اداریہ جدوجہد:-
آفتوں کے سیلاب کتنی بار ہی کیوں نہ آئیں ان کی اذیت کم نہیں ہوتی۔ زخم ہر بار جب بھی لگے، درد تو ہوتا ہے۔ غالب شراب کے عارضی آسرے میں کہیں لکھ گیا تھا کہ
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
لیکن بربادیوں کے عذاب متواتر ہونے کے باوجود بھی کم نہیں ہوتے۔کہیں لوگ جاڑے سے مرتے ہیں تو کہیں گرمی سے۔ ہر سال سیلاب ایک مستقل سزا بن کے غریبوں اور محروموں کو مجروح کرتا ہے۔ خشک دریا دیکھ کر ان میں پانی بھر جانے کی تمنا ابھرتی ہے۔ اور جب پانی ان دریاؤں سے چھلک کر تباہی پھیلانا شروع کرتا ہے تو یہی محروم اور مجبور انسان اجڑ جاتے ہیں۔ بستیاں بہہ جاتی ہیں۔ دعاؤں اور فتووں سے یہ طوفان ٹلتے نہیں۔
تعمیر و ترقی کا مقصد فطرت کے ان آفاقی حملوں کو شکست دینا ہوتا ہے۔ لیکن جب کسی نظام میں بنیادی انفراسٹرکچر بنانے کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے تو حکمرانوں کی طرف سے صرف ترس ہی ملتا ہے جو منافقت بھی ہے اور تضحیک بھی!لیکن حکمران خود تو کبھی نہیں اجڑتے۔ سیلابوں کے ریلے بھی ان کی دولت اور محلات سے ڈرتے ہیں، اس طرف بڑھنے ہی نہیں دئیے جاتے۔ طبقاتی سماج کے یہی قوانین ہوتے ہیں۔ یہ ’’آسمانی آفات‘‘ کم اور اس دولت مند طبقے کے نظام کی دین زیادہ ہے۔
انسانی سماج کے ارتقا کا مقصد فطرت اور قدرت پر اپنا غلبہ قائم کرنا تھا لیکن طبقاتی سماج میں نسلِ انسان یوں تقسیم ہو گئی ہے کہ بالادست طبقات ہر آفت سے محفوظ ہیں اور کروڑوں اربوں غریب اور محکوم انسان ہر وقت تباہی کی نشانے پر ہیں۔ لیکن پھر محروم انسانوں کی بستیوں کا یوں برباد ہو جانا کوئی ’مقدر‘ تو نہیں ہے۔ یہ کوئی آفاقی قانون نہیں ہے۔ ان ذلتوں کو حکمرانوں کے نظام نے محنت کرنے والوں کی تقدیر بنایا ہے۔
جب کوئی سماجی و معاشی نظام تاریخی طور پر ایسی ’’قدرتی‘‘ آفات کو شکست دینے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو جائے تو قدرت بھی غریب کو ہی اپنے مظالم کا نشانہ بناتی ہے۔ اس نظام زر میں کوئی فلاح، کوئی آسودگی نہیں ہے۔ بس معاشی بربادیاں، ظلم و جبر اور تضحیک ہی ہے۔ آبادی کی اکثریت کو ایسی کیفیت میں ڈال دیا گیا ہے جہاں وہ بھوک سے تڑپیں، بیروزگاری سے گھائل اور لوڈ شیڈنگ سے ذلیل ہوں، علاج کو ترسیں اور تعلیم سے نا آشنا رہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ بحران تہذیب اور معاشرے کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ لیکن ایسا کب تلک چلے گا؟محنت کرنے والے کب تک یہ برداشت کریں گے؟ انسان ہونے کے ناتے ہمیشہ کے لئے تو نہیں کر سکتے۔مسئلہ صرف ان سلگتے ہوئے مسائل سے نجات کا نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کی بقا کا سوال بن چکاہے۔ تاریخ کا یہ چیلنج ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اس نظام سے ٹکرانا ہو گا وگرنہ یہ انسانیت کو کچلتا چلا جائے گا۔ زندگی جو موت بن چکی ہے اسے زندگانی سے آشنا کرنا انقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہو سکے گا!