| تحریر: عدیل زیدی |
نسل انسان اپنے ارتقا کے ایک مرحلے پر غلام دارانہ نظام سے گزری ہے اور اس طریقہ پیداوار سے زمین پر اپنی نسل کو آگے بڑھایا۔ لیکن اس وقت ان غلاموں سے حاصل کی گئی پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات پیدا کرنا تھا نہ کہ منافع کا حصول۔ یہ ضروریات امیروں کے لیے مختلف ضرور ہوتی تھیں لیکن حتمی تجزیہ میں ضروریات ہی ہوتی تھیں۔ اس غلام داری کی قانونی حیثیت لا تعداد انقلابی تحریکوں کے نتیجے میں ختم ہوئی اور آج پوری دنیا میں انسانی غلامی غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔ ہمیں آج ایسا لگتا ہے کہ غلام داری ختم ہو گئی ہے اور دنیا جمہوری بنیادوں پر استوار ہو چکی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، گو کہ غلام داری بطور پیداواری نظام اب دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انسان غلامی کی بیڑیوں سے آزادی حاصل نہیں کر سکا۔ آج کرۂ ارض پر موجود سات ارب انسانوں کی اکثریت سرمائے کی جکڑ بندیوں میں الجھی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں ایسے انسان بھی نظر آتے ہیں جو قدیم غلام داری کی طرز پر غلامی کی زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان میں ہم اگر بھٹہ مزدوروں کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان کی زندگی کسی طور غلامی سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ہمیں انسان جبری مشقت اور نسل در نسل وڈیروں، جاگیرداروں اور فیکٹری مالکان کے ہاتھوں اپنی نسلیں فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
بی بی سی نے اکتوبر 2013ء کو ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق دنیا میں اس وقت تقریباً 3 کروڑ انسان باقاعدہ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، جن میں سے ایک کروڑ چالیس لاکھ انسان دنیا کی سب سے بڑی ’جمہوریت‘ یعنی انڈیا میں رہتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بھی وہ ہیں جو نسبتاً آسانی سے حاصل ہو پائے ہیں، حقائق اس کی نسبت کافی تلخ ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک جن میں بڑی تعداد میں انسان غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ان میں 30 لاکھ کے قریب چین، 12 لاکھ پاکستان، 7 لاکھ نائیجیریا میں ہیں اور دوسرے ممالک جن میں انسانی غلامی موجود ہے ان میں ایتھوپیا ،روس، ،تھائی لینڈ، کانگو، برما اور بنگلادیش نمایاں ہیں۔ ابھی ان اعداد و شمار میں خلیجی ممالک میں موجود کروڑوں لوگ شامل نہیں ہیں جن کو کسی قسم کے شہری، سیاسی و سماجی حقوق حاصل نہ ہونے پر بھی ’’آزاد انسانوں‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ سی این این کی 21 جولائی 2015ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں انسانی اسمگلنگ میں 150 ارب ڈالر کا سرمایہ سالانہ گردش کرتا ہے، مزید یہ کہ اس رپورٹ کی سرخی ’’جنسی مقاصد کے لیے انسانی اسمگلنگ: امریکہ کی نئی غلامی‘‘ ہمیں زمینی حقائق کا ایک خاکہ دکھا دیتی ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق ان 3 کروڑ غلاموں میں سے 78 فیصد افراد جبری مشقت کے لیے غلام بنائے جاتے ہیں اور باقی جنسی مقاصد کے لیے۔
ہم اکثر مختلف این جی اوز کو ان باتوں کا واویلا مچاتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں اور پھر مغربی ممالک کے ’جمہوری حکمران‘ بھی ’’اب کچھ کرنے کا وقت آگیا‘‘ اور اس سے ملتے جلتے بیانات دیتے ہوئے سنائی دیتے ہیں اور ان این جی اوز کو اربوں ڈالر کی مختلف خیراتیں بھی ملتی نظر آتی ہیں۔ مگر دن بدن سماجی محرومی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ جدید غلامی کو ان حصوں میں تقسیم کرتی ہے: غیر رضاکارانہ غلامی، جنسی سمگلنگ، جبری مشقت، مقروض تارکین وطن مزدور، غیر رضاکارانہ گھریلو غلامی، جبری چائلڈ لیبر، کم عمر فوجی، بچوں کی جنسی سمگلنگ۔
اگر ان تمام غلامی کی شکلوں کو دیکھا جائے تو ان کی بنیاد معیشت ہی بنتی ہے۔ قانونی غلام داری کے قدیم عہد میں غلاموں کی اکثریت مفتوحہ علاقوں سے آیا کرتی تھی، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کے انسان بغیر جنگ کے ہی شکست خوردہ ہے اور کروڑوں لوگ غلام بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا میں اس وقت رائج معاشی نظام سرمایہ داری ہے جس کا بنیادی مقصد شرح منافع میں مستقل اضافہ ہے۔ شرح منافع بنیادی طور پر محنت کشوں کی محنت سے پیدا ہونے والی قدر زائد سے حاصل ہوتی ہے، اس لیے اس شرح کو بڑھانے کا ایک طریقہ محنت کشوں کی اجرت کو کم سے کم کرنا بھی ہے۔ لیکن ایک آزاد انسان کی نسبت ایک غلام سے جبری مشقت کروا کر بہت زیادہ محنت نچوڑی جا تی ہے اور ان کو ہر طرح کے حقوق، اجرت اور سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔
یہ قدامت اور جدت کا بدترین امتزاج ہے، جدید پیداواری نظام یعنی سرمایہ داری میں قدیم غلام داری کے پیداواری رشتوں کی موجودگی۔ اس طرح کی غلامی محض پسماندہ علاقوں میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ پسماندہ ممالک کے جدید اور بڑے شہروں میں بھی یہ تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن اس طرح کی غلامی کے جو اعداد و شمار ہمیں میسر ہیں ان کے مطابق یہ سبھی ممالک ماضی کی نوآبادیاں ہیں جن میں سامراجی ممالک نے صدیوں سے براہ راست یا بالواسطہ لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، جس میں سب سے بڑی مثال جنوبی ایشیا ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی غلام آبادی پائی جاتی ہے۔ ایک اور چیز ان علاقوں میں مشترک نظر آتی ہے کہ یہاں آج سامراج کی پشت پناہی کے ساتھ شدید مذہبی رجعت بھی پائی جاتی ہے، جس میں بھی سب سے بڑی مثال پھر سے برصغیر پاک و ہند ہی ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں غلام نہ صرف موجود ہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں رضاکارانہ طور پر یا جبری طور پر امیر ممالک میں برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل میانمار (برما) میں مسلمان روہنگیا قبائل کی حالت پر کافی شور مچا لیکن اس سب کی وجہ مذہبی دشمنی بتائی گئی جب کہ گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کی ماہی گیری کی صنعت اس وقت انہی قبائل کے کیمپوں سے لائے گئے غلاموں کی محنت سے چل رہی ہے اور یہ غلام ایک مسلمان ملک (بنگلہ دیش) میں موجود کیمپوں سے ہی بھیجے جا رہے ہیں، مزید یہ کہ ان کی خواتین کو جنسی غلامی میں بھی دھکیلا جا رہا ہے۔ سرمائے کی ہوس پر مبنی جنگوں کی وجہ سے کروڑوں افراد اس طرح کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور معاشی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں، عورتوں اور اپنے آپ کو غلام بنانے کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہ جاتا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی مذہبی انتہا پسندی نے جن ممالک کو تاراج کیا وہاں پر بھی اس طرح کی غلامی کو دوبارہ رائج کیا جا رہا ہے جس میں جنسی غلامی سر فہرست ہے۔ عراق اور شام کے جن علاقوں پر بھی داعش اور دوسرے بنیاد پرست گروہوں نے قبضے کئے وہاں پر موجود دیگر مذہبی اقلیتوں کے مردوں کو جہاں پر بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا وہاں ان کی عورتوں اور بچوں کو جنسی غلامی کے لئے نا صرف خود استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ عالمی منڈی میں فروخت کے لئے بھی بھیجا جا رہا ہے۔ یہ سب اس نظام کے ٹوٹ کر بکھرنے کی علامات ہیں جس کی وجہ سے نا صرف رجعت سماج کے مختلف حلقوں پر حاوی ہوتی ہے بلکہ ان خطوں کی خوبصورتی کو بھسم بھی کرتی جا رہی ہے اور انسانی زندگی ایک تذلیل بن کر رہ گئی ہے۔
ان حالات کے بارے میں کچھ درمیانے طبقے کے لوگ کہتے ہیں کے انسان ہمیشہ غلام تھا اور رہے گا اور یہ انسان کی فطرت ہے۔عام طور پر حکمران طبقے اور اس کے گماشتوں کی جانب سے جس کو ’’انسان کی فطرت‘‘ کہا جا تا ہے وہ کوئی جامد چیز نہیں ہے اور وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ سمجھنے کی بات یہاں یہ ہے کہ انسان نہ تو ہمیشہ سے غلام تھا اور نہ ہی ہمیشہ غلام رہنے پر مجبور ہے۔قدیم عہد میں آقاؤں کی غلامی ہو یا آج کے ’’جدید‘‘ عہد میں سرمائے کی غلامی ،آزادی حاصل کرنا انسان کے بس میں ہے۔ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے سرمایہ داری کو مکمل طور پر اکھاڑنا ناگزیر ہے۔ سرمائے کے اس جبر کو محنت کش طبقے کی انقلابی بغاوت کے ذریعے منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت قائم کر کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے، جس میں ہر انسان کو ایک انسان کی حیثیت حاصل ہو گی اور اپنی ذات کی تکمیل کے مواقع میسر آئیں گے۔
متعلقہ: