| تحریر: راہول |
’’جب تک میری سانس جاری ہے میں پرامید ہوں۔ جب تک میں سانس لیتا رہوں گا مستقبل کی لڑائی جاری رکھوں گا، ایک درخشاں مستقبل، جس میں انسان مضبوط اور خوبصورت ہو کر تاریخ کے دھارے کو اپنے قابو میں کرے گااور اسے خوبصورتی، خوشی اور مسرت کے لامحدود افق کی طرف موڑ دے گا… تھوڑی دیر پہلے نتاشا نے باغیچے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو تھوڑا اور کھول دیا تاکہ کمرے میں ہوا کا گزر ہو جائے۔ میں دیوار کے نیچے گھاس کی چمکدار سبز تہہ کو دیکھ سکتا ہوں جس کے اوپر شفاف نیلا آسمان ہے، ہر طرف سورج کی روشنی ہے۔ زندگی خوبصورت ہے۔ مستقبل کی نسلیں اسے مصائب، ظلم اور جبر سے پاک کر کے ہر ممکن حد تک لطف اندوز ہوسکیں گی۔‘‘
یہ الفاظ اس عظیم انقلابی لیون ٹراٹسکی کے ہیں جسے آج سے 75 برس قبل بین الاقوامی انقلاب کے دفاع اور انسانیت کے روشن مستقبل کی جدوجہد کی پاداش میں 21 اگست 1940ء کو میکسیکو میں قتل کیا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں لکھے گئے درج بالا الفاظ ٹراٹسکی کے اس انقلابی حوصلے اور جرات کی غیر معمولی مثال اور انسانیت کے روشن مستقبل کے لئے امید کی ان کرنوں کے جیسے ہیں کہ جن سے منہ تو موڑا جاسکتاہے لیکن انہیں کبھی دبایا یا بند نہیں کیا جاسکتا۔ پوری زندگی جلاوطنی، ٹارچر اور طرح طرح کی الزام تراشیوں کے باوجود بھی ٹراٹسکی ہمیشہ انسانیت کے روشن مستقبل کے خواب کو پورا کرنیکی تگ و دو میں مشغول رہا۔
لیو ن ٹراٹسکی ویسے توکسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن اس کے باوجود بھی قارئین کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ وہ عظیم انقلابی تھا جس نے لینن کے ہمراہ نہ صرف عظیم بالشویک انقلاب کی قیادت کی بلکہ انقلابی سوشلزم اور محنت کش طبقے کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ ٹراٹسکی کا جنم ایک یوکرینی یہودی خاندان میں 1879 ء میں ہوا، اس نے اپنی شروعاتی تعلیم اوڈیسا کے ایک سائنسی اسکول سے حاصل کی لیکن سیاست اور محنت کش طبقے سے اس کی بچپن ہی سے لگن کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی ٹریڈ یونین سرگرمیوں کا حصہ بن گیا۔ ٹراٹسکی کے بچپن سے لیکر اس کے مرنے تک کے تمام تر واقعات ہی ویسے تو جدوجہدسے لیس نظرآتے ہیں لیکن اس کے انقلابی کیریئر کی باضابطہ شروعات مارچ 1897ء سے ہوئی جب وہ جنوبی روسی محنت کشوں کی ایک تنظیم ’’جنوبی روسی ورکرز یونین‘‘ کے ساتھ سرگرمیوں کی پاداش میں پہلی مرتبہ اس وقت گرفتار ہوا جب اس کی عمر صرف 19 سال تھی، اس گرفتاری کے بعد وہ مسلسل ڈھائی سالوں تک جیل میں رہا اور پھر سائبیریا جلاوطن کردیا گیا، کچھ ہی عرصے بعد وہ وہاں سے ایک جعلی پاسپورٹ کے ذریعے فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور لندن میں لینن سے جاملا جہاں وہ انقلاب روس کے لئے سرگرم تھا۔ تاریخ کا یہ انتہائی دلچسپ اتفاق تھا کہ جس پاسپورٹ پر وہ روس سے نکلا وہ ایک روسی جیلر کا تھا جس کا نام ’’ٹراٹسکی ‘‘ تھا۔ اس واقعے کے بعد لیون ٹراٹسکی نے اْسی کو اپنا نام بنا لیا اور وہ بعد میں اسی نام سے جانا جانے لگا۔
ٹراٹسکی لندن میں لینن کے ہمراہ کچھ عرصے تک مسلسل ’’اسکرا‘‘ (پارٹی کا رسالہ جس کے معنی ’’چنگاری‘‘ کے ہیں) کے لئے کام کرتا رہا، اس کی پرکشش لکھائی کی بنا پر اْسے ’’پیرو‘‘ (قلم) کے پارٹی نام سے بھی نوازاگیا۔ لینن کی خواہش تھی کہ ٹراٹسکی اسکرا کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ بنے جس کے لئے اس نے مارچ 1903ء میں بورڈ کے دیگر ممبران کو لکھا بھی لیکن ایساممکن نہ ہوسکا۔ کروپسکایا نے لینن اور ٹراٹسکی کے لندن میں قیام کے دنوں پر اپنی یادداشتوں میں تفصیلاً بیان کیا ہے کہ لینن کس قدر ٹراٹسکی کی صلاحیتوں کو نہ صرف پسند کرتا تھا بلکہ انہیں انقلاب کے لئے استعمال میں لانا چاہتاتھا۔لندن میں لینن کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ٹراٹسکی پیرس چلا گیا جہاں اس نے غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ آگے بڑھنااور مزدور تحریک کو متحد کرنا شروع کیا۔ اس دوران وہ بڑے پیمانے پر اپنی تحریروں کے ذریعے دنیا بھر میں انقلابی نظریات کو پھیلاتا رہا۔
روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی دوسری کانگریس میں ہونے والی پھوٹ کے نتیجے میں ٹراٹسکی لینن کے مخالف منشویکوں کے ساتھ تھا، یہی وہ نقطہ ہے جس پرآج تک ٹراٹسکی کے کردار پر اس کے مخالف واویلا کرتے پھرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک منشویک اور بالشویک دو الگ سیاسی رجحان کے طور پر نمایاں نہیں تھے اور ایک ’کنفیوژن‘ کا ماحول تھا لیکن 1904ء میں صرف ایک سال کا عرصہ گزرنے کے ساتھ ہی منشویکوں کی غلط پالیسیاں سب کے سامنے عیاں ہوگئیں اور بالشوازم اور منشوازم دو الگ نظریات کے طور پر آمنے سامنے تھے، ایک طرف لبرل بورژوازی کے ساتھ الحاق کرنے والے منشویک تھے تو دوسری طرف طبقاتی آزادی کا نعرہ بلند کرتے بالشویک! جیسے جیسے اختلافات بڑھتے گئے ٹراٹسکی منشویکوں سے دور ہوتا چلا گیا اور بالآخر وہ منشویکوں سے علیحدہ ہو گیا جس کے بعد وہ 1917ء تک انقلاب کے لئے آزادانہ طور پر کام کرتا رہا ۔ اس عرصے میں ٹراٹسکی کا کیا گیا تمام ترنظریاتی کام ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ دونوں رجحانات سے علیحدگی کے باوجود بھی ٹراٹسکی آزادانہ طور پر ٹریڈ یونینز میں کام کرتا رہا، اخبارات نکالتا رہا، اس بیچ اس نے کئی کتابیں لکھیں اور نظریہ مسلسل انقلاب کی تخلیق بھی انہی دنوں میں کی گئی جو بعد میں روسی انقلاب کی شکل میں حقیقت بنا۔ وہ اس سارے عرصے میں انقلاب کے لئے مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔چاہے اس کے مخالف اس کے اختلافات کو کتنا ہی بڑھا چڑھاکر پیش کرتے رہیں لیکن اس حقیقت کو کبھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ وہ بالشویکوں سے دور ہوکر بھی اسی عظیم نظریے کے لئے جدوجہد کررہا تھا جس کے لئے بالشویک پارٹی اپنی بنیادیں مضبوط کرتی جارہی تھی۔
پہلی عالمی جنگ نے روس میں ایک طوفان برپا کردیا تھا، جہاں ایک طرف اس نے انقلاب کے لئے نئی راہیں ہموا ر کیں وہاں دوسری طرف روسی سوشل ڈیموکریسی کی خستہ حالی کو بھی عیاں کیا۔ جنگ کی لئے بنائی گئی پالیسی میں سوشلسٹ انٹرنیشنل (دوسری انٹرنیشنل) کی جانب سے اپنے ملک کی قومی بورژوازی کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا، یہ محنت کشوں کی عالمی جدوجہد کی تاریخ میں ایک بہت بڑی غداری تھی۔ دوسری انٹرنیشنل کا جنگ کی طرف یہ رویہ انٹرنیشنل کی زوال پذیری کو عیاں کررہا تھا۔ ٹراٹسکی ان چند ایک افراد میں سے تھا جو شروع سے ہی انٹرنیشنل ازم کا پرچم اٹھائے اس فیصلے کے خلاف پیش پیش تھا اور جنگ کے خلاف زمروالڈ کانفرنس کا مینی فیسٹو بھی اسی نے ترتیب دیا جس کا مقصد جنگ مخالف تمام انقلابی عناصر کو یکجا اور متحد کرنا تھا۔
ٹراٹسکی روس میں انقلاب سے پہلے وہ واحد فرد تھا جس نے روس میں یورپ سے پہلے پرولتاری انقلاب کا تناظر دیا اور اس کادفاع کرتا رہا لیکن کوئی اس موقف کو سنجیدہ نہیں لے رہا تھا ۔صرف اکتوبر انقلاب نے ہی ٹراٹسکی کے اس عظیم تناظر کو درست ثابت کیا۔ پہلی عالمی جنگ نے اس بات کو واضح کردیا تھا کہ انقلاب اگر بین الاقوامی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
بین الاقوامیت کے سوال پر کئی لوگ لینن اور ٹراٹسکی کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ٹراٹسکی ازم اور لینن ازم کوئی علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ یہ اسی بین الاقوامیت کا ہی تسلسل ہیں جس کی بنیادیں کارل مارکس اور اینگلز نے رکھی تھیں۔ فروری انقلاب کے وقت لینن سوئٹزرلینڈ اور ٹراٹسکی نیویارک میں تھا، وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت دور تھے اور ایک دوسرے سے کسی قسم کے زمینی رابطے میں نہیں تھے اس کے باوجود بھی اگر ٹراٹسکی کے ’’نئی دنیا‘‘ رسالے (Navy Mir) میں لکھے گئے مضامین اور لینن کے خطوط پڑھے جائیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر سیاسی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی انقلاب کا تناظر پیش کررہے تھے۔
1917ء کا سال اپنے آغاز سے ہی دھماکہ خیز تھا۔حالات تیزی سے تبدیل ہورہے تھے اور واقعات کی برق رفتار ی نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سوائے لینن کے روس میں موجود تمام بالشویک پارٹی کے رہنما حالات کو سمجھنے سے قاصر تھے ۔ وہ واقعات کے بہاؤ میں بہتے چلے جارہے تھے۔ انقلابی حالات کے دوران پارٹی اور اس کی قیادت پر دشمنوں کی جانب سے ایک شدید دباؤ کا پیدا ہونا ایک ناگزیر عمل ہے اور آج تک تمام تر انقلابات کی تاریخ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ روس میں بھی اس وقت کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا، پیٹروگراڈ میں موجود کسی بالشویک لیڈر میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اس دباؤ کو جھیل سکے۔ کوئی اس حقیقت کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ سوائے محنت کش طبقے کے کوئی بھی قوت انقلاب کو آگے نہیں بڑھا سکتی۔ تمام حضرات طبقاتی پہلو کو ترک کرتے ہوئے ایک بیہودہ ’’جمہوری ‘‘ پوزیشن پر کھڑے تھے۔ اسٹالن کا موقف تھا کہ ہمیں کرنسکی حکومت کی حمایت کرنی اور منشویکوں سے اتحاد کرنا چاہیے جبکہ کامینیف، زینویف، مارٹوف اور دیگر کی پوزیشن بھی کم و بیش یہی تھی۔
ٹراٹسکی اس وقت تک بالشویک پارٹی کا حصہ نہیں بنا تھا کیونکہ وہ اپنی شمولیت سے پہلے پیٹروگراڈ میں موجود انٹرڈسٹرکٹ گروپ ’’Mezhrayontsy‘‘ (جس کی ممبرشپ 4 ہزار تک تھی اور یورتسکائی، جوف، لونا چارسکی، ریاضانوف اور ولوڈارسکائی جیسے بڑے نام اس سے منسک تھے) کو جیتنا چاہتا تھا۔ ڈیوے کمیشن کو دی گئی اس کی گواہی میں ٹراٹسکی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’ میں بالشویک پارٹی کے ساتھ کام کررہا تھا، پیٹروگراڈ میں ایک گروپ تھا جس کا پروگرام بالکل بالشویک پارٹی ہی کا پروگرام تھا، پر وہ تنظیمی طور پر ان سے علیحدہ تھے۔ میں نے لینن سے اس پر صلاح کی کہ کیا میرا بالشویک پارٹی میں فوری طور پر شمولیت اختیار کرنا بہتر ہوگا یا یہ زیادہ مفید رہے گا کہ میں ایک ایسی تنظیم کے ساتھ شمولیت اختیار کروں کہ جس کی 3 سے 4 ہزار تک انقلابی ممبر شپ ہے۔(لیون ٹراٹسکی کا کیس، صفحہ نمبر 21)
انٹرڈسٹرکٹ گروپ اور بالشویک پارٹی میں تیزی سے فرق مٹتا جارہا تھا۔ جولائی 1917ء میں ’’پراودا‘‘ (بالشویک پارٹی کا رسالہ) میں ٹراٹسکی کے لکھے گئے ایک مضمون میں وہ لکھتا ہے ’’ اب میرے نزدیک انٹر ڈسٹرکٹ تنظیم اوربالشویک پارٹی کے قوانین اور طریقہ کار میں کوئی فرق موجود نہیں اور اسی لئے اب کوئی وجہ نہیں بچتی کہ یہ دنوں تنظیمیں الگ الگ کام کریں‘‘۔ لینن بھی ان تمام تر چیزوں سے بہت خوش تھا اور وہ اسے نظریات کی کامیابی تسلیم کررہا تھا اس کی خواہش تھی کہ ٹراٹسکی اور اس کے حمایتی بالشویکوں کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ مئی 1917ء میں ٹراٹسکی کے باضابطہ پارٹی میں شامل ہونے سے قبل ہی لینن نے اسے پراودا کے چیف ایڈیٹر کے لئے نامزد کیا ۔ بھلے ہی وہ پراودا کی ایڈیٹوریل کمیٹی کے انکار پر ایڈیٹر نہ بن سکا لیکن ٹراٹسکی پر لینن کا بھروسہ اور اعتماد اس کی تجویز اور خواہش سے ظاہر ہوتا ہے۔
ٹراٹسکی بالشویک پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے سے قبل ہی ہزاروں بالشویکوں کا دل جیت چکا تھا۔ 1923ء میں لکھی گئی اپنی ایک کتاب میں ٹراٹسکی کے حوالے سے بالشویک راسکولنی کوف لکھتا ہے ’’لیون ڈیوڈوچ برانسٹائین (ٹراٹسکی ) اْس وقت ہماری پارٹی کا ممبر نہیں تھا مگر حقیت یہ ہے وہ جس دن سے امریکہ سے لوٹا تھا اسی دن سے اس کے ساتھ مسلسل کام کررہا تھا، سوویت میں کی گئی اس کی پہلی تقریر کے بعد ہی سے ہم سب نے اسے اپنے پارٹی لیڈر کے طور پر ہی دیکھا‘‘۔(Proletarskaya Revolutsia, صفحہ نمبر 71)
کچھ حضرات کا ماننا ہے کہ ٹراٹسکی چونکہ ایک لمبے عرصے سے بالشویک نہیں تھا لہٰذا اس کے انقلابی کردار پر ہمیشہ ہی سے سوال اٹھائے جاتے رہے، روسی کمیونسٹ پارٹی سے کہے گئے اپنے آخری الفاظ (جنہیں اسٹالنسٹوں کی طرف سے کئی دہائیوں تک چھپا کر رکھا گیا) میں لینن نے اس بات سے خبردار کیا کہ ’’ٹراٹسکی کا غیربالشویک ماضی کبھی اس کے خلاف استعمال نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔ یہ لینن کے ٹراٹسکی اور اس کے 1917 ء سے قبل بالشویک پارٹی سے تعلقات پر اس کے آخری الفاظ تھے کہ جن میں اس نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ٹراٹسکی کے ماضی میں کئے گئے تمام تر کام کو کسی قیمت پر بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ٹراٹسکی ایک عظیم انقلابی اور بہترین نظریہ دان تھا، 1905ء میں پیٹروگراڈ سوویت کی قیادت سے لیکرمرنے تک وہ مسلسل جدوجہد میں مصروف عمل رہا اور مارکسی نظریات کی لڑائی لڑتا رہا۔ اس نے اکتوبر انقلاب میں پیٹروگراڈ کی بغاوت کو متحد و منظم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔انقلاب کے بعد ٹراٹسکی خارجہ امور کا پہلا کمیساربنا، بطور کمیسار اس نے خارجی تعلقات پر کئی اہم فیصلے اور معاہدے کئے، خونخوار خانہ جنگی میں جب سوویت روس پر 21 ممالک کی فوجوں نے حملہ کیااور انقلاب کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا تو اس نے خود ہی سرخ فوج کی کمان تھامتے ہوئے رد انقلابی قوتوں کو نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ ایک مرتی ہوئی فوج کو نئی اٹھان بھی دی۔وہ خانہ جنگی میں بالشویک فتح کے ایک ہم کردار کے طور پر نمایاں ہوا۔
روسی انقلاب کو اپنی شروعات ہی سے کئی خطرات کا سامنا تھا لیکن جس خدشے کا اظہار بار بار لینن اور ٹراٹسکی کی جانب سے کیا گیا وہ اس کے تنہا یا ایک ملک تک محدود رہ جانے کا تھا۔ بالشویکوں کے لئے عالمی انقلاب کا خواب کوئی جذباتی بات نہیں تھی بلکہ لینن بار بار اس بات پر زور دیتا رہا کہ اگر انقلاب پھیلتا نہیں ہے تو اس کا ختم ہوجانا ناگزیر ہے۔ انقلاب کے فوری بعد کئی ممالک میں انقلابی کیفیات نے جنم لیا جن میں خاص طور پر فرانس، جرمنی، ہنگری اور اٹلی نمایاں تھے۔ ان تمام ممالک میں سوشل ڈیموکریٹک لیڈروں کی غداریوں کے نتیجے میں انقلاب پھیل نہ سکا اور ایک پسماندہ ملک تک محدود ہوکر رہ گیا۔ جہاں معیار زندگی بھیانک حد تک خراب تھا، خانہ جنگی کے صرف ایک سال میں 60 لاکھ سے زائد لوگ صرف بھوک کی وجہ سے مارے گئے جس کے بعد خانہ جنگی کے آخر میں محنت کش طبقہ شدید تھکان کا شکار ہوچکا تھا۔ اسی تھکان سے ایک ٹھہراؤ کی سی کیفیت پروان چڑھنے لگی۔ محنت کشوں کے ایک قدم پیچھے ہونے سے بیوروکریسی اور کیریئراسٹوں کے لئے نئی راہیں ہموار ہوگئیں جن کے نزدیک ’’بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب‘‘ دیوانے کا ایک خواب تھا۔ اس ساری صورتحال نے روس میں ایک نئے نظریے کو جنم دیا جوکہ 1923ء میں پہلی بار ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے نام سے منظر عام پرآیا۔ اس کیفیت میں اسٹالن کے حادثاتی طور پر بالشویک پارٹی کی کمان سنبھالنے کے بعد روس میں ایک بھیانک عہد کی شروعات ہوئی، جہاں ایک طرف اسٹالن انقلاب کو قید کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا تو دوسری طرف ٹراٹسکی نے ہر محاذ پر اس کی مخالفت کی، جس ٹراٹسکی نے انقلاب کے لئے مسلسل جدوجہد کی وہ اب اسٹالن کے لئے اس کا سب سے بڑا دشمن بن چکا تھا۔ ٹراٹسکی کے انقلابی کام کو خود اسٹالن بھی انقلاب کے دنوں میں قبول کرنے پر مجبور تھا لیکن اب وہ ٹراٹسکی اور اس کے ساتھیوں کو کچل دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ اسٹالن نے انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ٹراٹسکی کی خدمات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پارٹی کے رسالے میں کچھ یوں لکھا ’’سرکشی کو منظم کرنے کا تمام تر عملی کام کامریڈ ٹراٹسکی (پیٹروگراڈ سوویت کا صدر) کی ہدایات پر فوری طور پر کیا گیا تھا، جس تیزی سے کامریڈ ٹراٹسکی نے انقلابی فوجی کمیٹی کو متحد کیا پارٹی اس کے لئے ان کی بھرپور شکر گزار ہے ۔‘‘ اس کے کچھ عرصے بعد جب اختلافات آسمان پر تھے تو اسی اسٹالن نے ٹراٹسکی کے لئے لکھا ’’کامریڈ ٹراٹسکی نے نہ ہی انقلاب میں کوئی کردار ادا کیا تھا اور نہ ہی پارٹی میں، وہ پارٹی میں ایک نیا آدمی ہونے کی وجہ سے اس دوران کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔(سٹالن کا مجموعہ تصانیف، ماسکو، 1953ء )
اسٹالن کے یہ دونوں بیان اس کی نیت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ٹراٹسکی کے انقلابی کام یا اکتوبر انقلاب کے دوران اس کی حرکات کو پرکھنا ہو تو اس کے لئے سب سے موزوں کتاب جان ریڈ کی ’’دنیا کو جھنجوڑ دینے والے دس دن‘‘ ہے۔ اس کتاب میں جان ریڈ نے واقعات کو ان کی اصل رو سے بیان کیا ہے اس کتاب میں ریڈ نے ان تمام شخصیات کا ذکر بار بار کیا ہے جو اُس وقت انقلابی سرگرمیوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو کتاب میں 63 بار لینن، 53 بار ٹراٹسکی، 8 بار کامینیف، 7 بار زینوویئف اور 2 مرتبہ اسٹالن اور بخارن کا ذکرکیا گیا ہے، جو کہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ کون کتنا سرگرم تھا ۔ اس کتاب کو اسٹالن کے اقتدار میں آتے ہی فوری طور پر کمیونسٹ پبلیکیشنز سے غائب کردیا گیا تھا۔ جس جنگ کو ٹراٹسکی نظریاتی بنیادوں پر لڑ رہا تھا، اسٹالن اسے ذاتیات کے گرد لے جا چکا تھا۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اسٹالن کی وحشت اور ٹراٹسکی سے اس کی نفرت میں تیز ترین اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔ وہ کسی قیمت پر بھی ٹراٹسکی کو اب زندہ نہیں رہنے دینا چاہتا تھا ۔ ٹراٹسکی نے اسٹالن ازم کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک ایسا بوناپارٹ ازم قرار دیا تھا جس کی معیشت منصوبہ بند ہو۔اسی کی پاداش میں اسٹالن نے سینٹرل کمیٹی سے لیکر ٹراٹسکی کے پورے خاندان کے ساتھ کیا سلوک کیا یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ٹراٹسکی کی تیز ترین مقبولیت نے اسٹالن کے خوف میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا اور وہ بار بار اس پر حملہ کروانے کی کوشش کرتا رہا لیکن آخر کار روسی آمرنے NKVD کے ایجنٹ رامون مرکیڈر کے ذریعے 1940ء میں سوشلزم کے دفاع اور انسانیت کے روشن مستقبل کی جدوجہد کی پاداش میں اسے قتل کر کے تاریخ کے اوراق سے غائب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بظاہر یہ ایک فرد کا قتل تھا لیکن اسٹالن کا بنیادی مقصد انقلابی سوشلزم کے سچے نظریات کو قتل کرنا تھا۔ مرکیڈرنے ایک ایسے انقلابی کو قتل کیا جس نے اپنی پوری زندگی انقلاب اور بعد ازاں انقلاب کے دفاع میں وقف کر دی۔ ٹراٹسکی نے اپنی زندگی کے آخری دس سالوں کو زندگی کے سب سے اہم اور فیصلہ کن سالوں میں گردانا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ یہ وقت خانہ جنگی اور انقلاب کے وقت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ وہ صرف انقلاب کے دفاع کے لئے ایک نظریاتی لڑائی لڑ رہا تھا۔ ٹراٹسکی نے 1930ء کے بعد اپنی زندگی کی سب سے بڑی لڑائی لڑی، اس نے نہ صرف ’’میری زندگی ‘‘ جیسی کتاب میں اپنے کردار کی وضاحت کی بلکہ ’’انقلاب سے غداری‘‘ جیسی تصنیف میں اس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کا سب سے پہلے تناظر بھی دیا، جب مرکیڈر نے اسے قتل کیا تب بھی وہ اپنی شاہکار کتاب ’’اسٹالن‘‘ لکھ رہا تھا، یہ کتاب اسٹالن کی زندگی پر تھی جس میں وہ تمام تر ان حقائق پر سے پردہ اٹھارہا تھا جن کا شکار خود اسٹالن ہوچکا تھا۔ اسٹالن کی محدود نظریاتی اپروچ اور اس کی لکھی گئی کتابوں پرایک بہت ہی مزاحیہ بات مشہور ہے کہ ’’اگر خدا کارل مارکس کو کوئی سزا دے تو وہ اسے اسٹالن کا کیا گیا نظریاتی کام پڑھنے کو کہے گا‘‘۔ اسٹالن کا شمار چونکہ بالشویکوں میں سب سے کم پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا تھا اسی لئے وہ انقلاب دشمن بیوروکریسی کے لئے ایک آئیڈیل شخصیت بن کر نمایاں ہوا جس کی قیادت میں بیوروکریسی انقلاب کو دیمک کی طرح چاٹتی اور کھوکھلا کرتی رہی۔
ٹراٹسکی چونکہ حالات کو بہتر انداز میں سمجھ کر اس کے خلاف مسلسل لڑ رہا تھا، اسی کے نتیجے میں اسے ان آخری دس سالوں میں کوئی ملک پناہ دینے کو راضی نہیں تھا، کسی طرح جب وہ میکسیکو جا بسا تو وہاں اسے مرکیڈر کے ہاتھوں آخر کار قتل کروا ہی دیا گیا۔ قتل کے فوری بعد ہی سٹالن نے مرکیڈر کواس کی غیر موجودگی میں ہی لینن پرائیز دیا جو اس کی ماں نے وصول کیا تھا۔ چونکہ مرکیڈراس وقت میکسیکو میں 20 سال جیل کاٹ رہا تھا اور جب 1960ء میں رہا کیا گیا تووہ سب سے پہلے ہوانا (کیوبا) گیا اور اس کے ایک سال بعد وہ ماسکو چلا گیا جہاں 1961ء میں ایک بار پھر اسے ٹراٹسکی کو قتل کرنے کے اعزاز میں’’ہیرو آف دی سوویت یونین‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
تاریخ کی یہ کیسی ستم ظریفی تھی کہ جس آدمی نے انقلاب کے دفاع میں موت کو گلے لگایا اسے’’غدار‘‘ اور اس کے قاتلوں کو ’’ہیرو‘‘ قرار دیا گیا۔ ٹراٹسکی کی موت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو تو شاید کبھی پورا نہ کیا جاسکے لیکن اسٹالن یہ بات کبھی نہیں سمجھ سکا کہ افراد کو قتل کیا جاسکتا ہے مگر نظریات کو نہیں۔ ٹراٹسکی کی تصانیف مارکسی نظریات میں ایک غیر معمولی اضافہ ہیں۔ آج اس عظیم انقلابی کو ہم سے جسمانی طور بچھڑے 75 برس ہوچکے ہیں مگر وہ آج بھی نظریاتی رہنما کے طور پرہمارے ساتھ موجود ہے ۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آج پوری دنیا میں ایک نئی نسل جوان ہوچکی ہے جو اسٹالن ازم کی غلاظت سے پاک ہے، پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات تاریخ کی کسوٹی پر ٹراٹسکی کے نظریات کو درست ثابت کرچکے ہیں، اسٹالن دنیا سے ٹراٹسکی کے نظریات کو ختم کردینا چاہتا تھا لیکن آج بھی وہ نظریات اتنے ہی عظیم اور سچے ہیں جتنے آج سے 75 سال قبل تھے۔ محنت کش طبقہ جلد یا بدیرخوبصورت زندگی اور انسانیت سے مزین ایسا معاشرہ تشکیل دے گا جس کا خواب ٹراٹسکی نے دیکھا تھا ۔