| تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان |
یونان اور اس کے قرض خواہوں کے درمیان تلخی بڑھتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ یونان کے دیوالیہ ہونے، یورو کا یونان میں بطور کرنسی خاتمہ اور شاید یورپی یونین سے خارج ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس صورتحال کے یونانی عوام، یورپی اور عالمی معیشت کیلئے خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ تمام تر صورتحال کس طرف جا رہی ہے؟
یونان پر 315 ارب یورو کے واجب الادا قرضے ہیں جو مجموعی ملکی پیداوار کا 175 فیصد بنتا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں 1 ارب یورو کی رقم IMF کو لوٹانی ہے۔ جون کے آخر تک مزید 2.5 ارب یورو کی رقم کی واپسی ہے اورجولائی اور اگست کے مہینوں میں 6.7 ارب یورو کے بانڈز کی یورپی مرکزی بینک کو ادائیگی کرنی ہے ۔ ان تمام ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ 1.7 ارب یورو کی اجرتیں اور پینشنیں بھی ادا کرنی ہیں۔ وقت ختم ہو رہا ہے!
یونان کے دوسرے بیل آؤٹ کے تحت 7.2 ارب یورو کی آخری قسط ادا کی جانی تھی مگر اس کو روک کر سائریزا کی حکومت کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ وہ الیکشن کے دوران یونانی عوام سے کئے گئے کٹوتیوں کے خاتمے کے وعدوں سے انحراف کریں۔ یہ قسط صرف اسی صورت میں دی جائے گی اگر سائریزا مزید کٹوتیوں کے پروگرام کا اجرا کرے، یعنی سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے۔
اس سارے کھلواڑ میں ستم یہ ہے کہ اگر یونانی حکومت تمام شرائط کو مانتے ہوئے 7.2 ارب یورو کی قسط جاری کروا بھی لیتی ہے تو یہ صرف گرمیوں تک وقت ملے گا۔ پھر سارا ڈرامہ دوبارہ رچایا جائے گا کیونکہ نئی رقوم کی ادائیگی سر پر ہو گی اور پہلے سے زیادہ خوفناک شرائط کا مطالبہ کیا جائے گا تاکہ حکومت زیادہ سے زیادہ کٹوتیاں لگائے اور زیادہ سے زیادہ حکومتی آمدنی پیدا ہو جو پھر قرضوں کی صورت میں مالیاتی قرض خواہوں کو واپس کی جائے۔ یہ ایک ایسا خوفناک گھن چکر ہے جس سے نکلنا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ممکن نہیں۔
ناقابلِ ادا قرضہ
2010ء سے لے کر 2014ء کے دوران یونان کو 254.4 ارب یورو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے دئیے گئے۔ لیکن اس میں سے 40.6 ارب قرضوں کے سود کی مد میں واپس ہو گئے۔ مزید 48.2 ارب یورو یونانی بینکوں کی مالیاتی طاقت بڑھانے پر خرچ ہو گئے۔ حقیقتاً صرف 5فیصد رقم حکومت کی ضروریات کیلئے دستیاب ہوئے۔یہ قرضہ نا قابلِ ادا ہے اور تمام سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگاروں کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔ اس لئے سوال کبھی یہ نہیں تھا کہ یونان دیوالیہ ہو گا یا نہیں، بلکہ سوال ہمیشہ یہ تھا کہ یونان کب دیوالیہ ہو گا۔
ابھی تک سائریزا کی قیادت اس خوش فہمی میں تھی کہ ’یورپ‘ کبھی اس سوال کو حقیقت کا روپ نہیں دھارنے دے گا۔ اس مہینے کے شروع میں الیکسز سپراس کا کہنا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ روشن خیالی اور جمہوری روایات کا حامل یورپ چند انتہا پسند آوازوں کے شور میں آ کر غیر اخلاقی اور پر تشدد معاشی بلیک میل کا راستہ نہیں اپنائے گا بلکہ مفاہمت، باہمی عزت، استحکام اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کا راستہ اپنائے گا تاکہ ہم سب کا باہم یورپی مستقبل مستحکم ہو۔‘‘
یہ خیالات سپراس کے وزیرِ مالیات واروفاکِس کی خوش فہمی سے ہی ملتے جلتے ہیں کہ حکمران طبقے کے ایک ’سمجھدار حصے‘ سے اپیل کی جا سکتی ہے۔ یہ سوچ سرمایہ داروں کی قوتِ محرکہ کو مکمل نظر انداز کرتی ہے جو کہ صرف منافع کا حصول ہے۔ یورپی مالیاتی سرمایہ داری نے بے پناہ سرمایہ یونان میں لگایا ہے اور اب اسے اپنے سرمایہ پر ہر صورت منافع چاہئے۔ اگر کسی بھی لمحہ انہیں یہ ادراک ہو جائے کہ یہ تمام پیسہ ڈوبنے کو ہے اور منافع کا کوئی امکان نہیں تو وہ جتنا نکال سکے نکالیں گے اور بھاگ جائیں گے۔ ابھی تک اس ڈر نے انہیں روکا ہوا ہے کہ کہیں دیوالیہ پن کا مسئلہ یونان سے نکل کر پورے یورپ میں وبا کی طرح نہ پھیل جائے۔ لیکن یورپی سرمایہ داروں کا ایک حصہ، خاص طور پر جرمن سرمایہ دار، اب اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ یونان کو ڈوبنے دینا ہی بہتر ہے۔جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا کہنا ہے کہ ’’یونان کو دیوالیہ سے بچانے کی بھرپور کوشش ہونی چاہئے اور ہم ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ کہ اصلاحات نافذ کی جائیں۔‘‘ جرمن حکومت اس بات پر مضبوطی سے قائم ہے کہ سائریزا حکومت کٹوتیوں کو ختم کرنے کے تمام وعدوں سے دستبردار ہو اور خاص کر محنت کی منڈی کے ضابطوں میں زیادہ نرمی اور پنشن پر زیادہ کٹوتیاں لگائے۔
سپراس کسی بھی قسم کے سمجھوتے کیلئے بے قرار ہے اپنے حالیہ ٹیلیوژن انٹرویو میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ 9 مئی تک ایک عبوری سمجھوتا ہو جائے گا، ’’مجھے یقین ہے کہ ہم سمجھوتے کے قریب ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی بھی مذاکرات کو برباد کرنے کی کوشش نہ کرے تو ایک متفقہ پیکج کے ہم قریب ہیں‘‘ اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا کہ یونانی حکومت کچھ مراعات بھی دے گی، جیسا کہ پائرائیس کی بندرگاہ کی جزوی نجکاری اور 14علاقائی ائرپورٹس کو لیز پر دینے کا عمل۔مذاکراتی کمیٹی میں واروفاکِس کی ساکالوتوس کے ساتھ تبدیلی بھی معنی خیز ہے۔ ساکالوتوس کا تعارف سرمایہ داروں کو نہ صرف ایک ’نرم گو‘ شخص کے طور پر کرایا جا رہا ہے (یعنی سمجھوتہ کیلئے تیار) جس سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں بلکہ اس کا تعلق سائریزا کے اندرونی حلقہ سے بھی ہے یعنی ساکالوتوس شاید سائریزا کے ممبران کو زیادہ آسانی سے سمجھوتے پر آمادہ کر سکے۔
سائریزا کیلئے کونسا راستہ؟
مسئلہ یہ ہے کہ اگر سائریزا کی طرف سے کوئی بھی مراعات دی جاتی ہیں تو آنے والے دنوں میں جب مزید قرضوں کی ضرورت پڑے گی تو زیادہ سخت شرائط مالیاتی اداروں کی طرف سے لگائی جائیں گی جس کا حتمی نتیجہ سائریزا کااپنے الیکشن پروگرام سے پسپائی کی صورت میں نکلے گا۔آخر میں حکومت کے پاس دو ہی راستے رہ جائیں گے، یا تو مکمل پسپائی اور الیکشن مینڈیٹ سے انحراف یا پھر قرضے کی عدم ادائیگی اور دیوالیہ۔پہلا راستہ سائریزا کے اندر اندرونی تضادات کو اور شدت سے ابھارے گا جہاں ایک مضبوط بائیں بازو رکا جحان موجود ہے جس کے نتیجہ میں سائریزا میں دائیں اور بائیں بازو کی بنیادوں پر دھڑے بندی ہو سکتی ہے اور حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔ اس تمام کیفیت میں عوام میں شدید مایوسی پھیل سکتی ہے جنہوں نے بڑی تعداد میں سائریزا کو امید کا ووٹ دیا جس کی وجہ سے ایک نمایاں تعداد بائیں بازو کی جانب جھکے گی جبکہ باقی دائیں بازو کی پارٹیوں سے آس لگائیں گے۔ دوسرا راستہ سیدھا دیوالیہ کی طرف جاتا ہے جس کا مطلب یورو کرنسی اور شاید یوروپی یونین سے اخراج ہے اور واپس پرانی کرنسی دراشما کا اجرا ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یہ اقدام معیشت کی بے پناہ گراوٹ اور عوام کے مصائب میں شدت کا باعث بنے گا۔
یورو سے اخراج کے نتائج
بورژوا تجزیہ نگار اس طرح کی صورتحال کے نتائج پر کافی عرصہ سے غور کر رہے ہیں۔ دی انڈی پینڈنٹ اخبار نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل ’’یونان کا انخلا…یورو سے یونان کا انخلا کتنا حقیقی ہے اور اس کے معیشت پر کیا نتائج ہوں گے؟‘‘ میں سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’فوری مالیاتی بحران اور نئی گھمبیر کساد بازاری۔ بیرونی مالیاتی مدد کے بغیر ملک کو دیوالیہ ہونا پڑے گا اور غالباً سرکاری ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلئے اپنی کرنسی چھاپنی پڑے گی۔ ملکی بینک یورپی مرکزی بینک سے مالیاتی فنڈ بھی کھو بیٹھیں گے…ان مالیاتی اداروں کو انہدام سے بچانے کیلئے ایتھنز (دارالحکومت) کو سرمائے کے ملک سے باہرانخلا کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کرنے پڑیں گے۔ نئی یونانی کرنسی کی قدر عالمی طور پر یورو سے کافی کم ہو گی۔ اس کا مطلب درآمدات کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے یونانیوں کے معیارِ زندگی میں یک لخت گر اوٹ ہے اور اگر یونانیوں کو اپنے بیرونی قرضے، جو کہ یورو میں ہیں، واپس کرنے پڑے تو حالات فوراً بدتر ہوں گے۔ دیوالیوں کا جھرن سلسلہ چل پڑے گا۔‘‘
آرٹیکل میں ایک کمزور کرنسی کے نتیجہ میں یونانی برآمدات کے سستے ہونے کی وجہ سے کچھ بحالی کے امکانات پرتحقیق بھی ہے مگر حتمی تجزیہ میں اس کے امکانات’انتہائی غیر یقینی‘ ہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے کی نہ صرف یونان بحران کا شکار ہے بلکہ یورپی معیشت جمود کا شکار ہو رہی ہے اور عالمی معیشت بھی سست روی کا شکار ہے۔ سکڑتی ہوئی منڈی میں سب سے زیادہ پیداواری اور سب سے زیادہ مسابقتی معیشتیں ہی بچ پائیں گی جبکہ باقی ڈوب جائیں گیاور اگر یونان کا دیوالیہ یورپی یونین سے انخلا کا سبب بنتا ہے تو یونان کے پاس یورپی منڈی تک پہنچ بھی محدود ہو جائے گی۔ ساتھ ساتھ دیوالیہ کے نتیجے میں فنڈ کی فراہمی بھی ختم ہو جائے گی۔
ایک آرٹیکل فوربز میگزین میں ’یونان کا یورو سے انخلاء کیوں انتہائی سنگین خیال ہے‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں یہ بھیانک منظرنامہ پیش کیا گیا کہ ’’اصل خطرہ یہ ہے کہ یونان کا دیوالیہ یونانی بینکوں کے لئے گئے قرضوں کو مکمل طور پر بیکار کر دے گا جس کی وجہ سے ان کیلئے ہنگامی فنڈز بھی لا حاصل ہو جائیں گے۔ اس سے یونانی سنٹرل بینک دیوالیہ ہو جائے گا اوریونانی بینکاری کے بے ترتیب انہدام کا عمل شروع ہو جائے گا…عددی اعتبار سے یونان کا زیادہ تر قرضہ بینکوں کے پاس موجود ہی نہیں… یونانی بینکوں کے پاس بھی نہیں… بلکہ یورپی یونین کے مختلف اداروں بشمول یورپی مرکزی بینک، EFSF اور یورو زون کی مختلف حکومتوں اور IMF کے۔ ان تمام اداروں کا یونان کے دیوالیہ ہونے کے باعث بے تحاشہ پیسہ ڈوب جائے گا۔ یہ نا گزیر ہے چاہے یونان کا یورو زون سے انخلاء نہ بھی ہو…جب ایک ریاست دیوالیہ ہوتی ہے تو مالیاتی نظام کو لگنے والا دھچکا دوسری ریاستوں پر ادائیگی کے توازن کے ذریعے اثر انداز ہوتا ہے کیونکہ تجارت فوراً کم ہو جاتی ہے اور سرمائے کا فوری انخلا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ خوفناک اثر ان ممالک پر ہوتا ہے جن کے دیوالیہ ہونے والے ملک کے ساتھ سب سے زیادہ مضبوط تجارتی روابط ہوں۔ یونان کے پیرائے میں یہ یورو زون کے ممالک، روس اور مشرقِ وسطی کے تیل اور گیس برآمد کرنے والے ممالک ہیں۔‘‘
لکھاری ایک دلچسپ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ’’یوروزون میں تیز کسادبازاری ہو گی جس کا اثر اس کے تجارتی شرکاپر بھی ہو گا۔ نواحی ممالک جیسا کہ سپین کی نومولود بحالی ختم ہو جائے گی، مالیاتی خسارہ پھر بڑھے گا اور قرضے کا ملکی پیداوار سے تناسب بڑھ جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ان عوامل کو کنٹرول کرنے کیلئے مزید کٹوتیاں کی جائیں گی جس کے نتیجہ میں عوامی بے چینی بڑھے گی اور الیکشن میں پوڈیموس جیسی پاپولسٹ پارٹیوں کے امکانات مزید روشن ہوں گے۔‘‘
معاشی اور سیاسی وبا
جیسا کہ ہم نے کہا ہے، یونانی وبا کا خطرہ صرف معاشی نہیں ہے بلکہ مندرجہ بالا فوربز کے آرٹیکل کی روشنی میں سیاسی بھی ہے۔ جرمن اور یورپی مالیاتی سرمائے کا رویہ صرف یونانی معیشت کا تجزیہ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ بحرحال، یونان کی کل پیداوار یوروزون کی پیداوار کا صرف 2فیصد ہے۔ وہ با آسانی یونان کو مراعات دے سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یونان کو کوئی بھی مراعت دینے کے بعد دیگر ممالک جن میں آئرلینڈ، پرتگال، سپین اور اٹلی شامل ہیں زیادہ پرزور طریقے سے مراعات مانگیں گے اور ان میں سے آخری دو ممالک بڑی معیشتیں ہیں، خاص طور پر اٹلی جو کہ یوروزون کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کے قرضے کے مقابلے میں یونان کا قرضہ پدی کا شوربہ معلوم ہوتا ہے۔
پوڈیموس کا عروج، جس پر فوربز کے تجزیہ کار نے تبصرہ بھی کیا ہے سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی سازوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ایسا نظر آتا ہے کہ سائریزا نے اہم مراعات جیتی ہیں جس سے بے رحم کٹوتیوں کے خلاف عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے تویہ صورتحال پوڈیموس کو تقویت دینے کا باعث بنے گی جسے سپین میں سنجیدگی سے سائریزا کی طرز پرچلتے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں تمام یورپ میں ملتے جلتے رجحانات کا عروج ہو سکتا ہے جس سے تمام یورپ میں کٹوتیوں کے خلاف تحریک کو مہمیز ملے اور پھر یورپی سرمایہ دار شدید سیاسی انتشار میں گھر سکتے ہیں۔ سرمایہ داروں کو ’مستحکم حکومتیں‘ درکار ہیں جوکردار میں قدامت پرست ہوں یا نام نہاد ’سوشل ڈیموکریٹ‘ ہوں۔ جب قدامت پرستی کٹوتیوں کے اطلاق کے باعث عوامی حمایت کھو دیتی ہیں تو پھر سرمایہ دار بی ٹیم یعنی سوشل ڈیموکریٹس کا سہارا لیتے ہیں اور یوں کٹوتیوں کی پالیسی جاری رہتی ہے۔ لیکن یہ سارا کھلواڑ اب منہدم ہو رہا ہے۔ سوشل ڈیموکریسی نے شدید بے رحم کٹوتیوں کے نفاذ کیلئے کھل کر کردار ادا کیا ہے اور اب انہیں اس کی قیمت عوامی اشتعال کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ یونان میں پاسوک کا انہدام اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں فرانس میں سوشلسٹ پارٹی کا زوال، سپین میں پی ایس او ای، اٹلی میں پرانی کمیونسٹ پارٹی کا مکمل انہدام اور اب برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حالت نظر آتی ہے۔بورژوازی کی نظروں کے سامنے ان کا سیاسی نظام بکھر رہا ہے۔ پہلے دو سیاسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اب سیاسی افق پر مختلف رجحانات ابھر رہے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے پر بورژوازی کو اپنا تسلط قائم رکھنے میں، جس کا مطلب صرف کٹوتیاں اور عوامی تحریکوں کو دبائے رکھنا ہے، دشواری ہو رہی ہے۔
یورپی محنت کش متبادل کی تلاش میں
یورپی عوام کسی بھی طریقہ سے کٹوتیوں کی بے رحم پالیسیوں سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ کسی بھی ایسی سیاسی طاقت کو ووٹ دینے کیلئے تیار ہیں جسے وہ یہ کام کرنے کا اہل سمجھتے ہیں۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ عوام سرمایہ داری سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔ بے شک اس کا ابھی انہیں ادراک نہ ہو مگر سرمایہ داروں کی پالیسیوں کی مخالفت انہیں پورے نظام سے ٹکراؤ کے راستے پر لے جا رہی ہے۔ لمبے عرصے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ناگزیر طور پر ایک انقلاب کی ضرورت ہے جو پورے معاشرے کو تبدیل کر دے۔
یونان کا بحران ہمیں یہی دکھاتا ہے۔ عوام سائریزا سے توقع کرتی ہے کہ وہ الیکشن میں کئے گئے وعدے پورے کرے اور ان کی امید یہ ہے کہ یہ سب کچھ یورپی یونین، یورپی مرکزی بینک اور IMF کے ساتھ ثابت قدمی سے مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن عوام ابھی سیکھنے کے عمل میں ہے کہ سرمایہ داری میں کٹوتیوں کا کوئی متبادل نہیں۔یہاں سائریزا کی کمزوری واضح ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام انقلابی نتائج اخذ کرنے کے قابل نہیں اور اسی وجہ سے وہ نیم اقدامات اور سمجھوتے کر رہے ہیں۔ لیکن یہ وقت سمجھوتوں کا نہیں۔ بورژوازی کے سنجیدہ حصے ویسے بھی تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ اگر ایک نہیں تو زیادہ سے زیادہ دو سالوں میں یونان اپنے بحران کی وجہ سے یوروزون سے باہر ہو جائے گا۔ایک بار جب ایسا ہو جائے گا تو سائریزا میں ضروری عملی اقدامات کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے، یعنی تمام یونانی بینکاری کو قومی تحویل میں لینا، سرمایہ داروں کو نظام سے باہر کرنا اور ان کے تسلط میں موجود تمام دولت کو قبضے میں لیتے ہوئے معیشت کی سوشلسٹ بنیادوں پر از سرِ نوتعمیر۔ یونانی عوام کیلئے یورپی یونین ا ور یورو میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر شمولیت برقرار رکھنے کا مطلب ہے نہ ختم ہونے والی کٹوتیاں اور اس سے جڑی ذلت و اذیت۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورو اور یورپی یونین سے اخراج کا مطلب مکمل معاشی بربادی اور معیارِ زندگی میں شدید اور مسلسل گراوٹ ہے۔باہر نکلنے کا واحد راستہ دیانت داری سے یونانی عام کو آگاہی دینا اورمعاشرے کی ایک سوشلسٹ تبدیلی کی جانب انقلابی تبدیلی ہے۔
متعلقہ:
سپین: ’’پوڈیموس‘‘ کی ریلی میں انسانوں کا سمندر