| تحریر: لال خان |
کرپشن اس ملک کی ایک ایسی ’سمسیہ‘ ہے کہ اس پر ہونے پروالا شور کبھی ختم ہونے کو نہیں آتا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی بے باک انداز اور زورو شور سے جاری بھی ہے۔ کتنے ادارے بنے‘ کتنے عہد وپیما ہوئے‘ کتنے قانون بنے اور اب تو فوج اور رینجرز نے بڑوں بڑوں کو پکڑنا شروع کردیا ہے۔ کتنے بڑے بڑے اقتدار میں سارے کام کرکے بھی اپنے ان سیاسی رقیبوں اور رفیقوں کا تماشا بھی دیکھ رہے ہیں اور اندر سے ڈر بھی رہے ہیں۔ کرپشن کے ساتھ پاک فوج کے سربراہ کا دہشت گردی کو جوڑنا دینا ظاہری طور پر اس کے خلاف مہم میں تیزی کے باعث نظر آتا ہے۔
میڈیا اور غالب اہل دانش کا یہ تاثر پھیلانا کہ اب اس کا خاتمہ ہو کررہے گا، عوام کی پسماندہ پرتوں میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ کچھ نودولتیوں کا خیال ہے کہ بڑے نوٹ ختم کردینے سے کرپشن ختم کی جاسکتی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کرپشن کے خاتمے سے عام مسائل حل ہوجائیں گے۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کو مزید مواقع فراہم کرنے سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا۔ لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ ریاست کے جبر کے بغیر کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ ویسے عوام کا ریاست کے تمام اداروں سے اعتماد اٹھ جانے کے بعد سماجی شعور میںیہ تاثر سرائیت کروانا کہ فوج کے ذریعے کرپشن ختم کرائی جاسکتی ہے اور فوج کا ایک مرتبہ پھر جو امیج بحال کیا جارہا، یہ سب فوج کے جرنیلوں کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ اگر ان تمام اقدامات سے بھی کرپشن ختم نہیں ہوتی تو پھر یہی انگلیاں ان کی جانب بھی تو اٹھ سکتی ہیں۔
ایم کیو ایم کے بعد پیپلز پارٹی کے قائدین قاسم ضیاء‘ عاصم حسین کی گرفتاری اور اب یوسف رضاگیلانی اور امین فہیم کے ناقابلِ ضمانت وارنٹوں کا جاری کیے جانا پیپلز پارٹی کی قیادت میں کھلبلی مچانے کا باعث بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں ایک دن میں دو پریس کانفرنسیں ہوئیں۔ خورشید شاہ نے پہلے ان گرفتاریوں اور وارنٹوں کی مذمت کی اور پھر یہ کہہ دیا کہ اگر زرداری صاحب پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھر یہ اعلانِ جنگ ہوگا۔ دوسری پریس کانفرنس زیادہ دلچسپ تھی۔ شیری رحمن اور قمرکائرہ نے اس پریس کانفرنس میں ’’سیاسی لیڈروں‘‘ کے مقدمات سویلین عدالتوں میں چلانے اور دہشت گردی کی عدالتوں سے خارج کرنے کا مطالبہ کرایا۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو کیا وہ عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے لائیں گے تو اس کے جواب میں ان جمہوریت کے متوالوں نے بیان فرمایا کہ ایسا وہ ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ وہ ’’جمہوریت‘‘ کو کسی قسم کے عدمِ استحکام سے دوچار نہیں کرنا چاہتے۔ اب یہ گھاک سیاستدان اتنے بھی جمہوریت کے دلدادہ نہیں ہیں کہ اپنی پارٹی قیادت کو جمہوریت کے لیے قربانی کے بکرے بنادیں۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1980ء کے بعد قیادت نے پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس سے پارٹی کی اب کتنی ساکھ اور سکت رہ گئی ہے کہ وہ عوام کو کسی بھی تحریک میں متحرک کرسکیں۔ خصوصاً پچھلی حکومت، جس میں یہ دونوں شخصیات اہم مرکزی وزارتوں پر فائز تھیں، اس نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وہ کیا جو ضیاء الحق بھی کرنے میں ناکام رہا۔ مہنگائی‘ غربت‘ بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ نے یہاں کے باسیوں کو جینا حرام کردیا تھا۔ سرمایہ داروں، امریکی سامراج اور ریاست کے لیے انہوں نے اتنی شدید مزدور دشمن پالیسیاں بنائیں کہ کوئی فوجی آمریت بدترین جبر سے بھی ان کو مسلط نہیں کرسکتی، عوامی تحریک کا خوف اس کو مفلوج کرکے رکھ دیتا۔ اس لیے ایسے کام عوام کے خلاف عوام کی روایتی پارٹیوں سے کروانے کا سامراجیوں اور حکمران طبقات کایہ پراناطریقہ واردات رہا ہے۔ کائرہ صاحب نے لاہور میں ہونے والے قاسم ضیاء کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا عبرتناک منظر بھی دیکھ لیا ہوگا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن عوام کی اقتدار میں اتنی درگت بنائی وہ اب ان کی کال پر سڑکوں پر آنا تو درکنار ان کو ووٹ دینے سے بھی اکتا چکے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان لیڈروں پر کرپشن کے الزامات لگانے والے اور ان کو پکڑنے اور سزا دینے والوں کی پارسائی کا کیا ثبوت ہے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا نے بہت سی بدعنوانی کو بے نقاب کیا ہے لیکن میڈیا میں ہونے والی کرپشن کون عیاں کرے گا؟ ان میں جو شخصیات سب سے زیادہ کارپوریٹ میڈیا کا نشانہ بنیں انکی کتنی کرپشن ہے اس کا فیصلہ تو ابھی تک کوئی عدالت نہ سنا سکی ہے اور نہ ہی کوئی مجرم ثابت کرسکی ہے۔ لیکن میڈیا پر مہم اتنی شدید ہوتی ہے کہ عدالتی فیصلے سے قبل ہی اس شخص کوعوام کی نظروں میں مجرم بنا دیا جاتاہے۔ لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایسے کتنے کرپٹ افراد ہیں جن کا میڈیا میں ذکر تک نہیں ہوا، ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھنے کی وجہ کیا ہے اورمبینہ بد عنوان افراد کے خلاف مہم چلوانے اور چلانے والے کون ہیں اوروہ اس مہم کوکن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ کیا بلیک میلنگ سے بدترین بھی کوئی کرپشن ہے؟ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ اس ملک میں کون نہیں جانتا کہ کتنے بڑے بڑے بدعنوان شریف‘ پارسا اور نیک بنے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہاں کرپشن کی الزام تراشی اور تشہیر میں بھی کرپشن کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ کتنا کالا دھن ’’اعلیٰ کاروباری حضرات‘‘ نیک نامی کے منصوبوں، خیرات اور فلاح کی تنظیموں میں لگا کر اس کو سفید کرتے ہیں۔ کرنل شجا ع پاشا نے دنیا ٹی وی پر اپنے ایک آخری ٹیلی ویژن پروگرام میں ثبوت دینے کی کوشش کی تھی کہ کتنے مدرسے اور کتنے مذہبی ادارے اس طریقہ کار سے چلتے ہیں۔ جو ان منصوبوں پر یہ کالا دھن انوسٹ کرتے ہیں ان کو آخر میں منافع بھی بھاری ملتا ہوگا۔
یہ ممکن ہے کہ جن لیڈروں کو اب گرفتار کیا جارہا ہے وہ بدعنوان ہوں، عوام ان کو سزائیں ملنے پر بھی خوش ہونگے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ کرپشن اور دہشت کا گہراتعلق اور رشتہ بھی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے سہارے ہی چلتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ چھوٹے موٹے ٹھگوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے اور بالادست طبقات کے افراد صاف بچ نکلتے ہیں۔ ان کا نام تک سامنے نہیں آتا۔ ڈالروں کی سمگلنگ سے لے کر ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ہونے والے خرد برد کی حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ صنعت کاری کے ذریعہ وہ دولت اور وسائل پیدا نہیں کرسکاجس سے کسی حد تک معاشرہ بھی ترقی کرتا اور ان کی شرح منافع بھی قائم رہتی۔ اپنی سماجی حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے ریاست اور سرکاری خزانہ لوٹنا انکی ضرورت اور مجبوری تھی۔ پھر ریاست کو لوٹنے کے لیے ان کو اس ریاست کا اقتدار درکار تھا۔ اقتدار میں آنے کے لیے سیاست میں آنا ضروری تھا۔ حکمران طبقے کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اس سیاست کا دارومدار دولت پرمبنی ہونا بھی لازم ہے۔ اس طرح اس سیاست کو کاروبار بنا دیا گیا۔ اس کاروبار پر حاوی وہی ہوسکتا تھا جو اس پرسرمایہ لگاتا۔ سرمایہ حاصل کرنے کے جب جائز طریقے نہ ہوں تو پھر ناجائز طریقوں سے اس کو حاصل کرنے سے پاکستان میں کرپشن کا فن پروان چڑھا اور پھر کیسے کیسے فنکار ہمارے سامنے آئے ہیں۔
پھر اس سیاست کے ذریعے ریاست کو اپنے مفادات کے لیے استعمال میں بھی ریاست کو کرپٹ کرنا درکار تھا۔ ایک مانگ اور عدمِ مساوات پر مبنی معاشرے میں ریاست کے اہل کاروں کو اپنے معیارِ زندگی بڑھانے کے لیے اس کرپشن کی ہولی میں ہاتھ رنگنے میں بھلا کیااعتراض ہوسکتا تھا۔ انکی بھی ’’فیملیاں‘‘ ہیں جن کی’’ضروریات‘‘ ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ دوسری جانب ایک پرانتشار معاشرے میں بھلا دہشت کے بغیر کوئی بھی کاروبار بھی کیسے چل سکتا ہے اور کرپشن کا کاروبار جو مبنی ہی جرم پر ہے اس میں تودہشت کہیں زیادہ درکار ہوتی ہے۔ اس طرح اس معاشرے کا پچھلے 67 سال میں جو معاشی اور سماجی ارتقا ہوا ہے اس میں کرپشن اس سماج ‘سیاست ‘ریاست اور ہرشعبے کے ریشوں، رگوں اور شریانوں میں سرایت کی گئی ہے۔ ضیاء آمریت نے اس کے حجم میں تیز ترین اضافہ کیا۔ 1978ء میں پاکستان میں کالا دھن کل معیشت کا 5 فیصد سے کم تھا، آج 73 فیصد سے زیادہ ہے!
اگر غور کریں تو مسئلہ بہت گہرا ہے۔ بیماری کہیں زیادہ ہولناک ہے اور ناسور بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ سارا معاشرہ اس میں ڈوب رہا ہے۔ کسی ادارے یا کسی سیاسی ڈھانچے اور طریقہ کار سے اس کینسر کا علان ممکن نہیں ہے۔ جب ناسور پھیل کرMetastase کرجائے تو پھر اگر ایک عضو سے اس کو کاٹ دیں تو یہ کینسر دوسری جہ ابھر آتا ہے۔ یہ بدعنوانی اس نظام میں خرابی کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ کرپشن اس گلے سڑے نظام کی ضرورت اور پیداوار ہے۔ یا تو پھر اس سارے نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدلنا ہوگا۔ یا پھر کرپشن کا شور مچاکر محنت کشوں کے استحصال اور ذلت کا یہ بیہودہ اور المناک سلسلہ جاری رہے گا۔