کوئٹہ: بی ایس او کی مرکزی قیادت کی اہم پریس کانفرنس

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے رہنما میر ظریف رند نے تنظیم کی مرکزی قیادت کے ہمراہ  18 نومبر کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے خطاب کرتے ہوئے تنظیمی امور اور حکمت عملی کے حوالے سے کچھ اہم اعلانات کئے ہیں۔ ہم قارئین کے لئے BSO کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز شائع کر رہے ہیں۔

قابلِ قدر صحافی دوستو!
BSO Pajjar Press Conference in Quettaجیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ آج بلوچستان سے لیکر ریاستی اور بین الاقوامی سطح پر اگر اپنے معروضی حالات پر نظر دوڑائیں تو انتہائی پر انتشار کیفیت نظر آتی ہے۔ آئے روز تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جسکے نتیجے میں سیاسی اور اقتصادی تضادات عالمگیر طور پر انسانی زندگی سے خوشحالی اور امن چھین کر سماجی پسماندگی، غربت، خانہ جنگی، بالواسطہ جنگیں اور سماجی کشیدگی میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔ عالمی سامراجی دھڑے مختلف منڈیوں پر قبضے کی ہوس میں دنیا بھر میں خون ریزی کرتے ہوئے اس قدر جنونی ہو چکے ہیں کہ پورے عالم انسانی کو تباہ کن سیاسی و سماجی انتشارکے دہانے پر لا کھڑا کر چکے ہیں جس سے عالمی سیاست و معاشی نظام بحران میں ڈوب کر دم توڑتا جا رہا ہے اور اب انہی عالمی منڈی کے کھلاڈیوں سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ مشرق وسطیٰ کا بحران ہو یا فلسطین پر اسرائیلی صیہونیت کی خون ریزی ہو، دنیا بھر میں مذہبی دہشت گردی ہو یا بلوچستان جیسے قدرتی وسائل سے مالامال خطّوں پر سامراجی ریاستوں کی لوٹ کھسوٹ ہو، یہ سب کچھ موجودہ فرسودہ نظام کی دین ہے جو دولت کی ہوس اور نسل انسانی کی تباہی پر مبنی ہے۔ لیکن آج ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا بھرمیں ایک بار پھر بہتر انسانی نظام کی بحالی کی خاطر تحریکیں اْبھر رہی ہیں، برسوں سے چلے آرہے سیاسی جمود کی کیفیت ٹوٹ رہی ہے اور عہد تیزی سے بدل رہا ہے۔ امریکہ سے لیکر یورپ اور افریقہ سے عرب دنیا اور ایشیا تک، ہر طرف اس تباہ کن جنونی نظام سرمایہ داری کے خلاف عوام ایک انسانی سماج کی تعمیر کیلئے بر سر پیکار ہیں۔ عالمی سطح پر بدلتے حالات کے پیش نظر بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کی بھی نظریاتی جدوجہد اسی ترقّی پسند سماج کی تعمیر و تکمیل کی ایک کڑی ہے۔

بلوچ نوجوانوں کی بی ایس او کے پلیٹ فارم پر شاندار جدوجہد کی ایک سْنہری تاریخ ہے جوسائنسی نظریات پر مبنی شعوری جدوجہد کر رہے ہیں، جسکا پیغام انسانیت کی بقا، دیگر مظلوم و محکوم اقوام سے جڑت و اتحاد بڑھا کر جبر و استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جدوجہد رہی ہے مگر قیادت کی غدّاریوں نے اس عظیم ادارے کو تباہ کرکے اسکے نظریاتی سرکلوں کو ویران کردیا۔ بی ایس او نے جس قیادت کو تراشا ا ور پیدا کیا اسی قیادت نے ادارے کو یرغمال بنا کر نظریاتی جدوجہد کی جگہ فرسودہ سیاست کو فروغ دیا تاکہ اپنے نام نہاد رتبوں کو قائم بنائے رکھیں۔ قومی جدوجہد میں طبقاتی پوزیشن کو ہٹانے کی شعوری غدّاری بھی نام نہاد قوم پرستوں کا کارنامہ تھا تاکہ قومی شاؤنزم کو اْ بھار ملے اور بلوچ نوجوانوں کی محنت کشوں اور دیگر محکوم اقوام سے جْڑت ختم ہو جوکہ بالآخر بی ایس او کی وسیع سیاسی جدوجہد کے محدود دائروں میں قید ہونے کا سبب بنی۔

گران قدر صحافی حضرات!
آج آپ سے مخاطب ہو نے کا مقصد بی ایس او کے نظریات کی دفاع میں بلوچ طلبہ کی جاری طویل جدوجہد کا پیغام آپکے توسط سے نوجوانوں تک پہنچانا ہے جوایک لمبے عرصے سے چل رہی ہے۔ ایک لمبے عرصے سے بی ایس او پر ایک مخصوص ٹولے کے تسلط کے خلاف تنظیم کے نظریاتی ساتھیوں نے جمہوری مزاحمت کرتے ہوئے تنظیم کے نظریات کو بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور تنظیم کو دوبارہ اپنے نظریاتی ستونوں پر کھڑا کرنے کی جرات مندانہ جدوجہد کی ہے جس کا پرچار ہم آپ حضرات کے توسط سے ہمہ وقت کرتے رہے ہیں۔ تنظیم کو توڑنے کا جو اقدام نام نہاد قیادت نے کیا تھا، جسے نوجوانوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ایک منظم تحریک شروع کرتے ہوئے ادارے کے دفاع میں سینہ سپر ہوئے تھے اور مختلف مراحل سے گزر کر نوجوانوں کو دوبارہ جوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں جسکا پیغام ہم آپ صحافی حضرات کے توسط سے بلوچ طلبہ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
15 تا 16 نومبر کو بی ایس او کا دو روزہ مرکزی اجلاس یہیں کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں عالمی سیاسی تناظر اور تنظیمی امور سمیت کئی ایجنڈے زیر بحث رہے اور عہد و حالات کے پیش نظر اہم فیصلہ جات کیے گئے جسکے مطابق بی ایس او کا حقیقی نظریاتی پروگرام ترتیب دیا گیا جس پر چل کر شعوری نظریاتی جدوجہد کی جائے گی، جس سے بی ایس او بحیثیت بلوچ طلبہ کی ایک انقلابی تنظیم کے دوبارہ فعال و منظم ہوگی، منشور مندرجہ زیل ۷ نکات پر مبنی ہے۔

۱۔ بلوچستان کے موجودہ پرانتشار حالات میں مہم جوئی اور موقع پرستی کے رجحانات کو رد کرتے ہوئے بلوچ طلبہ کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد کرکے سائنٹیفک نظریات پر مبنی ترقی پسند سیاسی جدوجہد کرنا۔
۲۔ طبقاتی نظامِ تعلیم کے خاتمے اور نصاب کو سائنسی بنیادوں پر تشکیل دینے کی جدوجہد کرنا۔
۳۔ مادری زبانوں میں بنیادی تعلیم کی فراہمی اور زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے ساتھ لینگوا فرینکا میں جدید علوم کیلئے اداروں کے قیام کی جدوجہد کرنا۔
۴۔ مفت و معیاری تعلیم، روزگار، علاج اور دیگر انسانی بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی جدوجہد کرنا۔ نیز، بلوچستان میں فنی اور پیشہ ورانہ اعلٰی تعلیمی اداروں کے قیام سمیت بلوچ طلبہ کیلئے پاکستان  و بیرون ملک فنی و پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے اسکالرشپ پر داخلے یقینی بنانے کیلئے جدوجہد کرنا۔
۵۔ بلوچ قوم کے حق خودارادیت کیلئے جمہوری جدوجہد کرنا اور دیگر تمام محکوم اقوام کے حق خودارادیت کے جمہوری مطالبے کی حمایت کرنا۔
۶۔ پاکستان کی دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے ساتھ فکری تعاون اور جڑت بناتے ہوئے یونین سازی کی بحالی کیلئے جدوجہد کرنا اور علاقائی، ملکی و بین الاقوامی ترقی پسند تحریکوں کی حمایت کرنا۔
۷۔ قومی و طبقاتی جبر، سامراجی اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا۔

مندرجہ بالا پروگرام کے نفاذ اور تنظیم کو بحران سے نکالنے کیلئے باقاعدہ مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جسکے مطابق مرکزی آرگنائزر ظریف رند، مرکزی ڈپٹی آرگنائزر چنگیز بلوچ، مرکزی اطلاعات بلاول بلوچ جبکہ ممبران مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی اورنگ زیب بلوچ اور غلام محمد بلوچ ہیں۔ مرکزی فیصلہ کے مطابق کم سے کم چھ مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر مرکزی کنونش منعقد کیا جائیگا۔
آخر میں ہم بلوچ نوجوانوں کو اپنے قومی ورثہ بی ایس او کے دفاع میں ہماری جدوجہد میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے شہید فدا بلوچ کے ’’اتحاد، جدوجہد، آخری فتح‘‘ تک کے فکر کو آگے بڑھانے کی صدا لگاتے ہیں۔

محترم صحافی حضرات!
ہم ایک بار پھرآپکے تعاون کے شکر گزار ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے اخبارات اور جریدوں کے ذریعے عوام کے وسیع تر حلقوں تک ہماری آواز پہنچائیں گے۔

شکریہ!

منجانب: مرکزی آگنائزر ظریف رند ، ڈپٹی آرگنائزر چنگیز بلوچ ، مرکزی اطلاعات و نشریات بلاول بلوچ
ممبران مرکزی کمیٹی اورنگزیب بلوچ، غلام محمد بلوچکی۔