| تحریر: لال خان |
تلملاتی دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی میں اس کٹھن زندگی کو گزارنے کی ضروریات کی تگ و دو میں جہاں خلق لگی ہوئی ہے وہاں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے بھی جاری ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز، ینگ نرسز، اساتذہ اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ محنت کش اپنے کام کی اذیتوں اور معاشی جبر سے تنگ آکر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ محنت کش نہ صرف شدید گرمی کی شدت کو برداشت کر کے سڑکوں پر نکلے ہیں بلکہ یہ احتجاج ظاہر کرتے ہیں کہ بظاہر ’وائٹ کالر‘ محنت کشوں کے حالات زندگی بھی کس قدر تلخ ہو چکے ہیں کہ وہ سب کچھ داؤ پر لگا کر بنیادی حقوق کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ تحریکیں اور احتجاج فی الوقت بکھرے ہوئے ہیں اور مختلف اداروں کے محنت کش الگ الگ جدوجہد کر رہے ہیں، ایسے میں حکمرانوں کے لئے انہیں دبانا اور ہوائی وعدے کر کے بعد میں مکر جانا آسان ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں ذرائع ابلاغ بھی ان کو ثانوی سی کوریج دے کر خانہ پری کرتے ہیں۔ عمومی طور پر پہلے سے تنگی اور محرومی کے معاشرے میں بقا کی جدوجہد میں غرق عوام اپنے مسائل کو انفرادی کوشش سے حل کرنے کی جدوجہد میں محو رہتے ہیں لیکن محنت کش طبقے کی جدوجہد صرف اور صرف اجتماعی اور اشتراکی کاوش کے ذریعے ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ ایک ادارے کے اندر بھی محنت کشوں کو یکجا ہو کر لڑنا پڑتا ہے اور مختلف اداروں کے محنت کش ایک دوسرے کے ساتھ جڑت بنا کر ہی اپنی محنت سے سماج کو چلانے اور روکنے کی صلاحیت کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔
نوجوان ڈاکٹروں اور نرسز کے احتجاج بنیادی طور پر اجرتوں میں اضافے اور سروس سٹرکچر کے لئے ہیں جبکہ اساتذہ سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اگر یہ نجکاری آگے بڑھتی ہے تو نہ صرف ان کی اجرتوں میں کٹوتیاں ہوں گی بلکہ نوکریوں کو بھی خطرہ لاحق ہو گا اور پنشن اور دوسری معمولی نوعیت کی مراعات بھی چھین لی جائیں گی۔ سرمایہ داروں کی روایتی پارٹی کی موجودہ حکومت کھل کر نیو لبرل معاشیات کی جارحیت کر رہی ہے جس کے ذریعے ایک بتدریج طریقے سے علاج اور تعلیم سے سرکار راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔
ان دو بنیادی اور اجتماعی ضروریات کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے اور انسان ہر مجبوری کو فراموش کر کے اور ہر قربانی دے کر بھی علاج اور تعلیم کا حصول چاہتا ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور بزرگوں کے علاج کے لئے انسان کچھ بھی کر جانے کو تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن موجودہ نظام جس بحران کا شکار ہو چکا ہے اس کیفیت میں ان دونوں ضروریات کا حصول مہنگا اور آبادی کی اکثریت کے لئے نا ممکن بناتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بنیادی ضروریات نجی شعبے کے حوالے کر دینے سے خرید و فروخت کی اشیا بن جاتی ہیں اور ان کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح ان شعبہ جات میں کام کرنے والے محنت کشوں سے مستقل روزگار اور سہولیات چھین لی جاتی ہیں اور انتہائی کم اجرتوں پر ان سے دن رات کام لیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کا جینا محال سے محال تر ہو جاتا ہے۔
علاج اور تعلیم کے لئے سرکاری شعبے سے رجوع کرنے والے بھی غریب عوام اور محنت کش ہیں جبکہ ان سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کا تعلق بھی انہی طبقات سے ہے۔ مارے ہر طرف محنت کش ہی جاتے ہیں۔ ایسے عہد میں جب وسیع تحریکوں کے ریلے نہ اٹھ رہے ہوں ایسے میں ان احتجاجی تحریکوں میں آنا، انہیں چلانا اور جاری رکھنا ذہنی اور سماجی طور پر دشوار ہو جاتا ہے۔ لیکن ان سب مصائب کے باوجود حالیہ دنوں میں نرسز اور اساتذہ کا سڑکوں پر آنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی زندگیاں کتنی مشکل ہو چکی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے وسیع تر آبادی کن حالات میں زندہ ہے۔
نواز لیگ تو جو کر رہی ہے سو کر رہی ہے، لیکن بدترین جبر پختونخواہ میں نظر آیا جہاں احتجاج کرنے والی نرسز پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے نہ صرف تشدد کیا بلکہ پچاس سے زائد نرسز پر مقدمات قائم کر کے انہیں جیل بھیج دیا اور اسی طرح درجنوں نرسز کو نوکریوں سے برطرف کر کے ہاسٹلوں سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ ’’شفاف جمہوریت‘‘ کی ٹھیکیدار تحریک انصاف کی ’’تبدیلی‘‘ ہے جس میں محنت کش خواتین کو احتجاج کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ نو دولتی سرمایہ داروں اور درمیانے طبقے کی انتہائی رجعتی پرتوں کی اس جماعت سے اسی فسطائیت کی امید کی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف حکمران ’’شرح نمو‘‘ کے ریکارڈ بنا رہے ہیں، اپنی معاشی پالیسیوں کے گن گا رہے ہیں۔ افراط زر اتنی کم بتائی جا رہی ہے کہ اتنی شاید اس وقت یورپ اور امریکہ میں بھی نہیں ہے جہاں تفریط زر معیشت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مہنگائی میں کمی کے دعوے کئے جا رہے ہیں، لیکن پھر مراعت یافتہ سمجھے جانے والے محنت کش بھی کیوں احتجاج کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں؟ ان تحریکوں کی جتنی بھی تحقیر کی جائے، میڈیا انہیں جتنا بھی نظر انداز کرے، فی الوقت یہ جتنی بھی معمولی نظر آ رہی ہوں لیکن یہ کسی بڑے طوفان کی نوید ضرور سنا رہی ہیں۔
میڈیا پر کبھی پاناما لیکس کا شور ہے تو کبھی بجٹ کا واویلا ہے۔ اخبارات کی شہہ سرخیوں اور ٹیلیوژن کے ٹاک شوز میں سے ایک طویل عرصے سے اکثریتی آبادی کے سلگتے ہوئے مسائل کو غائب کر دیا گیا ہے۔ بس نان ایشوز کی بھرمار ہے۔
بجٹ ہر سال پیش ہوتا ہے۔ اس نظام زر کی رکھوالی کوئی بھی حکومت ہو، اس کی تعریفوں کے پل باندھتی ہے۔ اپوزیشن ایک رسمی سی مخالفت کر کے اور ’’غریب دشمن بجٹ‘‘ قرار دے کر اپنا روایتی کردار ادا کرتی ہے۔ پھر جب آئی ایم ایف کے مسلط کردہ ان احکامات پر ووٹنگ کی باری آتی ہے تو مصنوعی ترامیم کے بعد سب پاس کر دیتے ہیں، کبھی کبھار واک آؤٹ کا ڈرامہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس سیاست میں ’’منجھا ہوا سیاست دان‘‘ اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو اس طرح کی فنکاری اور منافقت میں ماہر ہو۔ بجٹ کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا اور یہ ووٹنگ وغیرہ بھی بیہودہ ناٹک ہے۔ یہ بجٹ ’’پاس‘‘ ہو کر آئی ایم ایف سے یہاں تک پہنچتا ہے، یہاں ہر مہینے ایک نیا ٹیکس لگایا جاتا ہے، عوام پر کوئی نیا معاشی حملہ کیا جاتا ہے، بھاری سود پر نیا قرضہ لیا جاتا ہے جسے عوام نے چکانا ہوتا ہے، اس سب کا پارلیمنٹ اور بجٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
آج اگر نرسز اور اساتذہ نکلے ہیں تو پچھلے کچھ عرصے میں او جی ڈی سی ایل، واپڈا اور پی آئی اے کے محنت کشوں نے تحریکیں چلائی ہیں۔ یہ سب سرکاری ادارے ہیں جہاں نحیف اور بکھری ہوئی شکل میں ہی سہی لیکن ٹریڈ یونینز موجود ہیں۔ لیکن تعمیرات، صنعت، ٹرانسپورٹ، سروسز وغیرہ پر مشتمل معیشت میں اکثریتی حصہ رکھنے والا سیکٹر ایسا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کالے دھن سے وابستہ ہے اور سرکاری اعداد و شمار میں ہی نہیں آتا۔ یہاں احتجاج اور ہڑتال تو دور کی بات یونین سازی کا نام نشان بھی سفاک جبر سے مٹا دیا گیا ہے۔ یہی حالت حکومتی ریکارڈ میں آنے والے نجی شعبے کے تقریباً تمام اداروں کی ہے۔ یہاں مالکان کے پاس غنڈوں اور جاسوسی کے نیٹ ورک سے لے کر ’’قانونی‘‘ طریقوں تک، محنت کشوں کی یونین سازی کو توڑنے کے حربے موجود ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان میں 98 فیصد محنت کش ٹریڈ یونینز یا کسی قسم کی تنظیموں یا انجمن میں منظم نہیں ہیں اور مارکس کے الفاظ میں غیر منظم محنت کش سرمایہ داروں کے لئے ’خام مال‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟ یہ سرمایہ دار حکمران محنت کش عوام کو ہمیشہ کے لئے معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر کچلتے چلے جائیں گے؟ کیا محنت کش طبقہ اتنا لاچار ہو چکا ہے کہ وہ اب اٹھ نہیں سکے گا؟ غلام داری اور جاگیر داری کی جبر و وحشت تو محنت کشوں نے سینکڑوں ہزاروں سال برداشت کی ہے۔ لیکن زرعی اور صنعتی انقلابات کے بعد سرمایہ داری میں بغاوتوں کا وقفہ صدیوں سے کم ہو کر دہائیوں تک آن پہنچا ہے۔ دنیا آپس میں اس طر ح سے جڑ چکی ہے کہ کسی ایک ملک میں انقلابی تحریک پورے خطے اور پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے 2011ء کے عرب انقلاب میں دیکھا۔ یہ نظام آج جس بحران اور تاریخی متروکیت سے دو چار ہو چکا ہے ایسے میں محنت کشوں کی برداشت اور گنجائش ختم ہو تی جا رہی ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے اس نظام کے ظلم برداشت کریں گے نہ کر سکتے ہیں۔ یہ بغاوت جتنی تاخیر سے ہو گی اتنی ہی شدید اور طاقتور ہو گی۔ اس کی تپش جون کے سورج کی حدت اور آتش فشاں کے لاوے سے بھی زیادہ ہوگی!