| رپورٹ: طیب رفیق |
مورخہ 24 اپریل کو جامپور میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں جامپور، ڈی جی خان، فاضل پور، محمد پور، مھرے والا، روجھان، راجن پور، طلائی اور کوٹلہ سے 40 سے زائد نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔
سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’’پاکستان تناظر‘‘ تھا جسے چیئر خلیل بھٹی نے کیا۔ موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے عرفان پتافی نے ملک کی موجودہ صورتحال، سیاست، معاشرت، ریاست اور معیشت پر تفصیل سے روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر جس زوال پزیری کا شکار ہے اس کے پیش نظر پاکستان میں بھی کسی سماجی یا معاشی بہتری کے امکانات موجود نہیں ہیں، حکمران سیاست سے عوام بیزار ہیں اور ریاستی رٹ روبہ زوال نظر آتی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں نجکاری اور دوسرے ایشوز پر بننی والی تحریکوں کا جائزہ لیا اور بڑے پیمانے کی انقلابی تحریک بننے کی مختلف صورتوں اور امکانات پر روشنی ڈالی۔ لیڈ آف کے بعد فاہد شوکت، آصف گشکوری، عاطف جاوید، طیب رفیق نے بحث کو آگے بڑھایا۔ عبدالکریم محسن نے انقلابی شاعری پڑھ کر سنائی جسے شرکا نے خوب سراہا۔ سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے عمران کامیانہ نے عالمی صورتحال کا عمومی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی تاریخ، بحرانات کی وجوہات اور موجودہ بحران کا پس منظر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی عہد ہے جس میں ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک بھی سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کا شکار ہیں، امریکہ میں برنی سینڈرز اور برطانیہ میں جیرمی کاربن کا ابھار ان خطوں میں عوام کے سیاست کی طرف رویے اور شعور میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاشی بحران جس قدر تلخ ہے اس کے پیش نظر حکمران آنے والے عرصے میں نجکاری اور مہنگائی کے مزید حملے کریں گے جس کے رد عمل میں مزید تحریکیں ابھریں گی، ان تحریکوں کی شدت اور جڑت انہیں ملک گیر پیمانے کی انقلابی تحریک میں بدل سکتی ہے جس کے لئے ہمیں آج تنظیمی قوتوں کو بڑھانے اور تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع لینن کی کتاب ’’کمیونزم میں بائیں بازو کی طفلانہ بیماری‘‘ تھا۔ اس سیشن کو چیئر رحم بخش نے کیا اور بحث کا آغاز شہریار ذوق نے کتاب کے کلیدی نکات بیان کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے پارلیمانی سیاست، انتخابات، ٹریڈ یونینز اور عوامی پارٹیوں میں کام کی اہمیت، طریقہ کار اور حکمت عملی پر تفصیل سے بات رکھی۔ کامریڈ رؤوف لنڈ نے روایتی پارٹیوں کی نوعیت اور کردار پر بات رکھی اور پاکستان میں پیپلز پارٹی کی تاریخ اور تناظر پر روشنی ڈالی۔ سوالات کی روشنی میں دوسرے سیشن اور سکول کا مجموعی سم اپ عمران کامیانہ نے کرتے ہوئے کہا کہ لینن کی کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ پرولتاری انقلاب پرولتایہ سے الگ رہ کر نہیں کیا جاسکتا، انقلابیوں کو ہر اس پلیٹ فارم پر جانا پڑتا ہے جہاں محنت کش طبقہ موجود ہوتا ہے یا جس کی طرف محنت کشوں میں خوش فہمیاں موجود ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لینن کی یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ انتہا پسندی اور موقع پرستی آخری تجزئیے میں ایک ہی سکے کے دو رخ ہے اور انقلابی سیاست ہمیشہ حس تناسب اور صبر آزما وضاحت کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ جلد بازی انقلابیوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے نوجوان مارکس کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے سکول کا اختتام کیا کہ اگر ہم اپنی زندگی میں انسانیت کی نجات کی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی بوجھ ہمیں جھکا نہیں سکتا، یہ راستہ سوشلسٹ انقلاب کی تیاری اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کا راستہ ہے جس پر چل کر ہی اس ملک، خطے اور دنیا بھر سے انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ ہو گا۔ آخر میں تمام شرکا نے مل کر محنت کشوں کا عالمی ترانہ گایا۔