گوجرانوالہ: یوم مئی کے موقع پر خواتین کی تربیتی نشست

| رپورٹ: ناصرہ وائیں |

گوجرانوالہ میں یومِ مئی کے سلسلے میں خواتین کی ایک تقریب کا انتظام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی، اکثریت گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ، اسلامیہ کالج گوجرانوالہ، ماڈل ٹاؤن کالج گوجرانوالہ اور گجرات یونیورسٹی کی طالبات کی تھی۔
women meeting on may day in gujranwala (2)سب سے پہلے مشعل وائیں کو لیبر ڈے کا تفصیلی تعارف کروانے کی دعوت دی گئی۔ مشعل وائیں نے مزدوروں کے عالمی دن کے تعارف میں Haymarket Affair کے بارے میں تفصیلی گفتگو رکھی اور مزدوروں کی اس دور کی اور آج کی مشکلات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے اپنی بات کا آغازکمیونسٹ مینی فیسٹو کے ان الفاظ سے کیا تھا، ’’آج تک تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے جو کہ دو بڑے طبقوں بورژوا اور پرولتاریہ میں بٹتی جا رہی ہے…‘‘ اور اختتام بھی کمیونسٹ مینی فیسٹو ہی کے ان الفاظ سے کیا: ’’لیکن بورژوا طبقے نے صرف وہ ہتھیار ہی نہیں ڈھالے جو اس کی موت کا پیغام لا رہے ہیں۔ وہ ان آدمیوں کو بھی وجود میں لے آیا ہے جو یہ ہتھیار اٹھائیں گے، یعنی پرولتاریہ، جدید مزدور طبقہ۔ ‘‘
اس کے بعد سلمیٰ نے کارل مارکس کے کتابچوں ’’مزدوری اور سرمایہ‘‘ اور ’’اجرت، قیمت اور منافع‘‘ سے مدد لیتے ہوئے آج کے دور میں مزدور کے حال اور مستقبل کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ اس کے بعد سحر وائیں نے ’’تجدید عہد‘‘ کے عنوان سے ایک نظم پڑھی۔ مدیحہ نے مزدوروں کے حالات پر اپنی شاندار کنٹری بیوشن کی جس میں ان کے محلے اور ارد گرد کے مزدوروں کی وہ باتیں شامل تھیں جو کہ کامریڈ کے ذاتی مشاہدے پر مبنی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ مزدوروں کو اجرت یوں دی جاتی ہے گویا یہ ان کا حق نہیں بلکہ ان پر احسان کیا جا رہا ہے۔ مزدور کے بچے ٹی وی پر اشتہارات دیکھ کر اگر کوئی چیز مانگتے ہیں تو انہیں یہی سننا پڑتا ہے کہ یہ چیزیں ان کے لئے نہیں ہیں۔
women meeting on may day in gujranwala (1)مہمان کے طور پر آئی ہوئی طاہرہ نے تقریب کو سراہا اور کہا کہ جس طرح سے محنت کش طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے اور جس جدوجہد کی یہاں بات کی جارہی ہے اسے محض خود تک محدود نہیں رکھنا چاہیئے۔ کیوں کہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے اپنے ذہنوں میں ابھرنے والے خیالات کو دوسروں تک پہنچانا بھی مشترکہ جدوجہد کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں ان تمام باتوں کو اپنے گھروں میں جا کر بھائیوں سے گھر والوں سے اور دیگر افراد سے تبادلے میں لانا چاہیئے تاکہ ان پروگراموں کا زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے پھر ایک شعر پڑھ کے اپنی بات ختم کی۔ مہمان کے طور پر آئی ہوئی عرشہ بٹ نے مزدوروں کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ جن پر بیتتی ہے جب ہم ان کے استحصال کی بات کو ان ہی کی زبانی سنتے ہیں تو دل پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ انہوں نے مزدور دن کے موقعے کی مناسبت سے دو شعر بھی پڑھے۔ مہمان کے طور پر آئی ہوئیں ریما نے حق پر بات کی اور یہ سوال رکھا کہ اس سماج میں جو حق تلفی کی جاتی ہے اس کے خلاف (انفرادی طور پر) کیا کیا جا سکتا ہے؟
فروہ نے کچھ باتیں اپنے ارد گرد موجود توہم پرستی پر کیں اور اقرا نے محنت کشوں کی قدیم تاریخ کے متعلق مختصر بات رکھی۔ اس کے بعد ناصرہ وائیں نے پرولتاریہ کے بارے میں بتایا کہ کس طرح سرمایہ داری نے ماضی میں مقدس سمجھے جانے والے پیشہ ور افراد کو مزدوروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اب استاد اور ڈاکٹر بھی اسی صف میں شامل ہیں۔ کام کرنے والی خواتین دوہرے تہرے استحصال کی شکار ہیں۔ وہ جہاں بھی کام کریں ان کی اجرت کم ہے۔ احتجاج کریں تو میڈیا ان کے احتجاج کو اول تو دکھاتا ہی نہیں یا پھر ان کے احتجاج کو انتہائی منفی انداز میں پیش کرتا ہے۔ جیسے کچھ کام چور، لالچی اور احمق مزدور حکومت مخالف لوگوں کے بہکاوے میں آ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک احتجاج چند دن پہلے ہم سب نے دیکھا جو کہ درجہ چہارم کے ملازمین کی جانب سے خیبر پختون خواہ میں کیا گیا تو اس حکومت نے ان پر گولیاں چلوائیں جن کا وزیر اعلیٰ خود کئی ماہ تک پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے میں ’’احتجاج‘‘ کے نام پر شریک ہوتا رہا۔ ان نہتے مزدوروں پر ہوائی فائرنگ صرف پولیس ہی نے نہیں کی بلکہ پاک فوج کے جوان بھی نظر آرہے تھے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے احتجاج کو صوبائی اسمبلی کے سامنے کرنا چاہتے تھے۔
پروگرام کے آخر میں صبغت وائیں نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا اور کہا کہ بعض نیک نیت ’’دانشور‘‘ شاید خود بھی یہ سمجھتے ہیں اور ہمیں بھی یہ سمجھانے کی کوشش میں مسلسل مصروف ہیں کہ آخر کوئی دن ایسا آئے گا جب ان دھن والوں کو اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ ہمیں ان غریب لوگوں کی مدد کرنی چاہیے اس سے انسانیت کو بھی سُکھ ملے گا اور اس سے خدا بھی راضی ہو گا۔ اس طرح سے سرمایہ دار اپنا وہ پیسہ جو کہ انہوں نے اور ان کے باپ دادا نے مختلف حیلوں حربوں سے جمع کیا ہے لوگوں میں بانٹنا شروع کر دیں گے اور ان میں سے چند ارب پتی ہی ہوں گے جو کہ دنیا سے دکھوں اور تکلیفوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن یہ صرف ایک دھوکا ہے جو کہ نسلوں سے ہمیں دیا جا رہا ہے اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لئے صرف ایسی جدوجہد کی ضرورت ہے جو کہ سوشلسٹ نظام سے ہوتے ہوئے کمیونزم کی طرف جائے۔ ہمارے پاس ہتھیار کے طور پر ہمارا تعقل ہے اور ہماری تعداد۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہم شعوری جدوجہد کو اجتماعیت میں کریں۔ اس کے لئے ہمیں آپ جیسے پڑھے لکھے نوجوان خواتین اور مردوں کی ضرورت ہے جو کہ اس جدوجہد کو بڑے پیمانے پر پھیلائیں تاکہ انقلاب کے لمحات جلد قریب آ سکیں۔