فرانس: مزدور دشمن قانون کے خلاف تحریک کا آغاز

| تحریر: عمر شاہد |

حالیہ سال کاآغاز یورپ میں دہشت گردی کی نئی لہر اور عالمی افق پر بڑھتی خانہ جنگیوں سے ہوا۔ افریقہ سے ایشیا تک ہر جگہ قتل و غارت، دہشت گردی کے حملوں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہو ا ہے۔ یہ علامات گلے سڑتے نظام کی پھیلائی بربادی کا اظہار ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں استحکام، امن اور سکون ناپید ہو چکا ہے اور اس نظام سے کسی قسم کی امیدیں وابستہ کرنا بھی خام خیالی بن چکا ہے۔ بورژوازی اپنی بوکھلاہٹ میں انسانیت کو مزید کرب اور تکلیف میں دھکیل رہی ہے، انتشار ایک معمول بن چکا ہے۔ کبھی بھی حکمران طبقات نے طبقاتی جنگ کے بغیر اپنی طاقت اور استحقاق رضاکارانہ طور پر نہیں چھوڑاجبکہ یہ اپنی مراعات کے تحفظ کے لئے کروڑوں انسانوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
فی الوقت عالمی سطح پر بورژوازی مزدور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کی گئی مراعات کو چھیننے اور مزید کٹوتیوں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جس کے گہرے منفی اثرات نوجوانوں، محنت کشوں اور عوام پر مرتب ہورہے ہیں۔ تاہم سرمایہ داری کا نامیاتی بحران صرف معاشی حوالوں تک ہی محیط نہیں ہے بلکہ سماج میں بڑھتی ہوئی سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام بھی اس بحران کا اظہار ہے۔ یہ نظام وسیع تر آبادی کو بہتر معیار زندگی دینے سے قاصر ہے تو دوسری طرف امیروں کی عیاشیوں میں اضافہ مسلسل ہو رہا ہے۔ صرف 2015ء سال میں امیزون کے مالک جیف بیزوس کی آمدنی 28.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59.3 ارب ڈالر ہو گئی جبکہ اسی دوران دنیا کی آدھی سے زائد آبادی روزانہ دو ڈالر سے کم آمدنی پر گزارہ کرتی ہے۔

France protest against new labor law (2)
مجوزہ لیبر قانون کے خلاف پیرس میں ہونے والا احتجاج

فرانس جسے نپولین نے ’انقلابا ت کی ماں‘ کہا تھا، اس پر ایک بار پھر انقلاب کے سائے منڈلا رہے ہیں جہاں پر طبقاتی بنیادوں پر صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ بورژوا میڈیا کی طرف سے فرانس کے دائیں بازو کی جانب جھکاؤ کی تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ اس منظر نامے میں پیرس دہشت گرد حملے، علاقائی انتخابات میں دائیں بازو کاابھار اور حالیہ ’سوشلسٹ ‘ حکومت کا دائیں بازو کی پالیسوں پر عمل درآمد کرنا شامل ہیں۔ لیکن ان دائیں بازو کی پالیسیوں کے خلاف محنت کشو ں میں اضطراب اور غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ سرمایہ داری کے معاشی بحران کے اثرات یورپ میں فرانس جیسی بڑی معیشتوں پر بھی پڑے ہیں۔ فرانس کی معیشت کچھ سالوں سے جمود کا شکار ہے جس کی وجہ سے نئی ملازمتوں کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ 2008ء کے بعد فرانس میں بیروزگاری کی شر ح 1980ء کی دہائی کے بعد بلند ترین یعنی دس فیصد کی سطح پر ہے، نوجوانوں میں یہ شرح 24فیصد تک ہے۔ اس سے خوفناک حقیقت یہ ہے کہ 87 فیصد روزگار عارضی بنیادوں پر ہیں اور 2000ء کے بعد سے مستقل ملازمتوں کے مواقع تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے سرمایہ داری کے قوانین کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’سوشلسٹ‘ ہولاندے دائیں بازو کی پالیسیوں پر نہایت سخت گیر انداز میں عمل درآمد کر رہا ہے۔ اپنے دو سالہ دور حکومت میں اس نے امیر ترین افراد کے انکم ٹیکس کی شرح میں 75فیصد تک کمی کی ہے اور 40 ارب یورو کمپنیوں کو ٹیکس مراعا ت کی شکل میں ادا کئے ہیں۔ سرکوزی کی نسبت ہولاندے محنت کشوں پر اور بھی سخت حملے کر رہا ہے، مثال کے طور پر سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے 2000ء میں متعارف کروائے گئے 35 گھنٹوں کے ہفتہ وار اوقات کار کے قانون کو سرکوزی ختم نہیں کر سکا جبکہ ہولاندے اس کو ختم کرنے کے لئے بل پارلیمنٹ میں لا چکا ہے۔ ہولاندے کی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ سیاسی بحران کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ ریجنل انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کی شکست اور دائیں بازو کا ابھار درحقیقت حکومتی پالیسیو ں کیخلا ف رد عمل تھا، اگرچہ منفی انداز میں۔ لیکن 13 نومبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد وقتی طور پر حکومت نے بڑھتی ہوئی سماجی بے چینی کو ایمرجنسی کے نفاذ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایمرجنسی دہشت گردوں کی بجائے محنت کشوں کے جمہوری حقوق پر حملہ تھا۔ دہشت گردی کو بنیاد بنا کر محنت کشو ں پر جاری کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کے خلا ف آواز کو دبایا گیا اور بیروزگاری اور غربت کے خلاف عوامی رائے عامہ کو بے دردی سے کچلا گیا۔ فرانسیسی حکومت کی شام اور عراق میں حملے تیز کرنے کی خارجہ پالیسی نے مزید دہشت گرد حملوں کے لئے فضا ہموار کی ہے۔ ہزاروں نوجوان جن کے پاس مستقبل نہیں وہ ایسی دہشت گرد تنظیموں کا ایندھن بن رہے ہیں۔ اس کیفیت میں حکومتی پالیسیاں گہرے سماجی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔ حقیقت میں فرانسیسی نام نہاد سوشلسٹ حکومت فرانس کے بڑے سرمایہ داروں کی گماشتگی کر رہی ہے۔ بیٹن فیملی اور ارنولٹ جیسی اجارہ داریاں لیبر کوڈ کے خاتمے، عوامی سہولیات میں کمی، سرمایہ داروں کے لئے ٹیکس ریلیف اور مزدور قوانین میں ’’نرمی‘‘ جیسی پالیسیوں کی مانگ کر رہی ہیں اور موجودہ حکومت اپنے سرمایہ دار آقاؤں اور ان کے مطالبات کے آگے سجدہ ریز ہے۔
ہولاندے حکومت پارلیمنٹ سے ایک مزدور دشمن قانون پاس کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس بل کے ذریعے مستقل ملازمتوں پر کاری ضرب لگے گی اور مالکان اپنی مرضی کے اوقات کار مقرر کر سکیں گے۔ اگر پارلیمنٹ یہ بل پاس کرتی ہے تومحنت کش طبقے کی تنخواہوں، اوقات کار اور حقوق پر نہایت بھیانک اثرات مرتب ہونگے۔ آسان الفاظ میں محنت کشوں کی جدوجہد سے حاصل کی گئی مراعات کو اس بل کی مدد سے بورژوازی چھیننا چاہتی ہے۔ یہ بل فرانسیسی کمپنیوں کو ہفتہ وار 46 گھنٹوں تک اوقات کار بڑھانے اور 25 گھنٹوں سے زائد اوور ٹائم پر تنخواہ کی کٹوتی کرنے کا اختیار دے گا۔ اس نئے قانون سے محنت کشوں کو ملازمت سے نکالنا بھی آسان ہو جائے گا۔ سرمایہ داروں کے مطابق موجودہ لیبر قوانین کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان عارضی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ موجودہ مستقل ملازمتیں بہت زیادہ ہی مستقل ہیں لیکن وہ درحقیقت مستقبل ملازمتوں کی یکسر چھٹکارہ حاصل کر کے ہر جگہ کنٹریکٹ اور دہاڑی دار لیبر متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ محنت کشوں میں مقابلہ بازی کے فروغ کے لئے نیا قانون انڈسٹری کی بنیاد پر تنخواہ کی بجائے کمپنی کی بنیاد پر سودہ بازی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سادہ زبان میں مالکان کی مرضی کی تنخواہ پر ہی ملازمت کرنا پڑے گی۔
یورو سٹیٹ کے مطابق اوسط فرانسیسی محنت کش 45.6 یورو فی گھنٹہ کی مالیت کا سامان تیار کرتا ہے جبکہ ایک سال میں یہ 1661 گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس حساب سے اوسط محنت کش اپنے مالک کو سالانہ 76000 یورو کما کر دیتا ہے لیکن اوسط تنخواہ 29,700 یورو ہے۔ تاہم سرمایہ داری کے داخلی تضادات، بالخصوص ’شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان‘ کو مد نظر رکھا جائے تو قوت محنت کی قدر میں مسلسل کمی مقابلے کی منڈی میں سرمایہ داروں کی شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
France protest against new labor law (1)اس متنازع بل کے خلاف فرانس میں 9 مارچ کو ہزاروں محنت کشوں اور نوجوانوں نے 200 سے زائد شہروں میں احتجاج مظاہرے کئے۔ صرف پیرس میں تیز بارش اور ٹھنڈ کے باوجود 80 ہزار سے ایک لاکھ افرادنے احتجاج میں شرکت کی۔ اسی دن ریلوے کے محنت کشوں نے بھی ہڑتال کی جس کی وجہ سے 2/3 ریل کا نظام جام رہا۔ ان مظاہروں کو منظم کرنے میں سوشلسٹ پارٹی کی اپنی طلبہ یونین UNEF نے اہم کردار ادا کیا۔ اس تنظیم کے طلبہ نے پورے فرانس میں ایک سو سے زائد ہائی سکولوں کے داخلی راستوں کو بلاک کر دیا۔ الجزیرہ نیوز چینل کے رپورٹر نے ان الفاظ میں صورتحال کو بیان کیا، ’’یہ صرف مظاہرے نہیں بلکہ محنت کشوں، بیروزگاروں اور طلبہ کی ہڑتالیں ہیں جو کہ عشروں سے رائج مزدور قوانین اور کام کرنے کے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کے خلاف سرگرم ہیں‘‘۔
اس تحریک کے بڑھتے قدموں نے حکومت کو وقتی طور پرجھکنے پرمجبور کر دیا۔ 14 مارچ کو وزیر اعظم نے مجوزہ قانون پر فیصلہ موخر کر نے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم کے مطابق اب مجوزہ بل میں جبری برطرفیو ں کی صورت میں محنت کش کے معاوضے کی حد متعین نہیں کی جائے گی اور چھوٹی و درمیانی کمپنیوں میں لچک پذیر اوقات کار کے نفاذ کو بھی ختم کر دیا گیا، تاہم ملٹی نیشنل کمپنیاں فرانس میں اپنے خسارے میں جانے والے یونٹس میں آسانی سے محنت کشوں کو برطرف کر سکیں گی۔ حکومت کی اس جزوی پسپائی نے تحریک کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزید شکتی فراہم کی۔ فرانس کی اہم یونین CGT کے ایک رہنما فلپے مارٹینز نے کہا کہ، ’’اگر حکومت ان اصلاحات پر عمل کرنے کیلئے بضد ہے تو لوگوں کو سڑکوں پر نکل آنا چاہیے‘‘، اس کے بعد 17 مارچ کو دوبارہ طلبہ نے مظاہروں کاسلسلہ شروع کر دیالیکن CGT کی قومی قیادت کی طرف سے مظاہروں میں شرکت کی واضح کال یا اعلان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کی شمولیت کم رہی۔
حکومت نے پارلیمنٹ میں اس متنازع بل پر اپریل کے آخر یا مئی کے اوائل میں ووٹنگ کے لئے اجلاس بلانے کا اعلان کیا جس پر 30 مارچ سے دوبارہ مظاہروں کے سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس بار پیرس ایئر پورٹ کے محنت کشوں سمیت مختلف شعبوں کے محنت کشوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ مظاہروں کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا، مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال ایک عام ہڑتال کی طر ف بڑھ سکتی ہے۔ تحریک زیادہ ریڈیکل مطالبات کی طرف جا سکتی ہے اور سوشلسٹ پارٹی کی حکومت شدید بحران سے دو چار بھی ہو سکتی ہے۔
France protest against new labor law (3)سرمایہ دار اصلاح پسندی کے ذریعے تحریکوں کو زائل کرتے ہیں۔ لیکن بحران کے ادوار میں اصلاح پسندی کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے جیسا کہ آج نظر آتا ہے۔ ایسے میں کھلی طبقاتی جنگ کے معرکے شروع ہوتے ہیں اور اصلاح پسندوں کی ساکھ راتوں رات مٹ جاتی ہے۔ حالیہ واقعات سے ’’فرانس کی مضبوط معیشت‘‘ کا راز بھی فاش ہوتا ہے اور اصلاح پسندی کی حدود بھی واضح ہوتی ہیں۔ سماج میں طبقاتی تضاد بڑھ رہا ہے۔ ایسی کیفیات میں انقلابی اور ردانقلابی طاقتوں کا توازن تبدیل ہوتا رہتا ہے جو اس وقت فرانس میں ہو رہا ہے، ریجنل انتخابات میں دائیں بازو کے سیاسی ابھارکے بعد محنت کش پھر سے تحریک میں اتر رہے ہیں۔ ٹریڈ یونین اشرافیہ ہر ممکن حد تک محنت کشوں کے دباؤ کو زائل کرے گی لیکن اس عمل کی بھی حدود ہیں۔ اگر فرانس میں ایک عام ہڑتال ہوتی ہے تو اس کے گہرے اثرات پورے یورپ اور بالخصوص یونان، سپین اور برطانیہ جیسے ممالک پر مرتب ہوں گے۔ پورے یورپ میں طبقاتی معرکوں کی صف آرائی ہو رہی ہے!