| تحریر: فرانچیسکو مرلی، ترجمہ: ولید خان |
اتوار کو ترکی میں ہونے والے الیکشن اور اس کے نتیجے میں صدر طیب اردگان کی اے کے پارٹی کی واضح پسپائی ایک ایسا سیاسی زلزلہ ہے جو ترکی کی سیاست میں معیاری تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور جس کے آنے والے وقت میں مشرقِ وسطی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
طیب اردگان کی AK پارٹی نے تمام ڈالے گئے ووٹ میں سے 40.9 فیصد ووٹ (1 کروڑ 89 لاکھ)حاصل کئے مگر پارٹی کے قائدین اور حمایتیوں کی مایوسی واضح طور پر ان کی ہار کی نشاندہی کرتی ہے۔ پارٹی 2002ء سے مسلسل بڑھوتری کے عمل میں تھی اوراس بار2011ء کے الیکشن کے مقابلے میں 26 لاکھ ووٹ اور 69 ممبرانِ پارلیمنٹ گنوا بیٹھی ہے۔
اردگان، جس پر الیکشن کیمپین میں براہِ راست اثر انداز ہونے پر آئینی پابندیاں تھیں ،نے پوری قوت کے ساتھ AK کی الیکشن کیمپین میں مداخلت کی۔ اردگان کا ارادہ پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے آئینی تبدیلیوں کے ذریعے بے پناہ صدارتی طاقت حاصل کرنا تھا مگر بھرپور کوشش کے باوجود حکمتِ عملی کا الٹا اثر ہوا اور AK پارٹی پارلیمان میں اکژیت سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
اتوار کے الیکشن کے نتیجہ میں AK پارٹی 258 نشستیں حاصل کر سکی جو کہ 550 نشستوں کے حوالے سے اکثریت نہیں جبکہ مخلوط حکومت کے قیام کے امکانات بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ AK پارٹی اور دائیں بازو کی قوم پرست MHP پارٹی کا اتحا دونوں کیلئے نقصان دہ ہے جبکہ CHP اور HDP نے پہلے ہی مخلوط حکومت میں شمولیت سے معذرت کر لی ہے۔ زیادہ امکانات AK پارٹی کی کمزور اقلیتی حکومت اور دوبارہ الیکشن کے ہیں جو آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں مزید انتشار کا پیش خیمہ ہے۔
CHP جو کہ ترکی میں بائیں بازو کی روایتی پارٹی ہے اس کا ووٹ بینک تا حال 25 فیصد (1 کروڑ 15 لاکھ، 2011ء کے مقابلے پر صرف 4 لاکھ زیادہ) پر ہی جمود کی کیفیت کا شکار ہے۔ اردگان کے سیاسی مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے CHP ایک موثر متبادل کے طور پرسامنے نہیں آ سکی جو اس کی سیاسی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے حالانکہ الیکشن کے دنوں میں پارٹی نے زیادہ ریڈیکل پروگرام بھی پیش کیا ۔ دائیں بازو کی قوم پرست MHP پارٹی نے 16.3 فیصد ووٹ حاصل کئے(75 لاکھ ووٹ، 2011ء کے مقابلے میں 18لاکھ زیادہ)لیکن یہ بھی پارٹی قیادت کی توقعات سے کہیں کم ہیں۔
ترکی سیاست میں سب سے بڑی تبدیلی بائیں بازو کیHDP پارٹی کا تیز تر ابھار ہے جس نے 13.1 فیصد ووٹ(60 لاکھ سے زائد)حاصل کئے جو کہ تمام رائے شماری سے کہیں زیادہ ہیں۔ انتہائی غیر جمہوری 10 فیصد کم ترین ووٹ کے حصول کی آئینی شرط ، جس کے بعد ہی کوئی سیاسی جماعت پارلیمان میں آ سکتی ہے، کے باوجود HDP کے 80 امیدوار اس بار پارلیمان میں داخل ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں AK پارٹی کا پارلیمانی اکثریت کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔
الیکشن کیمپین کے دوران شدید سیاسی انتشار اور تشدد دیکھنے میں آیا، خاص طور پر HDP کے خلاف جس میں پارٹی دفاتر اور سرگرم کارکنوں پر حملوں کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ریلیوں اور دفاترپر کم از کم تین بم حملے بھی شامل ہیں۔ الیکشن سے دو دن پہلےHDPکی دیارباقر ریلی پر دو بم دھماکے ہوئے جس کے نتیجہ میں ایک 17 سالہ لڑکا شدید زخمی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لا سکتے ہوئے کل اس کی موت واقع ہوگئی۔
HDP کی کامیابی کی بنیاد
HDP کرد روایتی قوم پرست جدوجہد اور PKK کا سیاسی اظہار ہے۔ 10 فیصد کم ترین ووٹ کا آئینی اطلاق 1980میں متعارف کرایا گیا جو درحقیقت کرد قوم پرست جدوجہد کو پارلیمان سے باہر رکھنے کی گھناؤنی سازش تھی۔ غیر آئینی قرار دی جانے والی PKK کے ساتھ کسی قسم کا تال میل قانونی جرم ہے جبکہ HDP کی قیادت ترک مذاکراتی ٹیم کی معاونت کرتی رہی ہے تاکہ کرد شورش اور ترک ریاست کے درمیان اس دہائیوں پرانے مسئلے پر مفاہمت ہو سکے۔ پچھلے کچھ سالوں میں HDP خالصتاً قوم پرست ایجنڈے سے ہٹ کر بتدریج طبقاتی اور بائیں بازو کی سیاست کی طرف بڑھی ہے جس سے اسے ترک سماج کی وسیع مظلوم پرتوں میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اس الیکشن میں پارٹی قیادت جس میں صلاحتین دیمرتاس اور فگن یکسیکداگ شامل ہیں کا بائیں بازو رجحان اور بھی واضح ہو گیا جب الیکشن منشور میں وہ تمام سماجی مانگیں ڈالی گئیں جن کا لاکھوں محنت کشوں کو سامنا ہے مثلاً کم از کم اجرت کا دگنا کیا جانا (650 ڈالر) اور کم از کم ریٹائرمنٹ پنشن کا بھی اسی سطح پر اطلاق۔ ایک مانگ یہ بھی ڈالی گئی کہ کامیابی کے بعد ایک خاص پاس کا اطلاق کیا جائے گا جس کے ذریعے 15-25 سال کے درمیانی عمر کے نوجوان عوامی سفری سہولیات پر سبسڈی حاصل کر سکیں گے۔
اردگان اور اس کے سیاسی ٹولے کی کی بڑھتی ہوئی معاشی کرپشن اور آمرانہ طرزِ حکومت جس میں بے تحاشہ مذہب کا بے لگام سیاسی استعمال شامل ہے ، نے ترک سماج کے مظلوم اور اقلیتی حصوں کو وسیع پیمانے پر بدظن اور ریڈیکلائز کیا ہے۔ HDP کا الیکشن کے دوران یہ موقف کہ’ہمارا الیکشن منشور تمام ترکی کے عام لوگوں کا خواب ہے جبکہ سلطان کیلئے بھیانک خواب‘(اردگان ’سلطان‘ ہے جوہر وقت عثمانی خلافت کے سیاسی وارث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے) یہ واضح طور پر عام لوگوں کی خواہشات سے ہم آہنگ تھا جس کے نتیجہ میں HDP کو مذہبی اور قوم پرستانہ رجحانات سے جزوی طور پر بالاتر ہونے کا موقعہ ملا۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں HDP خاص طور پر ہم جنس پرستوں کو برابری کے حقوق دینے کے وعدے کے حوالے سے توجہ کا مرکز بنی رہی۔ جبکہ HDP کا الیکشن منشور اس سے کہیں آگے کی بات کرتا ہے جس میں ترک خواتین کی سماجی جبر سے آزادی، قومیت اور مذہب کی بنیادی آزادی جس میں تمام علاقائی زبانوں کی سرکاری شناخت، ان کا تعلیمی اداروں میں استعمال اور مذہبی تعلیم کا نصاب سے اخراج شامل ہیں۔دیگر مطالبات میں ووٹ ڈالنے کے حق کی عمر کو 16 سال پر لانا اورپارلیمان میں داخلے کیلئے 10فیصد کم تر ین ووٹ کے حصول کی پابندی ختم کرنا ہے۔
کردوں کی پچھڑی ہوئی پرتوں میں AK کیلئے حمایت کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب کردوں نے کوبانی میں ISIS کے خلاف قابلِ تحسین مزاحمت کی جبکہ اردگان کا رویہ ISIS کے حوالے سے انتہائی مجرمانہ تھا۔ کرد نوجوانوں کی کوبانی کی مزاحمتی تحریک کی حمایت میں کیے جانے والے احتجاجوں کی بے رحمی سے سر زنش کی گئی جس کے نتیجہ میں درجنوں اموات ہوئیں اور حکومت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔
اگر الیکشن کے نتائج کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہے کہ کردوں کی ایک اہم پرت AK کی حمایت سے ہٹ کر HDP کی طرف مائل ہوئی ہے۔ ان تجزیات سے قطع نظر جو اس مظہر کو HDP کی ’قدامت پرست‘حمایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، یہ بات واضح ہے کہ وہ عوام جس کا شعور ایک عرصہ پچھڑا رہے ایک معیاری جست کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اگر کوئی متبادل سیاسی افق پر ظاہر ہو۔
HDP کی بڑھوتری کو صرف کرد ووٹ کی حمایت کی حد تک نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ واضح ہے کہ اور اقلیتوں مثلاً الوی، آرمینی بشمول نوجوانوں اور باشعور محنت کشوں کی ایک پرت بھی HDP کی حمایت کی طرف آئی ہے۔
اگر HDP ایک موثر اور سنجیدہ متبادل کے طور پر اردگان اور ترک حکمران طبقے کو للکارنا چاہتی ہے تو شعوری طور پر اس کو ترک محنت کش طبقہ میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کرنی ہو گی۔ حالیہ کار مزدوروں کی کامیاب ہڑتال اور پاکٹ یونیونوں کے برخلاف مزدوروں کی بڑھتی ریڈیکلائزیشن اس بات کی غمازی ہے کہ اگر سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں ریڈیکل متبادل پیش ہو تو اسے وسیع حمایت ملنے کے امکانات ہیں۔
لیکن HDP کی حالیہ کامیابیاں ضائع بھی ہو سکتی ہیں اگرHDP قائدین کا اردگان کے خلاف رویہ ماضی کی طرح دوبارہ ڈانواں ڈول ہو جائے۔ قائدین کا یہ خوف کہ کوئی بھی تنقید یا مزاحمت کرد مذاکرات پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے ترک سیاست میں HDP کے موثر متبادل کے طور پر بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے جس سے ناگزیر طور پر معاشرے کے سب سے ریڈیکل عناصر جن کی حمایت HDP کے لئے بڑھ رہی ہے مایوسی اور سیاسی بیگانگی کا شکار ہو جائیں گے۔
معیشت کی نازک صورتحال
دو سال سے کم عرصہ پہلے عالمی بینک کے صدر جم یونگ کم نے اعلان کیا تھا کہ ترکی کی معاشی کامیابیاں دیگر ترقی پذیر ممالک کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔ یاد رہے کہ AK پارٹی 2002ء میں کئی سال کے شدید معاشی انتشار کے بعد برسرِ اقتدار آئی تھی۔ اس وقت سے اب تک اگر دو سال (2008-2009ء) جو عالمی معاشی بحران کے سب سے پرانتشار سال تھے کا خراب عرصہ نکال بھی دیا جائے توترک معیشت 68فیصدپھیلی ہے جو کہ چین اور برازیل سے زیادہ بہتر کارکردگی ہے۔ مگر ترکی کی معیشت زیادہ تر کمزور بنیادوں پر استوار ہے جس کی وجہ سے عالمی معیشت کے تھپیڑوں سے وہ محفوظ نہیں۔ پچھلے سال ترک معیشت سست روی کا شکار رہی جس کی وجہ سے شرح نمو 2.9 فیصد رہی اور اس سال بھی بہتری کے کوئی امکانات نہیں۔ بیروزگاری کی شرح پچھلے چند سالوں میں بڑھتے بڑھتے 8 فیصد سے کم سے اب 10 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ترک معیشت کا مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6-8 فیصد ہے جو عام حالات میں زیادہ تشویش کا باعث نہیں مگر اب اس کی نوعیت انتہائی غیر مستحکم عالمی اور داخلی سیاسی حالات میں خوفناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔
ترکی کا انتشار آنے والے عرصے میں بڑھے گا جیسے جیسے عالمی سرمایہ داری اور مشرقِ وسطی کا انتشار بڑھے گا۔ اندرونی خلفشار اور اقلیتی حکومت کی کمزوری کے نتیجہ میں بیرونی سرمایہ کا تیز اخراج شروع ہو سکتا ہے جو پھر معیشت کو مزید عدم استحکام کی طرف لے کر جائے گا۔ معاشی بڑھوتری اب قصہِ ماضی ہو چکی ہے اور ترکی دنیا کے وسیع ترین عدم مساوات کے حامل ممالک میں سے ایک ہے جہاں 50 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور ہے۔
ترکی کے مادی حالات ایک بڑے طبقاتی جدوجہد کے دھماکے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا اظہار ہمیں نوجوانوں کی 2013ء کی گیزی پارک کی مذاحمتی تحریک اور پچھلے کچھ عرصے میں محنت کشوں کی تحریکوں میں ملتا ہے۔ حالیہ الیکشن سطح سے نیچے ترک محنت کشوں اور نوجوانوں کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ایک اہم مگر مبہم اظہار ہیں۔
متعلقہ: