| تحریر: تہذیب سحر |
جس تیزی سے عالمی معیشت سکڑ رہی ہے اسی تیزی سے اس کے منفی اور تباہ کن اثرات پورے انسانی سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ امریکہ، روس، چین، جاپان اور جرمنی جیسی عالمی طاقتیں بھی اس بحران سے محفوظ نہیں رہ سکی ہیں۔ سماجی گراوٹ، جنگ و بربریت اور مستقبل سے مایوسی انسانی تہذیب کو انہدام کی طرف لے جارہے ہیں۔آگے کی طرف سماجی ارتقا کی بجائے اب یہ نظام پسماندی، جہالت اور خوف و دہشت پھیلا رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ محنت کشوں کی چھوٹی چھوٹی بغاوتیں بھی امید جگا رہی ہے کہ بڑی بغاوت جنم لینے کو ہے۔
غربت، بیروزگاری، دہشت گردی اور سماجی خلفشار نے دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی کو متاثر کیا ہے جس میں خواتین اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سعودی بادشاہت ہو یا ایرانی ملائیت، امریکی لبرل ازم یا چین میں ریاستی سرمایہ داری،ہر طرز حکومت کی اساس موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس سماج میں عورت کی حیثیت ایک جنس سے زیادہ نہیں ہے۔ معاشی زوال کے اس دور میں جس طرح بڑی بڑی ریاستیں گررہی ہیں اسی طرح وہاں کے عوام کا معیار زندگی بھی بد سے بدتر ہورہا ہے اور خواتین کی حالت بالخصوص ناقابل بیان حد تک خطرات سے دوچار ہے۔
ورلڈ بینک کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی تعداد ساڑھے تین ارب ہے۔ ان اربوں خواتین میں صرف 30 یا 40 فیصد پڑھنا لکھنا جانتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں یہ شرح اور بھی کم ہے۔پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 260 خواتین زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں جو دنیا میں بلند ترین سطح ہے۔ 61.9 فیصد خواتین صرف گھروں میں گھریلو خدمات سرانجام دیتی ہیں اور ان کی کوئی اُجرت مقرر نہیں ہوتی۔ باقی 39 فیصد خواتین انتہائی کم اجرت پر اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔
پوری دنیا میں خواتین کے حقوق اور بہبود کے لیے لاکھوں NGOs اور خیراتی تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ ہر سال قابل علاج بیماریوں سے کروڑوں خواتین اور بچے ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ صحت اور علاج معالجے کے لیے درکار مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی 80 فیصد آبادی ضروری اور بنیادی وسائل سے محروم ہے۔ غذائی قلت سے خواتین میں (Anemia) ’’خون کی کمی‘‘ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فولاد کی کمی، حمل میں غذائی کمی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بچے بھی کمزور اور Anemia کا شکار ہوکر پیدا ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ سماجی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خواتین کا سیاست اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ بہت کم ہے۔ مذہبی جنون اور دہشت گردی میں خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہورہا ہے۔ بیروزگاری، بیماری اور بھوک سے جہاں محنت کش طبقہ کلی طور پر متاثر ہے وہیں خواتین اور بچے خصوصی طور پر متاثر ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ انہیں باصلاحیت بنا کر ان کی محنت کا زیادہ سے زیادہ استحصال کیا جاسکے۔ایک طرف گھریلو بلا معاوضہ محنت اور پھر سرمایہ دار کی تجوری کے لیے محنت سے خواتین تھکن اور نقاہت کا شکار ہیں۔ ان کی زندگیاں آسان ہونے کی بجائے مزید ابتری اور گراوٹ کا شکار ہیں۔اسی طرح غیر ترقی یافتہ ممالک سے بڑے پیمانے پر خواتین اور لڑکیوں کی بڑے ممالک میں سمگلنگ ہورہی ہے۔ یہ وہی مجبور و بے بس خواتین ہیں جن کو تعلیم اور روزگار میسر نہیں اور جو پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنی مجبوریوں کے تحت یہ روش اپناتی لیں جبکہ بعض خواتین اور نابالغ بچیوں کو اغوا کرکے یا ان کے سرپرستوں سے خرید کر اس منڈی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں کالے دھن کی معیشت میں بڑا حصہ جسم فروشی کے دھندے کا ہے۔معاشی بحران ترقی یافتہ ممالک کی مقامی خواتین کو بھی جسم فروشی پر مجبور کر رہا ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق جسم فروشی پر مجبور خواتین کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ ہے اور بیروزگاری کی وجہ سے عصمت فروشی پر مجبور ہے۔
پاکستان عالمی معیشت کا حصہ ہے اس لحاظ سے اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کے وہی قوانین رائج ہے جو دنیا کے دیگر ممالک میں ہیں۔ آغاز ہی سے یہاں صنعتی انقلاب برپا نہ ہوسکا اور ملک بدحالی اور کمزور معیشت کی بربادیوں میں غرق ہوتا چلا گیا۔ 68 سالوں میں یہ سماج ترقی کرنے کی بجائے مزید پستی کا شکار ہی ہوا ہے۔ 70 فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہیں جن کے سماجی حالات قرون وسطیٰ سے ملتے جلتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں اب بھی جاگیرداری اور سرداری کی باقیات موجود ہیں۔ نہ تو وہاں قانون ہے اور نہ تعلیم و صحت اور سائنسی ترقی کی دوسری علامات۔ یہ آبادیاں آج بھی 16ویں صدی کے رسم و رواج میں جکڑی ہوئی ہیں۔ سرمایہ داری کی سرایت نے ان سماجوں کو ترقی دینے کی بجائے مزید مسخ کیا ہے۔ دہشت گردی اور مذہبی جنون کو فروغ دینے کے لیے انہی علاقوں سے غریب اور مجبور لوگوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں ڈاکٹر اور اسپتال تک پہنچنے کے لیے کئی کئی میل پیدل یا جانوروں کی سواری کرنی پڑتی ہے۔زچگی کے دوران اموات معمول ہیں۔ اکثر علاقوں میں صرف بارانی زمینیں ہیں جن کا انحصار بارشوں پر ہے، مرد و خواتین یہاں فصل کی کاشت میں مشترک کام کرتے ہیں، اکثر بچے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھ سکتے۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں جہاں باقی 30 فیصد آبادی رہتی ہے وہاں بھی نظام کی متروکیت کی بدولت حالات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ملک کے جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم پبلک ہیلتھ اور صرف دو فیصد سرکاری نظام تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں قابل علاج امراض سے اموات واقع ہونا عام بات ہے۔ عوام کی اکثریت پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ مار سہہ نہیں سکتی اور سائنسی علاج سے محروم رہ جاتی ہے۔ محنت کش طبقے کے لئے اپنی آمدنی کا تقریباً 60 فیصدخوراک پر خرچ کرنے کے بعد باقی 40 فیصد میں زندگی کی دیگر تمام ضروریات کو پورا کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ قیمتی ادویات اور بھاری سکول فیس کے علاوہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں مہنگائی کے باعث شدید مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔
اسلام آباد، کراچی، لاہور اور دیگر ترقی یافتہ شہروں میں خواتین کو مردوں کی نسبت کم اجرت پر مختلف کمپنیوں اور فیکٹریوں میں کسی حد تک اپنی محنت بیچنے کے مواقع میسر ہیں۔غربت اور مشقت بھری زندگی کی وجہ سے آئے دن ماؤں کی بچوں سمیت خودکشی کی خبروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پورے ملک میں صرف 10-20 فیصد خواتین کو اعلیٰ تعلیم یا سماجی شعبوں میں آگے آنے کے حالات میسر ہیں۔ ان خواتین کو بھی کام کی جگہوں پر جنسی تشدد اور مردانہ تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سماجی گراوٹ کے ساتھ خواتین پر تیزاب پھینکنے اور اغوا جیسے جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ میڈیا وقتی ریٹنگ کے لیے ان خبروں کی خوب تشہیر کرکے چپ ہوجاتا ہے۔عدالتی نظام میں جہاں مرد نسل در نسل ذلیل ہوتے ہیں وہاں خواتین کو انصاف ملنے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔لبرل سیاسی پارٹیاں خواتین کی آزادی کا نعرہ لگاتی ہیں، مذہبی بنیاد پرستی کی بھی مذمت کرتی ہیں مگر اس نظام پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے جو تمام مسائل کی حقیقی وجہ ہے۔
باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی بربریت اور مصائب کا راج ہے۔ یہاں کل آبادی کا 80 فیصد قبیلوں کی صورت میں دور افتادہ پہاڑی سلسلوں میں آباد ہے۔ ان کی اپنی تاریخ، ثقافت اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔ سرداری نظام بہت سخت ہے اور صوبائی حکومت صرف شہروں تک محدود نظر آتی ہے۔ ایران، سعودی عرب، چین اور امریکہ کی مداخلت سے یہاں ایک خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ معدنی دولت سے مالامال اس صوبے میں سب سے زیادہ غربت پائی جاتی ہے۔ تعلیم کا معیار بہت خراب اور پست ہے۔ مذہبی انتہاپسندی اور قومی شاونزم عروج پر ہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی نے یہاں کے باشندوں کی زندگیاں تلخ کی ہوئی ہیں۔ خواتین کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ انہیں قبائلی نظام کے تحت تعلیم اور جدید سائنسی علوم سے دور رکھا جاتا ہے۔ مسلسل بچوں کی پیدائش اور غذائی قلت کے باعث ہر سال ہزاروں خواتین موت کے منہ میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ خون کی کمی، علاج کی ناکافی سہولیات، پانی کی قلت اور شہروں سے دوری کے باعث خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دوران حمل مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے ماں اور بچے کی زندگی خطرے میں رہتی ہیں اور لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی دائی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو سائنسی طریقہ علاج سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ قبائلی نظام کے تحت عورتوں کو مردوں کے بعدکھانا کھانے کو ملتا ہے۔ صوبے کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں بھی ناکافی آلات، ادویات اور عملہ کی کمی کی بدولت صحیح علاج معالجہ ممکن نہیں ہے اور لوگ انتہائی کسمپری میں زندگی گزارنے کے باوجود اپنے مال مویشی اور دیگر سامان فروخت کرکے علاج کے لیے دیگر صوبوں اور شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی حالیہ نام نہاد ’’ترقی پسند‘‘ حکومت عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل کرنے میں ناکام رہی ہے، الٹا مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں خواتین کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہیں۔ خوف و دہشت کی بدولت کھل کر بات نہیں کرسکتی ہیں اور ’’چادر و چاردیواری‘‘ کی سلاخوں میں قید ساری زندگی گزار دیتی ہیں۔ ہرسال تقریباً 40 فیصد لڑکیاں اسکولوں میں داخلے کے لیے جاتی ہیں مگر پانچویں جماعت تک یہ تعداد 10 فیصد تک کم ہوجاتی ہیں اور صرف 2 فیصد ہی کالج اور یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ان کی اکثریت کو گھر بٹھادیا جاتا ہے۔
اس انسان دشمن نظام کو بدلنے کے لئے خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنا ہو گی وگر نہ عورت کے لئے سماجی و معاشی آزادی اور برابری کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔’’لبرل ازم‘‘ اور نہ ہی مذہبی قدامت پرستی عورت کے مسائل کا کوئی حل پیش کرسکتے ہیں۔یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ دونوں نظریات بذات خود عورت کے دشمن ہیں۔معاشی حالات جوں جوں تلخ ہو رہے ہیں گھریلو لڑائیاں،تلخیاں اور تشدد بھی اسی تناسب سے بڑھ رہا ہے۔عورت گھر کے اندر ہو یا باہر، سرمایہ دارانہ سماج اس کا دشمن ہے جسے اکھاڑ پھینکنے کے تاریخی فریضے میں کلیدی کردار خواتین کو ادا کرنا ہے۔