تعلیم کا بحران

| تحریر: قمرالزماں خاں |

نئے تعلیمی سال کے شروع ہونے پر نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے فیسوں کا نیا شیڈول جاری کیا گیاتھا، ہمیشہ کی طرح نجی تعلیمی اداروں کے تعلیم فروختگی کے نرخوں میں اضافے کی شرح انکی اپنی طے کردہ تھی۔ ہر سال دوسال کے بعد ان تعلیمی اداروں کی طرف سے فیسوں میں اضافوں کا ہائی جمپ لگایا جاتا ہے، جس کو والدین کی طرف سے ناگواری، احتجاج اور رونے پیٹنے کے بعد قبول کرلیا جاتا ہے۔ اس سال فیسوں میں اضافے کی شرح غیر معمولی ہونے کی وجہ سے والدین کی طرف سے احتجاج کافی شدید تھا۔ تعلیم کی فراہمی سے خود کو بری الذمہ قراردے کر عوام کو ان بے رحم تعلیم فروشوں کے رحم وکرم پر چھوڑدینے والی حکومت کے وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان کا غیرمتوقع بیان ایسے میں سامنے آیا۔ اس بیان میں انہوں نے نجی سکولوں کی جانب سے فیسوں میں اضافہ بلاجواز اور ناقابل قبول قراردیا۔ گذشتہ روز حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں کمی کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اس سرکاری نوٹیفیکیشن میں ’فیسوں میں اضافوں میں کمی‘ کا فارمولہ بڑا مضحکہ خیز ہے، جس میں فیسوں کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنے کے نام پر ’نجی تعلیمی اداروں‘ کو لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ فراہم کردی گئی ہے۔ نوٹیفیکیشن میں ہر جماعت میں بچوں کی تعداد 30 اور پڑھانے والے اساتذہ کی کم ازکم تعلیمی قابلیت، تمام ٹیوشن سنٹر اور ڈے کیئر سنٹرکی ’آئی سی ٹی‘ میں رجسٹریشن کے معاملات کو قانونی شکل دی گئی ہے اگرچہ مسئلہ ان پر عمل درآمد کرانے کا ہوگا جس میں حکومتی اداروں کی کامیابی کا ریکارڈ سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح ادارتی پلیٹ فارم سے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک یا متعصبانہ رویے سے باز رہنے کو کہا گیا ہے۔
private schools cartoonحکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دئیے جانے والے رہنما اصولوں سے سکولوں کی فیس کا ڈھانچہ بنانا ممکن ہوا۔ مثال کے طور پر اگر ایک نجی سکول میں 500 یا اس سے زائد بچے داخل کرنے کی گنجائش ہو، تمام کمرے ایئرکنڈیشنڈ ہوں، اساتذہ کی اوسط تنخواہ 50 ہزار ہو، عمارت کا کرایہ ایک لاکھ ہو، تو وہ میٹرک، ایف اے، ایف ایس سی لیول تک فی بچہ 8350 روپے فیس لیں، جبکہ او لیول اور اے لیول کے لیے یہ فیس 12525 روپے لی جاسکتی ہے۔ نجی سکولوں کو صرف یونیفارم کے ڈیزائن کا حق حاصل ہوگا، وہ بچوں کو سکول یونیفارم کسی مخصوص دکان سے خریدنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ نجی سکولوں کویہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ والدین کے درمیان رابطے کا اہتمام کریں تاکہ بچوں کے نظم ونسق، امتحانات اور اساتذہ کی کارکردگی اور تعلقات کا جائزہ لیا جاسکے۔ نئے قوانین کے تحت اساتذہ کے سروس معاملات کو بھی دیکھا جائے گا، ساتھ ہی ساتھ بچوں کی فیس، ایڈمیشن فیس اور سکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ کا معاملہ بھی دیکھا جاسکے گا۔ نجی سکول صرف فیس اتنی ہی رکھ سکتے ہیں جتنی حد اتھارٹی کی جانب سے مقرر کی گئی ہے۔ یک مشت فیس کی وصولی کی بھی حد مقرر کی گئی ہے۔

اس نوٹیفیکیشن میں چند ایک نکات والدین اور نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو کچھ سہولت فراہم کرسکتے ہیں اگر ان پر عمل درآمد کرانا ممکن ہو۔ زیادہ امکانات ہیں کہ اس نوٹیفیکیشن کے زیادہ سے زیادہ فیسوں کے شیڈول کو ہی نجی سکولوں کی انتظامیہ اپنا چارٹر بنائے گی اور دیگر سہولیات مہیا کرنے میں ہیرا پھیری کی جائے گی۔ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن جیسی ’’تعلیم فروش‘‘انجمنوں کی پشت پناہی کرنے والے بہت ہی طاقت ورصنعتی اور میڈیا امپائر کے سرمایہ دار ہیں، اسی طرح ہر حکومت اور ہر سیاسی پارٹی میں ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو نجی تعلیم کی فروختگی کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کی معاشی، سماجی اور سیاسی قوت انکی لوٹ مار کے خلاف ہونے والے تمام اقدامات کو غیر موثر کرادیتی ہے۔
دیکھا جائے تو معیاری تعلیم کی مفت فراہمی نہ صرف ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے بلکہ آئین کا بنیادی حصہ بھی ہے، وہ آئین جس کے تقدس کی بہت فکر ان جمہوری حکمرانوں کو رہتی ہے!لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بہت سے دوسرے بنیادی سماجی فرائض کی طرح حکمران طبقات اور ریاست یہ فریضہ بھی ادا نہیں کر پائے ہیں۔ علاوہ ازیں ’منڈی کی معیشت ‘کے موجودہ بحران کے سبب ریاستوں پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کی ذمہ داریوں کو بھی نجی شعبے کے رحم وکرم پر چھوڑدیں۔ یہ عمل پاکستان میں تین دہائیوں سے جاری ہے اور اب پنجاب میں بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کی باقاعدہ نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تعلیم کے شعبے کا بجٹ (وفاقی اور صوبائی) انتہائی شرمناک رہا ہے اور اب تو یہ رقم بھی ’پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن‘ جیسے اداروں کے ذریعے ’این جی اوز‘ اور نج کاری شدہ سرکاری تعلیمی اداروں کے نئے مالکان کو دینے کا ارادہ ہے۔ اسی طرح نام نہاد’’تعلیمی ٹرسٹوں‘‘کو دی جانے والی اربوں روپے کی خطیررقم کی وضاحت سرکاری بجٹ میں کہیں موجود نہیں ہے۔
نجی شعبے کو کسی قسم کی قانونی بندشوں، نوٹیفیکیشن، حکم ناموں کے ذریعے ’’کنٹرول‘‘ کرنا ممکن نہیں ہے۔ قانون سرمایہ دار کا غلام بلکہ آلہ کار ہوتا ہے، پاکستان جیسے کرپٹ ممالک میں تو آج تک سرمایہ دار کو پابند کرنے والے کسی قانون پر عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ سوویت یونین کے مقابلے میں سرمایہ داری نے جو نام نہاد ’’ویلفیئر سٹیٹ‘‘ قائم کی تھی وہ آج ہر جگہ پر دم توڑ رہی ہے۔ برطانیہ سمیت دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں کبھی تعلیم مفت تھی اب وہاں فیسوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور تعلیم فروشی کا کاروباربھی جاری ہے۔ ریاستوں کو ہر قسم کی ذمہ داریوں سے نکال کر صرف (ناکام یا کامیاب )ٹیکس وصول کرنے والے ڈھانچے میں تبدیل کئے جانے والے نظام میں جس قسم کی انارکی پیدا ہوجاتی ہے اس کی ایک شکل آج کا پاکستان ہے۔ تعلیم کو اکثریتی محنت کش طبقے کی دسترس سے دور کرنے کی سازش میں مہنگے داموں تعلیم بیچنے والے نجی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیاں اور ریاست کا معاشی نظریہ بھی کارفرما ہے۔
نچلے درجوں سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کو کنٹرول کرنے والے تعلیمی بورڈز کے قوانین، رویہ اور طلبہ سے روا رکھا جانے والا سلوک کسی طور بھی تعلیم کو فروغ دینے والا یا حوصلہ افزائی کرنے والا نہیں قراردیا جاسکتا۔ رول نمبر سلپ، مارکس شیٹ کی طرح کے پانچ پیسوں کی لاگت کے برابر کاغذی چیتھڑوں کوطلبہ کو مہنگے داموں فراہم کرنا، ناروا اور کسی طو ر پر جواز نہ رکھنے والی امتحانی فیسیں، سنگل، ڈبل اور ضربیں لگا کر جرمانے، بورڈ کی کلیرکل غلطیوں کا ہرجانہ بھی بچوں سے وصول کیا جانا، امتحانی پرچوں کی ری چیکنگ کی بھاری بھرکم فیسیں، مائیگریشن چارجز اور دیگر بہت سی مدوں میں پیسے بٹورنے کی روش غریب طلبہ اورانکے والدین کی برداشت سے باہر ہے۔ تعلیمی نظام میں طلبہ کے لئے طرح طرح کے سپیڈ بریکر لگے ہوئے ہیں تاکہ ان کی مخصوص تعداد ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح پر ہر طالب علم کو ’امتحان‘ کے مرحلے سے گزر کر فیل یا پاس ہونا ہوتا ہے تو پھر ’انٹری ٹسٹ سسٹم‘ کی ضرورت کیوں ہے ؟یہ بات سمجھ سے باہر ہے، اگر انٹری ٹیسٹ سسٹم بہت ہی اہم ہے تو پھر پچھلے مرحلے میں بورڈ کا امتحان بے معنی ہوجاتا ہے۔ کوئی منطق، کوئی دلیل حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔ صرف نا اہلی اور پیسے کی ہوس ہی کارفرما ہے۔ یہ سب کچھ سرکاری طور پر ایسے ملک میں کیا جارہا ہے جہاں کل آبادی کا آدھا حصہ اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا اور آبادی کا بہت بڑا حصہ کالج، یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی مالی استطاعت ہی نہیں رکھتا۔ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کو بھی دانستہ طور پر گرایا جارہا ہے، افسرشاہی ہر سطح پر اس گراوٹ کی ذمہ دار ہے۔ سرکاری کالجوں میں طلبہ کے مطلوبہ شعبے یا اساتذہ ہی موجود نہیں ہوتے جس بنا پر انکو نجی کالجوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری سکولوں اورکالجوں میں اساتذہ کے خلاف نجی شعبے کی طرزپر تادیبی کاروائیاں روا رکھنا کسی طوردرست نہیں بلکہ انکی جوابدہی کے لئے طلبہ، والدین اور اساتذہ کی کونسلوں کا قیام ضروری ہے تاکہ طلبہ کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے کہیں بھی غفلت کا ارتکاب نہ ہو۔ نجی شعبے کی طرف سے ایک بڑا الزام سرکاری اساتذہ کے اپنے بچوں کا نجی اداروں میں پڑھناہے، یہ سنجیدہ حملہ ہے، اسکا تدارک اساتذہ سرکاری تعلیم کو معیاری اور ماضی جیسی تابناکی بخش کرہی دے سکتے ہیں۔ مگر محض اساتذہ پر ہی ساری ذمہ داری تھوپنا، نجی شعبے اور تعلیم کی نجکاری کے نظریات پر یقین رکھنے والے عناصر کے باطل پراپیگنڈا کی پیروی کے مترادف ہے۔ سوال پھر یہی آتا ہے کہ ریاست تعلیم کے شعبے پر کتنا خرچ کرتی ہے؟ دنیا میں کم ترین تعلیمی بجٹ (جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد) اور بعض صورتوں میں دانستہ طور پر تعلیمی اداروں کو برباد کرنے کی پالیسی کے ہوتے ہوئے تدریسی محنت کشوں یعنی اساتذہ پر تمام الزام ڈال دینا حکمرانوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہے۔
بہت سے مضامین کی عملی زندگی میں بہت ہی کم افادیت ہے مگر نجی تعلیمی ادارے اپنی مہنگی دکانداریاں چمکانے کے لئے اسے ہر طالب علم کا خواب بنادیتے ہیں، یہ بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہے۔ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ’’سیٹوں ‘‘ کی حد مقرر کرکے تعلیم کو قطعی طور پر نجی شعبے کے خونخوار ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ انٹری ٹیسٹ کی طرح سیٹوں کی تعداد اور ’’میرٹ سسٹم‘‘ کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا بلکہ امتحان پاس کرنے والا ہر طالب علم اگلے درجے میں تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔
مہنگی تعلیم کے بعد بھی کسی منصوبہ بندی کے نہ ہونے اور مسلسل معاشی زوال کی وجہ بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے ان بچوں کا استقبال کرنے کے لئے کھڑا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار بن جانے کی وجہ سے ان شعبوں کو سرکاری شعبے میں چلنے ہی نہیں دیا جارہا۔ ’نجی شعبے میں تعلیم کے نظریے‘ کی اعانت میں عالمی مالیاتی اداروں، افسرشاہی، سیاست کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے عناصر نے اکثریتی محنت کش طبقے کے بچوں کو تعلیمی نظام سے ہی باہر کردیا ہے۔ آج پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو کبھی سکول ہی نہیں گئے، اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انسانیت کے خلاف اس جرم کا تدارک موجودہ نظام کے اندررہتے ممکن نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کو اپنی نسلوں کو جہالت سے بچانے کے لئے اس ظالمانہ نظام معیشت کی بساط لپیٹ کر منصوبہ بند معیشت پر مبنی سوشلسٹ نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی، جس میں تعلیم اور علاج معالجے کا کاروبار ناقابل معافی جرم ہوگااور تمام وسائل ان کو تخلیق کرنے والے اکثریتی محنت کش طبقے کی ضروریات اور مفاد میں خرچ ہوں گے۔