برطانوی سیاست میں سوشلزم کی اٹھان!

| تحریر: لال خان |

لیبر پارٹی کی قیادت کے لیے جیرمی کوربن کی شاندار فتح برطانوی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔یہ ایک بہت بڑا سیاسی بھونچال ہے۔ منجھے ہوئے لیبر سیاست دان مائیکل میچر نے درست کہا ہے کہ کوربن کی مہم ’’سماجی نظام میں سب سے بڑی غیر انقلابی تبدیلی ہے‘‘۔یہ امید کا ایک پیغام ہے جو صرف برطانیہ اور یورپ کے محنت کشوں اور نوجوانوں تک محدود نہیں۔یہ اسٹیبلشمنٹ اور اسکے دائیں بازو کے امیدواروں کی شکست فاش ہے۔لوگوں نے ایک بنیادی تبدیلی کے حق میں فیصلہ دیا ہے جو لندن شہر کے سرمایہ داروں اور بینکاروں کے لیے آنے والے انقلابی حالات کی ایک چیتاؤنی ہے۔ابتدا میں کسی کو بھی جیرمی کی فتح کی توقع نہیں تھی۔یہ سماج میں سلگنے والے غصے اورتکلیف کا اظہار ہے جو 2008-9ء کے معاشی بحران کے بعد بہت شدید ہو چکا ہے۔

BritainNewLabourPartyLeader-07c2f
جیرمی کوربن

لیکن یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔سوویت یونین اور دیوارِ برلن کے انہدم اور چین میں سرمایہ دارانہ ردِ انقلاب کے بعدبایاں بازو مایوسی کا شکار ہو گیا اورکارپوریٹ میڈیا کے ٹیلی وژن اور اخبارات میں سوشلزم کمیونزم اور طبقاتی جدوجہد کے خلاف ایک زہریلی مہم چلتی رہی۔ نام نہاد کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیوں کے قائدین اور دانشورں نے شعوری یا لا شعوری طور پر فرانسس فوکو یاما کی تاریخ کے خاتمے کی ’تھیوری‘ کو قبول کر لیا ۔ سرمایہ داری نسلِ انسانی کا مقدر قرار پائی، دوسرے لفظوں میں باور کروایا گیا کہ اب انسانیت کی وسیع اکثریت ہمیشہ کے لیے استحصال، نابرابری، غربت اور محرومی کا شکار رہے گی۔ غلیظ موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ تر ’ کمیونسٹ‘ لیڈر نہ صرف سرمایہ داری کے حضور سر بسجود ہو گئے بلکہ اس بوسیدہ اور غیر انسانی نظام کے داعی بن گئے۔
پاکستان جیسے ممالک میں لیفٹ کے یہ لوگ بڑی آسانی سے ’جمہوریت ‘، ’سیکولر ازم‘، ’انسانی حقوق‘ کے علمبردار اور ’سول سوسائٹی‘ بن گئے۔’جمہوریت‘ کے نام پر زوال پذیر سرمایہ داری کی حمایت اس وقت کے سامراجی نظریات کے عین مطابق تھی۔اس کے نتیجے میں عوام ذلت اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں جھونک دیے گئے۔اس غداری سے جنم لینے والے خلا کو اسلامی بنیاد پرستی نے پر کیا جو نعرہ بازی کے حد تک ہی مغرب کے خلاف تھے، سرمایہ داری پر ان کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ان ماضی پرست رجعتی قوتوں نے تعصب، دہشت گردی، جرائم اور دوسری ہولناک غیر انسانی کاروائیوں کا بازار گرم کر دیا جن کی آگ میں پاکستان اور سارا خطہ جل رہا ہے۔آخری تجزیے میں سیکولر ازم کے علمبرداروں اور اسلامی بنیاد پرستوں میں ایک چیز مشترک ہے، اور وہ سرمایہ داری پر ان کا یقین ہے جس میں سے ہر سماجی غلاظت پھوٹتی ہے۔
تاہم سوویت یونین کے انہدام کی ایک دہائی گزرنے کے بعد لاطینی امریکہ میں سوشلزم کا ایک نیا ابھار سامنے آیا اور وینزویلا میں ہوگو شاویز کوعوام نے اقتدار دیا۔بعد ازاں بائیں بازو کی یہ لہر بولیویا، ایکواڈور، نکاراگوااور لاطینی امریکہ کے کئی دیگر ممالک میں پھیلتی چلی گئی۔اسکے بعد تیونس سے شروع ہونے والا عرب انقلاب بحرِ اوقیانوس سے بحیرہ عرب تک سارے خطے میں پھیل گیا۔’عرب سپرنگ‘ کے بعدامریکہ میں شروع ہونے والی آکوپائے وال سٹریٹ کی تحریک کے ساری دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔برکینا فاسو، نائیجیریا، جنوبی افریقہ اور افریقہ کے دیگر مماک میں اٹھنے والی تحریکیں اور شورش عالمی طور پر طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہرکا حصہ ہیں۔’چینی معجزے‘ کی معیشت کے ڈوبنے کے ساتھ چین میں ہونے والی ہڑتالوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ہندوستان میں تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال کی کامیابی سرمایہ داری کے بحران کے ہاتھوں تاراج ہورہے سماج میں سلگتی بغاوتوں کی ایک جھلک ہے۔
یورپ میں سائیریزا کا عروج و زوال، سپین میں پوڈیموس کا حیران کن ابھاراور دیگر کئی یورپی ممالک میں سٹیٹس کو کو چیلنچ کرنے والی نئی سیاسی قوتیں سامنے آرہی ہیں۔امریکہ میں پہلی مرتبہ ’بدنامِ زمانہ سوشلزم‘ برنی سینڈرز کی 2016ء کے صدارتی انتخاب کی مہم کی شکل میں مقبول ہو رہا ہے۔مروجہ میڈیا پر بھی ’’سوشلزم‘‘ کا نام زیادہ کثرت سے لیا جا رہا اور برنی سینڈرز کھل کر ’’سوشلزم‘‘ کا دفاع کر رہا ہے۔ 2011ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق اٹھارہ سے انتیس برس کے 49 فیصد امریکی نوجوان سوشلزم کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں، جبکہ سرمایہ داری کے بارے میں مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد 47 فیصد تھی۔ جون2014ء میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق 47 فیصد امریکی کسی سوشلسٹ کے حق میں ووٹ دینا پسند کریں گے جن میں 69 فیصد 30 سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔برنی سیندڑز نے اس موڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی دہائیوں بعد امریکی سیاست میں ’’سوشلزم‘‘ کو پھر سے مقبول کر دیا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر کے طور پر جیرمی کوربن کی فتح کسی دوسرے یورپی ملک یا دور دراز لاطینی امریکہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ محسوس کی جائے گی۔ برطانیہ کو ایک قدامت پرست ملک سمجھا جاتا ہے۔ یہ تیز رفتار تبدیلیوں کا عہد ہے یہ واقعہ جس کا اظہار ہے۔فنانشل ٹائمز نے اسے ’’عوامی بغاوت‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:’’کسی اور عہد میں 2008ء کے بحران سے انقلاب جنم لے چکا ہوتا۔اس کی بجائے اب مسٹر کوربن اور ان کے ساتھی عوام کے سلگتے ہوئے غصے کا اظہار بن گئے ہیں…آزاد منڈی کے ثمرات اوپر کے ایک فیصد تک محدود رکھنے اور باقی لوگوں پر کٹوتیوں اور عدم تحفظ کا بوجھ ڈالنے والی بے لگام سرمایہ داری سیاسی طور پر نا پائیدار ہے۔‘‘29 اگست کو ایک اور مضمون میں اسی جریدے نے لکھا، ’’لبرل جمہوریتوں پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے، پاپولزم کا بھوت، اور سیاسی کیفیت 1848ء کے باغیانہ حالات کی یاد دلاتی ہے جب کارل مارکس نے یہ جملے تحریر کیے تھے…سینیٹر برنی سینڈرز کے گرد جوش و خروش سے لے کرجیرمی کوربن کے ہاتھوں لیبر پارٹی سے ٹونی بلیئر کے پیروکاروں کی بدکاری کی صفائی تک، سیاست پر جوش ہو چکی ہے اور ان کے ماننے والوں کے بدن میں شرارے اور آنکھوں میں چمک ہے۔‘‘
محض چند ماہ قبل ہی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ جیرمی کوربن کے جیتنے کے کوئی امید نہیں ہے اور امیدواروں میں اسکا نام صرف ’’بحث کا دائرہ وسیع‘‘ کرنے کی خاطر شامل کیا گیا تھا۔لیبر پارٹی کے دائیں بازو کے لیڈروں کا خیال تھا کہ وہ ووٹنگ کے پہلے ہی مرحلے میں باہر ہو جائے گا۔اب وہ کتنا پچھتا رہے ہیں۔مارگریٹ بیکٹ، کوربن کو بطور امیدوار نامزد کرنے کے لیے خود کواحمق قرار دے رہی ہے۔پارٹی کے دائیں بازو نے نہ صرف بیلٹ پر اس کا نام ڈالنے کی غلطی کی بلکہ انہوں نے لیبر پارٹی کے ہمدردوں کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی دے دیا جس کا مقصد’’بائیں بازو کو باہر رکھنا تھا‘‘، نتیجہ الٹ برآمد ہوا۔لیبر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ غفلت میں اپنے آقاؤں کے پراپیگنڈا پر یقین کر بیٹھی تھی کہ سوشلزم مر چکا ہے اور بائیں بازو کے نظریات غیر مقبول ہو چکے ہیں۔
11863361_557297301075558_5146127584884083419_nلیبرپارٹی کے انتخابات کے نتائج کے بعد سوشلزم پھر سے برطانوی سیاست کے ایجنڈے پر آچکا ہے۔جیرمی کوربن نے اپنا شیڈو وزیر خزانہ جان میکڈونل کو نامزد کیا ہے جس کی پہچان ہی یہ نعرہ ہے کہ ’’سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکو۔‘‘سرمایہ داری کی ناکامی سب پر عیاں ہے۔ہم سرمایہ داری کے بڑے بحران سے گزر رہے ہیں جو کم از کم 1930ء کے دہائی کے بعد تو سب سے شدید ہے۔ہر جگہ ہونے والے معاشی حملے اس کا ثبوت ہیں۔سرمایہ داری صرف منافع کی بنیاد پر چلتی ہے جسے ختم کرنے کے لئے معیشت کے کلیدی شعبوں، اجارہ داریوں، بینکوں، علاج، تعلیم اور خدمات کو بلا زرِ تلافی ضبط کرنا ہو گا۔ صنعت کو بیو رو کریٹس کی بجائے محنت کشوں کے کنٹرول اور انتظام میں لینا ہو گا۔ سماج کو عام لوگوں کے فائدے کے لیے چلانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ان وسائل کے سوشلسٹ منصوبہ بندی کے تحت استعمال سے معاشی پیداوار میں سالانہ کم از کم 20 فیصد اضافہ ہو گا، روزگار کی بہتات اور معیار زندگی میں تیز اضافہ ہوگا۔اگر جیرمی اس حد تک نہیں جاتا تو بھی بغاوت کا یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہ سب برطانیہ تک محدود ہے نہ رہے گا!

متعلقہ:

برطانیہ: لیبر پارٹی کے انتخابات، طبقاتی لڑائی کا نیا محاذ!

برطانوی انتخابات: ٹوریز کی کامیابی، عوام کی بربادی