اداریہ جدوجہد:-
قومی غیرت، حب الوطنی، ملکی سا لمیت اور ’’وطن کے تقدس‘‘ کا درس دینے والے حکمرانوں نے اسی وطن کے ریاستی اثاثوں کی نیلامی کا بازار یوں سجایا ہے جیسے نشے کے عادی افراد گھر کے برتن بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ نجکاری کے بارے میں حکمران صحافت اور دانش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اس عمل سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے، سہولیات کی فراہمی زیادہ فعال ہوجاتی ہے، سرمایہ کاری آتی ہے، قرضے اترتے ہیں اور معاشی ترقی ہوتی ہے۔نجکاری کے ان ’’فضائل‘‘ کا جتنا ہی پرچار کیا جاتا ہے، اس ملک کے باسیوں کا اتنا ہی برا حشر یہ نجکاری کر رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں ’’نجکاری‘‘ کا مطلب ملک کی اپنے اثاثوں سے محرومی، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ عوام کے پیسے اور محنت کشوں کے خون پسینے سے تعمیر ہونیوالے ادارے سرمایہ داروں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دینے سے معیشت کے ڈھانچے اپاہج ہوجاتے ہیں۔ نجکاری اس نظام زر کے ناسور کا وہ ذریعہ ہے جس سے اس کا زہریلا خون آتا ہے۔ اس سماج کے جسم میں اس نظام کا یہ ناسور سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست میں ہر حکومت کو نجکاری کے لئے مجبور کر دیتا ہے کیونکہ یہ اس نظام کی بقا اور ان حکمرانوں کی حکمرانی اور تعیش کے لئے ناگزیر ہے۔ لیکن تعلیم اور علاج جیسے بنیادی سماجی شعبوں کی نجکاری سے عوام کی محرومی مزید بڑھتی ہے۔ جہاں تک نجکاری کے ذریعے اداروں کے ’’فعال‘‘ ہونے کا تعلق ہے تو حکمران طبقے کے اپنے معیشت دانوں کی تحقیقاتی رپورٹیں اس مفروضے کو رد کرتی ہیں۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابقہ چیف اکانومسٹ ڈاکٹر پرویز طاہر اور ان کی ٹیم نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پچھلے 30 سالوں میں جن اداروں کی نجکاری کی گئی ہے ان میں سے 90 فیصد کی کارکردگی پہلے سے بدتر ہوئی ہے۔ جہاں تک حکومت کی آمدن میں اضافے کا تعلق ہے تو اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں۔ جن اداروں کی نجکاری کی گئی ہے ان میں سے اکثر کو اب بھی حکومت سبسڈی دے رہی ہے۔پرویز طاہر کی رپورٹ کے مطابق ’’1988ء میں معاشی نمو میں اضافے اور غربت اور قرضے میں کمی کے نام پر نجکاری کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک مقصد بھی پورا نہیں ہوپایا۔‘‘
نجکاری کے بعد کے ای ایس سی کی حالت سب کے سامنے ہے جو سالانہ 70 ارب روپے کی سبسڈی اب بھی حکومت سے لے رہا ہے۔ گرِڈ سے حاصل کی جانے والی سستی سرکاری بجلی اس کے علاوہ ہے جسے صارف کو مہنگے داموں بیچا جارہا ہے۔ طویل لوڈ شیڈنگ اور بجلی کا تعطل آج بھی کراچی کا معمول ہیں۔ ادارے کی اپنی پیداواری صلاحیت کا صرف 50 فیصد استعمال ہورہا ہے۔ 1995ء کے بعد لگنے والے IPPs کا جائزہ لیا جائے تو ہولناک صورتحال اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔صرف 25فیصد نجی سرمایہ کاری (باقی 75 فیصد عوام نے بھرا) سے لگنے والے یہ IPPs اب تک 75 ارب ڈالر سے زائد اس ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کر چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 67 ارب ڈالر ہے۔آخر یہ کون سے ’’خاص لوگ‘‘ ہیں جن پر یہ حکمران محنت کش عوام کی خون پسینے کی کمائی لٹائے جارہے ہیں؟ یہ وہی سامراجی اور ’’قومی‘‘ سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنی دولت کے بلبوتے پر سیاست، صحافت اور ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان اداروں میں جو کوئی بھی آئے گا اس مافیا کا کارندہ ہی ہوگا۔ پیسے کی یہ سیاست بھی اسی حکمران طبقے کے سرمائے پر چلتی ہے، میڈیا میں بھی انہی کا سرمایہ انویسٹ ہوتا ہے اور پھر یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی معاشی پالیسی بنے اور چلے گی۔ محنت کش عوام کو کچھ دینا تو دور کی بات، یہ طبقہ ان کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لینے کے درپے ہے۔ لیکن یہ کھلواڑ کب تلک چل سکتا ہے؟
تاریخ کا قانون ہے کہ جو طبقہ اپنی بقا کی جنگ خود نہ لڑ سکے اس کی لڑائی کوئی اور نہیں لڑتا۔ محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ صرف اور صرف محنت کش طبقہ خود ہی ادا کرسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی روایتی قیادتیں سرمائے کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کی دلال بن گئی ہیں۔ بہت سے یونین لیڈر مزدوروں کی نمائندگی کرنے کی بجائے ٹھیکیداری نظام میں کمیشن ایجنٹ بن چکے ہیں۔ سابقہ بائیں بازو کے دانشوروں نے تو محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکار کردیا ہے۔ وقت اور حالات سے ہارے ہوئے یہ ضمیر فروش جو بھی کہتے اور کرتے رہیں لیکن طبقاتی معاشرے میں طبقاتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ایک طویل عرصے سے طبقاتی جدوجہد پاکستان میں ماند پڑی رہی ہے۔ حکمرانوں کے لانگ مارچوں، جعلی انقلابوں اور ’’ترقی‘‘ کے دیوہیکل مگر منافع بخش منصوبوں کے شور میں اس بغاوت کو ہمیشہ کے لئے نہیں دبایا جاسکتا۔ پہلے OGDCL کے محنت کشوں نے جرأت مندانہ اور برق رفتار تحریک کے ذریعے نجکاری کا وار پسپا کیا ہے۔ اب واپڈا کے محنت کش میدان میں اتر رہے ہیں۔ دوسرے شعبوں کے محنت کش بھی اس طبقاتی جنگ میں صف آرا ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک نئی تحریک ابھرنے کے آثار واضح ہورہے ہیں۔ لیکن مختلف اداروں کی علیحدہ علیحدہ تحریکوں سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے۔ سب کو ساتھ مل کر لڑنا ہوگا۔ محنت کش طبقے کی ہر پرت کو یکجا ہونا ہوگا۔ پروگرام، مقاصد اور مطالبات کو آگے بڑھانا ہوگا، انقلابی لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ جدوجہد کو اس نظام زر کے خاتمے سے مشروط کرنا ہوگا۔
اس تحریک کا کلیدی مطالبہ تمام کلیدی شعبوں کی نیشنلائزیشن ہونا چاہئے۔ لیکن کروڑ پتی CEOs اور منیجروں کو اداروں پر مسلط کرنے والی نیشنلائزیشن محض بدعنوانی کا باعث بنی ہے۔ ادارے تب تک نہیں چل سکتے جب تک محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں نہ ہوں۔ نجکاری کے خلاف تحریک کو اجتماعی سہولت کے تمام شعبوں سے جوڑنا ہوگا۔ اس نظام میں اصلاحات نہ صرف ناممکن ہیں بلکہ محنت کش طبقے کی شکست و ریخت کا باعث بنتی ہیں۔ اصلاح پسندی کے نظریات اور سیاست نے پہلے ہی عوام کو بہت زخم دئیے ہیں۔ اب کی بار ’’اصلاحات نہیں انقلاب‘‘ کا نعرہ لگانا ہوگا۔ اس طبقاتی جنگ کو جیتے بغیر، سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کئے بغیر کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکتا۔