کامریڈ لال خان کے نام محراب سنگت کا خط اور اس کا جواب بغیر کسی تبدیلی کے شائع کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل یہ خطوط ’طبقاتی جدوجہد‘ رسالے کے 2016ء کے شمارہ نمبر 2 میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
**********
کامریڈ لال خان کے نام محراب سنگت کا کھلا خط
محترم کامریڈ لال خان صاحب کو انقلابی جوش سے بھرا سلام!
اْمید سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا مزاجِ گرامی خیریت سے ہوگا اور ہمیشہ آپ کے خوش وخرم رہنے کا خواہش مندہوں۔ میں آپ کے ’’پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد‘‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحریریں شوق سے پڑھتا رہاہوں، لیکن بلوچ معاشرے کو لاحق غلامی اور پسماندگی کی وجہ سے وہ سہولیات ہمیں میسر نہیں کہ اس جدیددور کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہوکر دنیا میں ہونے والے حالات و واقعات سے بروقت آگاہی حاصل کرسکیں، اور دوسروں کے خیالات کو سننے و سمجھنے اور آزادانہ طور پر اپنے خیالات کو دوسروں تک منتقل کرسکیں۔
آج کے اس سرمایہ دارانہ دور میں گوکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز ترین ترقی سے انسان نے فطرت پر اس حد تک قابو کرلیا ہے کہ گھر بیٹھے دنیا کا نظارہ کرسکتا ہے، کسی سے بھی رابطہ کرکے اپنے خیالات کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچا سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن غریب اور محنت کش طبقہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اس قدر فاقہ کشی کا شکار ہے کہ بہ مشکل انہیں دو وقت کا کھانا ملتا ہے۔ اگر وہ اپنی قوتِ محنت سستے داموں بیچ نہ دیں تو اسے مرنے کے لئے کفن بھی میسر نہیں ہوگا۔ یہ صورتِ حال کسی ایک خطہ یا براعظم تک محدود نہیں بلکہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام محکوم و غریب اور محنت کشوں کا حال ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے، حتیٰ کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے تو محنت کش طبقے میں اس قدر نفاق پیدا کرکے انہیں اس نہج پر لاکھڑا کردیا ہے کہ ایک محنت کش اْٹھ کر اپنے ہی ہم طبقے کی حق تلفی کرتا ہے۔
سابق سوویت یونین میں مارکسی خطوط پر کامریڈ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والی بالشویک انقلاب نے دنیا بھر کے محکوموں اور محنت کشوں کو متحد ہوجانے کا زبردست موقع فراہم کیا تھا ۔ لینن کے بعد سوویت اقتدار پر قبضہ کرنے والی سٹالنسٹ افسر شاہی نے مارکسزم سے مکمل طور پر منحرف ہو کر بالشویک انقلاب کو ایسی سمت میں موڑدیا کہ جس کا خمیازہ ایک صدی بعد بھی محکوم و مظلوم، غریب اور محنت کش بھگت رہے ہیں۔
حال ہی میں مقبوضہ بلوچستان کے پسماندہ ترین ضلع کیچ تربت کے دیہاتوں میں سے ایک ’گوگدان‘میں قابض ریاستی ملٹری کے ایک ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او (فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن) کی طرف سے محکوم و مظلوم بلوچ عوام کومزید غلامی کی دلدل میں دھنسانے کے لئے شروع کئے گئے ایک میگا استحصالی منصوبے کی تکمیل کو رکوانے کے لئے حریت پسند بلوچ انقلابی سرمچاروں نے اْس پر حملہ کردیا جس کی زد میں آکر 20 مزدور ہلاک ہوگئے۔ جن میں سے کچھ کا تعلق سندھ کے پسماندہ ترین علاقہ ’صحرائے تھر‘ اور کچھ کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔
اس واقعہ کو ایک طرف سے ریاستی دُم چھلّا میڈیا نے سر پر اٹھایا تو دوسری طرف بائیں بازو کے تنظیموں کا بھی خاصا ردّعمل سامنے آیا۔ گوکہ اس حوالے سے یہ ایک انتہائی قابلِ افسوس واقعہ تھا کہ ریاستی استحصالی مشینری کے بجائے اس کی زد میں آکر مزدور ہلاک ہوئے۔ لیکن در حقیقت مجھے مزدوروں کی ہلاکت سے زیادہ حیرانگی آپ کے (بلوچستان: پراکسی جنگوں میں مرتے غریب) اس کالم سے ہوئی، جس میں آپ نے برطانوی استعمار سے لے کر برصغیر کے بٹوارے کے بعد سے نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام اور اس کے بعد سے اب تک جاری انقلاب و آزادی کی تحریک کو بین الاقوامی سامراجی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراکسی وار قرار دے کر ہزاروں شہدا کے بہتے ہوئے سرخ لہو کو محض چند مزدوروں کی ہلاکت پر اپنے قلم کی سیاہی سے مٹانے کی کوشش کی۔
مارکس نے 1857ء کی ہندوستانی بغاوت میں برطانوی نوآبادکاروں پر حملوں کے بارے میں لکھا ہے۔ ’’ہندوستان میں باغی سپاہیوں نے جو تشددکیا ہے و ہ واقعی بھیانک، مکروہ اور نا قابلِ بیان ہے۔ ایسا تشدد عام طور پر باغیانہ ہنگاموں اور قومی، نسلی اور خاص طور سے مذہبی لڑائیوں میں دیکھا جاتا ہے۔ مختصر طور پر یہ ایسا تشدد ہے جس کی عظیم برطانیہ نے ہمیشہ ہمت افزائی کی۔ ایسا تشددجو واندی والوں نے ’’نیلوں‘‘ پر، ہسپانوی چھاپہ ماروں نے فرانسیسی بے دینوں پر، سربیائی لوگوں نے اپنے جرمن اور ہنگریائی پڑوسیوں پر، ہرواتیوں نے ویانا کے باغیوں پر، کاوینیاک کے موبائل گارڈ یا بونا پارٹ کے 10 دسمبر والوں نے فرانسیسی پرولتایہ کے بیٹے بیٹیوں پر کیا۔ ہندوستانی سپاہیوں کا رویہ چاہے کتنا ہی مکروہ رہا ہو وہ صرف ایک مرکوز صورت میں ہندوستان میں خود برطانیہ کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ نہ صرف اپنی مشرقی سلطنت کی بنیاد رکھنے کے دور میں بلکہ اپنی طویل حکمرانی کے پچھلے دس سالوں کے دوران بھی، اس حکومت کی نوعیت واضح کرنے کے لئے یہ کہنا کا فی ہے کہ اذیت رسانی اس کی مالیاتی پالیسی کا ایک اٹوٹ جزو رہا ہے۔ تاریخِ انسانی میں انتقام جیسی چیزضرور ہے اور تاریخی انتقام کا یہ قانون ہے کہ اس کے آلات مظلوم نہیں بلکہ خود ظالم ڈھالتا ہے۔‘‘ (ہندوستانی بغاوت، نیویارک ڈیلی ٹریبیون، شمارہ نمبر 5119، مورخہ 16 ستمبر 1857ء )
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ مزدور کہاں اور کس لئے ہلاک ہوئے؟ یقیناًاگر یہ کالم لکھنے سے پہلے بلوچستان کے اْس علاقے کے مجموعی آبادی کی معاشی حالتِ زار کا بغور جائزہ لیتے تو میں نہیں سمجھتا کہ آپ اپنے کالم میں اصل حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک الٹی اور مسخ کردہ منطق پیش کرتے۔ بہر حال‘ میں آپ کو پورے بلوچستان کو چھوڑ کر مکران ڈویژن بلکہ اس سے بھی چشم پوشی کرتے ہوئے پورا ضلع کیچ بھی نہیں اْس دیہات(گوگدان) کا مختصر خاکہ آپ کے سامنے پیش کروں گا جہاں ان مزدوروں کی ہلاکت کاواقعہ پیش آیا۔
المختصر گوگدان سیاسی، سماجی اور معا شی حتیٰ کہ موسمی حوالے سے ’صحرائے تھر‘ کا دوسرا نام ہے۔ جہاں کے لوگ معاشی تنگ دستی کی وجہ سے گلہ بانی کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ تپتی دھوپ میں بھی علاقے میں پائی جانے والی ایک قدرتی جھاڑی سے بنے جوتے پہنتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے صاف پانی کی فراہمی تو کجا مہینوں تک بارش کے پانی پر نہ صرف انسانوں کی اْمیدیں وابستہ ہیں بلکہ جانوروں کا انحصار بھی اسی پانی پرہے۔ شاید آپ کو یہاں کے لوگوں کے رہائشی بنگلوں کا اندازہ ہوا ہوگا کہ وہ کس طرح کے جدید طرز کے ہوں گے۔
یہ لوگ جتنے غریب ہیں اس سے بڑھ کر اتنے ہی باشعور بھی ہیں اور اپنے حقوق کا اچھی طرح ادراک بھی رکھتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک عام بلوچ چرواہا جو گلہ بانی کرکے اپنے اور اپنے خاندان کا گزارہ کرتاہے، اگر ریاستی استحصالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا حصہ بن جاتا تو کیا سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے رہائشی مزدوروں کو یہاں روزگار ملنے کا موقع ملتا ؟ قطعاً نہیں…وہی بلوچ چرواہا جو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے گلہ بانی کرتا ہے اْس کا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ محض چند روپوں کی خاطر کسی ایسے استحصالی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا حصّہ بن جائے کہ جس کے پسِ پردہ دسیوں لاکھ بلکہ ایک کروڑ سے زائد افراد کا مستقبل داؤ پر لگ جائے۔
وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ جو ترقی کے نام پر شاہراہیں تعمیر ہورہی ہیں اور میگا پروجیکٹ بن رہے ہیں یہ میری خوشحالی کے لئے نہیں بلکہ میرا استحصال کرنے اور مجھے غلام رکھنے کے سوچے سمجھے منصوبے ہیں، جو مجھ سے میری پہلی والی حیثیت بھی چھین لیں گے۔ اگر بلوچستان کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں قابض ریاست کی جانب سے ترقی کے نام پر درجنوں جاری اور نئے منصوبے، خواہ وہ گوادر میگا پروجیکٹ ہو، سینڈک ریکوڈک منصوبہ ہو، چمالنگ کوئلہ کی لوٹ مار ہو یا سوئی سدرن گیس وغیرہ و دیگر چھوٹے بڑے لوٹ مار اور استحصالی منصوبے ہوں، ان سے مستفید ہونے والے سرمایہ دار وں اور اشرافیہ کی تعداد کو کل مجموعی آبادی سے موازنہ کیا جائے تو یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے، جب کہ آبادی کی اکثریت غریب و محنت کش طبقہ قبضہ گیر وں کے ان استحصالی منصوبوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
بالفرض اگر ان دسیوں لاکھ غریبوں اور محنت کشوں کا مستقبل سنوارنے اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اِن میگا استحصالی منصوبوں کو ناکام بنانے کی غرض سے بلوچ حریت پسند انقلابی جنگجو اْن پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس پر ایک کمیونسٹ دانش ور کے طیش میں آجانا اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ حالانکہ آج سے دہائیوں پہلے 73۔77ء میں جس وقت آپ کی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو برسرِ اقتدار تھے، انہوں نے اپنے دورِ حکمرانی میں ایرانی بادشاہ کے ساتھ مل کر بلوچستان میں وسیع پیمانے پر ملٹری آپریشن شروع کیا تو اس کے خلاف ’’بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ‘‘ (بلوچستان عوامی محاذِ آزادی) کے نام سے برسرِ پیکار حریت پسند انقلابی جنگجوؤں کے ساتھ ’’فورتھ انٹرنیشنل‘‘ کے فرنچ سیکشن سے تعلق رکھنے والے 17 مارکسسٹ اراکین جو لندن گروپ کے نام سے مشہورتھے اور جن کا تعلق سندھ و پنجاب سے تھا، لندن میں اپنی تعلیم چھوڑ کر بلوچستان میں جاری انقلاب و آزادی کے گوریلا وار فیئر میں شریک ہوگئے اور بلوچستان میں قائم کردہ پاکستانی تسلط کے خلاف مسلح محاذ پر پیش پیش رہے۔
جن میں سے اکثر نے گوریلا کمانڈر کی حیثیت سے قبضہ گیر دشمن پر بہت سے حملوں کی قیادت بھی کی۔ ایک اندازے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ جارحیت میں پاکستانی ریاستی فوج اور لوٹ مار کے استحصالی منصوبوں پر 178 بڑی جھڑپیں ہوئیں جن میں تین ہزار سے زائد فوجی ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد محنت کش غریب بلوچ شہید ہوئے جو آپ کے پارٹی اور قائد کی کارستانیاں تھیں۔ جنگِ آزادی کے اْس وقت کے بانی رہنماؤں میں شامل بلوچستان کے مشہور و معروف مارکس وادی رہنما شیر محمد مری (جنرل شیروف) نے اپنے ایک انٹرویو میں بھٹو جارحیت کا یوں ذکر کیا ہے۔ ’’بھٹو کے دور میں صرف ہماری بہو، بیٹیوں کی بے حرمتیاں اور جوانوں کو شہید نہیں کیا گیا بلکہ ہمارے مال مویشوں حتیٰ کہ ہماری بچیوں کو بھی منڈیوں میں فروخت کیا گیا۔ ہماری بچیاں منڈیوں میں بِکی ہیں۔‘‘
محترم!
آپ نے اپنے کالم میں بی ایس او میں مارکسی رجحانات موجود ہونے کا اشارہ دیا ہے جو حقیقت ہے بلکہ بی ایس او کی بنیاد ہی مارکسی خطوط پر رکھی گئی ہے، لیکن آپ ماضی کو چھوڑ کر 2009ء تا 2012ء تک کا دورانیہ جس میں پھر آپ ہی کی پارٹی ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ برسرِ اقتدار تھی۔ اْس دور میں پہلی دفعہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جن میں بی ایس او سے تعلق رکھنے والے اب تک سینکڑوں کارکن شہید ہوئے ہیں ۔اس بابت آپ کی خاموشی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ کئے جانے والے بیس ہزار (20,000) سے زائد افراد کی تعداد کو گھٹاکر بارہ ہزار (12,000) کرنا اور بلوچ عوام کے خوشحال مستقبل کے لئے بلوچ گوریلا جنگجوؤں کی قابض ریاستی استحصالی منصوبے کو ناکام کرنے کے حملے کی زد میں آکر مزدوروں کی ہلاکت کو درندگی قرار دے کر واویلہ مچانا کیا محکوم بلوچوں کے ساتھ مضحکہ خیزی نہیں ہے؟
مزدوری کے نام پر کسی ریاستی استحصالی منصوبے کا حصہ بن جانا کیا معنی رکھتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہ مزدور کسی نجی فیکٹری یا دوسرے غیر ریاستی ادارے میں دیہاڑی نہیں کررہے تھے۔ مزدور تو معاشرے کا جتنا ستم زدہ طبقہ ہوتا ہے اس سے بڑھ کر انہیں اپنے ہم طبقہ کا احساس بھی ہوتا ہے۔انہیں تو استحصالی اور ترقیاتی منصوبے میں نمایاں فرق کرنا چاہئے اور وہ کسی ایسے منصوبے کو کبھی بھی تقویت نہیں دیتے کہ جس کی وجہ سے ایک سماج زوال کی طرف جائے یا ایک قوم اقلیت میں تبدیل ہوجائے۔ ہاں البتہ ماضی میں کچھ اسی قسم کے واقعات ضرور ہوئے جنہیں ریاستی خفیہ ایجنسیوں کی ڈمی تنظیموں کی جانب سے بلوچ تحریکِ آزادی کو بدنام کرنے کے لئے کیا گیا۔
اگر تربت میں حریت پسند انقلابی جنگجوؤں نے ’سہراب بریج‘ پر کام کرنے والے تمام مزدوروں کو لائن میں کھڑا کرکے ان میں سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدورں کو الگ کرکے لسانیت کی بنیاد پر انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا ہوتا اور دوسرے مقامی بلوچ مزدوروں کو چھوڑ دیا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں آپ کا طیش میں آجانا حق بجانب ہے۔ لیکن ایک حریت پسند انقلابی کبھی بھی اپنے جیسے محکوم و مظلوم پر بندوق نہیں تان سکتا۔
جناب!
آپ نے امریکی سینٹ میں بلوچستان کے حوالے سے پیش ہونے والی قرار داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض فرمایا ہے کہ ’’امریکہ میں انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان اور کانگریس کے ممبران، جن میں کیلی فورنیا کے ڈانا روراباچراور ٹیکساس کے لوئی گومیرٹ سر فہرست ہیں، نے بلوچستان کی علیحدگی کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔‘‘
یہاں آگے بڑھنے سے پہلے لینن کا یہ فقرہ ’’جب 1918ء میں جرمن سامراجی درندوں نے اپنی فوجیں اس روس کے خلاف بھیج دیں جو غیر مسلح تھا اور جو اپنی فوج کو سبکدوش کرچکا تھا، جس نے عالمی انقلاب کے پوری طرح پختہ ہونے سے پہلے پرولتاریہ کی بین الاقوامی یکجہتی پر بھروسہ کیا تھا تو اس وقت میں نے فرانسیسی شاہ پرستوں کے ساتھ ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تذبذب نہیں کیا۔‘‘ وہ آگے امریکی انقلاب کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے۔ ’’امریکی لوگوں نے بھی اس طریقہ کار کو اپنے انقلاب کے فائدے کے لئے مدتوں ہوئے استعمال کیا۔ جب انہوں نے برطانوی جابروں کے خلاف عظیم جنگِ آزادی کی تو اْن کے خلاف فرانسیسی اور ہسپانوی جابر بھی تھے جو اس ملک کے ایک حصے کے مالک تھے جو اب شمالی امریکہ کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے۔
آزادی کے لئے اپنی سنگین جنگ میں امریکی لوگوں نے بھی کچھ جابروں کے ساتھ دوسرے جابروں کے خلاف ’’سمجھوتے‘‘ کئے جن کا مقصد جابروں کو کمزور کرنا اور اْن لوگوں کو مضبوط کرنا تھا جو جبر کے خلاف مظلوم لوگوں کے مفادات کے لئے انقلابی طریقے سے لڑ رہے تھے۔ امریکی لوگوں نے فرانسیسیوں، ہسپانیوں اور انگریزوں کے تصادم سے فائدہ اٹھایا۔ کبھی کبھی تو وہ فرانسیسی اور ہسپانوی جابروں کی فوجوں کے شانہ بشانہ انگریز جابروں کے خلاف لڑے بھی، پہلے انہوں نے انگریزوں کو ہرایااور پھر اپنے کو فرانسیسیوں اور ہسپانیوں سے آزاد کیا۔‘‘ (امریکی مزدوروں کے نام خط، 1918ء)
اب آتے ہیں امریکی سینٹ میں پیش ہونے والی قرار داد کی جانب جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اگر اس قرارداد کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے لینن کے مندرجہ بالا فقرے کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا فائدہ اس حد تک تو یہ ہوسکتا ہے کہ بلوچ تحریکِ آزادی نے عالمی پیمانے پر خود کو متعارف کروایا اور اب مسئلہ بلوچستان کی بازگشت عالمی ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے، لیکن دوسری جانب میں نہیں سمجھتا کہ یہ بلوچستان کی علیحدگی کی کوئی مہم ہو، بلکہ اس قرارداد کا مقصد پاکستانی ریاست کی طالبانائزیشن کے خلاف دوغلی پالیسی (بظاہر مخالف لیکن اندرونی پرورش) اختیار کرنے پر دباؤ ڈالنے کی ایک گیم تھی۔ جسے حریت پسند رہنماؤں نے مسترد کردیا تھا، بلکہ حال ہی میں بلوچ تحریک کے سرخیل قائد کامریڈ خیربخش مری (مرحوم) کا ایک انٹرویو منظر عام پر آیا جو اُن کی وفات سے دو ماہ قبل لیا گیا تھا، جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ہمیں ایسی آزادی کی ضرورت ہے جو محکوم بلوچ عوام کو فائدہ دے نہ کہ امریکی سامراج کو‘‘، اس سے پہلے بھی مری صاحب نے اپنے ایک اور انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا تھا ’’ بلوچستان کا مستقبل سوشلزم ہے۔‘‘
ایک اور جگہ پر آپ نے ہزاروں بلوچوں کے خلیجی ممالک میں مزدوری کرنے کی غرض سے چلے جانے کا ذکر کیا ہے۔ اگر بلوچستان جیسے مقبوضہ اور پسماندہ خطے کا دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ موازنہ کریں تو میرے خیال میں آپ کی اس بات کی مکمل نفی ہوگی کہ کسی ترقی یافتہ ملک میں مزدوری کے لئے جانے والے مزدوروں کو جواز بناکر ایک پسماندہ اور سامراجی زیرِ دست خطے کے عوام کا خون چوسنے والے منصوبوں کو تقویت دینے والوں کی محض مزدورہونے کے نام پر حمایت اور ایک محکوم و مظلوم عوام کی انقلابی جنگ کو سامراجی مفادات و ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراکسی وار قرار دینا ایک متضاد سوچ کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا سوشلزم سے دور دور تک واسطہ نہیں۔
اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ نے بلوچوں کی انقلاب وآزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کے لئے اپنی ریاستی وفاداری کو مزدوروں میں کیموفلاج کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ایک کمیونسٹ کو یہ شہ نہیں دیتا کہ مزدوروں کا مورچہ بنا کر ایک محکوم قوم کی انقلابی تحریک پر وار کریں۔ بہرحال‘ ہم نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا کے تمام خطوں کے مظلوم و محکوم اور غریب و محنت کشوں کی بِلا رنگ و نسل اور مذہب و قومیت، سیاسی و سماجی اور معاشی آزادی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھنکنے کے لئے پْرعزم ہیں۔ حتیٰ کہ پنجاب میں پنجابی مزدوروں پر مبنی کوئی تحریک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پرسرپیکار ہوتی ہے اور سوشلسٹ یا دیگر انصاف پر مبنی نظام کے لئے جدوجہد کرتی ہے تو ہم اس کی حمایت اورتقلید کریں گے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے لئے مزدور بن کر اگر کوئی کام کرے گا تو وہ ظالم کا ایندھن تو ہوسکتا ہے لیکن مزدور نہیں…
محترم لال خان!
یہ میرا ذاتی خیال ہے، اْمید ہے کہ آپ بْرا نہیں منائیں گے اور آئندہ بلوچستان میں دہائیوں بلکہ ایک صدی سے زائد جاری تحریکِ آزادی کی انقلابی جدوجہد کو اس طرح بدنام کرنے کی کوشش کو ترک کرتے ہوئے مسئلہ بلوچستان کے تمام پہلوں سیاسی، سماجی، معاشی، جغرافیائی اور ثقافتی وغیرہ، کو مدِ نظر رکھ کرسچائی کی بنیاد پر رائے زنی کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دنیا کے تمام محکوم و مظلوم اور محنت کشوں کے زخموں کا مداوا صرف اور صرف عالمی سوشلسٹ انقلاب ہی کرسکتا ہے، لیکن پہلے محکوم اقوام کی آزادی کو تسلیم کئے بغیر یہ سب ناممکن ہے۔
لینن نے ایک صدی پہلے اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے کہا تھا ’’پرولتاریہ کا فرض ہے کہ اُن نوآبادیوں اور اُن قوموں کی سیاسی علیحدگی کی آزادی کا مطالبہ کریں جن کو پرولتاریہ کی ’’اپنی‘‘ قوم ظلم و محکومی کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ جب تک کہ پرولتاریہ ایسا نہیں کرتا پرولتاری بین الاقوامیت محض بے معنی اصطلاح رہے گی۔‘‘ (سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کی حقِ خوداختیاری، 1916ء)
لینن کے اس فقرے کی رو سے آپ کی کارکردگی پر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوسری محکوم قوموں کی آزادی کو تسلیم کرنا تو درکنار، اب تک آپ اپنی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) میں کس حد تک انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس کی حیثیت سیدوں، چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں، نواب و دیگر میرو معتبرین، مختصر یہ کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر مشتمل ایک ریاستی آلہ کار استحصالی پارٹی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ بہرحال‘ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی تحریکِ آزادی سامراجی مفادات کی پراکسی ہے تو میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ نچلی سطح سے اوپری سطح تک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے گھری پاکستان پیپلز پارٹی میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بلوچستان کی تحریکِ آزادی میں شامل ہوکر سچا مارکسسٹ، لینن اسٹ ہونے کا ثبوت دے کر عالمی سوشلسٹ انقلاب کے لئے راہیں ہموار کریں، کیوں کہ یہاں حالات بہت ہی سازگار ہیں اور اگر چاہو تو زبردست کام کرسکتے ہو۔
لینن بھی یہی کہتا ہے کہ’’سوشلسٹوں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف نوآبادیوں کی بلامعاوضہ غیر مشروط اور فوری آزادی کا مطالبہ کریں(اور اس مطالبے کا سیاسی مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ حق خود اختیاریت کو تسلیم کیا جائے) بلکہ ان کو چاہئے کہ ان ملکوں میں قومی آزادی کے لئے بورژوا جمہوری تحریکوں میں زیادہ انقلابی عناصر کی ڈٹ کر حمایت کریں اور ان کو ظلم و محکومی کا شکار بنانے والی سامراجی طاقتوں کے خلاف ان کی بغاوت میں اگر ضرورت پڑے تو ان کی انقلابی جنگ میں مدد دیں۔‘‘ (سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کی حقِ خوداختیاری، 1916ء)
محترم لال خان صاحب!
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں انقلابی یا سوشلسٹ ذہن زیادہ پایا جاتا ہے اور اس کا اعتراف تو مشہور دانشور ڈاکٹر مبارک نے بھی کیا ہے۔ اس وقت یہاں بلوچستان میں انسرجنسی کی صورت میں انقلاب کے لئے جدوجہد جاری ہے تو کیونکر اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور ایک سوشلسٹ ریاست کی تخلیق کی جائے جو بعدازاں ہمسایہ سوشلسٹوں کے لئے ایک حفاظتی پیڈ، گراؤنڈ یا ایک خطے میں سوشلزم ابھرنے کا چشمہ ہو۔ اگر پنجاب میں سوشلسٹ ذہن کی کمی ہے تو کیونکر بلوچستان کی اس سوچ کوپنجاب میں سوشلسٹ ذہن ابھرنے کے انتظار میں رکھ کر ضائع کیا جائے۔ ویسے بھی سوشلزم کو ذہنوں میں رکھ کر گھمانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سوچ کو زمین پر نافذ کرنے سے ہی فوائد حاصل ہوں گے، جس کے لئے بلوچستان میں سیاست کے مختلف پہلوؤں یعنی پْرامن اور پختہ ترین صورت (مسلح جدوجہد) میں کام جاری و ساری ہے۔
لہٰذا آپ سوشلسٹ دانشور بلوچستان کے انقلابیوں کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور پنجاب میں یہ عام کریں کہ وہاں کے مزدور بلوچستان میں استحصالی منصوبوں کی تکمیل کے لئے نہ آئیں۔ اس سے بڑھ کر آپ پنجاب کے مزدوروں کی ذہن سازی کریں تاکہ وہ بھی بلوچستان کے انقلابیوں کی طرح استحصالی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کریں۔ ورنہ عرصہ 50 سال سے آپ اورآپ کے قبیل ذہنوں میں سوشلزم لے کر پیپلز پارٹی اور دیگر استحصالی اور دولت مند سیاست دانوں کی پارٹیوں کے سہولت کاراور اسٹیبلشمنٹ جن کی جائیدادیں دنیا میں پھیلی ہوئی اور دولت سوئٹرز لینڈو دیگر ممالک کے بینکوں میں پڑی ہوئی ہے، ایندھن بنتے رہیں گے۔
آخر میں یہ عرض آپ کی پیش خدمت ہے کہ اگر بلوچستان کی اس خون آشام فضا میں فطرت نے زندہ رہنے کے لئے مزید کچھ مہلت دی تو میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔
محراب سنگت
بلوچستان
**********
کامریڈ لال خان کا جواب
مہراب سنگت کے ساتھیوں!
اس خط کے ذریعے میں آپ کو داد دیتا ہوں کہ آپ ہماری تحریریں پڑھتے ہیں۔ بطور ایک مارکسسٹ میں آپ کی تنقید کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کی تنقید بلوچستان پر میرے بہت سے مضامین میں سے صرف ایک مضمون تک محدود ہے۔ ہم اسی ترتیب سے اس تنقید کے سلسلے کا جواب دینے کی کوشش کریں گے جس ترتیب سے آپ کے خط میں درج ہے۔میں یہ بھی کہوں گا کہ اگر آپ نے پچھلے 35 سالوں میں بلوچستان پر میرے لکھے ہوئے سینکڑوں مضامین محتاط انداز میں پڑھے ہوتے تو آپ کے خیالات مختلف ہوتے ۔ میں یہ جواب انگریزی میں لکھ رہا ہوں کیونکہ اس کے ذریعے میں اپنے خیالات کا اظہار بہتر طریقے سے کر سکتا ہوں ۔ بہرحال اردو، پنجابی اور انگریزی میری مادری زبانیں نہیں ہیں (اگر اس بات کی کوئی اہمیت ہے تو!)۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انگریزی سے بلوچی، پشتو، براہوی، دری یا بلوچستان میں بولی جانے والی کسی زبان میں ترجمہ قدرے آسان ہے۔ میں اپنے جواب کو مختصر کروں گا تاکہ پیچیدگی اور ابہام سے بچا جا سکے۔
پاکستان جنوب ایشیائی برصغیر کے 1946ء کے انقلاب، جو کراچی، بمبئی اور مدراس کے جہازیوں کی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہوا تھا، کی المناک شکست کے نتیجے میں تخلیق ہوا تھا۔ اس برطانوی نوآبادی کی خونی تقسیم کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زائد معصوم لوگ مذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے اور جدید تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھنے میں آئی۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا جس میں مختلف قومیتیں شامل تھیں۔ تاہم 68 سال گزرنے کے بعد بھی حکمران طبقہ ایک یکجا، جدید قومی ریاست اور ایک حقیقی پاکستانی قوم تشکیل دینے میں مکمل ناکام ہے۔ طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی استحصال وجود رکھتا ہے اور محکوم قومیتوں کی بڑھتی ہوئی قومی محرومی بھی موجود ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قومی جمہوری انقلاب کا فریضہ پورا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ ریاست نے محنت کش طبقے اور محکوم قومیتوں پر جبر کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ریاست سب سے زیادہ قومی جبر بلوچستان میں کر رہی ہے۔ بے تحاشا قتل و غارت، اغوا اور بالخصوص سیاسی کارکنان پر وحشت جاری ہے۔ تاریخی طور پر متروک، معاشی طور پر برباد اور رجعتی حکمران ٹولے نے اپنی ریاستی مشینری کے ذریعے پاکستان کو مظلوم قومیتوں کے جیل خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایف ڈبلیو او کے لیے کام کرنے والے سندھی اور پنجابی مزدوروں کے قتل عام پر ہمارا مؤقف پاکستانی حکمران طبقے اور ان کے دانشوروں، بشمول ریاست کی کوئٹہ میں کٹھ پتلی حکومت کے بلوچ وزیروں سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ جس طرح آپ نے اس المناک قتل پر دکھ کا اظہار کیا ہم نے بھی کیا۔ تاہم ان غریب محنت کشوں کے قتل کی حمایت یا تعریف کرنا انتہائی وحشت ناک عمل ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ یہ جابر ریاست کی طرف سے بلوچستان میں قومی تحریک آزادی کی تحریک کو سبوتاژ یا بدنام کرنے کا ہتھکنڈا بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی ریاستی دہشت گردی کو مسلح جد وجہد کی انفرادی دہشت گردی کے برابر کھڑا نہیں کیا۔ ہم مکمل طور پر مارکس کی 1857ء کی ہندوستان کی جنگ آزادی اور برطانوی سامراج کی وحشت کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نیویارک ڈیلی ٹریبیون کے اسی مضمون میں مارکس نے لکھا، ’’ انگلش بورژوازی نہ تو لوگوں کو آزاد کرے گی اور نہ ہی ان کے سماجی حالات تبدیل کرے گی، اس بات کا انحصار نہ صرف پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہے بلکہ ان پر لوگوں کی ملکیت پر بھی ہے۔ لیکن وہ دونوں کے لیے درکار حالات ضرور پیدا کرے گی ۔ کیا بورژوازی نے کبھی اس سے زیاد ہ کیا ہے؟ کیا اس نے کبھی افراد اور لوگوں کو خاک و خون، ذلت اور رسوائی میں نہلائے بغیر کوئی ترقی دی ہے؟ برطانوی بورژوازی کی طرف سے ہندوستانیوں کے بیچ نئے سماج کے پھیلائے گئے عناصر سے ہندوستانی اس وقت تک فیضیاب نہیں ہوسکیں گے جب تک خود برطانیہ عظمیٰ میں آج کے حکمران طبقے کی جگہ صنعتی پرولتاریہ نہیں لیتا یا ہندوستانی خود اس قد ر مضبوط نہ ہوجائیں کہ انگریز راج کا خاتمہ کردیں ۔ ہندوستان، جس کی وسعت یورپ جتنی اور احاطہ 150 ملین ایکڑ ہے، پر انگلش انڈسٹری کے تباہ کن اثرات زیادہ واضح اور پیچیدہ ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پورے پیداواری نظام، جیساکہ وہ اب ہے، کے نامیاتی نتائج ہیں۔ یہ پیداوار سرمائے کی عظیم حکمرانی پر تکیہ کرتی ہے۔ سرمائے کی مرکزیت سرمایہ کے وجود کے لیے لازم ہے۔ دنیا کی منڈی پر اس مرکزیت کے تباہ کن اثرات ہر متمدن قصبے میں سیاسی معاشیات کے فطری نامیاتی قوانین کو وسیع پیمانے پر واضح کرتے ہیں۔ تاریخ کے بورژوا دور نے نئی دنیا کی مادی بنیادیں تخلیق کرنی ہیں یعنی ایک طرف سے انسانیت کے باہمی انحصار کی بنیاد پر عالمی تعامل اور اس تعامل کے ذرائع اور دوسری طرف انسان کی پیداواری قوتوں کی ترقی اور مادی پیداوار کو فطری قوتوں پر سائنسی غلبے میں تبدیل کرنا۔ بورژوا صنعت اور تجارت ایک نئی دنیا کے لیے یہ مادی بنیادیں اسی طرح تخلیق کرتے ہیں جس طرح ارضیاتی تبدیلیوں نے سطح زمین کی تخلیق کی ہے۔ جب ایک عظیم سماجی انقلاب بورژوا دور کے ثمرات، عالمی منڈی اور جدید پیداواری قوتوں کو اپنے قابو میں لاکر انہیں سب سے ترقی یافتہ قوموں کی مشترکہ ملکیت میں لائے گا، تب ہی جا کر انسانی ترقی اس قابل نفرت باطل بت کی طرح نہیں رہے گی جو مردے کی کھوپڑی سے خون چوستا ہے۔ (مارکس اینگلز، مجموعہ تصانیف، جلد 12، صفحہ نمبر 217)
تاہم مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو، مارکسزم کی بنیادی دستاویز جسے ان عظیم استادوں نے ساری عمر مقدم رکھا، میں قومی سوال پر اپنے مؤقف کو واضح طور پر پیش کیا ۔ انہوں نے مینی فیسٹو میں لکھا، ’’کمیونسٹوں پر مزید تنقید یہ کی جاتی ہے کہ وہ وطن اور قومیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ محنت کش کا کوئی وطن نہیں ہوتا ۔ ہم ان سے وہ چیز چھین ہی نہیں سکتے جو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔چونکہ پرولتاریہ کو سب سے پہلے سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے اور خود کو قوم کا رہنما طبقہ بنانا ہے، بلکہ خود قوم بننا ہے ۔ اس لئے اس حد تک (اس کا کردار) قومی ہے۔ مگر اس لفظ کا وہ مفہوم نہیں جو بورژوا سمجھتے ہیں۔ بورژوازی کی نشوونما، آزاد تجارت، عالمی منڈی، طرز پیداوار اور حالات زندگی کی یکسانیت کی وجہ سے قومی تفریق اور تضادات ختم ہورہے ہیں۔‘‘
مارکس نے حالات کے سائنسی سماجی و معاشی تجزئیے اور اس بنیاد پر سماجی انقلاب کے تناظر کی تخلیق میں جذباتیت کو مسترد کیا ۔ ہندوستان پر اپنے مضامین کے ایک سلسلے میں اس نے 22 جون 1853ء کو لکھا، ’’یہ سچ ہے کہ انگلینڈ صرف اپنے قابل نفرت مفادات کی خاطر ایک سماجی انقلاب کو اکسا رہا ہے اور اسکے لاگو کرنے کا طریقہ انتہائی احمقانہ ہے۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایشیا کے سماجی حالات میں بنیادی انقلاب لائے بغیر کیا نسل انسانی اپنی تقدیر بنا سکتی ہے؟ اگر نہیں، تو انگلینڈ کے جرائم جو بھی ہوں وہ اس انقلاب کے لانے کے لیے تاریخ کا لاشعوری اوزار ہے۔‘‘
(دی نیویارک ڈیلی ٹریبیون، 25 جون، 1853ء)
اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ قومی یا طبقاتی آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلح جد وجہد درست، مؤثر اور کامیاب راستہ نہیں ہے ۔مسلح جدوجہدنے مخصوص اوقات میں حق خود ارادیت کی جد وجہد میں ایک ضمنی کردار ادا کیا ہے لیکن بالآخر کامیاب انقلابی نتائج صرف اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب اس جد وجہد کو صنعتی اور شہری علاقوں کے مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی جد وجہد سے جوڑا جائے ۔ مارکسزم کے عظیم استادوں، مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی نے سوشلسٹ انقلاب کرنے کے لیے کبھی بھی مسلح جدوجہد اور گوریلا جنگ کی وکالت نہیں کی۔ بد قسمتی سے آپ نے اُن اَن گنت مظاہروں اور احتجاجی مظاہروں کو نظر انداز کر دیا ہے جو ہم نے بلوچوں پر بوسیدہ پاکستانی ریاست کے جبر کے خلاف کیے تھے۔ سامراجی ریاستوں اور ان کی پراکسیوں کی اس جبر میں شمولیت اسی طرح قابل مذمت ہے۔ تاہم آپ کی تنقید میں ایک خاموشی ہے اور حتیٰ کہ آپ نے ان بلوچ سیاست دانوں کا ذکر ہی نہیں کیا جو 1948ء سے پاکستانی حکمران طبقے کے ساتھ ساز باز کرکے بلوچستان پر جبر، ظلم اور استحصال میں شریک رہے ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچوں کی سربراہی میں موجودہ حکومت پنجابی بورژوازی کے سب سے رجعتی دھڑے، مسلم لیگ (ن)، کے ساتھ ایک غیر مقدس اتحاد ہے۔ ان کی چاپلوسی، خصی پن اور غلامانہ رویے بلوچستان کے مراعات یافتہ طبقے کے کردار اور خوشامدی پیٹی بورژوا دانشوروں کے نمائندہ ہیں۔مارکس نے یہ بھی لکھا کہ برطانیہ نے ہندوستا ن کو ہندوستانی فوج کے ذریعے فتح کیا۔ اگر بلوچستان میں موجودہ سیاسی قیادت کو دیکھیں تو طبقاتی تضادات صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ لینن نے محکوم قوموں کے سوشلسٹوں کے کردار کے بارے میںیہ لکھا :’’دوسری طرف محکوم قوموں کے سوشلسٹوں کو خاص طور پر محکوم قوم اور حاکم قوم کے مزدوروں کے درمیان مکمل اور قطعی اتحاد (بشمول تنظیمی اتحاد) کے لیے جد وجہد کرنا چاہیے۔ اس طرح کے اتحاد کے بغیر بورژوازی کی چالبازیوں، دھوکوں اور حیلوں کی موجودگی میں ایک آزاد پرولتاری پالیسی اور دوسری قوموں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی یکجہتی ناممکن ہے۔ کیونکہ محکوم قوموں کی بورژوازی ہمیشہ قومی آزادی کے نعرے کو مزدوروں کو دھوکہ دینے کے آلے میں تبدیل کرتی ہے۔ اندرونی سیاست میں وہ ان نعروں کو حاکم قوم کی بورژوازی کے ساتھ رجعتی معاہدے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ خارجہ سیاست کے میدان میں وہ اپنے غارت گری کے مفادات کی خاطر حریف سامراجی طاقتوں میں سے ایک کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں ۔ خاص حالات میں ایک سامراجی طاقت قومی آزادی کی جد وجہد کو دوسری ’بڑی‘ طاقت کے خلاف اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ‘‘(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 22، صفحہ 124)
بلوچستان میں میگا پروجیکٹس بلوچستان کو ترقی دینے یا محروم بلوچ عوام کو روزگار دینے کے لیے نہیں بلکہ بے انتہا منافعوں کے لالچ کی تسکین اور قدرتی و معدنی وسائل پر کنٹرول اور خطے میں سامراجی اثرورسوخ کے لیے ہیں۔ اس سے سامراجی سرمایہ کار مزید امیر اور عوام مزید غریب ہوں گے۔ پاکستانی حکمران اور ریاستی ادارے بشمول ایف ڈبلیو او سامراجی سرمایہ کاروں کے دلال اور کمیشن ایجنٹ کا کردار ادا کریں گے۔ سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں سرمایہ کاری سے علاقے میں ترقی نہیں آئے گی اور نہ ہی اس سے زیادہ روزگار پیدا ہو گا ۔ حتیٰ کہ اگر یہ منصوبے مکمل بھی ہوجائیں تو اس سے بلوچستان کی ترقی مسخ ہوجائے گی اور مزید ناہمواری اور نابرابری پیدا ہوگی۔ بہتات کی کیفیت میں عوام کے لیے غربت اور محرومی ہی ہوگی۔ پسماندگی کے صحرا میں جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کا نخلستان ہوگا۔ اس کا بنیادی مقصد وسائل اور دولت کی لوٹ مار اور خطے پر بالادستی کے لیے اپنی سٹریٹجک پوزیشن کو مضبوط کرنا ہے۔ حالیہ دور میں حتیٰ کہ سرمایہ کاری کا کردار بھی لیبر انٹینسو (Labour intensive) سے کیپیٹل انٹینسو (Capital intensive) ہوگیا ہے جس میں انسانی محنت کی جگہ بڑی شدت سے روبورٹس لے رہے ہیں۔ چینی نہ صرف کم انسانی محنت اور زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں بلکہ لاطینی امریکہ، افریقہ اور پاکستان میں ان کے سابقہ تجربات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنے ساتھ چینی سٹاف بھی لے آتے ہیں ۔ مقامی مزدوروں کو صرف انتہائی معمولی اور کم اجرت والی ملازمتیں ملیں گی۔
جہاں تک 1974ء میں بھٹو کے دور میں بلوچستان پر فوجی جارحیت کا سوال ہے، اس آپریشن پر میری کتاب ’’پاکستان کی اصل داستان‘‘ میں خاص توجہ دی گئی ہے اور کسی حیلے بہانے کے بغیر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ امریکی سامراج کے کردار بشمول اس کی پراکسی جیسے شاہ ایران اور بلوچستان میں دوسری طاقتوں کی واضح انداز میں اَن گنت مرتبہ مذمت کی گئی ہے۔ ہم کسی طرح بھی بھٹو کی غلط کاریوں اور پیپلز پارٹی کی بعد میں آنے والی قیادتوں کے جرائم کے معذرت خواہ نہیں ہیں۔ہم ریاست پر لینن کے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور بورژوا ریاست کے ظلم و جبر سے سمجھوتہ، اسے جواز فراہم کرنا یا رعایت دینا، ہمارے نزدیک ایک جُرم ہے۔
جہاں تک امریکی کانگریس میں دائیں بازو کے رجعتی ریپبلکن سینیٹر کی قرارداد کا تعلق ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بلوچ کاز کو زیادہ پذیرائی ملی۔ امریکی سامراج پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے بہت حواس باختہ ہے، بالخصوص گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ سے، جو آبنائے ہرمز سے صرف تین سو میل کے فاصلے پر ہے جہاں سے پوری دنیا کا 50 فیصد خام تیل گزرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر چین انفراسٹرکچر اور معدنی وسائل کے کنٹرول کے لیے بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور فوج کو بھاری ہتھیار اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ یہ قرارداد بلوچ قومی آزادی کے مفادات سے زیادہ بلوچستان اور بحیثیت مجموعی خطے میں امریکی سامراج کے محدود جیو پولیٹیکل اور سٹرٹیجک مفادات کے لیے ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ سوال پوچھنا چاہیے: قومی آزادی کے لیے ہم کس کی مدد کی راہ تک رہے ہیں ؟ بورژوازی کی؟ اقوام متحدہ کی شکل میں ’عالمی برادری‘ کی؟ جو ایک مکمل خصی ادارہ ہے جو امریکی سامراج کی مالی امداد کے بغیر چل نہیں سکتا اور اسی وجہ سے اپنے مالک کے اشاروں پر ایک داشتہ کی طرح ناچتا ہے؟یہ ادارے صرف منافقت، استحصال اور جبر کرسکتے ہیں ۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک انہوں نے کس قوم کو آزادی دی ہے؟ان کی قراردادیں اور بیانات بے معنی ہیں اور سامراج کی مرضی کے بغیر ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا ۔ کیا واقعی ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ امریکی سامراج بلوچ کاز کے لئے پاکستانی ریاست کے ساتھ جنگ لڑے گا؟ اگر ہاں، تو افسوس کے ساتھ ہم غلطی پر ہیں ۔ سیمر ۔م۔ ہرش، ایک تفتیشی امریکی صحافی، نے ’لندن ریویو آف بکس ‘ میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں سی آئی اے، سعودیوں، پاکستانی ریاست اور ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ، ایبٹ آباد میں اس کی محفوظ پناہ گاہ اور پھراسے امریکیوں کے حوالے کر کے نیوی سیلز کے ہاتھوں قتل کروانے کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے ہیں۔ ’’پاکستانی ریاست اور امریکی سامراج کے کشیدہ تعلقات‘‘ میں اس نے انکشاف کیا کہ ’’مستقل کھلے عام جھگڑوں کے باوجود امریکی اور پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جنوبی ایشیا میں دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کام کیا ہے۔ جیسا کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ دونوں ایجنسیوں کے لیے یہ بات اکثر بہت کارآمد ہوتی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھگڑوں کا ناٹک کرکے اپنی ہزیمتوں کو چھپائیں لیکن وہ بلا توقف ڈرون حملوں اور خفیہ آپریشنوں میں تعاون کے لیے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے تھے ۔ واشنگٹن میں یہ بات سمجھ لی گئی ہے کہ امریکہ کی سیکیورٹی کا انحصار پاکستان کے ساتھ مضبوط فوجی اور انٹیلی جنس تعلقات پر ہے۔ پاکستان میں بھی یہی خیال کیا جا تا ہے۔‘‘
یا کیا ہم امریکہ، یورپ اور پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ سچ اور حقیقت یہ ہے کہ امریکی محنت کش اور نوجوان کبھی بھی دائیں بازو کے ریپبلکنز، جن سے وہ ان کے امریکہ میں طبقاتی اور نسلی جبر کی وجہ سے شدید نفرت کرتے ہیں، کی پیش کردہ قرار داد کی حمایت نہیں کریں گے ۔صرف طبقاتی یکجہتی کی اپیل کی بنیاد پر ہی دنیا کے محنت کشوں کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ میں کامریڈ خیر بخش مری (جن کے ساتھ میری تندوتیز اور دوستانہ بحث ہوتی تھی) کے اس بیان سے اتفاق کرتا ہوں جس کو آپ نے اپنی تنقید میں نقل بھی کیا ہے کہ بلوچ تحریک آزادی کو امریکی سامراج کے مفادات کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔اگر آپ اس بیان کو مزید غور سے دیکھیں تو بلوچستان میں امریکی سامراج کی پالیسی، مقاصد، مفادات اور سٹریٹجی مزید واضح ہوگی۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کی قیادت ہمیں اپنا ماننے سے ہی انکاری ہے اور ہم سے سب سے زیادہ نفرت وہی کرتے ہیں اور جہاں کہیں موقع ملے ہم پر حملے کرتے ہیں۔ یہ بات بے نظیر کے لیے بھی درست تھی اور زرداری کے لیے بھی درست ہے۔ اس لیے یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ آپ مجھے ان کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے تاسیسی دستاویز میں وہ کچھ لکھا جو کسی بھی دوسری عوامی پارٹی نے کبھی بھی اپنے پروگرام میں نہیں کہا، ’’پارٹی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘‘ اسی وجہ سے یہ محنت کشوں کی روایتی اور سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ 1968-69ء کے انقلابی دور میں یہ وسیع عوامی حمایت یافتہ پارٹی بن گئی لیکن 1970ء کی دہائی میں اقتدار میں آنے کے بعد بہت جلد ہی اس نے مزدوروں پر حملے شروع کر دیئے اور مزدوروں سے بیگانہ ہوگئی۔ جنرل ضیا کی سفاک آمریت اور 1979ء میں بھٹو کی پھانسی نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی دی۔ تاہم بے نظیر بھٹو نے امریکی اور برطانوی سامراج کے ساتھ الحاق کرکے اس موقع کو ضائع کردیا ۔ بے نظیر نے 1980ء کی دہائی میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کو زائل کرنے کا کردار ادا کیا۔ آج کی پیپلز پارٹی کوئی باقاعدہ پارٹی نہیں بلکہ عوام کی وسیع اکثریت کی ایک غلط فہمی ہے۔تاہم یہ غلط فہمی بھی بہت تیزی سے ٹوٹ کر بکھر رہی ہے ۔اس کی موجودہ قیادت بہروپیوں، فراڈیوں، چوروں، بدمعاشوں اور مجرموں پر مشتمل لمپن بورژوازی ہے۔ اگر آپ ہماری اردو ویب سائٹ پراور بورژوا میڈیا میں میرے لاتعداد مضامین کو پڑھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس حوالے سے ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے۔ بہر حال اب بہت ساری پیپلز پارٹیاں ہیں اور اس روایت کے انہدام سے بہت سی اور بھی پیدا ہونگی۔
آپ نے جدوجہد کے سوشلسٹ مقاصد کے حوالے سے کامریڈ شیر محمد مری (جن سے میں اپنی جوانی میں 1978ء میں ملا تھا اور ان سے مجھے بہت شکتی ملتی تھی) اور کامریڈ خیر بخش مری کا ذکر کیا ۔ہمیں واضح طور پر بات کرنی چاہیے۔ انقلاب اور مارکسزم کا کافی مطالعہ کرنے کے بعد وہ یہ جان گئے کہ حقیقی معاشی اور قومی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہے اور یہ صرف طبقاتی جد وجہد کے ذریعے نہ کہ قومی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم وہ بلوچستان کی قومی آزادی کو سوشلسٹ فتح کے لیے طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے کے لیے پورے خطے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس مقصد کے لیے وحشی ریاست، جو طبقاتی اور قومی جبر کرتی ہے، کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس تاریخی فریضے کو انجام دینے والی فیصلہ کن، اہم اور کامیاب قوت جدید شہری علاقوں جیسے کراچی، لائل پور، کوئٹہ، لاہور، حید ر آباد، سکھر، پشاور، گجرانوالہ، مردان، نوشہرہ، گجرات، ژوب، حب، ٹیکسلا/ واہ، راولپنڈی وغیرہ کے نوجوان اور پرولتاریہ ہیں۔ وہ جو معیشت اور صنعت کا پہیہ گھماتے ہیں، جو زراعت یا خدمات کے شعبے میں کام کرتے ہیں، جو درحقیقت پورے سماج کو چلاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو معیشت کو جام کرکے جابر ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر تے ہے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس کو اکھاڑ پھینک دیتے ہیں۔
لینن کی مارکسزم کے لیے بڑی خدمات میں سے ایک قومی سوال کی جدلیاتی انداز میں بڑھوتری ہے۔ یہ دراصل انقلابیوں کے لیے قومی سوال کو سوشلسٹ انقلاب سے جوڑنے کے لیے وسیع نظریاتی خزانہ ہے ۔ بد قسمتی سے لینن کو میکانکی اور موقع پرستانہ انداز میں پیش کیا جا تا ہے۔ قومی سوال پر اس کی تین اہم تحریریں یہ ہیں : اس کی کتاب ’قوموں کی حق خودارادیت ‘ میں روزا لکسمبرگ کے ساتھ بحث، 1913ء میں اس کی کتاب ’قومی سوال پر تنقیدی تبصرہ ‘، اور1920ء میں تیسری انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کا مجوزہ پروگرام۔ قومی اور نوآبادیاتی سوال پر منابیندرا ناتھ رائے کے ترمیم شدہ ڈرافٹ کو شامل کرنے کے بعد اس مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اگر کسی نے قومی سوال پر لینن کے مؤقف کو سمجھنا ہے تو اس کی تحریروں کو جدلیاتی انداز میں جوڑنا اور پڑھنا ہوگا۔ تاہم ایک حوالہ جو میں سمجھتا ہوں کہ لینن کے قومی سوال پر موقف کی مکمل روح کو بیان کرتا ہے، یہ ہے:
’’سوشل ڈیموکریٹس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پوری ریاست میں نافذالعمل ایک قانون بنایا جائے جو ریاست کے کسی بھی حصے میں رہنے والے قومی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کرے ۔ یہ قانون کسی بھی ایسے اقدام، جس کے ذریعے اکثریتی قومیت اپنے لیے مراعات حاصل کرے یا اقلیتی قومیت کے حقوق کو محدود کرے (تعلیم کے شعبے میں، بجٹ وغیرہ کے معاملات میں، کسی مخصوص زبان کے استعمال میں) کا راستہ روکے اور اس طرح کے اقدام کو قابل تعزیر جرم قرار دے۔ ’ثقافتی قومی‘ (یا صرف قومی) ’خودمختاری‘ یا اس کے نفاذ کے منصوبوں کی طرف سوشل ڈیموکریٹس کا رویہ منفی ہے کیونکہ یہ نعرہ (۱) بلاشبہ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کی بین الاقوامیت سے متصادم ہے ۔ (۲)اس سے پرولتاریہ اور محنت کش آسانی سے بورژوا قوم پرستی کے دائرہ اثر میں آجائیں گے اور (۳) بحیثیت مجموعی ریاست کی مستقل جمہوری تبدیلی کے فریضے، صرف یہی تبدیلی قومیتوں کے مابین امن لاسکتی ہے (جس حد تک سرمایہ داری میں ممکن ہے)، سے توجہ ہٹا دیتا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹس کے ہاں قومی ثقافتی خودمختاری کے سوال کی اہمیت کے پیش نظر ہم کچھ وضاحت پیش کرتے ہیں : (الف) سوشل ڈیموکریسی کے نکتہ نظر سے قومی ثقافت کا نعرہ لگانا، بالواسطہ یا بلاواسطہ، ممنوع ہے۔ یہ نعرہ غلط ہے کیونکہ پہلے ہی سرمایہ داری میں پوری معاشی، سیاسی اور روحانی زندگی زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی ہوتی جا رہی ہے۔ سوشلزم اسے مکمل طور پر بین الاقوامی بنائے گا۔ بین الاقوامی ثقافت، جسے تمام ممالک کا پرولتاریہ منظم انداز میں پہلے سے ہی تخلیق کر رہا ہے، ’قومی ثقافت‘ کو مکمل طور پر جذب نہیں کرتی ( چاہے کسی بھی قوم کی کیوں نہ ہو) بلکہ ہر قومی ثقافت میں سے صرف ان اجزا کو قبول کرے گی جو مستقل طور پر جمہوری اور سوشلسٹ ہو ۔‘‘ (لینن، مجموعہ تصانیف، پروگریس پبلشرز، 1977ء، جلد 19، صفحہ 243-251) [نوٹ: لینن یہاں ’سوشل ڈیموکریٹس ‘ کی اصطلاح مارکسسٹوں کے لیے استعمال کررہا ہے، کیونکہ 1913ء کے اس دور میں بالشویک آر ایس ڈی ایل پی کو ترک کر رہے تھے]
میں سمجھتا ہوں کہ لینن نے ساری بات کہہ دی ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم سب بین الا قوامیت پسند ہیں۔ مارکسزم انٹرنیشنلزم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے، اس کی مصنوعی سرحدوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے محکوم قوم کی قومی آزادی اور طبقاتی آزادی ممکن نہیں ہے۔ ہم محکوم بلوچ عوام کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں ۔ یہی مؤقف بلوچستان میں رہنے والے پشتون، ہزارہ اور جنوبی ایشیا اور دوسرے خطوں میں رہنے والے محکوم محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے بھی ہے۔
مہراب سنگت کے ساتھیو! ہم عالمی انقلاب کی پرولتاری فوج کے سپاہی ہیں۔ ہم آپ کی قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو دوسری محکوم قومیتوں کی طبقاتی جد وجہد کے ساتھ جوڑنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس سیارے کے ہر کونے میں اس استحصالی نظام اور اس کی ریاستوں کو اکھاڑ پھینکنے کی عالمی جد وجہد میںآپ کو دعوت دیتے ہیں۔ سوشلزم نجی ملکیت کی نفسیات اور قومی جبر کا خاتمہ کرتا ہے جو آخری تجزیے میں وسائل، دولت اور جائیداد کی ملکیت کا سوال ہے۔ بلوچستان کے وسائل صرف اسی صورت میں یہاں کے لوگوں کے ہوسکتے ہیں جب نجی ملکیت کے نظام اور ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت، تقسیم اور تبادلہ کے نظام کا خاتمہ کر کے اجتماعی ملکیت کو رائج کیا جائے۔ یہ صرف محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے تحت سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
بالشویک تسلیمات کے ساتھ،
لال خان
11 مئی 2015ء