| تحریر: قمرالزماں خاں |
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق پاکستان میں پنتالیس فی صد ادویات جعلی ہیں جب کہ انکی تیاری میں کیڑے مار زہر، اینٹوں کابرادہ اور پینٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی موجودگی کے باوجودجعلی ادویات کا مسئلہ ابھی تک نہایت سنگین اور مہلک ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بتایا ہے کہ جعلی ادویات کیوجہ سے دنیا میں ہر سال دس لاکھ افراد جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ سال 2012ء میں پاکستان میں صرف لاہور کے ایک واقعہ میں دل کی جعلی ادویات کے استعمال سے 120 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستانی مارکیٹس ہر قسم کی بیماری کے علاج کے لئے جعلی ٹیبلٹس، کیپسولز، سیرپ اور بوتلوں سے بھری پڑی ہیں اور یہ بتانا تقریباً ناممکن ہے کہ کون سی دوائی اصلی اور کون سی نقلی ہے۔ پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں تقریباََ چار ہزار لائسنس یافتہ ادویات ساز ادارے ہیں، جبکہ عملی طور پرغیر لائسنس یافتہ ایک لاکھ سے زائدفارمیسیز بھی کام کررہی ہیں۔ یہ جعلی ادویات تووہ ہیں جو سٹورز پر عام دستیاب ہیں۔ اس بات کا تو علم نہیں کہ مندرجہ بالا اعداد وشمار کا ماخذ کیا ہے اور کیا صرف ایک لاکھ غیر قانونی ادویات ساز ادارے ہی کام کررہے ہیں یا ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ اس بات کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر حکیم، ہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر اپنے مطب پر ادویات خود تیار کرتاپایا جاتا ہے۔ ان دنوں ہر اخبار کے اتوار ایڈیشنزایسے حکیموں کے اشتہارات سے بھرے ملتے ہیں جن کے پاس ہر قسم کے مہلک امراض کا ’’علاج‘‘ موجودہے، حتیٰ کہ وہ شوگر، ہیپاٹائٹس، جگر کے سکڑ جانے کے ’’علاج‘‘ کے بھی دعوے دار ہیں۔ اسی طرح علاقے کے مقامی’ ایف ایم ریڈیو‘ کے صوتی اشتہارات میں اسی قسم کے ’’جادوئی حکیموں‘‘ کے حیرت انگیز طریقہ علاج اور مریضوں کی ٹیلی فون کالز اور جواب سے سادہ لوح شہریوں کو آسانی سے شکار بنایا جاتا ہے۔ یہ لوٹ مار کا کھیل شہروں کے وسط میں جاری وساری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
دیہی علاقوں میں بالعموم ٹانگ یا بازو کی ہڈی ٹوٹنے پر مقامی ’’عطائی ہڈی جوڑ‘‘ لوگوں کو زندگی بھر کے لئے معذور کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ملتے ہیں۔ مختلف قسم کے مہلک اور عام امراض کے لئے ’’دم درود‘‘ اور ’’تعویذوں‘‘ کا طریقہ کسی بھی طریقہ علاج کی نسبت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، ڈاکٹر کی فیس اور ادویات کی خریداری کی سکت نہ رکھنے والوں کے لئے دم درود کا سستا طریقہ کار ہی ’’نفسیاتی تشفی‘‘ کا باعث بن جاتا ہے۔ ’سٹیرائیڈز‘ کا استعمال کرکے علاج معالجہ کرنے والے حکیم اور عطائی ڈاکٹر انسانوں کی زندگیوں سے کھلے عام کھیل رہے ہیں اور کروڑوں نہیں اربوں روپے کما رہے ہیں۔ دوسری طرف نجی اور سرکاری میڈیکل کالجز دھڑا دھڑڈاکٹر بنائے جارہے ہیں۔ رینجرز کے ہاتھوں تفتیشی مراحل میں پھڑپھڑاتے ‘ ہوئے ڈاکٹر عاصم نے پچھلے عرصے میں سینکڑوں میڈیکل کالجز کے لائسنس جاری کئے ہیں۔ تما م اہل زر، جن کی دولت کی پیدائش کے ذرائع انتہائی مشکوک ہیں، عمومی تعلیم کے فروغ کے ساتھ اب ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں لگانے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ میڈیکل کالج بنانے میں صرف کل لاگت دوسرے سیشن میں پوری ہوجاتی ہے اور پھر عمر بھر یہ میڈیکل کالج ایک طرف مسلسل ’’ڈاکٹر‘‘ گھڑنے میں اور دوسری طرف ’’رقم‘‘ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ صحت کا شعبہ انتہائی منفعت بخش ہے جو اس صنعت سے منسلک لیبارٹری ٹیکنیشنز، ’’مسیحاؤں‘‘، ادویات ساز اداروں اور میڈیکل سٹورز، طب کی تعلیم دینے والوں سمیت اس شعبے سے منسلک ہر کس وناکس کی جھولی دولت سے بھرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ مہنگی ترین رہائشی سکیموں میں فوج کے بعد ڈاکٹرز کی ملکیت دوسرے نمبر پر ہے۔ شہری جائیداد اوربنک بیلنس کے حوالے سے بھی ’’معالجین‘‘ فہرست کے اولین حصے میں نظر آتے ہیں۔ اس دولت، جائیداد اور امارت کا سبب بننے والے وہ مریض ہیں جن کی چھوٹی موٹی املاک، بچتیں اور زندگی بھر کی کمائی ان’’ طبیبوں‘‘ کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ اس لوٹ مارکے کھیل میں مرض اور بیماریاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ جعلی ادویات اور جعلی طبیبوں کے ساتھ اصلی ڈاکٹروں کے ہتھکنڈے کسی طور ’’معالج‘‘ اور جان بچانے والے ’’مسیحا‘‘ سے مناسبت نہیں رکھتے۔ مریضوں کو دُہرے نہیں چار چار ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ ہر ڈاکٹر کی اپنی لیبارٹری ہے جس کا معیار چیک کرنے کے لئے اگر کوئی ادارہ یا اتھارٹی ہے تو اس کی نقل وحرکت سماج میں نظرنہیں آتی۔ ڈاکٹروں کی فیس کا تعین کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ سرمایہ داری نظام میں اگر مزدورکی کم ازکم اجرت کا تعین کیا جاتا ہے تو ڈاکٹرز کی بھی زیادہ سے زیادہ فیس کا تعین کرنا ضروری ہے جو مزدور کی (یومیہ) کم از کم اجرت سے آدھی ہونی چاہئے۔ ڈاکٹروں کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں جو انہوں نے مریضوں کی جیبیں کاٹ کر جمع کی ہوئی ہیں، انکی دولت پر بھاری ٹیکس عائد کیوں نہیں کئے جاتے؟
سرمایہ داری نظام کے سماجی رتبے بھی عجیب وضع کئے گئے ہیں، ڈاکو کو قابل نفرت اور مجرم سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کو عمر بھر کی کمائی سے محروم کرنے اورانسانی جانوں سے کھیلنے والے ڈکٹروں کو ’’معزز شہری‘‘ کا درجہ دیاجاتا ہے۔ ڈاکٹروں کو علاج معالجہ کے علاوہ دیگر کاروبار اور صنعت کاری قطعی ممنوع ہونا چاہئے مگر یہاں ڈاکٹر عاصم کی طرح ڈاکٹر بھی پیڑول پمپوں، فیکٹریوں، میڈیکل کالجز کے مالک ہیں اور انکابھاری سرمایہ بازار حصص اور رہائشی سکیموں میں انوسٹ ہے۔ پھر ڈاکٹرکے معیار کو چیک کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک مریض سے فیس لیکر اسکا علاج کرتے ہوئے ڈاکٹر واقعی علاج کررہا ہے یا مرض کے ساتھ کھلواڑ کرکے مریض کو اسپتالوں کی سانس بند کردینے والی راہداریوں میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی نوبت تک پہنچادے گا۔ اگر کوئی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کررہا ہے تو اسکو سرکاری خزانے سے ماہانہ لاکھوں روپے اور رہائش کی سہولت کیوں دی جارہی ہے؟ سرکاری اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی ایک بھاری تعداد کو نجی اسپتالوں، کلینکل لیبارٹریوں میں آنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔ ان لیبارٹریوں کا معیار خود سوالیہ نشان ہے۔ ایک دفعہ ایک سینئر فیچر نگار صحافی ظفراقبال نگینہ نے دس مختلف کلینکل لیبارٹریز میں اپنے پیشاب کا نمونہ ’’ٹیسٹ ‘‘ کے لئے دیا، تمام لیبارٹریوں سے (انکے نام میں نگینہ ہونے کی وجہ سے) ’حمل‘ پازیٹو قراردیا گیا۔ عمومی طور پر کلینکل لیبارٹریز میں تجزیہ کے لئے لائے گئے ’مواد‘ کا جائیزہ ’’پیتھالوجسٹ ‘‘ کی بجائے چھ سات ہزار پر رکھے گئے وہ ملازمین کرتے ہیں، جو اس کام میں محض عطائیت والی مہارت کے حاملین ہوتے ہیں اور انکے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی۔ لیبارٹریز کے مابین بھاری فیسوں کا مقابلہ ہورہا ہے۔ بطور خاص ’ہیپاٹائٹس‘ کے مریضوں کے ٹسٹوں پر لوٹ مارکا بازار گرم ہے۔ ملک کی دو تین بڑے نام والی کلینکل لیبارٹریز کے ٹسٹوں کی بھاری فیسیں 74 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی تو کیا اس لکیر سے اوپر والے لوگوں میں بھی بھرنے کی ہمت نہیں۔ اگر مزدور کی کم ازکم ماہانہ تنخواہ تیرہ ہزار روپے ہے تو وہ ہیپا ٹائیٹس کا ’’جینو ٹائپ‘‘ یا ’’کوالیٹیٹو‘‘ اور ’’کوانٹیٹیو‘‘ ٹسٹ نہیں کرواسکتا، یہ ٹسٹ کرانے کے لئے اسکو اپنے خاندان کو دوماہ تک بھوکا رکھنا ہوگا اور ہر قسم کی ضروریات کا روزہ رکھنا ہوگا۔ ہوٹلوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں مگر اسپتالوں میں بیٹھے ہوئے’مسیحا‘ انسانوں کی صحت سے کیاکھیل، کھیل رہے ہیں؟ اس سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ’’صحت‘‘ کاشعبہ رسوائے زمانہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بھی صوبائی حکومتوں کے ہی پاس تھا، جن کی ترجیحات میں عام لوگوں کی صحت سب سے آخر میں ہے۔ سالانہ بجٹ میں سب سے کم رقم ’صحت‘ کی مد میں رکھنے کا سبب نجی اسپتالوں، نجی پریکٹس اور ادویات ساز اداروں کو لوٹ مارکی کھلی اجازت دینا ہے۔ حکمرانوں کے بیان کے برعکس پاکستان میں ہر شخص بالواسطہ طور پر ہر خرید کردہ چیز پرکئی تہوں میں ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے مگر اسکے بدلے میں ’’ریاست‘‘ اسکو صحت مند زندگی گزارنے کے مواقع تک نہیں دیتی۔
سرمایہ داری نظام کے رہتے ہوئے ڈاکٹر کبھی بھی مسیحا نہیں بن سکتے۔ ان کے کلینک پیسے بٹورنے والی دکانیں بن چکی ہیں اور خود وہ سفاک کاروباری‘جن کا مطمع نظر مرض کا خاتمہ نہیں بلکہ پیسے کمانا ہوتا ہے۔ جعلی ادویات تو اپنی جگہ پر ایک سنگین اور خوفناک مسئلہ ہیں مگر ڈاکٹر حضرات مریضوں کو ادویات انکے مرض کے مطابق اور انکی قوت خرید سے مناسبت کی بجائے’’ملٹی نیشنل‘‘ پاکستانی کمپنیوں کی وہ ادویات تجویز کرتے ہیں جن کے بدلے میں ان کو نقدرقوم ’پرسنٹیج ‘ میں ملتی ہیں، فارایسٹ، یورپ کے ’فیملی ٹورز‘ کرائے جاتے ہیں، کاریں، فریج، ائیر کنڈیشنرز اور دیگر قیمتی اشیاء مہیا کی جاتی ہیں۔ وارڈز میں ڈیوٹی دینے والے پروفیسرز حضرات کے قلم سے ہر مرض اور ہر مریض کے لئے ایک ہی قسم اور کمپنی کی دوائی تجویز کی جاتی ہے جو اسی سالٹ کی کسی دوسری کمپنی کی نسبت کئی دفعہ تو سو گنا مہنگی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ناخواندگی کا مسئلہ بھی عروج پر ہے مگر ’غرض مند دیوانہ ہوتا ہے‘ کے مصداق مریض کے لواحقین کے پاس نسخہ لکھنے والے پروفیسر صاحب سے اختلاف کرنے یا کسی اور کمپنی کی دوائی خریدنے کی گنجائش نہیں ہوتی ورنہ اور زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ’’لوکل پرچیز‘‘ کی سہولت غریب اور مستحق مریضوں کے لئے بازار سے وہ ادویات خریدنے کے لئے ہے جو سرکاری اسپتال میں میسر نہیں ہوتیں، مگر اس لوکل پرچیز کی سہولت کا استعمال اعلیٰ افسروں کو خوش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور عام مریض اس سہولت سے فیض یاب نہیں ہوسکتے۔ سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خرد برد، بجلی بنانے والے جنریٹریز کے ڈیزل، ایمبولنس کے پیٹرول، ڈیزل کی خرد برد کا دھندہ عروج پرہوتا ہے، جس میں انتہائی معزز نظرآنے والے میڈیکل سپریٹنڈنٹ بڑے شیئر ہولڈزر ہوتے ہیں۔ سرکاری اسپتال اگر چھوٹے شہروں میں ہوں تو محض ’’ریفرسنٹر‘‘ ہی ہوتے ہیں، مریض کو بڑے شہریا نجی اسپتال میں لے جانے کا تحریری حکم نامہ مریض کے لواحقین کے لئے ’آسمانی‘ حکم بن جاتا ہے۔
پاکستانی سماج میں بدعنوانی کا کیا درجہ ہے؟ اس کا تعین کرنے کے لئے ’’نیب‘‘ نامی ادارے کے جاسوسی نظام کا سہارا لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے، سرکاری اسپتال بدعنوانی اور لوٹ مار کی کھلی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ صحت کا مسئلہ محض اسپتالوں، ڈاکٹرز، ادویات کے ساتھ منسلک نہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ملاوٹ سے پاک غذا، صاف ستھرے ماحول اور غربت کے خاتمے کے ساتھ وابستہ ہے۔ مملکت خداداد میں مرنا آسان اور جینا مشکل ہے۔ پاکستان میں ساٹھ فی صد بیماریاں محض غربت کی وجہ سے ہیں اور غربت کا سبب یہ نظام ہے جس میں وسائل کا رخ ایک فی صد طبقے کی طرف ہے اور باقی ننانوے فی صد لوگ اس نظام کا ایندھن بننے پر مجبورہیں۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور پیداوار برائے منافع کے خاتمہ کے بغیر کسی بھی سماج میں رہنے والوں کو نہ تعلیم مہیا کی جاسکتی ہے اور نہ ہی صحت کی سہولیات کو زندگیوں کے تحفظ کے لئے مفت فراہم کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ نظام جب تک موجودہ رہے گا انسانیت یونہی سسکتی رہے گی۔
متعلقہ: