| تحریر: ظفراللہ |
کئی دہائیاں ایسے گزر جاتی ہیں جب بظاہر یہ لگتا ہے کہ وقت رک سا گیا ہے۔ جیسے کچھ تبدیل نہیں ہورہا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ طویل جمود یا نیم جمود کی کیفیت سماج پر غالب ہوجاتی ہے۔ ان کیفیات میں سوچ اور شعور قدامت پرست ہوجاتے ہیں، اجتماعی شعور رجعت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر چیز زوال کا شکار ہے۔ انسانی سوچ پر یاس اور ناامیدی چھا جاتی ہے۔ حالات زندگی میں کچھ بہتری کی بجائے ہر وقت بے یقینی اور معاشی عدم تحفظ کا جھٹکا رہتا ہے۔ پورا سماج ایک ذہنی اضطراب اور ڈیپریشن کا شکار ہو تا ہے۔ یہ کیفیت آج پورے پاکستانی معاشرے پر حاوی ہے۔ سماج کی مختلف پرتیں مختلف اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ کوئی دو وقت کی روٹی کی تلاش میں سر گرداں ہے توکسی کو نئی گاڑی نہ خریدسکنے کا دکھ کھائے جا رہا ہے۔ نچلا طبقہ تو ہر دور میں برباد ہوتا ہے، اب مسئلہ درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں کا ہے جو مسلسل تحلیل ہو کر ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو کر اپنے حالاتِ زندگی کو پرانے معیار پر بر قرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ایک بحران ہے جو نظام معیشت سے نکل کر سماج، ریاست، اداروں، افراد، خاندان اور رشتے ناتوں میں عفریت کی طرح پھیل رہا ہے۔ صرف پاکستان نہیں، یہ آج پوری دنیا کے کئی ممالک کی معمول کی صورتحال بن چکی ہے۔ جن ملکوں میں معیار زندگی پرمسلسل کٹوتیاں لگ رہی ہیں، اجرتیں کم ہو رہی ہیں، نوکریاں ختم ہو رہی ہیں، وہاں وقفے وقفے سے مزاحمت کی مختلف شکلیں ابھر رہی ہیں جو مختلف سیاسی تشکیلات (Formations) کو بھی جنم دے رہی ہیں۔ جیسے یورپ اور امریکہ میں۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ممالک میں معاشی اور سماجی بد حالی اور ابتری کے باوجود بڑے پیمانے پر سیاسی افق پر کسی تحریک کے اظہار نہ کر سکنے کی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے محنت کش طبقے کی عمومی شعوری کیفیت کا ادراک، محنت کش طبقے کے تحرک اور حرکیات (Dynamics) کی جدلیاتی سمجھ بوجھ درکار ہے۔ پھر ان عوامل کا ایک مخصوص ترکیب میں تشکیل پاتے ہوئے کسی ممکنہ سماجی تبدیلی کے محرک کے طور پر سامنے آنا۔ یہ سب وہ بنیادی سوالات ہیں جو سماج میں بنیادی تبدیلی کے لیے بر سر پیکار انقلابی قوتوں کے سامنے ایک چیلنج بن کر کھڑے ہیں۔
عام حالات میں محنت کش طبقے کا اجتماعی طبقاتی شعور واقعات کا تابع ہوتا ہے۔ سوائے انقلابی حالات کے جب شعور حالات اور واقعات پر فتح پا کر ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ سست اور پسماندہ طبقاتی شعوری کیفیت کی اپنی بے پایاں مشکلات اور مسائل ہوتے ہیں جن کا انقلابی قوتوں کو مسلسل سامنا کرناپڑتا ہے۔ سب سے بنیادی سوال طبقے کی تحریک اور اس کی شعوری کیفیت کے ساتھ حکمت عملی اور انقلابی لائحہ عمل کی مطابقت پیدا کرنا ہے۔ یہی وہ حالات ہوتے ہیں جہاں پر موقع پرستی اور زیادہ تر انتہا پسندی جیسے زہریلے اور تباہ کن نظریات اور طریقہ کارکے پروان چڑھنے کے لیے زرخیز زمین میسر آتی ہے۔
’’محنت کش طبقے کا انقلابی شعور کا حامل ہونا‘‘ اور اس کو ’’انقلابی شعور فراہم کرنا‘‘ دو مختلف اور متضاد نظریات ہیں جو اپنی گہرائی میں ایک دوسرے کے دشمن خیالات ہیں۔ موخرالذکر سوچ اور خیال کی بنیاد کے پیچھے کارفرما نظریہ اصل میں محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت پر یقین کا فقدان اور ایک سماج کی انقلابی تبدیلی کو محض ایک انقلابی پارٹی کے اعلان یا انقلابی لفاظی تک محدود کرنے کا نظریہ ہے۔ پاکستان میں پچھلے پندرہ سالوں میں بالخصوص محنت کش طبقے نے مختلف کیفیتوں میں مختلف انداز میں مزاحمتی کردار ادا کیا ہے۔ حالات اور واقعات کا مختلف زاویوں میں اور سمتوں سے محنت کش طبقے کے شعور پر اثرات کا ادراک درست نتائج اخذ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ انہی اثرات کے زیر اثر طبقہ بعض اوقات حیران کر دینے والے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان کے مختلف اداروں کے محنت کشوں نے مختلف سیاسی اور معاشی مطالبات پر چھوٹی چھوٹی تحریکیں بر پا کی ہیں۔ ان میں کچھ تحریکیں زیادہ زوردار تھیں جنہوں نے کسی حد تک سماجی افق پر اپنے آپ کو نمودار کیا۔ جن میں واپڈا، پی آئی اے، OGDCL ،PTCL وغیرہ کی تحریکیں شامل ہیں۔ لیکن سیاسی جمود اور کسی حد تک کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تحریکیں بھی محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کو متحرک کرنے اور جوڑنے میں ناکام رہیں۔ اس کے نتیجے میں طبقے کی مختلف پرتوں میں مایوسی اور بدگمانی کے سائے گہرے ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی محنت کش طبقے او ر عوام کی دوسری پرتوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو تا چلا جا رہا ہے جو کئی سالوں سے اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف شب و روز محنت کی منڈی میں خود کو فروخت کرنے کے باوجود زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ کر جدوجہد کے مختلف مراحل طے کر کے یکسر سماجی تبدیلی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کو روزگار چاہیے۔ کم اجرتیں/آمدنی، بے تحاشا مہنگائی اکثریتی والدین کو مجبور کر تی ہیں کہ وہ بچوں کو سکول سے اٹھوا کر کام پر لگائیں۔ چائلڈ لیبر انہی مادی حقائق پر مشتمل ایک نا گزیر سماجی مظہر ہے جس کا خاتمہ سماجی اور مادی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ پاکستان، نائجیریا کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جس میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 43 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما ادھوری ہے۔ اس ملک میں ہر 3 منٹ میں ایک بچہ ہیضہ سے مر جاتا ہے۔ ہر سال 80,000 بچے نمونیا سے مر جاتے ہیں۔ 1000 میں 90 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا تدارک محض نعرے بازی اور بلند و بانگ جھوٹے دعووں سے نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح تعلیم اور صحت پر بجٹ میں اخراجات میں پچھلے تین سالوں سے مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ بیماریوں کے خاتمے اور صحت مند زندگی کے لیے صحت کے دیوہیکل منصوبوں اور ہسپتالوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ صاف پانی، صاف ماحول چاہئے اور بیماریوں کا باعث بننے والی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہیں۔ لیکن پاکستان کی سرمایہ داری کی حا لت ایسی ہے نہ ہی کبھی رہی ہے کہ اس طرح کے سماجی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ خرچ کیا جائے۔ اسی طرح ضروریات کے ان منصوبوں کی تشہیری حیثیت ممکن نہیں جبکہ میٹروبس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کو کار نامے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری سہولیات میں بہتری سے تعلیم و علاج جیسی بنیادی ضروریات زندگی کا کاروبار کرنے والے سرمایہ داروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان کی معیشت میں گروتھ نہیں ہو رہی اور نہ ہی اگلے کچھ سالوں میں، انفراسٹرکچر اور توانائی کے کچھ بڑے منصوبوں کے باوجود، معاشی ترقی کے امکانات کے بارے میں حکمران بہت زیادہ پر امیدہیں۔ زیادہ تر کوشش کی جارہی ہے کہ اس مدتِ اقتدار میں کچھ نمایاں نظر آنے والے منصوبوں کو مکمل کیا جائے۔ لوڈشیڈنگ میں کسی حد تک کمی لوگوں کے مسائل کم کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بنے گی، کیونکہ مہنگی بجلی کی فراہمی لوگوں کی آمدنی کومزید سکیڑنے کا باعث بنے گی۔ اس تناظر میں ان کمزور اور نحیف کامیابیوں کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے موجودہ عالمی بحران نے ان حکمرانوں سے کسی طویل اور مستحکم معاشی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی صلاحیت چھین لی ہے۔ سلگتے ہوئے سماجی مسائل کو حل کرنے میں یہ حکمران مکمل طور پر ناکام ہیں۔ 6 کروڑ لوگ ماہانہ 3030 روپے سے کم کماتے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 7 فیصد ہے جس میں اپنی اہلیت کے مقابلے میں کم تر روزگار میں موجود لوگوں کو بھی با روزگار شمار کیا گیا ہے، اسی طرح روزگار نہ ملنے پر ٹھیلا لگانے یا رکشہ چلانے جیسی کیفیات کو بھی ’’باروزگار‘‘ شمار کیا جاتا ہے، کنٹریکٹ یا دہاڑی پر کام کرنے والے کروڑوں محنت کش بھی باروزگار ہی شمار ہوتے ہیں۔ حقیقی بے روزگاری یا پھر Underemployment سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کل افرادی قوت کا 70 فیصد غیر رسمی روزگار پر مشتمل ہے جس میں کوئی مراعات یا نوکری کی ضمانت تک نہیں ہے۔ نوجوانوں کو کھپانے کے لیے 15 لاکھ نوکریاں ہر سال درکار ہیں جبکہ معاشی بحران، موجودہ سرمایہ داری کی Capital Intensive کیفیت اور پیداوری شعبے سے مالیاتی شعبے اور سروسز کی طرف سرمائے کی شفٹ کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں روزگار ملنا ناممکن ہے۔ مالیاتی سرمایہ اور خدمات کا شعبہ کل داخلی پیداوار (GDP) کا 50 فیصد ہے۔
ہر سیاسی پارٹی بیرونی سرمایہ کاری کو ترقی کے نایاب نسخے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ FDI پاکستان میں نہیں آ رہی؟ توانائی کے بحران اور امن و امان کے مسئلہ کو بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بالفرض یہ دونوں مسائل حل بھی ہوجائیں تو بھی سرمایہ کاری پیداواری شعبے میں نہ آنے اور پیداواری لاگت مہنگی ہونے کی وجہ سے ممکنہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ جتنی بھی سرمایہ کاری آتی ہے وہ زیادہ تر مالیاتی سرمائے اور اسٹاک مارکیٹ میں آتی ہے جو کہ روزگار اور معاشی ترقی میں معاون ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس کے باوجود بھی جولائی 2015 ء سے مارچ 2016ء تک صرف 993 ملین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں ہوئی ہے۔ مارچ تک 20 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر جمع ہوئے ہیں جو کہ زیادہ تر تارکینِ وطن کی ترسیلات زر پر مشتمل ہیں نہ کہ بر آمدات یا تجارت کے ذریعے جمع ہوئے ہیں۔ یہ عمل ان ذخائر کی کمزوری اور معاشی سرگرمی نہ ہونے کا اظہار ہے۔ اوپر سے 14 ارب ڈالر تک تجارتی خسارہ پہنچ چکا ہے جو کہ ان ذخائر کو ہڑپ کر جائے گا۔ آج پاکستان تاریخ میں سب سے زیادہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہو ہے۔ اب تک 68 ارب ڈالر کا بیرونی قر ضہ واجب الادا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اگلے چار سالوں میں 90 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ مجموعی داخلی و بیرونی ریاستی قرضہ 18 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔
کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں ہے جس کے پاس کوئی ایسا پروگرام ہو جو ان عذابوں سے اس ملک کی عوام کو چھٹکارا دلا سکے۔ حکمران طبقات کے تمام دھڑے لوٹ مار میں مصروف ہیں اور ’’چور چور‘‘ کا شور بھی مچا رہے ہیں۔ تقریباً تمام پارٹیوں کے امیررہنماؤں کے نام پاناما لیکس کی زینت بنے ہیں۔ ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بنائی جاتی ہیں تاکہ اس طریقے سے جائز یا ناجائز ذرائع سے جمع کی گئی دولت کو ٹیکس وغیرہ سے بچا یا جا سکے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اس طرح کے ہتھکنڈوں کی گنجائش پیدا کر کے کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے جمع کی گئی دولت کو قانونی ظاہر کرنے کے طریقے مرتب کئے گئے ہیں۔ سارے چور اور لٹیرے ایک دوسرے کے اوپر کرپشن اور لوٹ مار کے الزام لگا کر دراصل اس پورے نظام کی ناکامی اور نامرادی کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔ اس کرپشن کی انتہا اور حکمران طبقے کے نزدیک اس کے خلاف ممکنہ عوامی ردعمل کے خوف کے پیش نظر اس مسئلے کو زیادہ بڑھا چڑھا کر ایک نان ایشو کا بلبلہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ عوام کی وسیع اکثریت کے لیے حکمرانوں کی کرپشن یا پاناما لیکس کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ عوام حکمرانوں کی اس کرپشن کے حوالے سے بہت پہلے سے واقف ہیں اور ان کے لیے یہ داستانیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اسی لیے عوامی سطح پر پیٹی بورژوا دانشوروں کی خواہشات کے بر عکس کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ کارپوریٹ میڈیا کے بے تحاشا شور کے ذریعے اس نان ایشو کو زبردستی کھینچا جا رہا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصا ف کی طرف سے اس معاملے پر بھر پور توانائیاں خرچ کی جارہی ہیں اور ایک مرتبہ پھر نواز حکومت کو اقتدار سے ہاتھ دھونے کے خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمزور معیشت، پر انتشار سماج، عدم استحکام کی شکار سیاست اور داخلی تضادات سے لبریزریاست میں نواز حکومت بھی ہر لمحہ اس خوف میں مبتلا نظر آتی ہے کہ شاید حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔ اس ریاست میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت اتنی ہی نحیف ہوگی۔
کرپشن کے اس نان ایشو کو حقیقی ایشو اور تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے اس کو عوامی شعور پر مسلط کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ملکی تاریخ میں پہلی بار فوج جیسے ’’مقدس ادارے‘‘ میں بھی کچھ بڑے اور چھوٹے افسروں کو قربانی کا بکرا بنا کر پورے ادارے کی ساکھ کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فوج کے اندر اس چھوٹے سے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فوج اور فوجی جرنیل کر کیا رہے ہیں۔ جرنیلوں کے بچوں کے لیے سمگل کی گئی تیز رفتار ریسر گا ڑیوں کی ٹیسٹ ڈرائیونگ کے لیے کرنل اور میجر سطح کے افسران ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک فوج کے اندر کرپشن کس طرح سرائیت کر چکی ہے اور اس کلیدی ادارے میں ڈسپلن کا کیا حال ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ فوج اور ریاست کے سنجیدہ پالیسی سازوں طرف سے سنجیدگی کے ساتھ کرپشن کو جزوی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو تاکہ پورے کے پورے نظام کو دھڑام ہونے سے بچایا جا سکے۔ ایک سر مایہ دارانہ ریاست دوسرے عوامل مثلاً خوف، جبر اور ہیبت کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ کے بلبوتے پر بھی اپنا تقدس اور وجود قائم رکھے ہوئے ہوتی ہیں۔ اس لیے بعض اوقات حکمران طبقہ اس ریاست اور نظام کے تحفظ، ساکھ اور بقا کے لیے اپنے ہی طبقے پر محدود اورمحتاط واربھی کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکمران طبقے کے مختلف دھڑے اور تمام سیاسی پارٹیاں فوراً ’’ایک پیج ‘‘ پر آجاتے ہیں۔ جہاں اپوزیشن کی نو بڑی چھوٹی پارٹیوں کا پاناما لیکس پر اتحاد در اصل اسی ایک ’’پیج‘‘ پر آنے کی کوشش ہے وہاں اقتدار اور لوٹ مار میں اپنی حصہ داری یقینی بنانے اور بڑھانے کی واردات بھی ہے۔
کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ اس اتحاد کو امریکی آشیرباد حاصل ہے تاکہ نواز حکومت کو پاک چین اکنامک کوریڈور (CPEC) کے منصوبے سے باز رکھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کی سازشی تھیوری کے اندر بھی کوئی صداقت ہو کیونکہ امریکہ، چین اورباقی سامراجی ممالک مسلسل دنیا کے مختلف خطوں میں ایک دوسرے کے خلاف مختلف سطح اور شدت کی پراکسی جنگیں اور دھڑے بندیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن وجہ جو بھی ہو، ایک حقیقت اس سارے عمل میں سامنے آتی ہے کہ یہ ریاست جس معاشی نظام پر قائم ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور، کرپٹ اور عدم استحکام کا شکار ہے جس کی علامات ریاست کے مختلف دھڑوں کے مسلسل آپس میں بر سر پیکار ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس سارے عمل میں پیپلز پارٹی نے بھی بھر پور حصہ ڈالا ہوا ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناتے پیپلز پارٹی کا رہنما خورشید احمد شاہ، نواز حکومت کی کھربوں روپے کی ہیرا پھیری کو قانونی اور ادارہ جاتی تحفظ فراہم کررہا ہے۔ یہ خبریں اب آئے روز میڈیا پر سامنے آتی ہیں اور اس کے بدلے میں پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں کھربوں روپے کی کرپشن پر کوئی پرانا کیس نہ کھولنے کی سودے بازی کی جاتی ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ کرپشن کو اس سیاست میں اب عمومی سند قبولیت حاصل ہوچکی ہے۔ کرپشن کو کنٹرول کرنے کی کسی بھی سنجیدہ، مکمل اور بے رحم کاروائی سے ریاست کے اندر خلفشار میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، بلکہ معیشت ہی دھڑام ہو سکتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت مکمل طور پر نواز لیگ کی کاسہ لیس نظر آ رہی ہے۔ اس نے نجکاری مخالف لفاظی کے باوجود اس عمل کی در پردہ حمایت کی ہے۔ اس سارے عمل میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح پارٹی قیادت فوج، بھارت اور احمدیوں کے معاملے میں انتہائی رجعتی بیان بازی کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو بھی بھارت مخالف بیان دے کے فوجی قیادت کے دلوں میں نرم گوشہ پیداکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پارٹی قیادت ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی عہد کی مزاحمتی تحریک اور کردار کو منفی انداز میں پیش کر کے فوج اور ریاست سے محاز آرائی کو ایک سنگین فعل قرار دیتی ہے اور پوری قیادت پارٹی کا اسٹیبلشمنٹ مخالف تعارف کھرچنے میں مصروف ہے۔ البتہ کہیں کہیں ہمیں ریڈیکل نعرے بازی یا لفاظی بھی بلاول کی تقاریر میں سنائی دیتی ہے، بالخصوص 26 مارچ کے صادق آباد کے جلسے میں، جہاں بلاول نے محدود پیمانے پر طبقاتی سوالوں کو اجاگر کیا ہے۔ اس سے ہمیں نظر آتا ہے کہ کس طرح پارٹی ایک بدحواسی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ایک طرف حکمران طبقات، ریاست اور سامراج کی خوشنودی درکار ہے تو دوسری طرف اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے غریبوں اور محنت کشوں کی بات بھی ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی اب اس کیفیت میں پہنچ گئی ہے جہاں خالی باتوں کی بجائے قیادت کی طرف سے ٹھوس اور ریڈیکل پروگرام دیئے بغیر عوامی حمایت حاصل کرنا کم و بیش نا ممکن ہے۔ لیکن دوسری جانب سیاسی افق کے بائیں طرف کوئی نئی سیاسی تشکیل نہیں ہورہی جس کی وجہ سے یہ سیاست کہیں زیادہ تعفن زدہ ہو چکی ہے اور حکمران طبقات کو محنت کش طبقے پر زیادہ بڑے اور گہرے وار کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ پچھلے سالوں میں تحریک انصاف اپنے مخصوص پیٹی بورژوا نعروں اور ساخت کی وجہ سے محنت کشوں کی بجائے درمیانے طبقے کے مختلف حصوں کی نمائندہ پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ لیکن محنت کشوں کی وسیع اکثریت کو اپنے سلگتے مسائل کے حل کے لیے فی الوقت کوئی سیاسی پلیٹ فارم نظر نہیں آرہا۔
محنت کش طبقے کی شعوری کیفیت، معاشی و سماجی حالات اور سیاسی پارٹیوں کی موجودہ کیفیت کے پس منظر میں اگر دیکھیں تو ہمیں طبقے میں سماجی تبدیلی کی بے پناہ قوت اور صلاحیت ہونے کے باوجود سماج میں ایک نیم جمود کی کیفیت نظر آتی ہے۔ نجکاری مخالف یا دوسرے ایشوز پر چھوٹی اور ایک دوسرے سے کٹی ہوئی تحریکیں سرکاری اداروں میں محنت کشوں کی کچھ منظم پرتوں تک ہی محدود ہیں۔ پاکستان میں ٹریڈ یونینز میں منظم محنت کش طبقہ دو فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صنعت یا سروسز وغیرہ کی منڈی میں قوت محنت بیچنے والے انسانوں کی وسیع اکثریت، جن کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں 12 کروڑ سے زائد بنتی ہے، اس وقت صنعتی یا سیاسی میدان میں تحرک میں نہیں ہیں۔ وقتاً فوقتاً اٹھنے والی چھوٹے پیمانے کی تحریکوں کی پسپائی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ باقی کے سماج پر جمود کی کیفیت حاوی ہے۔ روایتی تنظیموں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا ٹریڈ یونینز، کی قیادت کی غداریوں اور موقع پرستی کی وجہ سے محنت کش طبقے میں پراگندگی کی کیفیت واضح ہے۔ جو چھوٹی چھوٹی بکھری ہوئی تحریکیں ہمیں نظر آتی ہیں وہ ہر عہد (بالخصوص معاشی بحران کے ادوار) کا خاصہ ہیں، ان کی بنیاد پر معروض کی موجودہ کیفیت کو انقلابی یا ’’معیاری تبدیلی‘‘ پر مبنی قرار دینا بیوقوفی اور حماقت ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوچنا اس سے بھی بڑی حماقت ہے کہ معروض ہمیشہ کے لئے لامتناہی طور پر اسی کیفیت میں برقرار رہے گا یا کسی بڑی تحریک کے بیج موجودہ حالات میں موجود نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی سماجی تبدیلی میں موضوعی عنصر کا کردار ادا کرنے کے لیے مستقبل کی سیا سی کیفیات اور طبقاتی جدوجہد کا خاکہ بناناپرتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ سوال ہے کہ موجودہ وقت میں ان عوامل کی کیا کیفیت ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی حکمت عملی کو وضع کیا جانا ہے۔
محنت کش طبقے کا شعوری ارتقا کبھی سیدھی لکیر اور ایک سمت میں نہیں ہوتا بلکہ مختلف واقعات اور حالات کے نتیجے میں مختلف سمتیں اختیار کرتا ہے اور بعض اوقات متضاد ردعمل سامنے آتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے سماج میں انفرادی طور پر طبقاتی شعور بہت ایڈوانس بھی ہوسکتا ہے اور پسماندہ بھی، لیکن عمومی طور پر اجتماعی شعور فیصلہ کن ہوتا ہے جو مختلف کیفیات اور مراحل میں حتمی نتائج اخذ کرنے کی پوزیشن میں جاتا ہے۔ طبقہ زندگی اور تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔ محض کوئی عقلِ کل اور مجرد انقلابی شخص یا تنظیم اجتماعی طبقاتی شعور کو موضوعی بنیادوں پر متحرک نہیں کر سکتے جب تک کہ اس کے لیے طبقے اور معروض کی مخصوص ترکیب نہیں بنتی جو ایک معیاری تبدیلی کو جنم دے سکے۔ ایسی کوشش کا نتیجہ لازمی طور پر انتہا پسندی اور مہم جوئی کی شکل میں نکلتا ہے۔ لیکن اس کا اگر دوسرا رخ دیکھیں تو کسی موضوعی عامل کی عدم موجودگی یا سستی اور کمزوری، تبدیلی کے اس عمل کو مو خر، سست رفتار اور بعض اوقات نامکمل بنا سکتی ہے۔
عالمی سرمایہ داری آج جس مر حلے سے گزر رہی ہے اور پاکستان میں اس کے جو بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات ہیں ان کے پیش نظر اس ملک میں محنت کشوں کا اپنی زندگیوں میں بہتری کے لیے میدان عمل میں نکلنا ناگزیر بن گیا ہے۔ آج چھوٹی سے چھوٹی حاصلات بھی بغیر جدوجہد کے ممکن نہیں ہیں۔ حکمران طبقے کی کیفیت ایک خونخوار درندے کی سی ہے جو اپنی دولت اور منافعوں میں اضافے کے لیے ہمارا خون چوس رہے ہیں۔ یہ نظام مر رہا ہے، حکمران اس کو بچانے کے لئے محنت کشوں کو مار رہے ہیں۔ انسانیت کی بقا اس نظام کے خاتمے سے مشروط ہے، یہ کوئی لفاظی یا نعرہ نہیں بلکہ آج ٹھوس مادی حقیقت بن چکی ہے۔ طبقے، تحریک اور انقلابی پارٹی کا ایک مخصوص نکتے پر ملاپ ہی سرمایہ داری کو اکھاڑ کر سوشلزم کو نسل انسان کا مستقبل بنا سکتا ہے۔