| تحریر: رضوان اختر |
نوجوان سماج کی وہ حساس پرت ہوتے ہیں جو نظام کے بحران میں سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور آج اگر ہم نوجوانوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے مشکل اور کٹھن ترین حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ صرف پاکستان میں ہر سال 15 لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس تعداد کے مقابلے میں نوکریاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ان میں سے بیشتر نوجوان کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ آج کے عہد میں اتنے وسیع اورترقی یافتہ ذرائع پیداوار کے باوجود بے روزگاری ایک وبا کی طرح نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ َ َ پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے مختلف نوکریوں کے لئےPPSC اور NTS جیسے مقابلے کے امتحانوں کے ذریعے نئی نسل کو لوٹا جا رہا ہے۔ ایسے ٹیسٹوں کے ذریعے ایک طرف ریاستی نا اہلی، نظام کی متروکیت اور بیروزگاری کو جواز فراہم کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اربوں روپے ریاست ہر سال محنت کش طبقے کے نوجوانوں سے لوٹتی ہے۔ ایسے رنگ برنگ کے ٹیسٹوں کے باوجود نوکریاں ناپید ہیں اور ریکروٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ایک آسامی کے مقابلے میں ہزاروں طلبہ اپلائی کرنے والے ہوتے ہیں اور یہاں بھی زیادہ تر بدعنوانی اور سفارش ہی چلتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب ’’جائز‘‘ یعنی ٹیکس اور مہنگائی وغیرہ جیسے لوٹ مار کے طریقے معدوم ہوجاتے ہیں تو افسرشاہی اور حکمران اس طرح کی ڈھٹائی پر اتر آتے ہیں۔ پھر سو میں سے کسی ایک کو اگر نوکری مل بھی جائے تو وہ کنٹریکٹ بیس ہوتی ہے اور کسی بھی وقت نکالے جانے کی تلوار سر پر ہر وقت منڈلا تی رہتی ہے۔ اسی طرح تنخواہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر خاندان تو کجا اکیلے فرد کا گزر بسر بمشکل ہوتا ہے۔ اس معاشی بربادی اور نفسا نفسی کے جو تباہ کن اثرات سماج پر پڑ رہے ہیں ان کے تحت معاشرے کا ہر ادارہ انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کا اظہار نوجوان نسل میں شدید بیگانگی، منشیات اور جرائم کے رجحان کی شکل میں ہورہا ہے۔
جس سماج میں موت کی خواہش جینے کی تمنا پر حاوی ہو جائے، کوئی واضح سیاسی متبادل نظر نہ آرہا ہو اور مسلسل غداریاں ہی منظر نامے پر حاوی ہوں وہاں وقتی طور پر ہی سہی لیکن انفرادی بقا کی جنگ اجتماعی جدوجہد کو پچھاڑ دیتی ہے۔ ایسے میں رجعت کے اندھیروں میں پناہ تلاش کی جاتی ہے جس کے سماج پر مزید مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، سیاسی وسماجی بے حسی معمول بن جاتی ہے، سماج کے تمام پہلو چاہے وہ ثقافت ہو یا کھیل، صحافت ہو یا سیاست، غرضیکہ ہر پہلو سرمائے کے تسلط میں آکر اور پراگندگی کا شکار ہوکر محنت کش طبقے کی زندگی کو مزید اجیرن کر دیتا ہے۔ حکمران طبقے کے ذرائع ابلاغ اور مذہبی و لبرل کارندوں کے ذریعے یہ سوچ اتاری جاتی ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے عوام کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور کوئی تبدیلی نہیں آسکتی جب تک کہ لوگ اپنے آپ کو خودٹھیک نہ کریں۔ لیکن حالات و واقعات محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو متبادل کی تلاش کی طرف ناگزیر طور پر دھکیل دیتے ہیں۔
آج جس حقیقت سے مسلسل صرف نظر کی کوشش کی جا رہی ہے اور جو بات دانستہ طور پر بالخصوص پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں حکمران طبقے کی دانش اورذرائع ابلاغ میں پس پشت ڈالی جا رہی ہے وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی پچھلے 70 سال کی تاریخ کا دوسرا بڑا بریک ڈاؤن ہے جس کا آغاز 2008ء میں امریکہ کی سب سے بڑی فنانشل فرم MF گلوبل اور لہمن برادرز جیسے مالیاتی اداروں کے انہدام سے ہوا۔ سرمایہ داری کی عالمگیریت کی وجہ سے یہ انہدام پوری دنیا میں اس نظام کے مستقل بحران میں تبدیل ہو گیا اورآج تقریباً آٹھ سال بعد بھی بحالی (Recovery) حکمرانوں کے زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے۔ آج بے روزگاری، بے گھری، تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتیاں اور معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ معمول ہے۔
یورپ اور امریکہ کے محنت کش طبقے نے ماضی میں جوبلند معیارزندگی حکمرانوں سے لڑکر حاصل کیا تھا آج کی نسل کے لئے وہ خواب بنتا جا رہا ہے۔ یورپ کے چھوٹے سے ممالک یونان کو ہی دیکھ لیں جس کا موازنہ 2008ء سے قبل سے کریں تو کوئی اور ہی ملک معلوم ہوتا ہے۔ آج یونان کی تقریباً نصف آبادی وہاں کے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھی 25 فیصد لوگ بے روزگار ہیں جبکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 65 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ کم وبیش یہی صورتحال یورپ کے دیگر ممالک میں ہے یا اس طرف حالات بڑھ رہے ہیں۔ ان میں فرانس، سپین اور اٹلی جیسی دیوہیکل معیشتیں بھی شامل ہیں۔ تاہم ان ممالک میں پچھلے کچھ سالوں میں درجنوں تحریکیں اٹھی ہیں جن میں نوجوانوں کا ہراول کردار رہا ہے۔ بالخصوص برطانیہ اور فرانس میں طلبہ نے بھی فیسوں میں اضافے اور دوسرے بنیادی مسائل کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ اب بھی وہاں کا محنت کش طبقہ وقتاً فوقتاً میدان عمل میں اتر رہا ہے لیکن انقلابی قیادت کے فقدان کی وجہ سے وقتی پسپائی بھی برداشت کر رہا ہے۔ تاہم لینن کے بقول زندگی سب سے بڑا استاد ہوتی ہے اوران ممالک کا محنت کش طبقہ اور نوجوان اپنی اس جدوجہد میں بہت سے نتائج اخذ کر کے آگے بڑھیں گے۔
پاکستان میں نوجوان اور محنت کش ان کٹھن معاشی حالات اور ریاستی جبر میں وقتی طور پر جمود کا شکار ہیں۔ وقتاً فوقتاً اٹھنے والی چھوٹے پیمانے کی الگ تھلگ تحریکوں سے قطع نظر سماج میں بحیثیت مجموعی کوئی بڑا تحرک نہیں ہے۔ عوام حاوی سیاست کے تمام رجحانات کو یکسر مسترد کر دینے کے باوجود خود سے متحرک ہو کر کسی انقلابی متبادل کی طرف فوری طور پر مائل نہیں ہورہے۔ ایسے حالات اکثر اوقات انقلابیوں کے لئے امتحان بن جاتے ہیں۔ درمیانے طبقے کے کچھ افراد ایسے میں انقلابی جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے بھی ہیں توکچھ عرصے میں تھک کر ہار مان لیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑا خدشہ بے صبری اور جلدبازی کا ہوتا ہے۔ ایسے میں لوگ جتنی جلدی سے انقلابی رجحان کی طرف آتے ہیں اتنی ہی جلدی سے واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا انقلابیوں کو اس مشکل دور میں اپنے عزم و ہمت کو برقرار رکھتے ہوئے اور صبر آزما وضاحت کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور مہم جوئی اور وقتی مفاد سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات میں طلبہ اور نوجوانوں میں نظریات کی ترویج کرتے ہوئے سست روی سے ہی سہی لیکن افراد کو جیتا جا سکتا ہے اور اپنی صفوں میں اضافہ کرتے ہوئے انقلابی پارٹی کی بنیادیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ اگر اس نظام میں انسانی زندگی کی گنجائش ختم ہو چکی ہے تو وہ وقت بھی دور نہیں جب حالات کروٹ لیں گے، محنت کش طبقہ اور یہی نوجوان ذلتوں اور بربادیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کریں گے اور تاریخ کے میدان میں اتر کر اس کا دھارا موڑ ڈالیں گے۔