| تحریر: حسن جان |
نئے سال کے دوسرے دن، 2 جنوری کو سعودی عرب نے 47 افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت سزائے موت دے دی۔ ان افراد میں ستاون سالہ شیخ نمر النمر بھی شامل تھا جو ایک شیعہ عالم تھا جو ایک عرصے سے سعودی شاہی خاندان کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتا رہا، کھلے عام سعودی بادشاہت کو گرانے کی بات کرتا رہا اور سعودی عرب میں ایرانی طرز کا اسلامی نظام رائج کرنے کی وکالت کرتا رہا۔
عرب بہار کے نتیجے میں سعودی عرب میں پھوٹنے والے مظاہروں میں شیخ نمر پیش پیش رہا۔ نمر کی سزائے موت کے بعد حسب توقع تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل ہجوم نے مظاہرے کے دوران پیٹرول بم پھینکے اور عمارت کو نذر آتش کر دیا۔ اسی طرح مشہد میں سعودی قونصل خانے پر بھی حملہ کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے اور ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور ایرانی سفیر کو سعودی عرب چھوڑنے کو حکم دے دیا۔ گلف کوآپریشن کونسل میں شامل ممالک بھی محتاط انداز میں ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی بجائے نچلی سطح پر لے آئے۔ واضح طور پر یہ تمام تر اقدامات سعودی عرب کی جانب سے پہلے سے طے شدہ تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طریقے سے نئی تبدیل شدہ صورت حال میں امریکہ اور ایران کے بڑھتے ہوئے یارانے کو روک کر ان میں شگاف ڈالا جاسکے اور ایران کے مشرق وسطیٰ میں ایک علاقائی طاقت بننے کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جائے اور اسی طرح سعودی عرب خطے میں اپنی پرانی ساکھ دوبارہ بحال کرسکے۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ بربادی اور تباہی کے تمام تر تانے بانے 2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے جڑتے ہیں۔ صدام حسین کو ہٹا کر اس کی فوج کو تحلیل کردیا گیا جو عراق کو متحد رکھنے والی واحد مضبوط قوت تھی۔ عراق پر امریکی حملے کے وقت عراق میں کوئی القاعدہ نہیں تھی اور نہ ہی ملک کی تاریخ میں کبھی کوئی خود کش حملہ ہواتھا۔ اس کے علاوہ صدام حسین ایران کی مشرق وسطیٰ میں پیش قدمی کے راستے میں بھی ایک رکاوٹ تھااور اس کی وجہ سے مختلف علاقائی طاقتوں کے درمیان ایک توازن بھی قائم تھا۔ لیکن صدام کو ہٹانے کے بعد عراق میں خود کش حملوں اور فرقہ وارانہ فسادات کی کبھی نہ دیکھی گئی ایک ایسی لہر چلی جس میں اب تک دس لاکھ سے زائد عراقی اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم نام نہاد مغربی درآمد شدہ جمہوریت عوام کے لیے ایک عذاب مسلسل ہے۔ صدام حسین ایک ظالم ڈکٹیٹر تھا جس نے کردوں اور شیعوں کا قتل عام کیا لیکن اس کو ہٹانے کا فریضہ عراق کے محنت کشوں کا تھا نہ کہ سامراج کا۔ مارکسسٹوں نے اس وقت بھی اس سامراجی حملے کی مخالفت کی تھی اور اس کے مضمرات سے آگاہ کیا تھا۔
عراق پر سامراجی حملے کے معاشی مقاصد کے علاوہ ایک مقصد ایران کو بھی سبق سکھانا تھا اور اگر معاملات کند ذہن جارج بش کے حساب کتاب کے مطابق چلتے تو شاید عراق کے بعد اگلا ہدف ایران ہوتا۔ لیکن سرمایہ داری کے زوال اور شکست وریخت کے عہد میں جہاں اس کی نمائندگی اور قیادت کرنے والی شخصیات بونے اور مسخرے ہوتے ہیں وہاں ان کے منصوبے اور تمام حساب کتاب بھی ناقص اور بیہودہ ہوتے ہیں۔ عراق جنگ پر دو کھرب ڈالر سے زائد خرچ کرنے کے بعد جو عراق انہوں نے ’تخلیق‘ کیا وہ امریکہ کے کنٹرول میں نہیں بلکہ ایران کے کنٹرول میں تھا۔ گویا ایران کے علاقائی طاقت بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے میدان خود امریکہ نے فراہم کیا۔ عراق پر حملہ امریکی سامراج نے کیا تھا لیکن حملے کے بعد ملک میں اثر و رسوخ ایران کا بڑھا۔ حتیٰ کہ نوری المالکی کی حکومت بھی ایران کی رضامندی سے بنی۔
اس سے مشرق وسطیٰ میں مختلف علاقائی طاقتوں کے درمیان توازن بگڑگیا۔ نئی عراقی حکومت ایک شیعہ فرقہ پرست حکومت تھی اور ملک اور حکومت چلانے میں واضح طور پر شیعہ اور سنی کے درمیان فرق روا رکھا گیا۔ جس سے عراق کی سنی آبادی حکومت سے مزید بیگانہ اور مخاصمانہ ہوگئی۔ اس سے شیعہ سنی کشیدگی اور سعودی عرب کی مداخلت مزید بڑھ گئی۔ عراق مشرق وسطیٰ کی دو اہم طاقتوں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کا ایک اور میدان بن گیا۔ امریکی سامراج کی تمام تر منصوبہ بندی چوپٹ ہوگئی اور اسے عراق میں ایک واضح شکست ہوگئی۔
شام میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت ان کے عراقی المیے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ عرب انقلاب کے زیر اثر بشارالاسد کی آمریت کے خلاف نوجوانوں اور محنت کشوں کی ابھرنے والی انقلابی تحریک کو امریکی سامراج اور اس کے سعودی اور قطری اتحادیوں نے بنیاد پرست تنظیموں کو پروان چڑھا کر ڈی ریل کرکے مذہبی فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل کردیا۔ روس اور ایران کی مداخلت کی وجہ سے بشارالاسد کی آمریت تو بچ گئی لیکن داعش، النصرہ فرنٹ اور لاتعداد دوسری بنیاد پرست تنظیمیں، جن کو خود امریکی سامراج اور ان کے اتحادیوں نے پروان چڑھایا تھا، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے لیے خطرہ بن گئیں۔ پیرس میں داعش کے حملے سامراجی ممالک کے اپنے کرتوتوں اور مشرق وسطیٰ میں پھیلائی ہوئی بربادی کا نتیجہ ہے۔
امریکہ ایران معاہدہ
افغانستان اور عراق میں فوجی شکست اور سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال نے امریکی سامراج کی ماضی کی تمام رعونت خاک میں ملادی ہے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر امریکہ نے بشار حکومت کے خلاف شام میں فضائی حملے سے بھی اجتناب کیا۔ ان کو اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ بشار الاسد کے جانے سے شام اور مشرق وسطیٰ میں مزید انتشار بڑھے گا۔ اسی وجہ سے اپنے کیے ہوئے گند کو صاف کرنے اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے انہیں اپنے پرانے دشمن ایران کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑا۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ امریکی سامراج کی مشرق وسطیٰ میں پالیسیوں کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ عراق میں داعش کے خلاف لڑنے والی واحد مؤثر قوت ایرانی سرپرستی میں چلنے والی شیعہ ملیشیا ہیں اور اسی طرح شام میں داعش کے خلاف روسی فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ زمینی محاذ پر لڑنے والی مؤثر قوت ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ امریکی سامراج خود شام اور عراق میں فوجی مداخلت نہیں کرسکتا لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ یہ کام ایران اور روس پر چھوڑ دیا جائے۔
جس طرح ترکی کو روس کے معاملے میں نیٹو سے بے وفائی کا گلہ ہے اسی طرح نئی صورت حال میں سعودی عرب کو ایران کے معاملے میں امریکہ سے گلے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کے سنجیدہ حلقوں کی نظر میں سعودی عرب امریکہ کے لیے اب اتحادی سے زیادہ زحمت اور درد سر بنا ہواہے۔ ایٹمی معاہدے کے دوران ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے سعودی عرب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ حتیٰ کہ اس ایٹمی معاہدے کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب کا ایک غیر اعلانیہ اتحاد بھی سامنے آیا۔ جو ’اُمت مسلمہ‘ کے ڈھکوسلے کا دم بھرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ امریکہ کی خواہش سے زیادہ مجبوری تھی اور اس معاملے میں امریکی حکمران طبقہ خود ابھی تک منقسم ہے اور حکمرانوں کے سخت گیر دھڑوں نے کسی اور قابل عمل متبادل کے نہ ہونے کی وجہ سے اسے بادل نخواستہ قبول کرلیا ہے۔
سعودی عرب معاشی تباہی کے دہانے پر
جب تک تیل کی قیمتیں سو ڈالر سے اوپر تھیں تو سب خیر خیریت تھی۔ آل سعودشام میں جی بھر کے بنیاد پرست دہشت گردوں پر پیسے نچھاور کررہے تھے (جو اب بھی جاری ہے)۔ لیکن تقریباً پچھلے دو سالوں سے تیل کی قیمتیں گرتے گرتے 35 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آگئی ہیں۔ سعودی عرب کی ریاستی آمدنی کا 90 فیصد تیل کی آمدنی سے آتا ہے۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے 2015ء میں بجٹ خسارہ 100 اَرب ڈالر تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا 15 فیصد ہے۔ ایران اور شیل آئل کی پیداوار کو نقصان پہنچانے کے جنون میں تیل کی پیداوار بڑھا کر سعودی عرب نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ آئی ایم ایف نے پچھلے سال تخمینہ لگایا تھا کہ سعودی عرب کے موجودہ اخراجات اور آمدنی کو برقرار رکھنے کے لیے تیل کی قیمت کو 106 ڈالر فی بیرل ہونا چاہیے۔ چین کی موجودہ معاشی سست روی اور تمام تر بڑی معیشتوں کے زوال کی وجہ سے تیل کی قیمتوں کا دوبارہ اس سطح پر پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس صورت حال میں سعودی عرب اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو خرچ کر رہا ہے۔ اگست 2014ء میں یہ ذخائر 746 بلین ڈالر تھے جو اَب کم ہوکر 646 بلین ڈالر ہوگئے ہیں اور آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے مطابق صرف اگلے پانچ سالوں میں سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر صفر ہوجائیں گے۔
اس تناظر میں سعودی عرب نے پہلی مرتبہ کٹوتیوں اور’معاشی اصلاحات‘ کے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس میں سرکاری اداروں کی نجکاری، بجلی، توانائی، پانی اور گیسولین (پٹرول) کی قیمتوں کو بڑھانا، سبسڈیز کا خاتمہ، تعمیراتی منصوبوں کی معطلی، نئے ٹیکسز کا اجرا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ کٹوتیاں معاشی بحالی کا نہیں بلکہ تباہی اور سیاسی طوفان کا نسخہ ہیں۔ ملک کی آبادی کی 70 فیصد کی عمریں 30 سال سے کم ہیں اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بعض اندازوں کے مطابق بیس سے پچیس فیصد ہے۔
لیکن اس تمام تر معاشی مشکلات کے باوجود سعودی عرب نے اپنے دفاعی اور فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ برقرار رکھا ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ ایران کے دفاعی بجٹ سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ سعودی سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً 49 اَرب ڈالر ہے جو 2011ء کے بعد سے سالانہ 19 فیصد کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر دفاع محمد بن سلمان نے جوانی کے جوش میں یمن میں ایڈونچر کرکے ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی اور خطر ناک نتائج کی حامل جنگ میں جھونک دیا ہے۔ مہینوں کی بمباری کے بعد بھی دارالحکومت صنعا پرایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کا قبضہ ہے اور سعودی عرب کو کوئی خاص کامیابی بھی نہیں ملی ہے۔ البتہ یمن کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے اور ایک انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ گویا آلِ سعود کے لیے ہر طرف صرف بری خبریں ہی ہیں۔ فوجی محاذ پر ناکامی کے علاوہ انہیں اندرونی طور پر ملک میں ایک عوامی خلفشار کے ابھرنے کے خطرے کا سامنا ہے۔
شیخ النمر کی پھانسی کا معاملہ بھی ان ہی معاشی اور فوجی معاملات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ سعودی شاہی خاندان کی جانب سے مایوسی اور بے بسی کے عالم میں ایک کوشش تھی تاکہ خطے میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور اندرون خانہ موجود بے چینی کو ایک بیرونی جنگ کے ذریعے کسی اور راستے پر ڈال سکے۔ لیکن ایران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کے بعد ہونے والی سعودی ایران کشیدگی کو کم کرنے کے لیے واشنگٹن اور ریاض کے درمیان ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا اور واشنگٹن نے آگ پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ایران بھی فی الحال کسی براہ راست جنگ کے موڈ میں نہیں ہے کیونکہ سالوں کی معاشی پابندیوں کے بعد وہ معاشی بحالی کے امکانات اور اس کے فوائد کو سمیٹنے کی تیاری کررہا ہے۔ امریکی سامراج خود مشرق وسطیٰ میں کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کسی ایسی جنگ کے نتیجے میں پہلے سے بیمار اور تباہ حال عالمی معیشت مزید مشکلات کا شکارہوجائے گی۔ لیکن سعودی عرب کا یہ اقدام خود سعودی عرب کے اندر معاملات کی سنگینی کی غمازی کرتاہے۔ آل سعود اپنی حکمرانی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے پورے خطے کو آگ اور خون کی ہولی میں دھکیلنے کے لیے بھی تیار ہے۔
ایران کی معاشی بحالی؟
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2016ء میں ایرانی معیشت 5.8 فیصد ترقی کرے گی اور اگلے سال یعنی 2017ء میں 6.7 فیصد ترقی کرے گی۔ ایران پر معاشی پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں بیرونی بینکوں میں اس کے منجمد اثاثے، جس کی مقدار تقریباً 150 بلین ڈالر ہے، اسے واپس مل جائیں گے جس سے ایرانی معیشت کو مزید تقویت ملے گی۔ تیل کی اجارہ داریاں پہلے ہی ایران میں سرمایہ کاری کے لیے پر تول رہی ہیں۔ اسی طرح آٹو انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کے لیے مختلف عالمی اجارہ داریاں ایرانی حکومت سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ تیل کی پیداوار پانچ لاکھ سے سات لاکھ بیرل روزانہ ہونے کی توقع ہے۔ یقینااس معاشی نمو سے محنت کشوں کی معاشی بدحالی میں کچھ کمی آئے گی، انہیں سنبھلنے اور مستقبل کی طبقاتی جنگ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کا موقع ملے گا۔ ظاہر ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ایرانی محنت کشوں سے کوئی محبت نہیں ہے بلکہ وہ تو زیادہ سے زیادہ منافع کشید کرنے کے لیے ایران آئیں گے۔ ایرانی حکومت بھی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سرمایہ کاروں کو مراعات دے گی، جیسے کہ لیبر قوانین میں تبدیلی، اجرتوں میں کمی یا بڑھنے نہ دینا وغیرہ۔ اس سے ایرانی ملاؤں کا یہ پرانا بہانہ بھی ختم ہوجائے گا کہ ہم روزگار، تنخواہیں، مراعات وغیرہ اس وجہ سے نہیں دے سکتے کیونکہ ملک پر اقتصادی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔
معیشت کی کچھ بحالی سے جابر ایرانی ملائی ریاست کو وقتی سہارا مل سکتا ہے لیکن یہ زیادہ طویل نہیں ہوگاکیونکہ اب تک ایرانی ملاؤں نے اگر تحریک کو کسی بہانے روکے رکھا ہے تو وہ امریکہ دشمنی اور اقتصادی پابندیوں کا بہانہ ہے۔ اب امریکہ سے ’دوستی‘ بھی ہوگئی ہے اور اقتصادی پابندیاں بھی اٹھنے والی ہیں۔ اس بحالی سے طبقاتی جدوجہد کند ہونے کی بجائے مزید تیز ہوگی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے جہاں وہ ریاستی جبر کا استعمال کریں گے وہاں وہ شیعہ سنی تضاد کو بھی استعمال کریں گے۔ تحریک کے خوف کی وجہ سے ہی ایران میں پچھلے چند مہینوں میں سیاسی کارکنان، صحافیوں، لکھاریوں اور شاعروں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ چند دن پہلے ہی 2009ء کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں ابھرنے والی نوجوان شاعرہ ہیلا صدیقی کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ جبر آئندہ آنے والے دنوں میں مزید بڑھ جائے گا۔
اس معاشی بحالی سے ایرانی ریاست کی خطے میں اپنے پراکسی گروہوں کے ذریعے اور براہ راست مداخلت مزید مضبوط ہوگی۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ اس کے تضادات مزید شدت اختیار کریں گے۔ خون خرابا مزید بڑھے گا۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
عرب اور عجم
ایرانی اور عرب حکمرانوں نے عرب اور فارس کے مسئلے کو ہمیشہ اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور اسے اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ دونوں ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے سے فطری طور پر نفرت کرتے رہے ہیں۔ صدام حسین نے ایران پر حملے کے وقت بھی یہ نعرہ لگایا تھا کہ ہم ان فارسیوں کو قادسیہ کی جنگ کی شکست یاد دلائیں گے۔ قادسیہ کی جنگ ایران میں قبل از اسلام آخری ایرانیسلطنت ساسانی اور اسلامی لشکر کے درمیان 636ء میں لڑی گئی تھی جس میں ساسانی سلطنت کو شکست ہوئی تھی اور ایران کو فتح کر لیا گیا تھا۔ آج کل کے تنگ نظر ایرانی قوم پرست ایران کی اسلامی لشکر کے ہاتھوں فتح کو ایک المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ عربوں کی فتح کے بعد فارس کی تہذیب ختم ہو کر برباد ہوگئی اور انتہائی حقارت سے عربوں کی اس فتح کو یاد کرتے ہیں۔ لیکن تاریخی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ فارس پر عرب حملے کے وقت ساسانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت چار سو سالہ جنگ لڑ چکے تھے۔ ساسانی حکمران جنگ کے اخراجات کے لیے عوام پر مزید ٹیکس لگا رہے تھے۔ عوام پہلے ہی جنگوں اور حکمرانوں سے بیزار ہوچکے تھے۔ جبکہ طویل جنگ کی وجہ سے ساسانی سلطنت بھی بہت حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اگر عرب حملہ نہ بھی کرتے تب بھی اس کا زوال ناگزیر تھا۔
عربوں کے حملے سے فارس (ایران) ایک بڑی اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔ عربوں کی فارس پر فتح ایک انقلابی قدم تھاجس سے فارس کی تمام تر تہذیبی حاصلات محفوظ ہوگئیں۔ بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مزید ترقی کرتی گئیں۔ اسی دور کو ہی آج کل اسلام کا سنہرہ دور کہا جاتا ہے۔ جس میں سائنس، طب، آرٹ اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ترقی دیکھنے کو ملی۔ بغداد اس ترقی کا مرکز تھا۔ اسی طرح یورپ میں سپین کی عربوں کے ہاتھوں فتح بھی آگے کی جانب ایک قدم تھا۔ سلطنت روم کے زوال کے بعد ان کی تمام تر تہذیبی حاصلات اس زوال میں کہیں گم ہوگئیں۔ عربوں نے سپین کو فتح کرنے کے بعد اس تمام علوم کو دوبارہ دریافت کیا۔ یونانی کتابوں کے عربی میں ترجمے کیے۔ جس سے وہ تمام تر انسانی تہذیب کی حاصلات محفوظ ہوگئیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربوں نے ہی یورپ کو مکمل تباہی سے بچایا۔ لہٰذا فتوحات کے دوران خون خرابے کے باوجود یہ ایک انقلابی پیش رفت تھی۔ ہم مارکسسٹ تاریخ کا تجزیہ جذبات یا اخلاقیات کی رو میں بہہ کر نہیں کرتے۔ بلکہ ہمارے تجزیے کی بنیاد ٹھوس مادی حقائق ہیں اور یہ کہ تاریخ کے ارتقا کا عمومی رخ ترقی کی جانب ہے یا تنزلی کی جانب۔ مندرجہ بالا واقعات میں تاریخ کے ارتقا کا رخ ترقی اور پیش رفت کی جانب ہے۔
تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ حکمرانوں کا پرانا ہتھکنڈا ہے۔ حکمران طبقات سماج کو آگے لے جانے میں اپنی نااہلی کو اسی طریقے سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کو ماضی کی یادوں میں غرق کرکے اپنی حکمرانی کو جاری رکھ سکیں۔ ہم مارکسسٹ، عرب اور عجم کے ان تمام مصنوعی اور جھوٹے تضادات کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ محنت کشوں کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پرتقسیم کرنے کے لیے حکمرانوں کا ہتھکنڈا ہے۔ یہ تاریخ کو مسخ کرنے کی ایک گھناؤنی واردات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پوری دنیا کو ایک عالمی منڈی میں تبدیل کردیا ہے۔ جس میں بڑی سے بڑی معیشت بھی عالمی منڈی کی جکڑ سے نہیں بچ سکتی۔ اس لیے محنت کشوں کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اس نظام کے خلاف لڑنا ہوگا۔ تب ہی اس نظام کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں سے کسی ایک ملک میں بھی ابھرنے والی انقلابی تحریک عرب اور عجم کے تعصبات کو چیر کر محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑے گی۔