| تحریر: لال خان |
نریندرا مودی کی بھی عجیب کارستانیاں ہیں۔ پہلے اس نے سعودی شہنشاہوں سے انکی اسلامی مملکت کا سب سے اعلیٰ ریاستی ایوارڈ حاصل کیا، اسی اثنا میں ابوظہبی اور متحدہ عرب امارت میں انتہائی شان وشوکت سے بھرپور استقبال کروایا، تماشا یہ رہا کہ ’امت مسلمہ ‘ کے نگہبانوں سے ان کی ’اسلامی مملکت‘ کے پہلے ’مندر‘ کا سنگِ بنیاد رکھوایا گیا۔ اب مودی نے ایران کاغیر معمولی دورہ کیا ہے۔ آیت اللہ خامنائی سے بے پناہ گرم جوشی سے ملاقات ہوئی۔ ایران، افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ’چابہار‘ کی بندر گاہ کی وسیع پیمانے پر تعمیر اور دوسرے تجارتی روٹس کا معاہدہ ہوا۔ مودی نے اس بندر گاہ کوتعمیر کرنے کے تمام اخراجات ہندوستان کے ذمہ لئے ہیں۔
’چابہار‘، گوادر سے صرف چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چین نے گوادرپورٹ کی تعمیرکے ٹھیکہ جات حاصل کررکھے ہیں اور اب ہندوستان نے ’چابہار‘ بنانے کا ٹھیکہ حاصل کرلیا ہے۔ مودی نے اس اقتصادی اور کاروباری مفاد کے لئے کیا کیا ناٹک کیے! اپنی تقریر وں میں اس نے ایران اور ہندوستان کے صدیوں کے دیرینہ تعلقات اور قریبی دوستیوں کی داستانیں سنائیں۔ دونوں ممالک کی ’عظیم مشترکہ تاریخ‘ کے قصیدے پیش کیے اور یہاں تک غالب کی شاعری پڑھی اور اسکی فارسی شاعری کی مثالیں پیش کیں۔ لیکن اس کے پیچھے جو مقصد چھپا ہوا تھا وہ ہندوستان کے حکمران طبقات کے مالیاتی اور منافع خوری کے مفادات اور بھارتی ریاست کے سامراجی عزائم کی حکمت عملی ہی تھی۔
’چابہار‘ کی بندر گاہ پر بھارتی حکمرانو ں کی بہت عرصے سے نظر تھی۔ ہندوستان کے مغربی ساحل کی بندر گاہ ’کانڈالہ‘ اور’چابہار‘ کے درمیان فاصلہ دہلی اورممبئی کی دوری سے بھی کم ہے۔ اقتصادی حوالے سے ہندوستان، افغانستان، وسط ایشیا اور روس سے تجارت کے لئے یہ ایک منافع بخش روٹ ہے۔ لیکن یہاں سے سے اہم جنس، جس کی تجارت ہوگی وہ تیل ہے۔ اس وقت چین، ایران سے تیل خریدنے والا سب سے بڑاملک ہے، دوسرا نمبر ہندوستان کاہے۔ مودی نے معاہدے کے بعد اپنے خطاب میں کہا ’’افغانستان کو ایک دوستانہ اور بامعنی روٹ ملے گا جس کی بنیاد پر وہ باقی دنیا سے بہتر تجارت کرسکے گا‘‘۔ مودی سرکارکی طرف سے ایران کو 150 ملین ڈالر کی پہلی قسط سے اس بند ر گاہ کی وسعت اور صنعتی زون کی تعمیر کا آغاز ہوگا۔ اس زون میں بھارتی اجارہ داریاں اور سرمایہ دار کم داموں سے زیادہ منافع خوری کے عزائم رکھتے ہیں۔ ہندوستان اس سستے تیل سے اپنی معاشی ترقی کو چلتے رکھنا چاہتا ہے، جس سے بالادست طبقات اور بی جے پی کی حمایت کرنے والی زیادہ تر مڈل کلاس میں’وسعت‘ لانے کے عزائم ہیں۔
ہندوستان کو ایران پر مغربی پابندیوں کے باوجود امریکہ نے تیل درآمد کرنے کی اجازت دی رکھی تھی لیکن مسئلہ ان پابندیوں کی وجہ سے بینکوں میں رقوم کی منتقلی کی رکاوٹوں کا تھا۔ ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہندوستان کی ریفائنریوں کے مالکان نے ایران کو واجب الاد 6.4 ارب ڈالر فوراً دے دیئے، کیونکہ اب بھارتی سرمایہ دار طبقے کے لئے ایران کی منڈی پر جھپٹنے کے راستے کھل گئے تھے۔ اگر ہم سعودی عرب اور خلیجی بادشاہتوں کی اس ہندوبنیاد پرست (مودی) کے لیے اعزازات اور عزت افزائی کی انتہاؤں کا جائزہ لیں تو اس کے پیچھے بھی کاروباری مفادات ہی ہیں۔ سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں کو اس لیے گرایا تھا کہ امریکہ میں شیل آئل کی پہلے سے مہنگی پیداوار کو روکا جاسکے کیونکہ ایسے میں شیل ٹیکنالوجی سے تیل نکالنے والی کمپنیاں منافع نہ ہونے پر دیوالیہ ہو جائیں گی۔ اس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ لیکن دوسری جانب نئی سعودی حاکمیت کا یہ منصوبہ کہ تیل سے ہٹ کر دوسری بنیادوں پر معیشت کو استوار کیا جائے، محض خود فریبی ہے۔ وجہ بالکل واضح ہے، عالمی سرمایہ داری کے بحران میں جہاں ترقی یافتہ معیشتیں بحال ہونے میں ناکام رہی ہیں وہاں سعودی عرب کی معیشت کیسے صنعتی اور’خدمات کے شعبے‘ (سروسز) کے پھیلاؤ سے ابھر سکتی ہے۔ اس لئے ان کو سستا تیل بیچ کرہی گزارہ کرنا پڑے گا، لیکن جس طرح بحران سنگین ہوگیا ہے اس سے نکلنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایران کے ملاؤں کے ہندوستان کے ساتھ اس گہرے یارانے کے ناٹک کا مقصد بھی کاروباری ہے۔ افغانستا ن میں سامراجی سنگینوں کے سائے تلے بھلا کونسی آزاد اور خود مختار حکومت ہوسکتی ہے۔ سامراجی جوڑ توڑ سے بنی غنی اور عبداللہ کی ’’مشترکہ‘‘ حکومت کے پاس کابل اور چند دوسرے شہروں کے سوا کہیں حکومت موجود نہیں ہے۔ اسی سبب امریکی اور دوسرے سامراجی مداخلت کار ممالک، طالبان اور دوسرے جنگجو گروپوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ کہیں دھونس اور کہیں ’مذاکرات‘ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ غنی کی ترجیحات اور دوستانے بھی اس لیے اتنی جلدی بدلتے رہتے ہیں کیونکہ اس کا اپنا اقتدار نحیف ہے اورلڑکھڑاتا ہی رہتا ہے۔
خونی انتشار اوردہشت گردی سے بھرے افغانستان میں سے تجارت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جیسا اس معاہدے میں بتایا جارہا ہے۔ مودی کی ایک دوسرے سے متحارب سعودی اور ایرانی حکمرانوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں عیارانہ سفارتکاری، معاہدے اور معاشی بندھنوں کی داغ بیل کی کوششیں، انکی دوستی اور دشمنیوں کی حقیقت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ سرمائے کے ان نمائندہ حکمرانوں کا طرز اقتدار چاہے جمہوری ہویا بادہشاہت پر مبنی ہو، آمرانہ ہو یا پھر اسلامی یا ہندو مذہب کے نام پر آمریت کا حامل ہو، سب کے سب آخری تجزیے میں مالیاتی سرمائے کے مطیع اور اسکے احکامات و مفادات کے تابع اور کارندے ہوتے ہیں۔ ایران اور دوسرے مختلف مسلکوں کی داعی اور پیشوا یہ’ اسلامی حاکمیتیں‘ایک ہندو بنیاد پرست کے ساتھ معاہدوں کی بے قراری میں پلک جھپکتے ہی ’اتحادمسلم امہ‘ کو نہ صرف مسترد کرتی ہیں بلکہ بھارتی حکمرانوں سے گہرے مالیاتی بندھن بنانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ اسی طرح مسلم دشمنی پر مبنی ’بی جے پی سرکار‘ ایسے مواقع اپنی اس مسلمانوں سے نفرت کی روایتی سیاسی بنیاد کو ہی فراموش کردیتی ہے جس کے تحت ہندو مت کے جنون کو درمیانے طبقے اور پسماندہ پرتوں میں ابھار کر اس نے حمایت حاصل کی ہوتی ہے۔
اگر ہم پاکستان کے حکمرانوں اور ریاست کی’ سفارتکاری‘ کا جائزہ لیں تو وہ ان مقاصد اور مفادات سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ حاکمیتیں سرمایہ دارانہ نظام کے ایسے دور میں برسراقتدار آئی ہیں جہاں اس نظام کی تنزلی سے ابھرنے والا سماجی بحران ان کے اقتدار کے لئے مسلسل خطرہ بنا رہتا ہے۔ دوسری جانب جن سرمایہ داروں اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کی دولت سے ہندوستان میں الیکشن جیتے اور اقتدار حاصل کیے جاتے ہیں وہ پھر اپنے پیسے کا حساب ان پالیسیوں کی صورت میں مانگتے ہیں جن سے ان بحرانی کیفیات سے نکلنے کے لیے نئی منڈیاں، استحصالی پراجیکٹ، تجارتی راستے اورمعاہدے حاصل ہوسکیں۔ ماضی قریب کی ہی بات ہے، یہی بھارت کا کاروبار ی حکمران طبقہ کانگریس کو اقتدار دلوایا کرتا تھا، لیکن جب اس کو اپنی شرح منافع کے لیے جبر کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے سارے داؤ مودی سرکار بنانے پر لگا دیئے۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا اور ہندو مت کی جنونیت اور وحشت کے ذریعے مودی کو اقتدار دلوایا۔
ْوہ دور بھی تھا جب حکمران طبقات اپنے مالیاتی مفادات کے لیے سیاست میں مذہب کا استعمال آخری کاروائی سمجھ کر کیا کرتے تھے، لیکن آج ان کے نظام کا بحران اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ ہر طرف مذہب اور مذہبی انتہا پسندی یا بنیاد پرستی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک الگ ’طرز سیاست‘ ہی بن گیا ہے۔ جہاں بھی مذہب کا سیاست میں استعمال ہوتا ہے وہ مالیاتی سرمائے کی منافع خوری میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایران، افغانستان اور ہندوستان کے محنت کش جو پہلے ہی ذلت اور غربت کی زندگی میں دھکیل دیئے گئے ہیں ان کے لیے ان معاہدوں اور ڈراموں سے کوئی بہتری نہیں ہونے والی۔ یہی حکمرانوں کے اپنے مفادات کی سیاست اور سفارتکاری ہے اورانکی ’مذہبی سیاست‘ کا حقیقی اورعیارانہ تعارف بھی۔ محنت کشوں کو اپنے معاشی، سماجی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اس دولت کے اقتدار کا ہی خاتمہ کرنا ہوگا۔
متعلقہ:
پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟