| تحریر: لال خان |
چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر حکمران سیاست میں مباحث اور اختلافات کا شور ہے۔ یہ درست ہے کہ پسماندہ علاقوں اور محروم قومیتوں کو نئے انفراسٹرکچر (اگر بنتا ہے تو!) سے محروم رکھنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس راہداری پر سیاسی اور ریاستی اشرافیہ کے اختلافات ’روٹ‘ اور ٹھیکوں پر مبنی ہیں جو بحیثیت مجموعی حکمران طبقے کے اپنے بحران اور ریاست کے داخلی تضادات کا اظہار ہے۔ اس ایشو پر کبھی بحث نہیں ہوتی کہ ان منصوبوں سے اس ملک کے محنت کشوں اور غریب عوام کا کوئی بھلا ہو گا یا نہیں؟ اگر ہوگا تو کیسے؟
حقیقت یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسنے والی آبادی کی اکثریت سے ان حکمرانوں کو کوئی سروکار ہے نہ ہی عوام کے مسائل حکمران طبقے کی سیاست میں کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان سلگتے ہوئے عوامی مسائل پر کوئی بحث ہے نہ اس بدحالی کو دور کرنے کا کوئی ارداہ۔بڑا شور ہے کہ اس راہداری سے پاکستان میں ’’ترقی‘‘ ہو گی اور خوشحالی آئے گی۔ یہ خوشحالی یقیناً ٹھیکیداروں اور سرمایہ داروں کے لئے ہی ہوگی، محرومی میں غرق کروڑوں انسانوں کے لئے تو اس ترقی میں بھی تنزلی ہی پوشیدہ ہے۔
جب کسی سماج کی معیشت زوال پزیر ہوتی ہے تو سیاست اور ریاست کا زوال بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں عقل و دانش بھی تنزلی کا شکار ہو کر کھوکھلے اور سطحی ہو جاتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ وغیرہ جیسے ممالک کو ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ قرار دیا جا رہا تھا اور ان ممالک کی معاشی ترقی کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ یہ ممالک اب عالمی سرمایہ داری کو بحران سے نکالیں گے اور معاشی گروتھ کا انجن بنیں گے۔ان ممالک میں اگر بلند شرح نمو سے ترقی ہوئی بھی تو اس سے کہیں زیادہ شرح سے غربت اور امارت کی خلیج وسیع ہوئی اور آبادی کی اکثریت کی محرومی میں اضافہ ہی ہوا۔ برازیل اس وقت بد ترین معاشی بحران کا شکار ہو چکا ہے اور معیشت نمو کی بجائے سکڑاؤ کا شکار ہے۔ ہندوستانی معیشت کی شرح نمو فی الوقت چین (6.8 فیصد) سے بڑھ کر 7.4 فیصد پر کھڑی ہے لیکن خط غربت سے نیچے گرنے والوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی آدھی آبادی اکیسویں صدی میں بھی بجلی سے محروم ہے اور اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ آنے والے دنوں میں ہندوستان کا حال بھی برازیل سے مختلف نہیں ہوگا۔
چین کی ترقی اور ’’چینی ماڈل‘‘ سے متعلق بھی مبالغہ آرائی کی ہر حد پار کی جاتی ہے۔ فریب کی انتہا ہے جب چین میں کروڑوں لوگوں کے خط غربت سے بلند ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کوئی نہیں کرتا کہ اعداد و شمار مرتب کرنے والے کون ہیں؟ اعداد و شمار میں ریاستوں کا ہیر پھیر تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن بین الاقوامی مین سٹریم میڈیا میں کئی رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں جن کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے اس معاملے میں کرپٹ ترین ریاستوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ خود سرمایہ دارانہ نظام کے کئی سینئر معیشت دانوں اور ماہر سماجیات کے مطابق ایک یا دو ڈالر یومیہ کا خط غربت سراسر مذاق ہے اور غربت کی حقیقی پیمائش کے لئے اس خط کو پانچ ڈالر فی کس یومیہ پر لے جانے کی ضرورت ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق چین میں پانچ ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے والوں کی تعداد 93 کروڑ 87 لاکھ ہے۔
2008ء کے بعد سے کئی بڑے سرمایہ دارانہ معیشت دانوں کی رائے تھی کہ چین ڈوبتی ہوئی عالمی معیشت کا سہارا بنے گا لیکن عالمی معیشت کا بحران الٹا برآمدات پر مبنی چینی معیشت کو ڈبو رہا ہے۔ جمعرات کو چین کے مرکزی بینک نے ملک کی کرنسی (یوان) کی قدر میں مزید کمی کی ہے جس سے دنیا بھر کی منڈیوں کو دھچکا لگا ہے۔ یوان کی قدر ڈالر کے مقابلے میں چھ سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ چینی حکام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن اس اقدام کا مقصد تیزی سے گرتی ہوئی چینی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔
معاشی بحران کے سماجی اور سیاسی اثرات ناگزیر ہوتے ہیں۔ چائنہ لیبر بلیٹن کے مطابق چین میں صنعتی ہڑتالوں کی تعداد 2014ء میں 1379 سے بڑھ کر 2015ء میں 2774 ہوگئی ہے۔ دو تہائی ہڑتالیں اجرتوں کی عدم ادائیگی کے خلاف تھیں ، 168 ہڑتالیں اجرتوں میں دو گنا اضافے کے لئے تھیں۔ چینی معیشت کی حالت یہ ہے کہ درمیانے اور چھوٹے سرمایہ دار کارخانوں میں مہینوں کام کرواتے ہیں اور اجرت دئیے بغیر کارخانے بند کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس بحران ایک اور پہلو اجرتوں میں اضافے کے دباؤ کی وجہ سے سرمایہ کاری کی چین سے دوسرے ممالک میں منتقلی ہے۔ یوں چین میں سرمائے اور محنت کی کشمکش بڑھتی جا رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد امارت اور غربت کی وسیع ترین خلیج چین میں ہے۔ بیٹھتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے چینی حکمران گزشتہ کچھ سالوں سے بڑے پیمانے کی ریاستی سرمایہ کاری یا ’کینشین ازم‘ کا استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ طریقہ کار بھی اب ناکام ہورہا ہے۔ چین کا مجموعی قرضہ اس کے جی ڈی پی کے 250 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔
چین کے ’’اقتصادی معجزے‘‘ کے پس منظر میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ 1978ء میں ڈینگ ژاؤ پینگ کی سربراہی میں چین میں سرمایہ داری کی بحالی کا ردانقلاب بڑی آہستگی اور احتیاط سے شروع کیا گیا تھا۔1974ء کے بعد مغربی سرمایہ دارشرح منافع میں گراوٹ کے بحران سے دو چار تھے اور انہیں سستی لیبر کی اشد ضرورت تھی۔ 1949ء کا انقلابِ چین اگرچہ کلاسیکی مارکسی بنیادوں پر برپا نہیں ہوا تھا لیکن قیادت کی تمام تر نظریاتی کمزوریوں کے باوجود اس کے نتیجے میں سرمایہ داری کا خاتمہ ہوا۔ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہونے والی تیز سماجی اور معاشی ترقی کے ذریعے تعلیم یافتہ اور ہنر مند محنت کش طبقہ پروان چڑھا اور صنعتکاری کے لئے درکار بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر ہوا۔ منصوبہ بند معیشت کی انہی حاصلات پر 1978ء کے بعد سرمایہ داری تعمیر ہوئی۔ سستی لیبر، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے تعاقب میں مغربی سرمایہ داروں نے صنعتیں لگانے کا عمل شروع کیا جو 1990ء کی دہائی میں تیز ترین ہو گیا۔ لیکن اس صنعتکاری کا کردار جغرافیائی طور پر بہت نا ہموار تھا، منگولیا اور سنکیانگ جیسے مغربی علاقے پسماندہ ہی رہے۔
تیز صنعتکاری سے چین میں دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ پیدا ہوا جسے ناگزیر طور پر اجرتوں میں اضافے اور دوسرے بنیادی حقوق کے لئے سرمائے کے خلاف صف آرا ہونا پڑا۔ اسی تناظر میں سرمایہ دار آج اپنی سرمایہ کاری چین سے باہر ان غریب ممالک میں منتقل کر رہے ہیں جہاں زیادہ سستی لیبر میسر ہے یا پھر انسانی محنت کو روبورٹس اور دوسری جدید مشینری سے تبدیل کر رہے ہیں، یہ سلسلہ اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔
اس تمام عمل کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ چین میں سرمایہ داری اس استوار ہوئی جب یہ نظام بین الاقوامی طور پر تاریخی متروکیت کا شکار ہو رہا تھا۔ چین میں سرمایہ داری یورپ کی طرح انقلاب کے ذریعے نہیں بلکہ رد انقلاب کے نتیجے میں رائج کی گئی۔ یہی وجہ ہے اس کی بنیادیں کھوکھلی اور تسلسل دور رس نہیں ہو سکا۔ آج چینی مصنوعات کی منڈیاں، یعنی یورپ اور امریکہ، زوال کا شکار ہیں۔ چینی مصنوعات کی کھپت کم ہوتی جا رہی ہے، برآمدات گر رہی ہیں اور چینی سرمایہ داری بڑے کریش کی طرف بڑھ رہی ہے۔
حالات چین کے محنت کش طبقے کو بڑے تحرک پر مائل کر رہے ہیں۔ ایسے میں وہاں کے نو دولتیے حکمران کبھی قومی شاؤنزم تو کبھی ریاستی جبر کے ذریعے اس بغاوت کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن لمبے عرصے تک وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ جن حکمرانوں کے اپنے تخت لرز رہے ہیں وہ کسی دوسرے ملک کو کیا ترقی دے سکتے ہیں؟ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چین کی سرمایہ کاری مغرب سے کہیں زیادہ خونخوار اور استحصالی ہے۔ لیکن انقلاب کا جو نامیاتی عمل چین میں شروع ہو چکا ہے وہ دھماکہ خیز واقعات کو جنم دے کر پوری دنیا کو لرزا سکتا ہے۔
متعلقہ: