاش میں سپین کی سابق نوآبادیات اور دوسرے یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
اس معاشی و سماجی بحران کے اثرات جہاں عوام پر منفی انداز میں پڑے ہیں وہیں پر اس نے برسوں سے سرمایہ داری کے خلاف دبی نفرت کو بھی سطح پر لانے میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔
2011ء میں علاقائی انتخابات کے دوران کٹوتیوں کے خلاف شاندار’Indignados‘ تحریک شروع ہوئی جس میں ملک بھر میں کٹوتیوں کے خلاف مظاہرے منعقد ہوئے جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس تحریک کا آغاز روجائے حکومت کی ٹیکس اصلاحات، تنخواہوں میں کمی اور کرپشن کے خلاف مطالبات پر ہوا لیکن اس میں پورے سرمایہ دارانہ نظام اورسیاسی افق پر موجود دو پارٹی سسٹم کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا گیا 2012ء میں کان کنوں کی شاندار جدوجہد نے سماج میں ایک نئی ہلچل پیدا کی اور عوام کی وسیع تر پرتوں نے بھی اس تحریک کی حمایت کی۔ یہ شاید 1970ء کی دہائی کے بعد پہلی بار ہو رہا تھا۔ ان تحریکوں نے ایک طرف تو مروجہ نظام کو مکمل طور پر رد کیا تو دوسری طرف نئے سیاسی مظاہر وجود میں آئے جیسا کہ پوڈیموس۔
ان تحریکوں میں جہاں مقداری حوالوں سے عوام بالخصوص محنت کشوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی وہیں پر معیاری حوالوں سے ان کے شعور میں تیز تر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں شعوری طور محنت کشوں نے اہم نتائج اخذ کئے ہیں جن کے تحت مروجہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد کو چیلنج کرتے ہوئے متبادل کو تراشنے کی جستجو تیز ہوئی ہے۔ پو ڈیموس (اور اب یونائیٹڈ لیفٹ کے ساتھ اس کا اتحاد) تھوڑے عرصے میں عوامی امنگوں کا مرکز بنے ہیں۔ برسوں سے قائم روایتی پارٹی کی حمایت تیزی سے کم ہوئی ہے اور نئی بننے والی پارٹیاں تیزی سے مقبول ہوئی ہیں۔ لیکن ماضی میں PSOE کے روایتی پارٹی بننے کی ٹھوس مادی بنیادیں موجود تھیں کیونکہ اس وقت سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش موجود تھی۔ لیکن نئی ابھرنے والی بائیں بازو کی پارٹیوں کے پاس ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کوئی واضح اور ٹھوس انقلابی متبادل فراہم نہ کرنے کی صورت میں وہ تیزی سے مسترد ہو سکتی ہیں۔ ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ پوڈیموس کے ابھار کے باوجود PSOE یکسر مسترد نہیں ہوئی ہے اور اس وقت بھی دوسری بڑی پارٹی ہے جبکہ پوڈیموس تیسرے نمبرپرہے۔ آنیوالے وقت میں PSOE کے اندر ریڈیکلائزیشن کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
دوسر ے مرحلے کے انتخابات میں بھی کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ PSOE کی حمایت اس وقت پچھلے 40 سال میں سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ اسی طرح کچھ عرصے قبل بننے والی دائیں بازو کی ’شہری پارٹی‘ (Citizen Party) نے 32 نشستیں حاصل کی ہیں۔ عالمی اداروں کی طرف سے سیاسی اشرافیہ پر حکومت بنانے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے، شہری پارٹی اور PP کے اتحاد کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ PP کے PSOE کے ساتھ مل کر حکومت بننے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
بڑا بریک تھرو حاصل کرنے میں یونیڈوس پوڈیموس کی ناکامی کی ایک وجہ کمزور انتخابی مہم تھی۔ اسی طرح قیادت میں نظریاتی تذبذت واضح ہے، مثلاً PSOE کے ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش میں پابلو ایگلسیاس کی طرف سے ’نئی سوشل ڈیموکریسی‘ بنانے کا عندیہ اور اپنے پروگرام کو ’’مقبول‘‘ بنانے کے لئے مزید ’’نرم‘‘ کرنے کی کوشش۔ عوامی شعور اس وقت جس تلخ تجربہ گاہ سے گزر رہا ایسے میں ٹھوس اور انقلابی پروگرام ہی عوامی حمایت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ نظریاتی اور سیاسی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ میڈیا بھی بائیں بازو کے اس اتحاد پر شدید حملے کر رہا ہے۔ خاص طور پر وینزویلا ( جو سپین کی کالونی رہا ہے) میں معاشی مسائل کو ’’سوشلزم کی ناکامی‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یونان میں سائریزا (جو پوڈیموس سے ملتا جلتا ہی سیاسی مظہر ہے) کی قیادت کی غداری نے بھی سپین میں منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
ٹراٹسکی نے 1936ء کے انقلابِ سپین کے تناظر میں لکھا تھا کہ ’’سپین کے محنت کشو ں نے جس بہادری سے جدوجہد کی وہ دس انقلاب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے‘‘۔ آج پورا یورپ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اگر دائیں بازو کی مخلوط حکومت بنتی ہے تو وہ انتہائی کمزور ہو گی جسے اقتدار میں آتے ہی محنت کشوں اور عوام پر شدید معاشی حملے کرنا ہوں گے۔ پورے یورپ میں ایک نئے معاشی بحران کے امکانات موجود ہیں۔ ایسے میں طبقاتی جدوجہد میں سپین اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی تیزی آئے گی اور بائیں بازو کے ریڈیکل پروگرام زیادہ مقبولیت اختیار کریں گے بشرطیکہ انہیں ٹھوس انداز میں صبر آزما طریقے سے پیش کیا جائے۔ بہرحال سرمایہ داری کا خاتمہ، جو اس نظام کے بحران در بحران کو منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے، مارکسی قیادت کے بغیر ناممکن ہے۔