تحریر: لال خان:-
(ترجمہ: فرہاد کیانی)
سامراج کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہولناک طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ہیلی کاپٹر گن شپ سے پاکستانی فوج کی چوکی پر حملے اوراس میں 24فوجیوں کی ہلاکت پہلے سے غیر مستحکم اور بیمار پاک امریکہ تعلقات کے لیے ا یک اور دھچکا ہے۔ اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ، اسامہ بن لادن کا قتل اور حال ہی میں میمو گیٹ کا معاملہ ہوا ہے جس میں عیار حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستانی سفیر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔
ننگی سامراجی جارحیت کا یہ واقعہ افغانستان میں شکست کا سامنا کرتے ہوئے نیٹو کمانڈروں کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری حملہ نہیں ۔ گزشتہ دہائی میں 3500سے زائد پاکستانی فوجی اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔ لیکن فاٹا اور پشتونخواہ میں ڈرون حملوں کے شکار بننے والے ا ن گنت پشتون مردوں، عورتوں اور بچوں کی اموات کا کوئی شمار نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں مغربی دنیا کی نام نہاد لبرل اور سیکولر اقدار کی مدح سرائی کی خاطر بین الاقوامی امداد کی بڑی رقوم ملک میں آئی ہیں لیکن کسی ’’تھینک ٹینک‘‘ یا این جی او کو سامراجیوں کی جانب سے کیے گئے قتل عام کا اندازہ لگانے کے لیے ایک پائی بھی نہیں دی گئی،جس میں اوباما کے آنے کے بعد تیزی آئی ہے اور اسے پاکستانی حکومت اور فوج کی خاموش حمایت حاصل ہے۔
قوی امکان ہے کہ یہ فضائی حملہ 13ستمبر کو کابل کے وسط میں واقع نیٹو ہیڈ کوارٹر اور امریکی سفارتخانے پر حملے کے جواب میں کیا گیا ہے ، جس میں مبینہ طور پر آئی ایس آئی کا حمایت یافتہ حقانی گروپ ملوث تھا۔ امریکی حکام نہ صرف آئی ایس آئی اور بنیاد پرستوں کے مابین تعلقات سے بخوبی با خبر ہیں بلکہ 33برس قبل اپنے سعودی بغل بچوں کی مدد سے انہوں نے یہ ڈھانچہ خود کھڑا کیا تھا۔ کابل میں امریکی سفیر ریان کروکر مصر ہے کہ یہ حملہ ایک اور ٹیٹ کا حملہ Tet offensive نہیں ، 1968ء میں جس نے ویتنام میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا اور امریکی شکست کو تیز تر کر دیا تھا۔حالیہ حملے کا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے سی آئی اے، وائیٹ ہاؤس، پنٹاگان(وزارت دفاع)، محکمہِ خارجہ اور میدان جنگ میں موجود کمانڈروں کے درمیان گہرے اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔
پاکستان میں اس حملے پر بہت ہنگامہ برپا ہے۔ فوج کی جانب سے تند و تیز لفاظی کی گئی لیکن جب ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے فضائی جوابی کاروائی کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے صورتحال کے ’’غیر واضح‘‘ ہونے کا بہانا بنا کر جان چھڑائی۔ پاکستانی حکام نے پاکستان کے راستے جانے والی نیٹو سپلائی بند کر دی ہے ،15روز میں امریکہ کو شمسی ائیر بیس خالی کرنے کا ’’الٹی میٹم ‘‘دیا ہے اور افغانستان کے مسئلے پرہونے والی بون کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ لیکن ابھی تک اسلام آباد کی جانب سے امریکیوں کے لیے انتہائی ضروری فضائی حدود کو ممنوع قرار دینے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جوں ہی معاملہ ٹھنڈاپڑے گا اور جذبات کی گرمی کم ہو گی سپلائی کے راستے بھی بالآخر دوبارہ کھل ہی جائیں گے۔ حالات پھر سے معمول پر آجائیں گے۔
بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے فیلو اور سی آئی اے کے سابقہ پالیسی ساز بروس ریڈل نے اے ایف پی کو بتایا کہ: ’’شمسی ائیر بیس کارآمد ہے لیکن ڈرون آپریشن کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔پاکستان کی عوام کا یہ تاثر ہے کہ یہ بیس پاکستان کے باہر سے چلایا جارہا ہے لیکن حقیقت میں یہ پاکستانی فوج کی معاونت سے چل رہا ہے۔۔۔نیٹو افواج کی سپلائی مکمل طور پر بند کر دینے سے پاکستان نہ صرف امریکہ سے دشمنی مول لے گا بلکہ نیٹو اور اقوامِ متحدہ کو بھی اپنے خلاف کر لے گا۔۔۔اور پاکستانی ایسا نہیں کرنا چاہیں گے‘‘۔
جن پاکستانیوں کی ریڈل بات کر رہا ہے وہ حکمران اشرافیہ کا شیطانی گٹھ جوڑ ہے جو آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں۔ ان کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر لندن، زیورخ، فرینکفرٹ اور نیو یارک کے سامراجی بینکوں اور سمندر پار اور ٹیکس سے مستثنیٰ محفوظ ممالک میں جمع ہیں۔ چنانچہ ریڈل کچھ غلط نہیں کہہ رہا۔ امریکی کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے اور نہ ہی پاکستان پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ تاہم معاشی بحران کی شدت اور عسکری ناکامیوں کی صورت میں ایک پاگل پن پر مبنی تصادم کو خارج از امکان قرارنہیں دیا جا سکتا۔
پاکستانی فوج اپنے آغاز سے ہی سامراجیوں کی پروردہ ہے۔ پاکستانی فوج کے پہلے دو چیف جنرل فرینک میسروی اور جنرل ڈگلس گریسی برطانوی افسران تھے۔ ایوب خان سینڈہرسٹ( برطانوی فوجی اکیڈمی) کا تربیت یافتہ افسر تھا۔ ضیا نے فورٹ بریگ(امریکہ) میں تربیت حاصل کی تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور امریکی جوائینٹ سٹاف چےئر مین جنرل مارٹن ای ڈمپسی امریکی فوج کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج فورٹ لیون ورتھ میں1988ء میں ہم جماعت تھے۔ اسی طرح گزشتہ 64برسوں میں باقی فوجی سربراہان بھی امریکی جرنیلوں اور فوجی صنعت کے حکام کے انتہائی قریب رہے ہیں۔ تاہم ہمیشہ سے امریکیوں سے دکھاوے کی آزادی کے رجحانات بھی موجود رہے ہیں۔ 2006ء میں وینزویلا کے سوشلسٹ صدر ہوگو شاویز سے ملاقات میں مشرف نے اسے مشورہ دیا کہ ’’تم امریکیوں کے ساتھ بہت جارحانہ ہو جاتے ہو۔ میرے طریقے پر عمل کرو۔ وہ جو بھی کہیں مان لو لیکن کرو وہی جو خود چاہو‘‘۔ لیکن منافقت میں سامراجی بھی پیچھے نہیں۔ 2008ء میں اسلام آباد میں امریکی سفیر نے نیم مزاحیہ انداز میں کہا’’کسی دارالحکومت میں ہمیشہ دو فون نمبر رکھنا بہتر ہوتا ہے‘‘ ۔
رجعتی مذہبی جماعتیں اور کالعدم بنیاد پرست تنظیمیں جنہیں ریاست کے حصوں کی در پردہ حمایت حاصل ہے اس حملے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چیخ و پکار کر رہی ہیں۔ پاکستانی قومی شاؤنسٹ ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی کا رونا رو رہے ہیں، جو کہ ہمیشہ عوام کو دھوکہ دینے کے لیے رچائے گئے ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ مغرب سے مرعوب لبرل بھی جنگجوانہ قوم پرستی کے اس جنون میں شریک ہو چکے ہیں اور ان کا مقصداپنی قوم پرستی ثابت کرنا اور امریکی سامراج کے دم چھلے ہونے کا تاثر زائل کرنا ہے۔ ضمیر فروش حکومت اور اتنی ہی ضمیر فروش بورژوا حزب اختلاف اس مسئلے کو عوام کے حقیقی مسائل اور طبقاتی جدوجہد کو دبانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہر چیز سے منافقت کی بدبو آرہی ہے۔ لیکن تنازعات میں گھرے اس علاقے میں بسنے والے عوام عذاب جیسے حالات میں رہ رہے ہیں۔ 2011ء میں غذائیت پر ہونے والے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق ’’گزشتہ دہائی میں خیبرپختونخواہ میں عورتوں اور بچوں میں غذائیت کی کمی شدید تر ہوئی ہے اور یہ بچوں میں62.5فیصد اور عورتوں میں52فیصدہے، حاملہ عورتیں خون کی شدید کمی کا شکار ہیں‘‘۔ مہنگائی، غربت، بیروزگاری، بیماری، ناخواندگی اور خون خرابے نے عوام کی زندگیاں برباد کر ڈالی ہیں۔
سامراج کی جارحیت صرف محض عسکری نہیں ہے بلکہ مقامی اشرافیہ کے ساتھ مل کر بے رحمی سے لوٹ مار جاری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیر واضح اورکھلی ڈیورنڈ لائن کی سرحد1893ء میں پشتونوں کو تقسیم کرنے اور اپنے اقتدار کوطول دینے کے لیے سامراج نے کھینچی تھی۔ 1947ء میں ریڈکلف کے چیرے ہوئے زخم کے مقاصد بھی یہی تھے۔ آج افغانستان اور پاکستان کے مسائل کے الگ الگ حل نہیں ہیں۔ ان زخموں کو صرف ایک انقلابی بغاوت کے ذریعے بھرا جا سکتا ہے۔ لیکن سامراجی جارحیت کو نہ تو جاہل بنیادپرستی اور نہ ہی کمزور اور کرپٹ لبرل جمہوریت پسند شکست دے سکتے ہیں، یہ دونوں نہ صرف سامراج کی پیداوار ہیں بلکہ اس کے بل بوتے پر ہی زندہ ہیں۔ سامراج کی غلامی کے طوق کو توڑنے کے لیے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنالازم ہے۔