| تحریر: لال خان |
دہائیوں سے حکمرانوں کے کشکول توڑنے کے بیانات سن سن عوام کے کان پک گئے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے یہ کاسہ لیس، کارپوریٹ سرمائے کے کمیشن ایجنٹ ہیں جو اپنے آقاؤں سے آنکھ ملا کر بات بھی نہیں کر سکتے۔
سامراجی ڈاکہ زنی کا سب سے بڑا ہتھیار قرض اور سود در سود کا گھن چکر ہے جسے اس نظام کے حکمران کبھی توڑ نہیں سکتے۔ محنت کش طبقہ ہی ان لٹیروں کے سامنے سینہ سپر ہو سکتا ہے۔ یونان میں 5 جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں۔ ریفرنڈم سے قبل ٹرائیکا(ساہو کاروں کا ٹولہ جس میں آئی ایم ایف، یورپی کمیشن، یورپی مرکزی بینک شامل ہیں)، یورپ کے سرمایہ داروں اور اس نظام کے دوسرے حواریوں نے اپنے کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے یونان کے عوام کو کھلی دھمکیاں دی تھیں کہ ان کے احکامات کے خلاف ووٹ نہ ڈالیں۔ اسی طرح کی ایک پراپیگنڈا مہم اس سال جنوری کے عام انتخابات میں بھی چلائی گئی تھی جس میں عوام کو نجکاری اور تنخواہوں، پنشن اور ریاستی سہولیات میں کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کے ’’فضائل‘‘ گنوائے گئے تھے۔ عوام نے اس ریفرنڈم کی ہی طرح تب بھی تمام تر دھونس اور فریب کو رد کرتے ہوئے بائیں بازو کی ایک نومولود قوت ’سائریزا‘ کو کامیابی دلوائی تھی۔ ان انتخابات میں دہائیوں سے عوام کی سیاسی روایت سمجھی جانے والی PASOK کو بری طرح شکست ہوئی، PASOK کا کردار یونان میں کم و بیش وہی بن گیا تھا جو یہاں پیپلز پارٹی کا بن چکا ہے۔
سائریزا کی فتح نے پورے یورپ میں سیاسی زلزلہ پیدا کیا لیکن ریڈیکل بائیں بازو کی لفاظی کے باوجود پارٹی قیادت کے پاس کوئی ٹھوس انقلابی پروگرام نہیں تھا۔ الیکسز سپراس اور اس کی ٹیم برسر اقتدار آ کر بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی مخصوص سوچ کے تحت آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان سے ’رحم‘ کی بھیک مانگتے رہے۔ لیکن سرمائے کے نظام میں سرمائے کی منطق ہی چلتی ہے، سرمایہ دار اور سود خور اگر ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے تحت ’’اچھے‘‘ ہو جائیں تو دوسرے دن کنگلے ہو کر سڑک پر آ جائیں گے۔گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا ادراک استحصال پر مبنی اس نظام کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے شوقین اصلاح پسند کرنے سے انکاری ہیں۔
سائریزا کی قیادت اوپر سے مفاہمت کی سرتوڑ کوششیں کرتی رہی لیکن نیچے سے عوام کے دباؤ کی وجہ سے جزوی مزاحمت پر بھی مجبور تھی۔ ٹرائیکا کے قرض دہندگان بضد تھے کہ اگر معیشت کو زندہ رکھنے کے لئے مزید قرض چاہئے تو ریاست تمام اثاثوں کی نجکاری کرے، عوام کو حاصل روزگار، صحت اور تعلیم وغیرہ کی تمام سہولیات کا خاتمہ کیا جائے، پنشن اور تنخواہیں مزید کم کی جائیں،بالواسطہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ سائریزا کی قیادت کے لئے یہ اقدامات سیاسی خود کشی کے مترادف تھے کیونکہ انہی کے خلاف نعرے لگا کر وہ برسر اقتدار آئے تھے۔ ڈیڈ لاک کھلنے کے امکانات نہ تھے چنانچہ سائریزا حکومت نے قرض دہندگان کی شرائط سے متعلق ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔
رعونت سے بھرے یورپی حکمرانوں کے نزدیک یہ ناقابل معافی گستاخی تھی۔ انہوں نے دھونس، خوف اور عدم استحکام کا ہر اوزار استعمال کیا۔ یورپی بینک نے یونان کو یورو کرنسی کی سپلائی منقطع کرکے حکومت کو مجبور کر دیا کہ بینک کچھ دنوں کے لئے بند کرے اور اے ٹی ایم پر 60 یورو روزانہ کی حد لگائی جائے۔ کارپوریٹ میڈیا پر طوفان بد تمیزی برپا تھا کہ اگر عوام نے ٹرائیکا کی منشا کے خلاف ووٹ ڈالا تو برباد ہو جائیں گے، ان کی جمع پونجی لٹ جائے گی، بھوکے مر جائیں گے۔ یونان کے حکمران طبقے اور دائیں بازو کے سیاسی جغادری بھی میدان میں لائے گئے اور قرض دہندگان کی ’’شرائط کے پیکج‘‘ کے حق میں ’’ہاں‘‘ ووٹ کی بھرپور مہم چلائی گئی۔ نام نہاد ’’سروے‘‘ کروا کے پرپیگنڈا کیا گیا کہ عوام کی اکثریت ’’ہاں‘‘ کو ہی ووٹ ڈالے گی۔ لیکن جیسا نیم انقلابی یا انقلابی کیفیات بھی ہوتا ہے کہ عوام جب حرکت میں آتے ہیں تو سرمائے کی بڑی سے بڑی چالبازیاں نامراد ہو جاتی ہیں۔
5 جولائی کی رات آنے والے نتائج کارپوریٹ میڈیا اور ان کے سامراجی آقاؤں کے منہ پر تھپڑ سے کم نہیں تھے۔ تمام تر جعلی قیاس آرائیوں کے بر عکس 61.3 فیصد لوگوں نے OXI یا ’’ناں‘‘ پر مہر لگا کر ٹرائیکا کی تمام شرائط کو مسترد کر دیا۔ ’’ہاں‘‘ کو صرف 38.7 فیصد ووٹ پڑے۔ اس ریفرنڈم نے یونان میں کئی سالوں سے جاری انقلابی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے۔ ووٹنگ سے قبل جمعہ 3 جولائی کو ایتھنز کے مرکزی چوک میں تین لاکھ سے زائد افراد نے ٹرائیکا کے خلاف احتجاج کیا جسے پچھلی کئی دہائیوں میں یونان کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع قرار دیا جارہا ہے ۔ ریفرنڈم کے بعد دائیں بازو کی اپوزیشن کا سب سے بڑا رہنما ’سماراس‘ استعفیٰ دے کر سیاست سے ہی دستبردار ہو گیا۔ ہر طرف ’’سوشلزم‘‘ اور ’’زنجیروں کو توڑڈالو‘‘ کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔
لیکن یہ جوش و ولولہ لمبے عرصے تک اسی حالت میں برقرار نہیں رہ سکتا۔ یونان میں طبقاتی جنگ کی صفیں بالکل سیدھی ہو چکی ہیں۔ سیاسی تفریق 50 سال بعد دائیں اور بائیں بازو کی شکل میں اتنی واضح ہوئی ہے، صورتحال ونزویلا سے خاصی مماثلت رکھتی ہے۔ عوام نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، وہ اس نظام سے نفرت کرتے ہیں اور لڑنے کو تیار ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ سائریزا کی حکومت کیا کرتی ہے۔ پارٹی کی قیادت اصلاح پسندوں کے پاس ہے لیکن تنظیمی اداروں اور عام کارکنان میں انقلابی سوشلسٹ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پارٹی میں بائیں بازو کی اپوزیشن کا سب سے منظم اظہار ’’سائریزا کا کمیونسٹ رجحان‘‘ ہے۔
سائریزا کی قیادت سمجھ رہی ہے کہ اس ریفرنڈم کے ذریعے ٹرائیکا کے ساتھ مذاکرات میں ان کا پلہ بھاری ہو گیا ہے جو سراسر خوش فہمی اور حماقت ہے۔ یہ چھٹے ہوئے ساہو کار اپنی روش سے ہٹنے والے نہیں۔ انہوں نے ریفرنڈم کے بعد مالیاتی بلیک میلنگ زیادہ بڑھا دی ہے۔ ٹرائیکا کو درست طور پر ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینے والے یونان کے وزیر خزانہ ’یانس واروفاکس‘ کو مستعفی ہونا پڑا ہے کیونکہ قرض دہندگان اسے مذاکرات کی میز پر برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے، یہ سائریزا حکومت کی ایک اور پسپائی ہے۔ سائریزا کی قیادت کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹیں گے تو ٹرائیکا انہیں دس قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کرے گا۔
یہ کیفیت صرف یونان تک محدود نہیں ہے۔ سپین، اٹلی، پرتگال، آئر لینڈ سمیت کئی یورپی ممالک کی معاشی کیفیت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لیکن یونان ایک ’فوکل پوائنٹ‘ بنا ہوا ہے اور پورے یورپ کے نوجوان اور محنت کش یونان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں۔ یونان میں ہونے والی پیش رفت کے سیاسی اور معاشی نتائج پورے یورپ پر مرتب ہوں گے۔ ٹرائیکا اگر معاشی ناکہ بندی بڑھا کر یونان کے عوام کو مزید نڈھال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو الٹ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور تحریک زیادہ شدت سے پھٹ سکتی ہے۔ اسی طرح یونان کو یورو زون یا یورپی یونین سے نکالنا بھی اتنا آسان نہیں ہے، اس سے ساہو کاروں کے قرضے ڈوب جائیں گے۔ مزید برآں دوسرے ممالک کے عوام بھی معاشی ذلت پر ڈیفالٹ ہونے کو ترجیح دیں گے، پورے یورپ میں یورو مخالف جذبات پہلے ہی بھڑک رہے ہیں۔ لیکن ٹرائیکا کوئی رعایت بھی نہیں دے سکتا کیونکہ قرضوں میں ڈوبی دوسری ریاستیں بھی اس کا مطالبہ کریں گی۔ سائریزا حکومت پہلے ہی بہت ’’لچک‘‘ اور پسپائی کا مظاہرہ کر چکی ہے لیکن سود خور بھیڑئیے عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔
نیولبرل اور نہ ہی ’کینشین اسٹ‘ سرمایہ داری کی بنیادوں پر یونان کی کوئی نجات ممکن ہے۔سرمایہ داری میں ’’فلاحی ریاست‘‘ اب قصہ ماضی ہو چکی ہے۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ پورے یورپ کے عوام سے یکجہتی کی اپیل کرتے ہوئے سوشلسٹ بنیادوں پر یونان کی یورو زون اور یورپی یونین سے علیحدگی ہے۔ بینکنگ اور مالیاتی اثاثوں سمیت معیشت کے کلیدی شعبے نیشنلائز کر کے ہی عوام سے اب تک چھینی گئی روزگار، تعلیم، علاج، رہائش جیسی تمام سہولیات کہیں احسن طریقے سے فراہم کی جا سکتی ہیں۔اگر یہ انقلابی اقدامات بروقت نہیں کئے جاتے تو معاشی بحران شدت پکڑ سکتا ہے اور سائریزا حکومت اپنی ساکھ کھو کر معزول ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں پارٹی بھی اصلاح پسندوں اور انقلابی سوشلسٹوں کے درمیان پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ دائیں بازو اور فاشزم کی قوتیں بہرحال بہت کمزور ہیں۔
یونان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے جس انقلابی جرات اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے وہ دنیا بھر کے عوام کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ یہ ایک نئے عہد کا آغاز ہے جو انقلابی سوشلزم کے ذریعے نسل انسان کی آزادی اور نجات کے راستے کھولے گا!
متعلقہ:
یونان: انقلابی تحریک کا نیا ابھار!