| تحریر: قمرالزماں خاں |
2 فروری کو ضیا الحق کی روح کافی پرسکون ہوئی ہوگی، گو فروری 1978ء کو کالونی ٹیکسٹائل ملز میں ضیا الحق کی فورسز کے ہاتھوں مزدوروں کی ہلاکتیں سینکڑوں میں تھیں، مگر پھر بھی اپنے روحانی اور سیاسی پیشوا کی روش کو اختیار کیاگیا، کراچی ائیر پورٹ کے باہرپی آئی اے ملازمین کی نجکاری مخالف ریلی پر براہ راست فائرنگ سے سردست دو ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اٹھارہ سے زیادہ زخمی اسپتالوں میں پڑے ہیں۔ حکومت خود کو ’جمہوری‘ قراردیتی ہے مگر اسکا کوئی رویہ بھی اس دعوے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مزدوروں کی طرف سے ہڑتال جاری ہے، فلائیٹس رکی ہوئی ہیں اور کسی بھی وقت ’ایوی ایشن ‘بھی اس ہڑتال کا حصہ بن سکتی ہے، اس طرح غیر ملکی ائیر لائینز اور ہڑتال میں چاندی بنانے والی نجی ائیر لائینز کی پروازیں بھی رک جائیں گی۔ حکومت ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور قتل وغارت گری اور فاشسٹ ہتھکنڈوں پر نادم ہونے کی بجائے دھمکیاں دی رہی ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائینز کی نجکاری کے معاملے کو کئی سمتوں سے متضاد دعوؤں اور الزامات کے جلو میں آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غیر یقینی کا شکار حکومت خاصی عجلت میں دکھائی دیتی اور میاں منشا بے چین ہے تاکہ جلد از جلد نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کو اسی طرح ہتھیا سکے جس طرح ماضی کی نوازشریف حکومت میں مسلم کمرشل بینک کو تقریباََ مفت ہتھیا لیا گیا تھا۔ پی آئی اے کے خسارے کے اشتہارات قومی اخبارات میں شائع کرکے لوگوں کے شعور کو مجروح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آدھے سچ سے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ خسارہ ملازمین کی وجہ سے ہے۔ ان تفصیلات کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جانے دیا جارہا جس سے خسارے کی حقیقی وجوہات کے متعدد سنگین سکینڈلز سامنے آسکیں جن کی ذمہ دار حکومت، وزارت اور انکی پالیسیاں ہیں۔ مثلاً بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے کہ پاکستان ائیر لائینز کسی دور میں دنیا کی چوٹی کی ائیر لائن تھی اور تب بھی وہ پرائیویٹ نہیں بلکہ پبلک سیکٹر میں ہی لاجواب سروس بھی تھی جس میں باکمال لوگ سفر کیا کرتے تھے۔ برصغیر تو کیا پورے براعظم ایشیا میں پہلے سفری جیٹ، پہلے بوئنگ جہاز اور نئے بوئنگ 777-200LR کے تعارفی ماڈل کا استعمال بھی کامیاب PIA نے کیا تھا۔ چین، نیپال، امارات، اتحاد، سنگاپور، سعودی عرب، مالٹا، لیبیا، سوڈان، کینیا، صومالیہ، ملائشیا، کویت اور عراقی قومی ائیرلائنز کو قائم کرنے میں PIA کا کلیدی کردار رہا ہے۔ پی آئی اے کو اسی منظم سازش اور بدنیتی کا سامنا ہے جس کے تحت مختلف پبلک سیکٹرکے اداروں کو شعوری طور پر برباد کرکے ’’نجکاری‘‘ کا جواز قائم کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پبلک سیکٹر کے بالمقابل نجی شعبہ لوٹ مار، کرپشن، منافع خوری، محنت کے استحصال، ٹیکس چوری، بجلی، گیس کی چوری اور بنکوں سے قرضے لیکر معاف کرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کم ازکم پاکستان میں کوئی ایک جواز یا دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پوائنٹ آف ریفرنس ہے جس کی بنیا د پر پبلک سیکٹر کو نجی شعبے کی طرف منتقل کرنے کے فلسفے کو تقویت پہنچتی ہو۔ مگر یہاں معاملہ ذرامختلف ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمران‘ جو ذاتی مفادات اور اپنے کاروباری معاملات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کو ہی ’پاکستان کا مفاد‘ قراردینے کی تاریخ رکھتے ہیں‘ کا ہر میگا پراجیکٹ میں باقاعدہ حصہ ہے۔ ماضی میں حکمران کمیشن لیا کرتے تھے مگر اب حصہ داری سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ اب کے خیال یہ تھا کہ پاکستان ائیر لائینز کو ٹرکش ائیر لائینز کا ذیلی ادارہ بنا دیا جائے۔ بیرون ملک جانے کے لئے ‘پاکستان سے اڑنے والے طیارے ترکی تک جاتے اوروہاں سے ٹرکش ائیر لائینز کے طیارے پی آئی اے کے طیاروں کی جگہ لے لیتے۔
جس کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی بات کی جارہی ہے اسکے مراکز نیچے نہیں بلکہ اوپرسے نظر آتے ہیں۔ PIA کی تباہی کی کہانی 90ء کی دہائی کے اوائل سے شروع ہوتی ہے جب ’کھلے آسمان‘ (Open Skies) کی پالیسی کے تحت پاکستان کی فضاؤں کو پرائیویٹ ائیرلائنز کیلئے کھول دیا گیا جس کے تحت سفری اور تجارتی حقوق کے ساتھ 11 مقامی ائیرلائنز اس وقت پاکستان کے اندر جبکہ بیشتر جگہوں پر مشرقِ وسطیٰ کی مختلف ائیرلائنز کام کر رہی ہیں جن میں اتحاد اور امارات سرِ فہرست ہیں۔ دو سابق ڈائریکٹروں خاقان عباسی اور شجاعت عظیم نے PIA کی لوٹ کھسوٹ سے اپنی ائیرلائنز ’ائیر بلو‘ (Air Blue) اور ’رائل ائیر‘ (Royal Air) بنا لی ہیں۔ رائل ائیر کے پاس گراؤنڈ سروسز کے تمام ٹھیکے بھی ہیں۔ روزِ اول سے تمام حکومتوں نے PIA میں سیاسی بھرتیوں اور اقربا پروری کی روش کو برقرار رکھا جس کی وجہ سے آج مٹھی بھر مینیجمنٹ گھر بیٹھی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپیہ حرام کر رہی ہے۔ سالانہ PIA آڈٹ رپورٹ کے مطابق بورڈ میٹنگ میں سالانہ غیر حاضری کی شرح تقریباً 60 فیصد ہے جبکہ 1956ء کے ایکٹ کے مطابق تین متواتر غیر حاضریوں کے بعد ممبر کا بورڈ سے خارج ہونا قانون ہے۔ انہی آڈٹ رپورٹس کے مطابق PIA کا سالانہ 71 ملین ڈالر کا خسارہ ان سپئر پارٹس کی مد میں ہے جو سارا سال استعمال نہیں ہوئے لیکن ایمرجنسی میں خریدے گئے تھے۔ اربوں روپے ایسے سپئر پارٹس کی خریداری میں برباد ہوا جن کے متعلقہ جہاز PIA کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں۔ کارگو کے ٹھیکوں کی مد میں 127 ملین روپیہ برباد ہوا جس میں سے 81 ملین روپے ایک MD صاحب کی فراخ دلی سے معاف کر دئے گئے۔ کروڑوں روپے پرل کانٹی نینٹل (PC)، میریٹ (Marriot) اور کریک (Creek) ہوٹلز کو ان سروسز کی ادائیگی میں دئے گئے جو کبھی استعمال ہی نہیں ہوئیں۔ ایسوسی ایشن آف پاکستان ٹریول ایجنٹس (APTA) کے خط کے مطابق ہزاروں لاکھوں پاؤنڈ اور ڈالر کے عوض مٹھی بھر ڈائریکٹرز اور منیجرز بھرتی ہوئے جو اس قومی اثاثے کا خون چوس رہے ہیں۔ تمام بزنس پلان 30-32 جہازوں کومدِ نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں جبکہ حقیقتاً صرف 18جہاز آپریشنل ہیں جبکہ فلائٹس صرف کاغذوں پر ہی موجود ہیں۔ باقی پیسہ کدھر جا رہا ہے؟ فنانس منسٹری نے جتنی مرتبہ ائرلائن کو بحران سے نکالاوہ سب PIA کے شئیرز کی مدمیں نکالا گیا۔ آج وہ شئیرز کہاں ہیں اور کس کی ملکیت ہیں اس معاملے پر سب مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
یورپی یونین نے 2007ء میں PIA کے تمام جہازوں کو ناقص ہونے کی وجہ سے یونین کے تمام ممالک میں ممنوعہ قراردے دیا جس سے کئی مہینوں کی منتوں کے بعد جان چھڑوائی گئی۔ یورپی فضائی سیفٹی ایجنسی (EASA) نے 2012ء میں ائیرلائن کی مینٹیننس اپروول منسوخ کر دی جو بعد میں پھر کروڑوں روپیہ لگا کر بحال کرائی گئی۔ عرب امارات نے بھی PIA کے بوئنگ جہازوں کی لینڈنگ منسوخ کر رکھی ہے۔ بوئنگ 777 جمبوجہاز 140 ملین ڈالر فی کس پر خریدے گئے جن کے انجن ہی نہیں تھے! نہ صرف بعد میں الگ سے انجن خریدے گئے بلکہ 5 سال تک 30-40 ملین ڈالر فی جہاز مینٹیننس رقم بھی بچائی گئی جس کا آج تک نہیں پتہ لگا کہاں گئی۔ 777 جہاز جو لمبے روٹ کیلئے ہیں ان کو مختصر روٹس پر لگایا ہوا ہے جس سے ان کے سائیکل پورا کرنا دشوار ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جہاں جہاز برباد ہو رہے ہیں وہیں پر کروڑوں کی خطیر رقم مینٹننس کی مد میں کھائی جا رہی ہے۔ ایک MD کرمانی کی بیٹی کی نوزائدہ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہر جہاز کی دم پر نئے ڈیزائن کی مد میں لاکھوں روپیہ فی کس ادا کئے گئے۔ کیبن کریو کی یونیفارم کے ٹھیکوں کی مد میں کروڑوں روپیہ اڑا دیا گیا ہے۔ انگلینڈ کی ٹریول ایجنٹ ایسوسی ایشن نے PIA پر ہرجانہ کیا جس کی سیٹلمنٹ کے نتیجہ میں 12 ارب روپیہ ادا کیا گیا۔ سعودی حکام کو ایک ناقص عمارت کی مد میں 13 لاکھ ریال ہرجانے کے طور پر ادا کئے گئے ہیں۔
اسی طرح اگر ائیرپورٹس کی تعمیر اور منٹیننس کو دیکھیں تو صرف لوٹ کھسوٹ اور عوام کے پیسوں پر عیاشی ہی نظر آتی ہے۔ بے نظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر کی مد میں 200 ارب روپیہ دو دفعہ خرچا جا چکا ہے۔ ملتان ائیر پورٹ کے تعمیراتی کاموں کو MD شجاعت عظیم نے 2013ء میں خود آہستہ کروایا تاکہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو، نئے لاؤنجز اور تعمیرات کی مد میں اربوں روپیہ اڑایا جا رہا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی NLC کو ٹھیکے بغیر کسی بولی کے دے دیتی ہے۔ نیا اسلام آباد ائرپورٹ پچھلے کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہے۔ 38 ارب روپے کا بجٹ اب 100 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے مگر اختتام ہوتانظر نہیں آ رہا، یہ ٹھیکہ وزیر اعظم کی بیٹی کے سمدھی منیر ہدائت اللہ کی کمپنی کے پاس ہے۔ صرف ایک ٹھیکیدار کو 33 ارب روپیہ محض تعلقات کی بنا پر ادا کر دیا گیا۔ ایک ٹیکسی رن وے کی تعمیر پر 1.5 ارب روپیہ بہا دیا گیا ہے۔ لاہور ائرپورٹ پر دھند میں جہاز اتارنے کا جدید سسٹم ILS-K3B جس کی کل مالیت 5 ملین ڈالر تھی 25 ملین ڈالر میں لگایا گیا اور ستم ظریفی یہ کہ ناقص ہونے کی وجہ سے کوئی ائر لائن دھند میں اپنا جہاز اتارنے کو تیار نہیں۔ ان تمام شواہد سے یہ تو ثابت ہوا کہ اس قومی اثاثے کا پچھلی تین دہائیوں میں جس طرح بلادکار ہوا ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔
لیکن کہانی یہیں نہیں ختم ہوتی۔ اس کے بعد اب اس اثاثے کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیچا جا رہا ہے۔ بہت سارے بھیڑئیے ائیرلائن کے روٹس اور کھربوں روپے کے اثاثہ جات پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا شب خون حکومت نے اس وقت مارا جب چند ہفتے قبل رات کے اندھیرے میں PIA کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک قومی کارپوریشن سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا۔ اتحاد اور امارات ائیرلائنز کو 59 انٹرنیشنل روٹس اور 17 مقامی روٹس بیچ دئے گئے ہیں۔ کارگو، کیٹرنگ کے بعد دیگر 23 شعبوں کی نجکاری بھی کی جا رہی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ نظر جس چیز پر میاں منشا جمائے بیٹھا ہے وہ نیو یارک میں روزویلٹ ہوٹل (Roosvelt Hotel)، جس کی کم از کم مالیت بھی 1ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اور پیرس میں سکائی ہوٹل (Sky Hotel) ہیں۔ پہلے ہی بھٹو کے دور میں لاڑکانہ میں بنایا گیا ہوٹل سمبارا ان (Sambara Inn) جس کی مالیت 80 کروڑ روپے ہے، سندھ کی حکومت نے 2.5 لاکھ روپیہ ماہانہ پر ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔ پھر ائرپورٹس کے ارد گرد کھربوں کی مالیتی زمین پر پراپرٹی ڈیلروں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ اس تمام صورتحال میں جو بات عیاں ہے وہ یہ کہ PIA کے ادارے کو دانستہ طور پر ناقص پالیسیاں بنا کر جہاں نہ صرف لوٹا کھسوٹا گیا اور نجکاری کا بہانہ تلاش کر نے کیلئے برباد کیا گیا بلکہ اب حکمران آپس میں ہی ادارے کی چیرا پھاڑی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ پھر بھی کہا یہی جا رہا ہے کہ پی آئی اے کی بربادی کا ذمہ دارپی آئی اے کا ملازم ہے لیکن مندرجہ بالاحقائق ثابت کرتے ہیں کہ حکمرانوں کے مختلف حصے اسکو اپنے گھناؤنے عزائم کے تحت بھنبھوڑتے چلے آرہے ہیں۔
کراچی ائیر پورٹ کے سامنے کیا گیا قتل عام اس دہشت کو فروغ دینے کے لئے کیا گیا ہے تاکہ مزدور ڈر کرسہم جائیں۔ دو روز قبل نشریات واطلاعات کے وزیر پرویز رشید نے ’’ہڑتالیوں کے پر کاٹنے اور ان کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کرنے‘‘ کی دھمکیاں دی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑا چوروں کا گروہ مسلم لیگ ن میں بیٹھا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کسی پنجابی فلم کے ولن کی طرح دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کو شائد مزدورکی طاقت کا علم نہیں ہے۔ ان کی رعونت ماضی میں بھی کئی دفعہ پاش پاش ہوئی ہے اور اس دفعہ بھی ان کو اس ظلم و استبداد کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ مشاہد اللہ، شجاعت عظیم، محمدزبیر اور پرویز رشیدکی طرف سے کرائی گئی قتل و غارت گری کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے، آج نہیں تو کل تمام مجرموں کو سزا مل کررہے گی۔