| تحریر: لال خان |
ملک کی داخلی سکیورٹی سے وابستہ کلیدی عہدے پر فائز چوہدری نثار علی خان کا حالیہ بیان بہت کچھ عیاں کر گیا ہے۔ وہ کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے اور ہیجان کی کیفیت میں بہت کچھ کہہ بھی گئے۔ چوہدری صاحب کے مطابق ’’دہشت گردی کے خلاف عسکری محاذ پر تو ہم جیت رہے ہیں لیکن نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں۔‘‘اس بیان میں مایوسی، اعتماد کی گراوٹ اور حوصلے کی پستی کا اظہار بالکل واضح ہے۔ حکومت اور ریاست کی خستہ حالی بھی سامنے آتی ہے کہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف بڑھک بازی کی انتہا ہے اور بار بار باور کروایا جاتا ہے کہ 90 فیصد ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے ہیں لیکن دوسری طرف تعلیمی ادارے بند کئے جا رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں کو لاحق مسلسل خطرات ہوں یا لال مسجد کا معاملہ، ہر پیش رفت حکمرانوں کی لاچارگی، ابہام اور نامرادی کی غمازی ہی کرتی ہے۔ ان تمام ایشوز پر چوہدری صاحب کے بیانات نہ صرف متضاد ہیں بلکہ کئی خونخوار بنیاد پرست گروہوں کے لئے ان کا ’سافٹ کارنر‘ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
آئے دن اعلیٰ حکام کے اجلاس چل رہے ہیں جن میں دہشت گردی کے خاتمے کا پرزور عزم کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام عزائم کے باوجود اعتماد اور حوصلہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان بیانات کے ذریعے وہ عوام سے زیادہ خود کو تسلیاں دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی چھٹیوں کے معاملے پر زنگ آلود ریاستی مشینری کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی ہے۔ ان حکمرانوں کے درمیان باہمی ربط کی کیا صورتحال ہے، سب کو نظر آ رہا ہے۔
ٹھنڈ کو چھٹیوں کی وجہ قرار دینے والوں کی کمی نہیں جبکہ چھٹیاں شروع ہی اس دن ہوئی ہیں جب سردی کا زور ٹوٹنے لگا تھا۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں کو سکیورٹی کے انتظامات سخت کرنے کو کہا گیا۔ یہ سلسلہ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول کے سانحے سے اب تلک جاری ہے۔ تعلیمی اداروں کی دیواریں اونچی کی گئیں، باڑیں لگوائی گئیں، سکیورٹی گارڈ بھرتی کئے گئے اور سارا خرچہ فیسوں میں اضافے سے پورا کیا گیا۔ حکومت یہ اخراجات برداشت کرنے کی حالت میں ہے نہ دیوالیہ معیشت میں اتنی سکت ہے کہ سکیورٹی کا کوئی جامع منصوبہ نافذ کیا جاسکے۔ زیادہ تر سرکاری سکول ویسے ہی چار دیواری کے تکلف سے پاک ہیں۔ ان میں پتا نہیں نظروں سے اوجھل کون سی ہوائی سکیورٹی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ نجی سکول کریانے کی دکانوں کی طرح ہر گلی محلے میں کھلے ہوئے ہیں۔ کوئی ریکارڈ، کوئی معیار نہیں ہے۔ ریاست کے پاس اتنی چیکنگ اور پڑتال کی سکت ہی نہیں ہے۔ تمام تر ’کاروائی‘ بڑے شہروں کے کچھ سکولوں کالجوں تک ہی محدود ہے۔
دیواریں اونچی کر دینے سے بھلا دہشت گردی رک جائے گی؟ آرمی پبلک سکول واقعے کے بعد دیواریں اونچی کروائی گئیں، اب باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کے بعد انہیں مزید اونچا کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ یہ دیواریں آخر کتنی اونچی کی جاسکتی ہیں؟ آخر جی ایچ کیو اور دوسری فوجی تنصیبات کی سکیورٹی بھی ناقابل تسخیر تھی، لیکن وہاں بھی دہشت گردی کی کاروائیاں ہوئیں۔ دیواریں ہوں یا چھٹیاں، مسئلے کی حقیقی وجوہات اور ریاستی نا اہلی چھپانے کے ہتھکنڈے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی اسی کالے دھن کا پیدا کردہ عفریت ہے جس پر یہ حکمران طبقہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہاں بڑے دعوے کئے گئے ہیں کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ بند کر دی جائے گی۔ کیسے کر دی جائے گی؟ کالے دھن کی معیشت کا حجم سرکاری معیشت سے بڑا ہے، درحقیقت یہ کالا دھن ہی وہ ستون ہے جس نے ملکی معیشت کو مکمل انہدام سے بچا رکھا ہے اور اسی کی چھاپ ریاستی پالیسیوں پر نظر آتی ہے۔ ہزاروں مدارس آج بھی بے دھڑک چلائے جا رہے ہیں جن کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی رپورٹیں خود وزارت داخلہ یا ایجنسیوں نے جاری کی ہیں۔ یہی صورتحال لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی ہے جہاں سے مذہبی جنون اور بربریت کا پرچار بلا خوف و خطر کیا جاتا ہے۔ مشرف دور میں یہاں آپریشن ہوا جس میں فوج کے کئی سپاہی ان دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ کئی گھر اجڑ گئے لیکن قاتل آج تک دندناتے پھرتے ہیں۔ ان باوردی محنت کشوں کی زندگی بھلا حکمرانوں کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے۔
ایسے مدارس کی آڑ میں کئی مافیا گروہ سرگرم ہیں اور مسلسل پھیل رہے ہیں۔ کئی بڑے سرمایہ دار اور پراپرٹی ٹائیکون اربوں کے اس دھندے میں برابر شریک ہیں اور مخصوص فرقے کے ملاؤں کی پوری معاونت کرتے ہیں۔ لال مسجد کا ملا اپنے خلاف قائم مقدمے میں ضمانت کروانے سے سر عام انکار کرتا ہے اور چوہدری صاحب فرما رہے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ ہی نہیں ہے۔ سینیٹ میں جب مقدمے کا ثبوت پیش کیا گیا تو چوہدری صاحب پہلے غائب رہے پھر بات گول کرنے کے لئے بلا موقع محل دوسرے حکمرانوں پر الزام تراشی کرنے لگے۔ لیکن صورتحال جوں کی توں ہے۔ سارا زمانہ شور ڈال رہا ہے لیکن یہ ملا پوری آزادی سے زہر اگلتا پھر رہا ہے۔ یہ شاید ’نیشنل ایکشن پلان‘ کی عملی شکل ہے۔ لیکن پوچھنے والا کون ہے؟ اس نظا م میں طاقت اور دولت کا زور چلتا ہے جو ملا عبدالعزیز کے تابع ہیں۔
دہشت گردی کے جواز پر متحرک ہونے والی ریاست کی اضافی طاقت بھی زیادہ تر غریب عوام کو ہی کچل رہی ہے۔ تعلیم، علاج اور روزگار کے مسائل ان حکمرانوں نے کیا حل کرنے ہیں جن کے ہاتھ کہیں دہشت گردوں کے معاون ہیں یا ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ان کی نیت ہے نہ جرات اور وسائل۔ان تمام تر عذابوں سے یہ حکمران طبقہ خود ماورا ہے، ان اذیتوں کا انہیں کوئی ادراک نہیں جن میں کروڑوں زندگیاں ہر روز سلگ رہی ہیں۔بھوک یہاں کا معمول ہے۔ بجلی اور گیس ناپید ہیں، تعلیم اور علاج آبادی کی اکثریت کے لئے عیاشی کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ شوریدہ معاشرے کی سطح پر سکوت ہے جو کسی آسیب کی سی کیفیت اختیار کر گیا ہے۔ لیکن یاس اور لاچارگی کے اس عالم میں، محنت کش طبقہ سانس تو لے رہا ہے۔ کوئی دوسرا طبقہ ان کی نجات کے لئے لڑنے والا نہیں۔ یہ ادراک محنت کش عوام کو بھی شعوری یا لاشعوری طور پر ہے۔ حکمرانوں کی آپسی لڑائیاں ختم ہونے والی نہیں۔تاریخ نے ان کے نظام سے استحکام کی گنجائش چھین لی ہے۔ لیکن محنت اور سرمائے کا تضاد اس طبقاتی سماج میں سے کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ طبقاتی جنگ کا فیصلہ کن معرکہ یہاں کے محنت کش طبقے کو ہی لڑنا ہے۔ اس جنگ میں محنت کرنے والوں کی فتح ہی سماج کو محرومی، ذلت اور خونریزی سے نجات دلا سکتی ہے۔