برطانوی انتخابات: ٹوریز کی کامیابی، عوام کی بربادی

 |تحریر: روب سویل، ترجمہ: حسن جان |

لندن شہر کے سرمایہ دار اور بڑے کاروباری اپنے ٹوری پارٹی کے دوستوں کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں سجی ہیں اور شیئرز کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ امیروں کی پارٹی دارالعوام میں غیر متوقع اکثریت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اقتدار میں ہے۔ یہ امیروں کی، امیروں کے ذریعے اور امیروں کے لیے حکومت ہوگی۔ سرمایہ دار سکھ کا سانس لے رہے ہیں کیونکہ ان کی لوٹ مار کو ٹوری حکومت میں زیادہ تحفظ ملے گا۔
اس کے برعکس برطانیہ کے لاکھوں محنت کشوں کو اس خبر سے شدید صدمہ پہنچا کہ کیمرون اور اس کا ٹولہ، اگرچہ معمولی اکثریت کے ساتھ، دوبارہ اقتدار میں پہنچ گیا ہے۔ برطانیہ کے محنت کشوں کو پھر سرمایہ داری کے بحران کا خمیازہ بھگتنے کے لیے سالوں تک معاشی حملوں اور کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فلاحی اخراجات میں 12ارب پاؤنڈ کی کٹوتی سے سماج کے سب سے پچھڑے ہوئے حصے، بیمار، بوڑھے اور کمزور متاثر ہونگے۔ خاص طور پر نوجوان اور خواتین ٹوری حکومت کی دیو ہیکل کٹوتیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔

لبرل پارٹی کا انہدام
یہ انتخابات برطانیہ کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی غمازی کرتے ہیں۔ دہائیوں تک ویسٹ منسٹر پر صرف تین جماعتوں کا غلبہ تھا۔ ٹوری، لیبر اور لبرل (جو اب نام تبدیل کرکے لبرل ڈیموکریٹ ہے)۔ لیکن آخر الذکر اب تتر بتر ہو چکی ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس کو عوام نے ٹوریز کا ساتھ دینے پر ان کے کیے کی سزا دی ہے۔ ان کودرست طور پر اتحادی حکومت کے جرائم میں برابرکا شریک سمجھا جا تا ہے جس سے انہیں ہزیمت اور انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 49 نشستیں گنوا کر پارلیمنٹ میں ان کی 8 نشستیں باقی رہ گئی ہیں۔
ونس کیبل (وزیر کاروبار)، ڈینی الیگزنڈر (وزیر خزانہ) اور ایڈ ڈیوی (وزیر توانائی) سب نے غداری اور موقع پرستی کے سبب اپنی نشستیں کھو دیں۔ ان کا لیڈر نک کلیگ اپنی نشست بچا پا یاکیونکہ اس کے شیفیلڈ کے حلقے میں ٹوریز نے حکمت عملی کے طور پر اسے ووٹ دلوائے۔ لیکن دوسرے تجربہ کار لبرل ڈیموکریٹ جیسے سائمن ہگس اور چارلس کینیڈی کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ پارٹی کی تباہ کن شکست کی وجہ سے نک کلیگ کو ذمہ داری قبول کرکے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دینا پڑا۔
ملی بینڈ کی شکست اور بلیرائٹس کی پیش قدمی
Peter-Brookes-cartoonلیبر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈ نے فتح کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے برعکس لیبر پارٹی کو 1987ء کے بعد سب سے بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی نے گورڈن براؤن کی قیادت میں 2010ء کی نسبت 23 نشستیں کم حاصل کی ہیں۔ مثال کے طور، ایڈ بالز، لیبر پارٹی کا شیڈو چانسلر اور کٹوتیوں کے پروگرام کا معمار، ٹوری پارٹی سے شکست کھاکر اپنی نشست گنوا بیٹھا۔ سکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کے نئے دائیں بازو کے رہنما جیم مرفی اور کمپین منیجر ڈگلس الیگزنڈر بھی شکست سے دوچار ہوئے۔
ناامیدی کا یہ عالم تھا کہ ایڈ ملی بینڈ نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا جس سے نئی قیادت کے لیے دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ دھاندلی پر مبنی نئے انتخابی قوانین کی رو سے کوئی بائیں بازو کا امیدوار سامنے نہیں آسکتا۔ پہلے سے ہی پر جوش مفاد پرست بلیر ائٹس (ٹونی بلیر کے پیروکار) کی ایک نئی نسل کے نمائندے قیادت پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں جن میں سے ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر قابل نفرت ہے۔
یقین نہیں آتا کہ پانچ سال کی ظالمانہ کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کے بعد بھی لیبر پارٹی ٹوریز کو شکست دینے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ اس کی تمام تر ذمہ داری پارٹی کی دائیں بازو کی قیادت پر آتی ہے جو سنجیدہ انداز میں ٹوریز کا مقابلہ نہ کر سکی اور ایسا پروگرام دیا جو کیمرون کی کٹوتیوں کا واضح متبادل نہیں تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ملی بینڈ نے الیکشن کے دوران لبرلز اور ٹوریز سے اپنے آپ کو الگ دکھانے کی مبہم سی کوشش کی لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔
اضافی تنخواہ پر رکھے ہوئے ’ہوشیار‘ امریکی مشیر پر قیادت کا انحصار تباہ کن ثابت ہوا۔ پانچ سالوں کی گماشتگی کی پالیسی کے بعد، لوگ لیبر پارٹی کے وعدوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کون انہیں مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے؟ لیبر پارٹی کے منشور کے پہلے صفحے پر’مزید آسٹیریٹی‘ کی ضرورت کو واضح انداز میں لکھا گیا تھا۔ مزید کٹوتیوں پر مبنی پروگرام لوگوں کو لیبر پارٹی کو ووٹ دینے پر قائل نہیں کر سکتا۔ نتائج سے یہ بات واضح ہے۔

ایس این پی کی بر تری
حسب توقع، بلیرائیٹس اور ٹوری ذرائع ابلاغ لیبر پارٹی کی شکست کے لئے پارٹی کے ’’کافی بائیں جانب جھکاؤ ‘ ‘اور ’کاروبار مخالف‘ ہونے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیبر پارٹی ’’بائیں جانب‘‘ نہیں بلکہ انتہائی دائیں جانب جھکاؤ کی وجہ سے ہاری ہے۔ سکاٹ لینڈ میں ایس این پی (سکاٹش نیشنل پارٹی) نے بائیں جانب سے لیبر پارٹی پر حملہ کیا اور کامیاب رہی۔
سکاٹش نیشنل پارٹی کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ اس نے آسٹیریٹی مخالف پروگرام دیا، ٹرائیڈینٹ پروگرام کی منسوخی اور دوسری ریڈیکل پالیسیوں کا اعلان کیا۔ انہوں نے ٹوری مخالف کارڈ کا استعمال کیا اور یہ پیش کش کی کہ وہ آسٹیریٹی مخالف لیبر حکومت کی حمایت کر ے گی۔ اس پیش کش کو ایڈ ملی بینڈ نے جاہلانہ انداز میں مسترد کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ایس این پی کی نشستیں 6 سے بڑھ کر 56 ہو گئیں جو سکاٹ لینڈ میں سیاسی سونامی کے مترادف ہے جہاں ووٹنگ کی شرح 50 فیصد رہی۔ ویسٹ منسٹر کی باقی تینوں پارٹیاں بہت نیچے چلی گئیں اور ہر ایک کو صرف ایک ایک نشست مل سکی۔
تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی اتھل پتھل میں لیبر پارٹی کی 40 نشستیں پلک جھپکنے میں ایس این پی لے اڑی جس میں گورڈ ن براؤن کا پرانا حلقہ بھی شامل ہے۔ شمال مشرقی گلاسگو میں لیبر پارٹی کی 39 فیصد حمایت ایس این پی کی جھولی میں چلی گئی۔ پورے سکاٹ لینڈ میں اسی طرح کی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
یہ لرزہ خیز تبدیلیاں اس جھوٹ کو بے نقاب کر تی ہیں کہ لوگ بائیں بازو کی پالیسیوں سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ ایک زمانے میں لیبر پارٹی کی سکاٹ لینڈ میں مضبوط بنیادیں تھیں لیکن سالوں کی دائیں بازو کی پالیسیوں اور سوشلسٹ پالیسیوں کو ترک کر دینے سے لوگ اس سے مایوس ہو گئے۔
لیبر پارٹی کے بہت سے سابقہ ووٹرز نے کہا ہے کہ انہوں نے لیبر کو نہیں چھوڑا بلکہ لیبر پارٹی نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے ٹونی بلیر اور عراق جنگ کا حوالہ دیا۔ ریفرنڈم کی مہم کے دوران لیبر پارٹی کا ٹوریز اور لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد بھی پارٹی کی انتخابی شکست کی بڑی وجہ تھی۔ ویسٹ منسٹر کی تمام پارٹیوں، بشمول لیبر پارٹی، کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام نے ان سب کو بوسیدہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ قرار دیا۔

الوداع نیگل!
لیبر پارٹی کے لیے کچھ روشن پہلو بھی تھے جیسا کہ لند ن جہاں اس نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ مانچسٹر، لیور پول، برمنگھم اور تمام صنعتی علاقوں میں بھی یہی ہوا۔ حتیٰ کہ UKIP، جو خود کو اسٹبلشمنٹ مخالف پارٹی کے طور پر پیش کر تی ہے، با لخصوص شمالی انگلینڈ میں لیبر پارٹی کے ممکنہ ووٹرز کی حمایت لے اڑی۔ لیبر پارٹی نے ٹوریز کی کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی لیکن ٹوریز سے کئی جگہوں پر شکست بھی کھائی۔
تاہم UKIP کی بڑی کامیابی کی باتیں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں۔ وہ اپنی ایک سیٹ برقرار رکھ سکی جہاں کینٹ میں ٹوریز سے الگ ہونے والا نمائندہ کامیاب ہوا، لیکن دوسری سیٹ ہا ر گئی۔ UKIP کا لیڈر فراج نیگل اپنی سیٹ بھی ہار گیا۔ اس ناکامی پر اس نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا۔ فراج کے بغیر UKIP کچھ بھی نہیں خاص طور پر اب جبکہ ٹوریز نے یورپی یونین کے معاملے پر ریفرنڈم کا وعدہ کرکے ان کا پروگرام چرا لیا ہے۔
گرین پارٹی، جس نے کٹوتی مخالف پروگرام پر الیکشن لڑا، نے اپنے ووٹ میں اضافہ کیا۔ تقریباً دس لاکھ افرادنے گرین پارٹی کو ووٹ دیا جس میں ریڈیکلائزڈ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدا د شامل ہے۔ برائٹن پیولین سے گرین پارٹی کی واحد ممبر پارلیمنٹ کیرولین لوکاس نے اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا۔ لیکن دوسری جگہوں میں چھوٹی جماعتوں کے مخالف انتخابی نظام کی وجہ سے گرین پارٹی ایک سیٹ بھی جیت نہ سکی۔

یورپی یونین سے علیحدگی، برطانیہ کی تقسیم
کیمرون بمشکل ہی وزیر اعظم بن پا یا ہے۔ 1992ء کے بعد پہلی دفعہ پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے۔ تاہم سادہ اکثریت سے یہ حکومت مستحکم نہیں ہوگی۔ یورپی یونین میں رہنے یا چھوڑنے کے معاملے پر 2017ء میں ریفرنڈم کرانے کے وعدے پر ان کے بیچ سنجیدہ اختلافات جنم لیں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ جان میجر کے دور میں ٹوریز کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے اپنی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والوں کو ’’ حرامی ‘‘ کہا تھا۔ برطانوی سرمایہ داروں کے بڑے حصے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں نہیں۔ لیکن اس بات کے امکانات ہیں کہ وہ یورپ کے اوپر ریفرنڈ م ہار جائیں جس کے خطرناک نتائج ہونگے۔
Pg-02-dave-brownاسی طرح سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حوالے سے اگر دوسرا ریفرنڈم ہو تا ہے تو یہ بالکل ممکن ہے کہ اکثریت ’’ہاں‘‘ کے حق میں ووٹ دے۔ یہ بات واضح ہے کہ 2016ء میں ایس این پی والے ہولی روڈ کے الیکشن میں جیت جائیں گے۔ کیمرون پارٹی کے سیاسی مقاصد کی وجہ سے انگلش قوم پرستی کو موقع پرستانہ ہوا دے کر آگ سے کھیل رہا ہے۔ ٹوری حکومت جب مزید کٹوتیاں لاگو کرے گی تو سکاٹ لینڈ کے عوام مزید آزادی اور برطانیہ کی تقسیم کی طرف جائیں گے۔
نئی ٹوری حکومت غیر مستحکم اور ہر طرح کے بحران اور تقسیم کی زد میں ہوگی۔ پچھلی اتحادی حکومت کے خلاف لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونین قیادت کی نااہلی کی وجہ سے کوئی عوامی تحریک موجود نہیں تھی لیکن محنت کش طبقے میں زبردست بغاوت پنپ رہی ہے جو اب کی بار پھٹ سکتی ہے۔ جب ٹوریز کٹوتیوں میں شدت لائیں گے تو بہت جلد انہیں سڑکوں پر عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹریڈ یونین کی قیادت اس بغاوت کو زیادہ دیر تک روک نہیں سکے گی۔

انتشار، بحران اور جدوجہد
برطانیہ کے حالات اتنے غیر مستحکم کبھی بھی نہیں تھے۔ بے چینی مزید بڑھے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب تک سکاٹ لینڈ کے علاوہ سیاسی طور پر اس کا براہ راست اظہار نہیں ہوا۔ یہ ’’اکثریتی ‘‘ ٹوری حکومت در حقیقت 35 فیصد رائے دہندگان کی بنیاد پر بنی ہے ( کل اہل رائے دہندگان کا 24 فیصد) جو استحکام سے بہت دور کی بات ہے۔ جب ان کا حقیقی کردار سامنے آئے گا تو لاکھوں لوگوں کے سامنے وہ اپنی وقعت کھو دیں گے۔ خوشحالی کے تمام تر وعدے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوں گے۔ زوال پذیر معیشت میں معاشی حساب کتاب کو ہم آہنگ کر نے کی تمام تر کوششوں کی قیمت محنت کش طبقے کو ادا کرنی پڑے گی۔
جب بحران یورپ میں پھیلے گا تو مزید کٹوتیاں کرنی پڑیں گی۔ فلاحی اخراجات کو قبل از جنگ کی سطح پر لانے کا مطلب وکٹورین دور کی طرف واپسی ہوگی جو ٹوری حکومت کے خلاف غصے اور عوامی مزاحمت کو بھڑکائے گی۔ پچھلی حکومت میں انہوں نے صرف 40 فیصد کٹوتی لاگو کی تھی بقیہ 60 فیصد کٹوتی اس حکومت میں کریں گے۔
جب ٹوری حکومت کٹوتیا ں لاگو کرے گی تو امیر امیر تر اور غریب مزید غریب ہو جائیں گے۔ یہ برطانیہ میں کھلی طبقاتی جنگ کا پیش خیمہ ہو گا۔ سرمایہ داری کی اصلاح کرنے کی لیبر پارٹی کی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ ٹوریز کی نقالی کرنے کی بجائے مزدور تحریک کو سماج کی تبدیلی کے پروگرام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ سرمایہ داری کے تحت محنت کش طبقے کے لیے سوائے کٹوتی اور بربادی کے کچھ بھی نہیں۔ صرف سماج کی سوشلسٹ خطوط پر تنظیم نو ہی اس بربادی سے نجات دے سکتی ہے۔
معیشت کے کلیدی حصوں، بینک، انشورنس کمپنیوں اور بڑی اجارہ داریوں کو ضبط کر کے ہی ہم جمہوری انداز میں معیشت کی منصوبہ بندی کر کے اس کو محنت کش طبقے کے مفاد میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہم اچھی اجرت والی ملازمت، اچھی رہائش اور اپنے بچوں کے لیے مفت تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ اتنے وسائل ہونگے جس سے معیار زندگی بلند ہوگا اور سرمایہ دارانہ کٹوتیوں کا خاتمہ ہوگا۔ برطانوی عوام ایک ریڈیکل پروگرام کے متلاشی ہیں۔ اس طرح کا پروگرام اگر پیش کیا جاتا ہے تو بھاری اکثریت سے ہر جگہ جیتے گا۔
یہ انتخابات معاملے کا اختتام نہیں بلکہ صرف آغاز ہیں۔ ہم عالمی سطح پر ایک طوفانی دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ برطانیہ میں آنے والے دور میں طبقاتی جد وجہد مزید تیز ہو گی۔ ہمیں اس کی تیاری کر نی ہوگی۔ صرف مارکسزم کے نظریات ہی محنت کش طبقے کو تیز اور اچانک تبدیلیوں کے دھماکہ خیز دور کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔ فوری فریضہ مارکسی رجحان کی تعمیر ہے جس میں کسی طرح کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

متعلقہ:

سکاٹ لینڈ کی ہچکچاہٹ

سوشل ڈیموکریسی: انقلابی سوشلزم کا سبوتاژ!

یورپی یونین کا مستقبل؟

یورپ کا سیاسی انتشار

یورپ: برداشت، بغاوت اور انقلاب