| تحریر: لال خان |
سرمایہ داری کے بحران کی وحشت پاکستانی سماج کو غربت، ذلت، بیماری، غلاظت، دہشت گردی، بربادی اور جرائم کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلتی چلی جا رہی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں عو ام کے لیے یہ دور تاریخ میں سب سے زیادہ ہنگامہ خیز اور تباہ کن ہے۔ جہاں انسانوں کی وسیع اکثریت معیشت اور حاوی سیاست کے ہاتھوں تاراج ہے وہاں فن، ثقافت، انسانی رشتوں، سماجی رویوں، اخلاقیات اور اقدار کی تنزلی بھی انتہائی کربناک ہے۔ محنت کش طبقات، طلبہ، نوجوانوں اور خواتین نے بار بار اس استحصال اور سماجی و معاشی جبر سے آزادی حاصل کرنے کی جدو جہد کی ہے لیکن پارٹی، پروگرام اور طبقاتی جدوجہد کے سائنسی تناظر کے بغیر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ان تمام تر پسپائیوں کے باوجود نجات کا و ا حد راستہ آج بھی وہی ہے جس کی مثال اٹھانوے برس پہلے یخ بستہ روس کی سرزمین پر پربا ہونے والے عظیم بالشویک انقلاب نے قائم کی تھی۔ اس انقلاب کی سنہری روایات کو دہرانے کی ضرورت آج ماضی کے کسی عہد سے زیادہ ہے۔
تاریخ عوام کی ’’منتخب نمائندگی‘‘ کے نام پر ہونے والے مضحکہ خیز تماشوں سے بھری پڑی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی اشرافیہ ڈھٹائی اور بیہودگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف وہ ’سوشلزم کی موت‘ کا رٹا رٹایا فرسودہ سبق دہراتے ہیں اور دوسری جانب زیادہ تر دائیں بازو کے سیاست دان خوفزدہ ہو کر ایک خونی انقلاب کی تنبیہ خود کرتے پھر رہے ہیں۔ اگر کوئی بالشویک انقلاب کا نام لینے کی جسارت کر بھی دے تو یہ سیاسی جگادری اور ان کے وظیفہ خوار دانشور فوراً جواب دیتے ہیں کہ ’’وہ تو روس میں ناکام ہو گیا‘‘۔ تاریخ کو آج بھی کسی سماجی جدوجہد کے انجام میں بہتان اور الزام تراشی کے اثرات کا تعین کرنے والے سماجی سائنس دان کی تلاش ہے!
انقلابِ روس آج سے 98 سال قبل 7 نومبر 1917ء (پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق 26 اکتوبر) کو فتح مند ہواتھا۔ یہ انقلاب چونکہ بالشویک پارٹی کی قیادت میں برپا ہوا تھا لہٰذا سے ’بالشویک انقلاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انقلاب کے وقت بالشویک پارٹی کے مرکزی قائدین ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی تھے۔ پیرس کمیون کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ مفلوک الحال محنت کشوں اور دہقانوں نے سیاسی اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی جابر حکمرانی کا خاتمہ اور عالمی سوشلسٹ نظام کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ مشہور امریکی مصنف اور صحافی جان ریڈ نے خوب کہا تھا کہ ’’بالشویزم کے متعلق کسی کی جو بھی رائے ہواس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انقلابِ روس انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار میں آنا عالمی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ (دنیا کو دہلا دینے والے دس دن، صفحہ 130)۔
تاریخ میں پہلی بات اتنے بڑے پیمانے پر محنت کش عوام نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اس عظیم اور بے مثال تجربے نے یہ ثابت کر دیا کہ سرمایہ داروں، جاگیر داروں، بینکاروں اور ساہوکاروں کے بغیر بھی سماج کو چلایا جا سکتا ہے اور بہت احسن انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب کو نوعمری میں ہی کچلنے کے لئے اکیس سامراجی فوجوں نے جارحیت کر دی جس سے پانچ سال پر محیط خونریز خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔
سامراجی جارحیت، خانہ جنگی اور پہلی جنگ عظیم سے تباہ حال پسماندہ روس کی بے پناہ معروضی مشکلات کے باوجود سرمایہ داری کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت کی استواری سے پیداواری قوتیں نجی ملکیت کی جکڑ سے آزاد ہوئیں، تیز معاشی ترقی اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے اور محنت کش طبقے کی نمائندہ انقلابی پارٹی کے اقتدار میں آنے سے محنت کش نئی مزدور ریاست کے امور اور فیصلہ سازی میں براہ راست طور پر شریک ہوئے۔ یہ آج تک کلاسیکی مارکسی بنیادوں پر برپا ہونے والا واحد انقلاب ہے۔ لینن نے انقلاب کے حقیقی مقصد اور تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے دسمبر 1917ء میں لکھا ’’اہم ترین فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ محنت کش اور استحصال زدہ عوام کو پراعتماد اور خودمختیار بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو سکے اس عمل کو تخلیقی تنظیمی کام کے ذریعے پھیلایا جائے۔ ہر قیمت پر ہمیں ان پرانے، نامعقول، وحشی اور گھٹیا تعصبات کو نیست و نابود کرنا ہے کہ صرف نام نہاد اشرافیہ، امیر طبقہ یا امیروں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہی ریاست کو چلا سکتے ہیں. . .‘‘
یہ منصوبہ بند معیشت ہی تھی جس کے تحت 1913ء (قبل از جنگ پیداوار کا عروج) سے 1963ء کے پچاس برسوں میں دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی اور دیگر آفات کے باوجود مجموعی صنعتی پیداوارمیں 52 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اسی دوران امریکہ میں یہ اضافہ چھ گنا سے کم تھا۔ چند دہائیوں میں سوویت یونین ایک پسماندہ زرعی معیشت سے دنیا کی دوسری بڑی صنعتی و عسکری طاقت بن گیا، جہاں امریکہ اور جاپان کے مجموعے سے زیادہ سائنس دان اور انجینئر تھے۔ اوسط عمر دوگنا ہو گئی اور بچوں میں شرح اموات نو گنا کم ہوئی۔ اتنے مختصر وقت میں اتنی بڑی معاشی ترقی کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ تعلیم اور علاج کے کاروبار کا تصور تک موجود نہ تھا۔ رہائش کے مسائل حل کرنے کے لئے پانچ کروڑ فلیٹ تعمیر کئے گئے۔ رہائش کے کرائے کی حد ماہانہ آمدن کا چھ فیصد تھی۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز تک ماسکو میں ایک چھوٹے فلیٹ کا ماہانہ کرایہ 17 ڈالر تھا جس میں گیس، بجلی، ٹیلی فون اورگرم پانی شامل تھا۔
بالشویک انقلاب کے قائدین کے نزدیک یہ کسی ایک ملک یا قوم کا انقلاب نہ تھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عالمگیر انقلاب کی پہلی کڑی تھا۔ تاہم جرمنی (1918-19ء اور1923ء)، چین (1924-25ء) اور برطانیہ (1926ء) سمیت دیگر کئی ممالک میں انقلابات کی شکست سے سوویت یونین عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو گیا۔ 1917ء کے بعد کی کچھ دہائیوں میں معاشی، سماجی اور ثقافتی پسماندگی کے خوفناک حالات میں لینن اور ٹراٹسکی کی قائم کردہ مزدور جمہوریت مسخ ہو گئی اور سٹالن کی قیادت میں ایک سیاسی ردِ انقلاب نے جنم لیا۔
سٹالن پسماندگی کے مخصوص حالات میں پنپنے والی ریاستی افسر شاہی کا نمائندہ تھا۔ لینن کی وفات کے بعد ٹراٹسکی اکتوبر انقلاب کے حقیقی نظریات کے دفاع کے لیے آخر ی دم تک لڑتا رہا، 1940ء میں میکسکو میں سٹالن نے اسے قتل کروا دیا۔ افسر شاہانہ آمریت کے خلاف مزدور جمہوریت کی جدوجہد کرنے والے لاکھوں بالشویکوں کو فائرنگ سکواڈز کا سامنا کرنا پڑا یا پھر سائبیریا کے برفیلے میدانوں میں ٹھٹھر کر مرنے کے لئے جلا وطن کر دئیے گئے۔
ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ منصوبہ بند معیشت کے لیے محنت کشوں کی جمہوریت ویسے ہی اہم ہے جیسے انسانی جسم کے لیے آکسیجن۔ 1928ء میں پانچ سالہ منصوبوں کے آغاز کے وقت چھوٹی اور سادہ معیشت کی منصوبہ بندی افسر شاہی کے لئے آسان تھی لیکن 1960ء کی دہائی میں سوویت معیشت 25 لاکھ اشیا پیدا کر رہی تھی، جمہوری منصوبہ بندی کے بغیر چند ہزار بیوروکریٹوں کے لئے اتنی بڑی معیشت کو چلانا نا ممکن تھا، چنانچہ 1970ء میں معیشت جمود کا شکار ہو گئی اور بدانتظامی بڑھنے لگی۔
1936ء میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘ میں ٹراٹسکی نے لکھا کہ ’’سیاسی انقلاب کے ذریعے موجودہ افسر شاہانہ آمریت کا خاتمہ کر کے ایک صحت مند سوشلسٹ حکومت قائم نہ ہوئی تو اس کا نتیجہ سرمایہ داری کی جانب واپسی اور صنعت اور ثقافت میں تباہ کن زوال ہو گا‘‘۔ 1989ء کے بعد کے واقعات سے یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن سرمایہ داری کے عذر خواہان اور سابقہ بایاں بازو مُصرہے کہ سوویت یونین کا انہدام سوشلزم کا خاتمہ تھا۔ جب تک سرمایہ داری موجود ہے، اس نظام کا ظلم و استحصال اور جبر موجود ہے، سوشلزم بھلا کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
1990ء کی دہائی کے اوائل میں کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب ’اللہ کا انتظار‘ میں لکھا تھا کہ ’’پاکستانی سماج کا شدید بحران انقلاب سے کم کسی نسخے سے حل نہیں ہو سکتا‘‘۔ آج سماج کے سامنے وہی دو راستے ہیں جن کا ذکر عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے سو برس قبل کیا تھا، ’’سوشلزم یا بربریت‘‘۔ صرف بالشوازم کے نظریات، طریقہ کار اور حکمتِ عملی پر مبنی انقلاب ہی اس اذیت اور محرومی کے خاتمے میں فتح یاب ہو سکتا ہے۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ آنے والے تاریخی عہد میں حکمران طبقات لرز اٹھیں گے کیونکہ عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لئے تاریخ کے میدان میں اترنے کو ہیں۔
متعلقہ:
بالشویک انقلاب کے 98 سال :یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہو گی!
لیون ٹراٹسکی: جو چلے تو جاں سے گزر گئے!