| تحریر: لال خان |
اس ملک کے حکمرانوں کے بلند و بانگ دعووں، میگا پراجیکٹس کے افتتاح، میڈیا پر جعلی مباحث اور نان ایشوز کی تکرار سے تھوڑا بلند ہو کر معیشت اور معاشرت کے زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تناظر واضح ہو جاتا ہے کہ اس نظام کے تحت آنے والا کل آج سے کہیں زیادہ بھیانک ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی نظام کا زوال آتا ہے تو بے حسی اور حقائق سے لا تعلقی حکمرانوں کے کردار، سوچ اور رویوں کا لازمی جزو بن جاتی ہے۔ وہ کسی سچائی کا سامنے کرتے ہیں نہ کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں حکمران طبقہ کسی بہتری اور ترقی کی کاوش ہی چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کچھ دیکھنے سے انکاری اندھے بن جاتے ہیں۔
آج جس طرح میگا پراجیکٹس کے نام پر عوام کا پیسہ نجی تجوریوں میں بھرا جا رہا ہے، صحت اور تعلیم کے شعبوں کو جس بے دردی سے برباد کر دیا گیا ہے، دولت جس رفتار سے چند ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے ، نجکاری کے ذریعے عوامی پیسے سے تعمیر ہونے والے دیوہیکل ادارے جس طرح کوڑیوں کے بھاؤ سرمایہ داروں کے حوالے کئے جار رہے ہیں اور روٹی، کپڑا ، مکان سے محرومی جس قدر بڑھ گئی ایسے میں یہ حاکمیت بھی لمبے عرصے تک چل نہیں سکتی۔ ہر شعبہ زوال پزیری کا شکار اور ریاست کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج نظر آتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور کمرشل شہر کراچی کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور یہاں 20 ہزار ٹن کوڑا ہر روز پیدا ہوتا ہے جسے گلیوں سے اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ہر بڑے شہر میں نکاس، ٹریفک، صفائی، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کے حالات ایسے ہی ہیں۔
سرمایہ داروں کی نمائندہ اس حکومت کے تحت معیشت تیزی سے انہدام کی جانب گامزن ہے۔ سامراجی اور ریاستی پالیسی سازوں کے پاس کوئی نسخہ باقی نہیں بچا ہے۔ محنت کشوں اور غریب عوام تو یہاں صدا سے محرومی کا شکار رہے ہیں لیکن اب حکمرانوں کی اپنی معیشت یعنی ’’میکرو اکانومی‘‘ کا بحران بھی گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مارکسسٹ معیشت دانوں کا تناظر اور تجزیہ تو درست ثابت ہو ہی رہا ہے لیکن حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ایسے میں بورژوا معیشت دان بھی تلملا اٹھے ہیں۔
ملک کی دولت کا سب سے بڑا حصہ ہڑپ کرنے والے سامراجی قرضوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہولناک ارتقا نظر آتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’2018-19ء تک ملک کا بیرونی قرضہ موجودہ 65 ارب ڈالر سے بڑھ کر 90 ارب ڈالر ہو جائے گا اور ہر سال حکومت کو 20 ارب ڈالر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کرنا ہوں گے، آنے والے تین سال میں یہ 38 فیصد کا اضافہ ہو گا۔‘‘ حفیظ پاشا نے مزید انکشاف کیا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جو اس وقت جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے، 2018ء تک تیزی سے بڑھ کے جی ڈی پی کے 4فیصد تک پہنچ جائے گا۔واضح رہے کہ بیرونی قرضے میں اضافے کے یہ اعداد و شمار آئی ایم ایف کے تخمینے سے 14ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت ’’پاک چین اکانومک کوریڈور‘‘ کے قرضے ، مجموعی ریاستی قرضے میں شمار نہیں کر رہی ہے۔
اس تناظر میں وزارت خزانہ کے سابق سیکرٹری فنانس عبدالواجد رانا کا کہنا ہے کہ قرضوں کی سطح کی آئینی حد بندی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے، مزید یہ کہ ’’کونسل آف کامن انٹرسٹس اور نیشنل اکانومک کونسل میں قرضے کے معاملے پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہو رہی۔ ڈیٹ منیجمنٹ آفس خودمختیار نہیں بلکہ وزار خزانہ کے ماتحت چل رہا ہے۔‘‘ اسی طرح وزارت خزانہ کے سابق مشیر اعلیٰ ثاقب شیرانی نے مزید حقائق بے نقاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’حکومت قرضوں کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کر رہی ہے۔ریاستی قرضے اور جی ڈی پی کے تناسب (Debt to GDP ratio) کا اعشاریہ بالکل بے معنی ہو چکا ہے کیونکہ ملک میں جی ڈی پی کے 65 فیصد کے برابر موجودہ قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ قرضوں اور حکومتی آمدن کے درمیان شرح زیادہ سے زیادہ 350 فیصد ہونی چاہئے جو کہ اس وقت 523 فیصد ہو چکی ہے۔‘‘ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے تخمینے کے مطابق یہ شرح 2018ء تک 750 فیصد سے بھی تجاوز کر جائے گی۔
صرف قرضوں کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ تجارتی خسارے، مالیاتی خسارے، برآمدات اور صنعتی پیداوار سمیت معیشت اور اقتصادیات کا ہر اعشاریہ تباہ حالی کی عکاسی کر رہا ہے۔ اگر کالا دھن نکال لیا جائے تو معیشت راتوں رات منہدم ہو جائے گی۔غیر سرکاری ادارے PIDE کے 2008ء کے اندازوں کے اس کالی معیشت کا حجم سرکاری اعداد و شمار میں آنے والی معیشت یا ’’ فارمل اکانومی‘‘ کے 91 فیصد کے برابر تھا، آج یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ 10 فیصد سالانہ کی شرح سے پھیلنے والی کالی معیشت کا حجم فارمل اکانومی سے کہیں بڑا ہو چکا ہے اور یہی کالا دھن ہے جس نے پاکستان کی سرمایہ داری کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
سرمایہ داری کی اس معیشت میں جہاں غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں وہاں امرا کی دولت سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ ایک بات طے ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے تعلیم ، علاج، پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی سستی فراہمی اب ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے۔ ریاست ان شعبوں کی نجکاری کر کے خود مبرا ہو رہی ہے جبکہ نجی شعبے میں قیمتیں اتنی بلند ہیں کہ آبادی کی اکثریت کی کل جمع پونجی کم پڑ جاتی ہے۔
وسیع بیروزگاری مستقل شکل اختیار کر کے نوجوانوں نسل کو سماجی،اخلاقی اور نفسیاتی طور پر برباد کر رہی ہے اور جرائم، منشیات، دہشت گردی سمیت تمام سماج دشمن رویوں کی جڑ ہے۔ تقریباً 20 لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں اور اتنے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنے کے لئے کم از کم 7 فیصد کی معاشی شرح نمو درکار ہے۔دوسری طرف پیداواری شعبہ زوال پزیر ہے، صنعت بند ہو رہی ہے، برآمدات مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں، معیشت قرضوں تلے دب چکی ہے اور اعداد و شمار کی تمام تر ہیر پھیر کے باوجود بھی جی ڈی پی گروتھ 3 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ بیروزگاری میں اضافے کا اعتراف کچھ ماہ قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے خود کیا ہے۔ احسن اقبال کے مطابق آبادی میں اضافے کے پیش نظر حقیقی شرح نمو آدھ یا ایک فیصد ہے اور ’’ایسے میں غربت یا بیروزگاری میں کمی نہیں ہو سکتی۔‘‘
ہر آنے والا حکمران کشکول توڑنے کی نعرہ بازی کرتا ہے لیکن پہلے سے بڑا کشکول لے کر آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کشکول میں سے اصل مال یہ خود ہڑپ لیتے ہیں جبکہ سود اور قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ عوام پر لاد دیتے ہیں۔ ان قرضوں کی تلخ شرائط بھی یہاں کے محنت کشوں کو ہی بھگتنا پڑتی ہیں اور کشکول میں رقم ڈالنے والے انہی کا خون پسینہ نچوڑ کر یہاں سے اربوں ڈالر ہر سال نکالتے ہیں۔ آج یہ کشکول اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ پھٹنے کو ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے بھی کوئی قاعدے قوانین ہوتے ہیں، قرضوں کے ذریعے معیشت کو چلانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ جب معیشت کے حجم، حکومتی آمدن اور قرضوں کا تناسب اس حد تک بگڑ جائے تو کشکول پھٹ جایا کرتے ہیں۔
مسئلہ آخری تجزئیے میں نظام کا ہے۔اس ریاست اور نظام معیشت میں تحریک انصاف یا کوئی بھی ’’سیکولر‘‘ یا مذہبی پارٹی برسر اقتدار آجائے، اس سے مختلف نہیں کر سکتی جو آج ہو رہا ہے۔ سرمایہ داری آج تاریخی طور پر متروک ہو کر عالمی سطح پر بدترین بحران کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ ترین ممالک میں معیار زندگی گراوٹ کا شکار ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتیں تباہی کے جس دہانے پر کھڑی ہیں، وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ یا تو اس نظام کا تسلسل معاشرے کو بربریت کی کھائی میں دھکیل دے گا، یا پھر نجی ملکیت، منڈی اور منافع کی اس معیشت کو اکھاڑ کر سوشلسٹ سماج قائم کرنا ہو گا جہاں منافع، استحصال، قرض اور سود سے پاک اشتراکی معیشت کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل ہو۔
متعلقہ: