افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار کون؟

| تحریر: لال خان |

افغانستان میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے ’’خیر سگالی‘‘ کے دورے کا اختتام ہوا ہی تھا اوروہ شاید ابھی قطر کی جانب پرواز میں ہی تھا کہ ایک خود کش حملہ ہوا جس میں رکن پارلیمنٹ سمیت 14 افراد ہلاک ہوگئے۔ خواتین کے لباس میں تین بمباروں نے صوبہ لوگر کی اپیل کورٹ پر فائرنگ کی اور دستی بم پھینکے۔ اس حملے میں چیف پراسیکیوٹر بھی مارا گیا۔

مودی نے افغانستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے

اسی اثنا میں ملااختر منصور کے بعد مولوی حبیب اللہ اخوندزادہ، خبروں کے مطابق طالبان کا نیا سربراہ نامزد یا منتخب کیا گیا ہے۔ اب یہ تو ’خفیہ ادارے‘ ہی جانتے ہونگے کہ یہ سربراہ منتخب ہوتے ہیں یا چنے جاتے ہیں؟ منتخب کون کرتا ہے یا چنتا کو ن ہے؟ یہ وہ راز ہے جو اگر بے نقاب ہوگیا تو شاید بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام آجائیں گے اور پارٹیاں اور اسلامی لیڈر تو کیا ریاستوں کے اندر قائم ریاستوں کے پول بھی کھل جائیں گے۔ ویسے یہ’’پول‘‘ اتنے بھی خفیہ یا پوشیدہ نہیں ہیں جیسا کہ ہمیں باور کروایا جاتا ہے۔
مولوی اخوندزادہ بہت کٹر مذہبی گردانا جاتا ہے اور اس کو سراج حقانی کی بجائے اس لئے سربراہ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ ’’طالبان‘‘ کی ’’تحریک‘‘ کی کسی ’علاقائی ریاست‘ سے قربت نہ ظاہر ہوسکے۔ حقانی نیٹ ورک کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ’’ایجنسیوں‘‘ سے قریبی تعلقات اب کوئی راز کی بات نہیں ہے۔
مولوی اخوندزادہ کو زیادہ تر ’’مذہبی سکالر‘‘ کے طور پر مشہور کیا گیا تھا اور وہ طالبان کی عدالتوں میں ’’ہیڈ قاضی‘‘ بھی رہ چکا تھا اس لیے اسکے جنگجو مزاج ہونے کاکچھ ابہام تھا۔ شاید یہی ابہام دور کرنے کے لیے طالبان نے دہشت گردی کی کاروائیوں کو تیز کردیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں جاری یہ آگ اور خون کا کھلواڑ صرف داخلی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اس میں زیادہ تر عمل دخل بیرونی رہا ہے۔ امریکی سامراج نے 1978ء سے اب تک تقریباً تمام تر دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف بنانے اور بنوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ ایک لمبے عرصے تک ان پراکسی گروہوں کی کھلی اور خفیہ امداد اور مشاورت وغیرہ ’پینٹاگان‘ اور سی آئی اے کی جانب سے جاری رہی۔ امریکہ سامراج اور اس کی آلہ کار مقامی ریاستیں دہشت گردی، پراکسی جنگ اور فسطائیت کے اس طریقہ کار سے نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر میں انقلابات اور تحریکوں کو کچلتے رہے ہیں۔ اس خطے میں بھی یہ سامراجی قوتیں اپنے تسلط اور استعمار کے تسلسل کے لیے اور اپنی اقتصادی اور سیاسی حکمت عملی کوجاری رکھنے کے لئے یہ کھلواڑ کرتی رہی ہیں جو آج تلک مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ پھر یہی پراکسی گروہ ’’کہیں اور‘‘ سے زیادہ مال ملنے اور نئے آقا میسر آنے پر اپنے ان سامراجی آقاؤں کے ہی باغی ہو جاتے ہیں۔
اپریل 1978ء میں افغانستان میں جب ثور سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھا تو اسے کچلنے کے لئے امریکی سامراج کی ایما پر ضیاء الحق نے ’ ڈالر جہاد‘ کو پاکستان کی مستقل سفارتی اور عسکری پالیسی کے طور پر ریاست اور سیاست میں سمودیاتھا۔ ضیاء آمریت کی پاکستان کے طلبہ اور محنت کشوں کے خلاف بربریت اور درندگی کو امریکی سامراجیوں کی نہ صرف حمایت حاصل تھی بلکہ انقلابی قوتوں کو کچلنے کے لیے سامراجیوں نے ضیاء الحق کی اس وحشت کو پوری تقویت بخشی۔ 1996ء میں طالبان کے کابل پر قبضے تک امریکی سامراج نے سعودی عرب اور پاکستانی ریاست کے ذریعے ان کی حمایت کی۔ اس وقت پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔ یعنی ضیاء آمریت کے بعد ’’جمہوری‘‘ ادوار میں بھی یہ زہریلی پالیسی جاری و ساری رہی۔
چینی حکمرانوں نے بھی تقریباً دو دہائیوں سے افغانستان کی معدنیات پر نظر جمائی ہوئی تھی۔ اس وقت افغانستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری چینی سرمایہ داروں کی ہے۔ افغانستان کے صوبے لوگر میں کاپر کی ’مس اینک‘ کان، جس کا شمار دنیا کی بڑی کانوں میں ہوتا ہے، اس وقت چینی کمپنیوں کے پاس ہے۔ اسی طرح ’ دریائے آمو‘کے نواح میں تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر چینی حکمرانوں کی ہی ملکیت میں ہیں۔ اس لیے وہ بھی افغانستان میں جاری پراکسی لڑائیوں میں اپنی حصہ داری ڈال کر اپنے ذخائر کی حفاظت سستے داموں ’’آؤٹ سورس‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ طالبان کے کئی فیصلہ کن دھڑوں کے چینی حکمرانوں سے گہرے روابت ہیں اور چین کے باقاعدہ دوروں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح یورپی سامراجی بھی تھوڑی بہت واردات کرتے رہتے ہیں۔ روس کے موجودہ مافیا حکمران بھی باز آنے والے نہیں ہیں۔ ایرانی ملاؤں اور عرب شہنشاہوں کی پراکسی جنگوں اور استعماری عزائم کے لیے اپنائی جانے والی پالیسیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی ’تذویراتی گہرائی‘ کی پالیسی تو کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن اب بھارتی حکمران اس خطے اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی اور زیادہ کھلی اقتصادی مداخلت پر اتر آئے ہیں۔
مودی کی وزارت عظمیٰ میں جہاں ہندوستان کے عوام میں غربت بڑھ ہی رہی ہے، معاشی ناہمواری شدید تر ہے اور ساتھ ہی دنیا کی سب سے تیز معاشی شرح نمو کا چرچا بھی ہے، وہیں خارجہ محاذ پر بھی اس جارحانہ پالیسی کا اظہار ہورہا ہے۔ افغانستان میں سلمی ڈیم کی تعمیر کے آغاز کے بعد اس کا نام ’’افغانستان بھارت دوستی‘‘ ڈیم رکھ دیا گیا ہے۔ مودی نے دوسرے ’’منصوبوں‘‘ کے لیے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سرمایہ کاری ہر ’بیرونی سرمایہ کاری‘ کی طرح افغانستان کو لوٹنے کے لیے ہی کی جارہی ہے۔
اتنی عالمی و علاقائی ریاستوں اور سامراجیوں کی مداخلت اور ٹکراؤسے افغانستان میں امن کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سامراجی قوتیں افغانستان میں امن، آتشی اور خوشحالی کے لیے نہیں بلکہ گِدھوں کی طرح افغانستان کو نوچنے کے لئے اقتصادی اور جنگی مداخلتیں کررہی ہیں۔ جہاں تک افغانستان کی ’’مخلوط جمہوری حکومت‘‘ کا تعلق ہے تو یہ ایک عالمی سطح کا سیاسی مذاق ہی ہے۔ اشرف غنی اور عبداللہ بین لاقوامی کانفرنسوں اور غیر ملکی سربراہوں کے افغانستان دوروں کے دوران ہی نظر آتے ہیں۔ عام حالات میں وہ بنکر نما محلات میں دُبکے سے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بیرونی ممالک کے حکمران اپنی سکیورٹی ساتھ لاتے ہیں جس میں افغان حکومت کے یہ سربراہ خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ثور انقلاب کے بعد کے قلیل سے عرصے کے سوا، جب افغانستان کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی انقلابی کوشش کی گئی، افغانستان میں ریاست بکھری اور منتشر ہی رہی ہے۔ مختلف صوبوں اور ضلعوں میں مختلف جنگجو سرداروں کے اپنے اپنے راج ہیں۔ ان میں کالا دھن، دہشت گردی اور مذہبی جنون ساتھ ساتھ پلتے ہیں اور ان سرداروں کی آمدن کا وسیع تر حصہ منشیات، ہیروئین اور جرائم کے کاروبار سے حاصل ہوتا ہے۔ ’’طالبان‘‘ بھی کوئی ایک مربوط ڈھانچے میں جڑی ہوئی یکجا لڑاکا قوت نہیں ہیں۔ ان کے مختلف دھڑوں کا کوئی ایک نظریہ ہے نہ کوئی اصول اور حکمت عملی۔ ان دھڑوں کی آپسی لڑائیاں وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہیں، نام بھی بدلتے رہتے ہیں۔ سب دولت اور لوٹ مار کا کھلواڑ ہے جس کو کبھی مذہبی، کبھی قومی، کبھی نسلی اور کہیں فرقہ وارانہ روپ اور رنگ دے دیئے جاتے ہیں۔
افغانستان پاکستان بارڈر پر ویزوں وغیرہ کا شور بھی محض واویلا ہے۔ عام لوگوں سے مال اینٹھنے کے لیے دونوں طرف کے ریاستی اہلکار تکرار کرکے سختی بڑھاتے ہیں اور زیادہ رشوت حاصل کرتے ہیں۔ صدیوں سے اس ’’بارڈ‘‘ کے آر پار عام لوگ بے دھڑک آیا جایا کرتے تھے۔ 1893ء میں برطانوی سامراج نے اس آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے جو ’ڈیورنڈ لائن‘ کھینچی تھی اس کو بھی یہاں کے عوام نے کبھی زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور آنا جانا لگا رہتا ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن افغانستان میں اس نظام زر کے لالچ نے جو خونریزی، سامراجی جارحیت اور مذہبی دہشت گردی کی آگ لگائی ہے، وہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پھیل گئی ہے۔ اس کشت و خون سے نجات کے لئے صدیوں کے رشتوں میں بندھے یہاں کے عوام کو خودہی لڑنا ہوگا۔ ایک طبقاتی جڑت اور انقلاب کے ذریعے ان سامراجی، مذہبی اور قومی جنگوں کا خاتمہ کرنے کے لئے سارے خطے کو سرمایہ داری سے پاک کرنا ہو گا۔

متعلقہ:

چابہار بندر گاہ اور کاروباری سفارت کاری

ثور انقلاب آج بھی مشعل راہ ہے!

افغانستان کا کہرام

افغانستان: ’’گریٹ گیم‘‘ کی پیچیدگی

امریکی انخلاء کے بعد افغانستان؟