| تحریر: لال خان |
پچھلے دو دونوں میں’فوجی سویلین‘ تضادات پھر سے بھڑک اٹھے ہیں۔ پہلے حکومت اور فوج کی مشترکہ میٹنگ ہوئی جس میں معاملات شاید طے نہ ہوسکے۔ پھر کورکمانڈروں کے اجلاس میں نواز شریف حکومت کی ’’گورننس‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ ہمیشہ کی طرح جب اپوزیشن نے اس تنقید کو استعمال کرتے ہوئے حکومت پر اسمبلی میں وار کیے تو پھر حکومت کو بھی ’’اداروں کو اپنی اوقات میں رہنے‘‘ کا ایک نحیف سا بیان دینا پڑا۔ ظاہری طور پر یہ صورتحال اتنی سنگین نہیں معلوم ہو رہی تھی لیکن جب ٹیلی ویژن کے بیشتر چینلوں پرتکرا ر شدت اختیار کرگئی تو کورکمانڈر میٹنگ کے ذریعے تنبیہہ کی گئی کہ سویلین حکومت ’’ قائدے‘‘ میں رہ کر ہی اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہے۔
پاکستان کی تمام تاریخ میں سویلین ملٹری تناؤ، تضادات اور تصادم کا سلسلہ مسلسل جاری رہا ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں گو’’جمہوری‘‘حکومتیں براجمان رہی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکا رہے ہیں۔ عسکری اشرافیہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے بلکہ اسی معاشرے کے ہی افراد پر مشتمل ہے اور یہ نہ صرف سویلین اشرافیہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے بلکہ اعلیٰ فوجی اور سویلین بیوروکریسی، سیاستدانوں اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدیداران کے گہرے تعلق بھی موجود ہیں اور مالیاتی مفادات ان تعلقات کی نوعیت اور کیفیت پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی سے لے کر داخلی معاملات، بھاری انفراسٹرکچر کی تعمیر، صنعت اور سروسز کے اہم حصوں پر فوج براہِ راست براجمان ہے۔ اسکی بنیادی وجہ پاکستان کے حکمران طبقات کی اپنی تاریخی نا اہلی اور معاشی کمزوری ہے۔ یہ کرپٹ سرمایہ دار طبقہ کلاسیکی طرز کی صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست قائم ہی نہیں کر پایا، جوں جوں وقت گزرتا گیا ریاستی اداروں کا معیشت اور کاروبارمیں کردار بھی بڑھتا گیا ہے۔ یہی کاروبار جب فوجی ڈسپلن کی ’’گڈ گورننس‘‘ کے تحت بہتر اور فعال انداز میں چلایا گیا تو منافع بخش ٹھہرا اور پھیلتا چلا گیا، معاشی کنٹرول ہی سیاسی غلبے کو جنم دیتا ہے۔
سویلین حکومتوں میں مارشل لاؤں کی نسبت فوج کے اداروں کا کردار اور دفاعی بجٹ زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ اس کا سیاسی اظہار صرف اس بیان سے ہوجاتا ہے جو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے نمائندہ خاص نے براہمداغ بگٹی کے الزام کے جواب میں دیا ہے۔ یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ مرکزی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے سوئزر لینڈ اور دوسرے مقامات پر بلوچستان کے باغی لیڈروں سے خفیہ ملاقاتیں کی ہیں۔ براہمداغ بگٹی نے یہ بیان دیا کہ ’’بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنے کا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ ہی سیاسی طاقت‘‘۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر مالک کی جانب سے یہ بیان آیا کہ ’’وزیر اعلیٰ کے پاس مکمل مینڈیٹ ہے جو اس وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ نے دیا ہے‘‘۔ اب اس بیان میں ہر چیز بے نقاب ہوگئی ہے۔ اگر فوج کے سربراہ نے ہی بلوچستان جیسے حساس خطے کے وزیر اعلیٰ کو مینڈیٹ دینا ہے تو پھر آئین کیسا‘ جمہوریت کیسی اور سیاست کے کیا معنی؟ ویسے یہاں وزیر اعظم کا نام بھی رسماً ہی لیا گیاہے۔ یہ صورتحال صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ وفاق سے لیکر ہر صوبائی حکومت تک کا یہی حالت اور یہی ’’مینڈیٹ‘‘ ہے۔ اور اس ’’جمہوریت‘‘ کی ہی نہیں ’’آزاد میڈیا‘‘ کی بھی یہی کیفیت ہے۔
میڈیا کا ایک بڑا حصہ فی الوقت فوج کی حمایت کررہا ہے اور اس حکومت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے، وہ بالواسطہ کہہ رہے ہیں کہ فوج کی ’’گڈ گورننس‘‘ کی بدولت اس کومختلف علاقوں میں صرف آپریشنز کرنے کی بجائے پورے ملک کا اقتدار براہِ راست ہی سنبھال لینا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فوج کیا دوبارہ براہِ راست اقتدار حاصل کرنے کے لیے تیار ہے؟ یا پھر صرف توازن کو اپنے حق میں رکھ کے اسی سیٹ اپ کو جاری رکھنا چاہتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ توازن بار بار بگڑ کیوں جاتا ہے؟ فوجی اور سویلین حکمرانوں میں تضادات کچھ عرصے کے بعد کیوں پھٹ پڑتے ہیں؟ اصل وجہ ملک کا معاشی اور اقتصادی بحران ہے جو مسلسل بڑھتا جارہا ہے اور نتیجے میں جنم لینے والی سماجی تنزلی انتشار اور غم وغصے کو جنم دے رہی ہے۔ عوام کی حکمران طبقے کے ہر ادارے سے نفرت کی حرارت سماج میں حاوی سطحی سکوت کے باوجود ریاست اور سیاست کے ایوانوں میں اتنی حدت پہنچا رہی ہے کہ ان کے آپسی معاہدے پگھلنے لگتے ہیں، توازن ٹوٹ جاتا ہے۔ جس معاشرے میں اتنی محرومی ہو وہاں بدعنوانی ناگزیر ہوجاتی ہے، جرائم معمول بن جاتے ہیں۔ یہ بحران اس نظام کا بحران ہے، جمہوریت یا آمریت کے سیاسی ڈھانچوں کا نہیں ہے۔ وہ بنیاد ہی لڑکھڑا رہی ہے جس پر یہ ڈھانچے قائم ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی مستحکم یاپر اعتماد حاکمیت قائم نہیں رہ سکتی۔
آج ’’گڈگورننس‘‘ کی بڑی طلب اس نظام کے دانشور وں اور اینکرز کو ہے لیکن فوج براہِ راست مداخلت کرکے اقتدار سنبھالتی ہے تو ان جرنیلوں کو لگ پتا جائے گا۔ امریکی سامراج اورتھوڑا گہرا تجزیہ رکھنے والے عسکری اسٹیبلشمنٹ کے پالیسی سازوں کو اس نازک کیفیت کا پورا ادراک بھی ہے، اس لیے صرف دھونس دھمکی سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ ایوب خان کے آخری دنوں سے لے کر مشرف کے زوال کی صورتحال کو یہ فوجی ماہرین بھولے نہیں ہیں۔ اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں فوج کے خلاف عوام میں جو نفرت پیداہوئی تھی وہ شاید سقوط ڈھاکہ کے وقت سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن دوسری طرف جس رفتار اور شدت سے ریاست کا بحران بڑھ رہا ہے ایسے میں کوئی بڑا واقعہ دھماکہ خیز حالات کو بھی جنم دے سکتا ہے اور یہ حالات نہ چاہتے ہوئے بھی فوج کو براہ راست مداخلت پر مجبور کر سکتے ہیں۔
حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ بحران یا تحریک کو جبر کے ذریعے کتنا عرصہ دبایا جاسکتا ہے؟ جلد ہی عوام فوجی آمریت کے عادی ہوجاتے ہیں اور اسکے خوف پر قابو پالیتے ہیں۔ پھر ریاست کے اس طاقتور ترین ادارے اور محنت کش عوام کا براہِ راست تضاد سامنے آتا ہے۔ تحریکیں چلتی ہیں اور آمریتیں کھوکھلی ہو کر ٹوٹنے لگتی ہیں۔ پاکستان کی ساری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ماضی میں اس ملک کے سیاستدان ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ان انقلابی تحریکوں کو زائل کر لیتے تھے۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں اس جمہوریت نے عوام کا جو حشر کیا ہے اس کے پیش نظر ’’جمہوریت‘‘ کا ناٹک بھی چلنے والا نہیں۔ یوں سامراجی آقا اور یہاں کے ریاستی پالیسی ساز اپنا آزمودہ ہتھیار گنوا بیٹھے ہیں اور خاصے پریشان بھی ہیں۔ اس لیے ان کی کوشش ہے کہ یہ سیٹ اپ جاری رہے۔ لیکن یہ ’’سٹیٹس کو‘‘ اتنا گل سڑ چکا ہے، توازن اتنا بگڑ گیا ہے کہ اس کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہے اور اس کو ختم کرکے براہِ راست فوجی آمریت سے بھی صورتحال قابو میں آنے کی بجائے مزید بگڑے گی۔
آج محنت کش عوام اگرچہ پے درپے قیادت کی غداریوں اور معاشی بربادیوں کے صدمے سے دوچار ہیں لیکن وہ اس کھلواڑ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور پرکھ بھی رہے ہیں۔ اسباق بھی حاصل کررہے ہیں اور نجات کی راہ بھی تلاش رہے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ سویلین اقتدار ہو یا فوجی آمریت، مالیاتی سرمائے کا جبر مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہ کارپوریٹ لٹیرے اپنے نمائندوں کو کبھی شیروانی میں ملبوس کرلیتے ہیں تو کبھی وردی میں۔ ان کے منافعے اور دولت کے حجم بڑھتے جارہے ہیں۔ ’’جمہوریت اور آمریت‘‘ کا تضاد اب محنت کش عوام کے لیے بہت ہی بے معنی ہو چکا ہے۔ اگر آمریتوں نے جبر کیا ہے تو سرمائے کی جمہوریت نے کونسا ستم ہے جو روا نہیں رکھا؟ حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اب اس ملک کے نوجوان اور محنت کش ایک ہی نظامِ کے ان مختلف بہروپوں کو جان گئے ہیں!
متعلقہ: