| تحریر: قمرالزماں خاں |
ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار کے بعد یہ پہلا ’’جمہوری‘‘ دور ہے جس میں لوکل باڈی الیکشن منعقد ہورہے ہیں۔ یہ ایک نیم دلی کا فیصلہ ہے جس کو کرنے سے پہلے سالہاسال متعدد حربوں سے ان انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ عدالتی حکم کے بعد نہ چاہتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کے انعقادکو مراحل میں کروایا جارہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بعد پنجاب اور سندھ میں بھی مرحلہ وار بلدیاتی الیکشن ہورہے ہیں۔ ایک تو اعلان کے باوجود یہ الیکشن پوری طرح ’’جماعتی الیکشن‘‘ نہیں بن پائے اور ’’آزاد ‘‘ امیدوارو ں کی ایک بڑی تعداد نے جماعتی امیدواروں کو غیر موثر بنایا ہوا ہے، اسکی وجہ پارٹیوں کی غیر مقبولیت اور پارٹی ٹکٹ کی بنا پر ہارنے کا ڈر بھی ہے اور سیاسی پارٹیوں کے اندر اپنے کارکنان کو نظم وضبط کا پابند نہ کرپانا بھی۔
تحریک انصاف پنجاب (تحلیل شدہ تنظیم) کے نائب صدر ارتضیٰ داؤد تحصیل صادق آبادکی یونین کونسل درگڑہ سے بطور چیئرمین’’ آزاد امیدوار‘‘ کے طور پر الیکشن لڑرہے ہیں کیوں کہ وہ ’پارٹی ٹکٹ‘پر ہمہ قسم کے ووٹروں کے ساتھ ساز باز نہیں کرسکتے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایک بہت ہی اہم عنصر‘ برسراقتدار پارٹیوں کا امیدوار بننے کی خواہش ہے تاکہ سرکاری ’’کمک‘‘اور اقتدارتک رسائی میسر ہو، مگر ایک حلقے سے کئی امیدواروں کی صورت میں ’’ٹکٹ ہولڈر‘‘کے سامنے اسکی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ’’آزاد حیثیت‘‘ میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کی نفسیات اور مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں، اس لئے انہوں نے امیدواروں کی ’درخواست گزاری‘ پر علیحدہ اور ٹکٹ کے حصول کے لئے علیحدہ سے فیس وصول کی۔ یہ خطیر رقوم کہیں تو پارٹی اکاؤنٹ میں جمع ہو رہی ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی سمیت چند پارٹیوں میں ضلعی قیادتوں کے ذاتی اکاؤنٹ میں ہی ضم ہورہی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں پچھلے سال موخر ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے لئے وصول کی گئی رقوم کو موجودہ الیکشن کی فیس میں نہ صرف ایڈجسٹ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ ان کا تذکرہ بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف امیدواروں کی ایک بڑی تعدادموجودہ اور متوقع ٹھیکے داروں پر مشتمل ہے، جن کا مطمع نظر ایسے اقتدار تک رسائی ہے جہاں سے انکے مالی مفادات کا راستہ بن سکے۔ پاکستان میں بلدیاتی الیکشن کی ابتدا ایوب خاں کی ’’بنیادی جمہوری نظام‘‘ سے ہوئی تھی مگر یہ پہلا الیکشن ہے جس میں الیکشن پراسس کے لئے دوماہ کا طویل وقت رکھا گیا ہے۔ اتنا طویل عرصہ شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے۔
بلدیاتی نظام دنیا بھر (بالخصوص ترقی یافتہ مغرب) میں تو بہت ہی اہمیت کاحامل قراردیاجاتا ہے اور اسکی وجہ ان اداروں کی مقامی آبادیوں کے لئے کارکردگی ہے مگر پاکستان میں ان بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا اندازہ شہروں، دیہی علاقوں اور میونسپل کمیٹیوں کی حدود کے اندررہنے والی آبادیوں کی حالت زار دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دوران ’’ترقیاتی کام‘‘ نہیں ہوئے، اربوں نہیں کھربوں روپے کے کام ہوئے مگر جو پیسہ کاغذات سے باہر خرچ ہوا تو وہ بھی ایسے کہ ہر ترقیاتی منصوبے کی عمر چند سال تک ہی محدود رہی۔ چونکہ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو مقامی آبادیوں کے مفادات کی بجائے فوجی آمروں نے اپنے لئے ’’سیاسی نرسریوں‘‘ کے قیام کے لئے استعمال کیا، اسکی وجہ سے ان اداروں سے پرورش پانے والے سیاسی عناصر نے فوجی آمروں کی ان خواہشات اور مجبوریوں کا مالی مفادات، کرپشن اور مجرمانہ کردار کی شکل میں معاوضہ بھی وصول کیا۔ شہری جائیدادوں پر’’ قانونی‘‘ اور غیر قانونی قبضے، ٹھیکوں کی الاٹمنٹ اور انکو پھر آگے بیچ دینا یا پھر بہت ہی کم لاگت میں منصوبوں کی تکمیل سے بے پناہ منافع کمانا، نوکریوں کی خرید و فروخت وغیرہ ہی ان بلدیاتی اداروں کا استعمال رہا ہے۔
چونکہ 1979ء کے بعد سے تمام بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے لہٰذا روپے پیسے، رشوت اور قبضہ گیری سے بھی بڑی بدعنوانی کی بنیادووٹوں کی خریداری اور ذات برادری کی بنیاد پر سیاست اور سماج کو تقسیم کرناٹھہری۔ اس سے نظریاتی سیاست، سیاست برائے خدمت اور عوام کی نمائندگی کے دعووں کے چھوٹے موٹے اثرات کا بھی خاتمہ کرکے سیاست کو براہ راست ایک کاروبار میں بدل دیا گیا۔ سیاست کرنے والا بھاری سرمایہ کاری کرکے ہر حال میں الیکشن جیتتا ہے اور پھر سیاست کے ایوانوں کو اپنے منافعوں کے حصول کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ بلدیاتی سطح پر اس قسم کی نفسیات اور ثقافت کے فروغ سے نظریاتی اورمالی بدعنوانی کو گراس روٹ لیول تک پوری گہرائی سے سرایت پذیر کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال سے بلدیاتی ادارے گراس روٹ لیول تک کے مسائل حل کرنے سے قطعی طور پر قاصر ہوکر ’سیاسی کاروباری حضرات ‘کے ٹھیکوں اورمالی مفادات کے’’ لانچنگ پیڈ‘‘بن کررہ گئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں سے تربیت یافتہ سیاسی عناصر پچھلے چھتیس سالوں سے صوبائی اور قومی سیاست کے ایوانوں میں ’’بلدیاتی نفسیات‘‘ کے ساتھ حاوی ہوچکے ہیں۔ ذاتی مفادات کے کنویں میں پروان چڑھنے والی سوچ قومی، ملکی یا مشترکہ عوامی مفادات کو دیکھنے کے لئے منڈھیر تک نہیں پہنچ سکتی اور واپس’ذاتی مفادات‘کے اندھیرے کنویں میں گرجاتی ہے۔ یوں بظاہر ایک ’سیاسی عمل‘ غیر سیاسی سماج اور ذاتی مفادات کی تشکیل کا کام کررہا ہے۔
موجودہ بلدیاتی الیکشن عوامی سرگرمیوں کے حوالے سے بیزاری سے بھرپورہے۔ الیکشن کی گہماگہمی صرف امیدواروں کے دفاتر اور انکے اجرتی ’’کارکنان‘‘ تک محدود ہے۔ عام آدمی کی عدم دلچسپی دراصل سابق بلدیاتی کونسلرز، ناظمین اور بلدیاتی اداروں کی سیاہ کارکردگی اور لوٹ کھسوٹ کے تجربات کا ردعمل ہے۔ جن انتخابات سے عام لوگوں کے معیارزندگی میں کوئی مثبت بدلاؤ نہ آئے، ان کا وہ حصہ کیوں بنیں؟یہ بات کسی پراپگنڈے سے عام شعور کا حصہ نہیں بنائی جاسکتی بلکہ عوام کی اکثریت اپنے عملی تجربات سے سیکھ کر ’’سیاسی عمل ‘‘ سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ عام طور پر الیکشن کے امیدوار جانے پہنچانے لوگ ہیں۔ ان کا ماضی ان کے کردار کا گواہ ہے۔ یہ گراوٹ کی انتہا ہے کہ سماج میں نمایا ں ہونے کے لئے تعمیری، مثبت، عوامی اور نظریاتی کردار کی بجائے جرائم، دھونس اور کالا دھن وجہ شہرت بنے۔
موجودہ بلدیاتی الیکشن بظاہر جماعتی بنیادوں پر ہیں مگر ان انتخابات نے سیاسی پارٹیوں کے اندر موجود تضادات کو اجاگر کرنے کا کام کیا ہے۔ اتنی لڑائی مخالف پارٹیوں کے درمیان نہیں جتنی خود پارٹیوں کے اپنے اندرہے۔ چونکہ تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں ’’نظریہ ضرورت‘‘ اور ’’عملیت پسندی‘‘ کی سوچ پر استوار ہوچکی ہیں اس لئے ان کے پاس پارٹی کی وحدت برقرار رکھنے کا کوئی نسخہ نہیں ہے۔ مالی مفادات اور لوٹ مار کی وجہ سے ایک پارٹی کے اندر کئی کئی پارٹیاں بن چکی ہیں جسکا اظہار صرف فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ اور چوہدری شیر علی گروپ کی شکل میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ پر ہو رہا ہے۔ کالے دھن کے سماج اور سیاست میں رچ بس جانے کی وجہ سے ضمیر فروشی معمول ہے اور اخلاقی اقدار معدوم۔ ایک اور کشمکش مستقبل قریب میں جنم لے کر سیاسی انارکی اور خلفشار میں اضافے کا باعث بنے گی جب بلدیاتی اداروں پر’ منتخب‘ افراد ایڈمنسٹریٹرز کی جگہ پر کام کرنا شروع کریں گے۔ سیاسی اجارہ داری کی جنگ صوبائی اورقومی اسمبلی کے اراکین، وزرا اور نئی بلدیاتی قیادتوں کے مابین چھڑے گی۔ اگر چہ بظاہر اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے دائرہ کارمختلف اور تعین شدہ ہیں مگر فنڈز اور اختیارات میں نئے حصہ داروں کی مداخلت پرانے اجارہ داروں کو برہم تو کرے گی۔ اسی وجہ سے اسمبلیوں میں موجودتمام سیاسی وارلارڈز نے اپنے اپنے علیحدہ گروپ تشکیل دئیے ہیں تاکہ اسمبلی کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں پر بھی انکا کنٹرول مضبوطی سے قائم رہے۔ اراکین اسمبلی اور وزرا کی تحصیل اور ضلعی چیئرمین کی تجویز کردہ فہرستیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان عہدوں پر ’ڈمی قسم‘ لوگ فائز ہوں تاکہ انکی بالادستی قائم ودائم رہے۔ مگر ماضی کے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ تحصیل اور ضلعی ناظمین کچھ عرصہ کے بعد پرپرزے نکال کر اسمبلیوں کے لئے ’’متبادل امیدوار‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہی تضادات اور حقائق مستقبل کی سیاسی رسہ کشی کی راہ ہموار کریں گے۔
بلدیاتی انتخابات کی اہم خاصیت سیاسی ہونے کے باوجود ان کا غیر سیاسی کردار ہے۔ کوئی امیدوار اہم معاشی، معاشرتی معاملات پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ قسمیں اٹھا اور اٹھوا کر ووٹ لیاجاتا ہے اور ہر قسم کے کام کرنے کے لئے خود کو پیش کیا جاتا ہے اور کاموں سے مراد تھانہ اور کچہری جیسے معاملات ہوتے ہیں نہ کہ پینے کے صاف پانی، نکاسی آب، تعلیم، صحت اور شہری منصوبہ بندی جیسے بنیادی شعبے۔ آبادی کی غربت اورپسماندگی کے خاتمے، صفائی اور صحت مندزندگی کے ایجنڈے کو پاگل پن قراردیا جاتا ہے، کیوں کہ ایک طرف تو عوام شعوری یا لاشعوری طور پر جانتے ہیں کہ اس نظام میں یہ مسائل حل ہی نہیں ہو سکتے اور دوسرا اس موضوع کو کھولنے سے بحث شروع ہو سکتی ہے کہ غربت اور پسماندگی کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں؟ اسی خطرے کے پیش نظر حکمران طبقے کے ہر حصے کی کوشش رہتی ہے کہ ’’سیاست کو غیر سیاسی‘‘ بنا دیا جائے۔ نظریات کی بجائے نظریہ ضرورت کو رائج رکھا جائے۔ ایشوز کی بجائے نان ایشوز کے گرد بین بجاکرکھیل تماشے جاری رکھے جائیں۔ لیکن عام لوگوں کی دلچسپی اس نظام اور اسکے اداروں میں سے گھٹتی جارہی ہے۔ غیر نظریاتی سیاست سے لوگ جب بددل ہوتے ہیں تو ایک طے شدہ سازش کے تحت اسی نظام کے دوسرے محافظ ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کا نعرہ لگا کر نام نہاد احتساب کا ناکام ونامراد کھیل شروع کردیتے ہیں۔ گڈ گورنس کے نام پرسارے ’بیڈ‘ کام کئے جاتے ہیں۔ شفاف انتخابات کے وعدوں اور نعروں کے بعد وہی بوسیدہ، گھسے پٹے نظام کے رکھوالوں کو ’’سیاسی انکو بیٹر‘‘ سے نکال کر میدان میں لایا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں بلدیاتی اداروں سے یہ ٹیم تیار کی جاتی ہے۔
اس دفعہ یہ بلدیاتی الیکشن براہ راست فوجی حکومت کی بجائے متحرک اور پس پردہ فوجی حاکمیت کی فسوں کاری کے دوران کرائے جارہے ہیں۔ اندا ز اور اطوار وہی ہیں۔ لوگ بھی وہی ہیں اور طریقہ کار بھی وہی ہے۔ مگر ان تمام سیاسی اور غیر سیاسی چالبازیوں، جیت ہار، مقابلوں اور مہمات کا دائرہ عوام اور محنت کش طبقے سے بالاہی ہے۔ حکمران طبقے اور عام لوگوں کے مابین فرق اور فاصلہ ہرروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ عوام حکمران طبقے کے سیاسی اور غیر سیاسی تماشوں سے الگ تھلگ کھڑے ہیں۔ ابھی چپ، ساکت اور بے حرکت، مگر کب تک؟ یہ خاموشی ٹوٹے گی، جتنی تاخیر سے اتنی ہی شدت سے!
متعلقہ: