| تحریر: قمرالزماں خاں |
پہلے پہل تو صرف دانشور اور ماہرین ہی کہا کرتے تھے مگر اب سڑکوں اور بازاروں میں بھی یہ بات عام ہے کہ جس مملکت کو اپنی کل آبادی کا (مردم شماری نہ ہونے کے سبب) وثوق سے علم نہ ہو، اسکے اعداد وشمار بے وزن اور بے اعتبارے ہوتے ہیں۔ نہ صرف معیشت کی نمو کے اندازے ہوائی ہیں بلکہ ایسے میں تمام تخمینے بھی تخیلاتی ہی ہوسکتے ہیں۔ میڈیا پر پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ بتائی جاتی ہے جبکہ وزارت خزانہ کے تمام تخمینے 18.5 کروڑ افرادکے مفروضے پر مشتمل ہیں۔ گویا اعداد وشمار اور تمام اہداف کا تعین کرتے ہوئے ساڑھے تین کروڑ افراد کو پہلے مرحلے میں ہی شعوری طور پر معاشی سائیکل سے باہر کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی غیر حکومتی بورژوا ماہرین معاشیات کے مطابق گزشتہ مالی سالوں میں معیشت کی شرح نمو کے اعداد وشمار غیرحقیقی ہیں، انہیں وزیر خزانہ کے دباؤ پر تبدیل کیا گیا ہے۔ پاکستان کے چوٹی کے بورژوا معیشت دانوں اور معاشی تجزیہ نگاروں میں شمار ہونے والے شاہد حسن صدیقی کے مطابق وزیر خزانہ کے بیان کردہ اعداد و شمار کے برعکس 2014-15ء میں 4.7 فی صد کی بجائے شرح نمو 3.1 فیصد رہی ہے، جبکہ اسکے حصول کا ہدف 5.5 فیصد تھا۔ یہ سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے بھی خوفناک صورتحال ہے۔ مبالغہ آرائی پر مبنی اعداد وشمار سے سیاسی مقاصد تو شاید کچھ لمحوں کے لئے حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر خود ساختہ اعداد سے معیشت میں بہتری کی بجائے زیادہ ابتری ہونا یقینی ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہے۔ کل روزگار کا 43 فیصد زراعت سے منسلک ہے جب کہ کل داخلی پیداوار(GDP) میں 21 فیصد حصہ زراعت کے شعبے کا ہے۔ بجٹ سے پہلے شائع ہونے والے اقتصادی سروے میں جاری کردہ معاشی اعداد وشمار کے مطابق زراعت کے شعبے میں مجموعی طور پر 0.5 فیصدمنفی نمو (یعنی کمی) اور کلیدی فصل کپاس کی پیداوار میں 28 فی صد کمی آئی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کی پیش بندی کہیں نظر نہیں آتی۔ بجٹ 2016-17ء میں زراعت کی بحالی کے لئے جو دعوے کئے گئے ہیں ان سے زراعت کی بحالی ممکن ہی نہیں کیوں کہ محض یوریا کھاد کی قیمت میں چارسوروپے کمی کرکے پیداواری لاگت کواتنا کم نہیں کیا جا سکتا جتنا اسے ہونا چاہئے۔ کھاد کی صنعت نجی شعبے اور منافع خوروں کے چنگل میں ہونے کی وجہ سے یوریا اور ڈی اے پی کی قیمت غیر ضروری حد تک زیادہ ہے۔ اگر حکومت زراعت کو بحران سے بچانا چاہتی تھی تو دونوں کھادوں کی بوری کو ایک ہزار روپے سے کم کی قیمت پر لاکر انکے نرخ جامد ہونے چائیں، لیکن نجی شعبے کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ سرمایہ داری کو ’’کنٹرول‘‘ نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح جعلی، غیر معیاری مگر مہنگی ترین کیڑے مار ادویات کی کوالٹی اور قیمت کو کنٹرول کئے بغیر زراعت کی بحالی ممکن نہیں۔ زراعت کومحض بجٹ کے ذریعے نہیں بلکہ دیوہیکل اور مربوط زرعی پالیسی کے ذریعے درست سمت پر لایا جا سکتا ہے۔ ٹیوب ویل کے فی یونٹ نرخ ابھی بھی زیادہ ہیں۔ کپاس والے علاقوں میں کماد (گنا) کی کاشت کی حوصلہ شکنی کے بغیر کپاس کی فصل کی پیداوار کو ماضی کی سطح پر لانا کافی مشکل ہے۔ حکومت کا زرعی پیکج خاصا مشکوک ہے اور اس کے لئے طے کردہ مالیاتی ذرائع کا تعین ہوائی مفروضوں پر مبنی ہے۔ زرعی شعبے کے کروڑوں محنت کشوں اور چھوٹے کاشتکاروں کے لئے موجودہ بجٹ کسی قسم کی کشش کا حامل ہے اور نہ ہی ان کو مخاطب کرکے کسی قسم کی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ جاگیرداروں کے لئے کام کرنے والی کسان تنظیموں کے مطالبات کی طرح بجٹ 2016-17ء کا مخاطب بھی جاگیر دار اور بڑا زمیندار ہی ہے۔
بے روزگاری میں کمی کے دعوے بھی غیر حقیقی ہیں، کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا اور نہ ہی معیشت نظر آنے والی کسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی ہے جو اس قسم کے دعوے کئے جاتے، روزگار کی فراہمی سے حکومت کی مراد عارضی پراجیکٹس میں ملنے والی بغیر سہولیات، لیبر قوانین سے ماورا اورکم ترین اجرتوں والی عارضی اور محدود ملازمتیں ہیں، جن کو اجرتی غلامی کی بدترین شکل قراردیا جاسکتا ہے۔ البتہ اپنی بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے ایک بات تسلیم کی ہے جو پچھلے سال تک 64 فی صد آبادی کے غربت کی لکیر سے نیچے بسنے کا اعتراف ہے، مگر اس اعتراف کے بعد کا دعویٰ سفید جھوٹ ہے کہ غربت میں کمی کرکے اسکے بیس اور تیس فی صد کے درمیان لے آیا گیا ہے۔ یہ معجزہ کس طرح رونماہوا؟ راوی مکمل خاموش ہے۔
قومی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ نہ صرف تمام پیداواری ہدف (جھوٹے اعداد و شمار کے باوجود) حاصل نہ ہوسکے بلکہ قومی بجٹ کی ترجیحات سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بھی ایک غریب اور ترقی پذیر ملک سے کسی طور مناسبت نہیں رکھتیں۔ تجارتی پالیسی کا سفر مسلسل ناکامی کی طرف جاری ہے، جس کی وجہ سے خسارہ (14.5 ارب ڈالر) تاریخی طور پر بڑھ چکا ہے۔ بجٹ کا کل حجم (4500 ارب روپے) بھی غیر حقیقی ہے جو آمدن کے ذرائع اور اہداف سے مطابقت نہیں رکھتا، اخراجات اور آمدن میں خلیج، قرضوں کو اور زیادہ وسیع کرنے والی پالیسی ہے۔ غیر ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ مزید ریکارڈ قائم کرے گا۔ کم سے کم شرح سود کے باوجود نجی شعبے کی جانب سے قرضوں کا عدم حصول داخلی معیشت کی زبوں کو حالی بیان کرتا ہے، دوسری طرف سرکارنے ملکی بینکوں سے قرضے لینے کا بھی ریکارڈ بنایاہے۔ نئے بجٹ اور معیشت کے تناظر میں کوئی ایسا عامل نہیں جو نئے روزگار کی فراہمی یا بے روزگاری میں کمی کی طرف اشارہ کرے۔ حتیٰ کہ چینی سرمایہ کاری والے پراجیکٹس پر پاکستانی لیبر کے کام کرنے کا بھی کوئی معاہدہ نہیں کیا جاتا، صرف سخت محنت، کم اجرت اور شدید استحصال والی (پیڑھی مزدور جیسی) مزدوری پاکستانی مزدورکے حصے میں آتی ہے۔ اسی طرح نواز لیگ کے پسندیدہ امور یعنی موٹرویز اور دیگر شاہراہوں کی تعمیرسے عارضی طور پر بہت محدود روزگار کے ذرائع پر ہی اکتفا کرتے ہوئے اس کو ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ملازمین کی تنخواہوں میں (رننگ بیسک پر 10 فی صداڈھاک الاؤنس) اضافے کی شرح اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی نسبت کئی سوفیصد کم رکھ کرتنخواہ دار ملازمین اور محنت کشوں کی تضحیک کی گئی۔ بغیر کسی قانونی دباؤ اور حصول کے طریقہ کارکے مزدورکی تنخواہ 14 ہزارروپے رکھی گئی جو موجودہ مہنگائی کی کیفیت میں صرف ایک ہفتے کے (محتاط ) خرچ کے برابر رقم ہے۔ نجی شعبے کے کروڑوں مزدوروں کو بجٹ میں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگانا ایک شرمناک قدم ہے جس کو فخریہ اندازمیں پیش کیا گیا۔ اسی طرح ایک سو پندرہ ارب روپے اس مالی سال میں بھی بے نظیر انکم سپورٹ سکیم میں ضائع کیا جائے گا۔ اس رقم کا اسی فی صد سے زیادہ حصہ خردبرد ہوجاتا ہے، اگر ساری رقم بھی غریب بیواؤں کو ملے تب بھی اس رقم سے غربت دورہوسکتی ہے نہ ہی اسکا تدارک ہوسکتا ہے البتہ بھیک کی نفسیات ضرور پروان چڑھائی جاتی ہے۔
فی الوقت سرمایہ داروں کی اس حکومت نے سارا زور سڑکوں اور موٹرویز کی تعمیر پر لگایا ہواہے کیونکہ حکمرانوں کے لئے یہ سب سے زیادہ منافعوں اور کمیشن خوری کا شعبہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی 80 فی صد آبادی مضر صحت پانی پی رہی ہے۔ علاج اور تعلیم کو صوبوں کے سپرد کرنے کے بعد وفاق خود کو مبرا کرکے کھڑا ہے۔ قرضوں کی معیشت سے کیسے جان چھڑائی جائے، بجٹ میں کوئی پیش بندی ہے نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ یہ قرضے کھانے حکمرانوں نے ہوتے ہیں اور ان کی ادائیگی عوام کے ذمے ہوتی ہے۔ جس معاشی راہداری کے چرچے ہیں اس میں سراسر چینی سامراج کا اقتصادی فائدہ ہے مگر پاکستان کے بجٹ میں اس پر بھی سواسوارب روپے اور اسکی سکیورٹی کے لئے ڈیرھ ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ اسی طرح سبسڈی کی آدھی رقم کم کرنے سے مہنگائی غریب آدمی کے گرد اور شکنجہ کسے گی۔
وزیر خزانہ اورحکومت کے دعووں کے برعکس حالات سنگین ہیں۔ ماہرین کے مطابق آنے والے سال پاکستان کی معاشی ابتری میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے اور عالمی معاشی بحران زیادہ شدت سے پاکستانی سماج کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ یہ وہی وقت ہوگا جبکہ سعودی عرب سے (ایک کروڑخارجی مزدوروں) اور دیگر خلیجی ممالک سے 75 فیصد تارکین وطن کی واپسی بھی بڑی تعداد میں ہوچکی ہوگی اور ترسیلات زر کے کل حجم میں سے چالیس فیصد تک کمی آ چکی ہو گی۔
منڈی کی معیشت اپنے بحران اور گہرے زوال میں ماضی کی جزوی منصوبہ بندی کی اہلیت بھی کھوچکی ہے، حکمران طبقہ اچھے خواب دیکھنے کی صلاحیت تک نہیں رکھتا۔ ایک سال کے بجٹ کے بعد ہر ماہ تیل، بجلی، اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ، ضمنی بجٹ اور بوقت ضرورت اعلان کردہ بجٹ میں من مرضی کی تبدیلیاں معیشت پر حکومت کی گرفت اور بجٹ کی ایک سالہ حقانیت کی نفی کرتے ہیں۔ پھر پالیسیوں کا تعین انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے دباؤ اور مفادات کے تحت ہی ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ملک سرمایہ داری کے تحت چل رہا ہے تو پھر اسکے تمام وسائل کا رخ سرمایہ داروں اور پاکستان جیسے سابق نوآبادیاتی ملک میں سامراجی طاقتوں کی طرف ہوگا اور تمام مصائب اور مشکلات کا شکار عوام ہی ہوں گے۔ موجودہ بجٹ لوٹ کھسوٹ کی قوتوں کے لئے بہت اعلیٰ اور تاریخی ہی قراردیا جائے گاکیوں کہ اس کے تمام اہداف کا رخ انہی کی طرف ہے۔ جبکہ خواہشاتی، مشکوک اور مفروضوں پر مبنی اعداد وشمارکی بنا پر دعووں اور توقعات کے نتائج مایوس کن رہنے کی ہی توقع ہے۔ عوام کے لئے یہ بجٹ کوئی بہتری کی نوید لانے کی بجائے ان کی زندگی کو اور زیادہ مشکلات سے دوچار کرنے کا باعث بنے گا۔
متعلقہ: