[تحریر: لال خان]
ترقی یافتہ مغرب اور تیسری دنیا کی سیاسی، سماجی اور معاشی حرکیات مختلف ہونے کے باوجود یورپ اور امریکہ کے معاشی پالیسی سازوں کی نقالی پاکستان کے ’’معیشت دان‘‘ باعث فخر سمجھتے ہیں۔ عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے لئے پرفریب اصطلاحات کا استعمال بھی انہوں نے اپنے سامراجی آقاؤں سے ہی سیکھا ہے۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد مغرب کے نیو لبرل معیشت دان بدہواس تھے تو ان کے پاکستانی نقالوں کو بھی منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ یہ وہی خواتین و حضرات تھے جو بحران سے ایک دن پہلے تک دعوے کررہے تھے کہ سرمایہ داری نے اپنے تضادات پر قابو پا لیا ہے اور معاشی اتار چڑھاؤ کے سائیکل قصہ ماضی ہوگئے ہیں۔سرکاری دانش کی یہ گراوٹ درحقیقت حکمران طبقے کی ریاست، ثقافت اور سیاست کی زوال پزیری کا اظہار ہے۔
یورپ میں مذہب، قوم یا لسانیت کی بنیاد پر جنم لینے والے معمولی تنازعات کو سامراجی کارپوریٹ میڈیاخوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اسلامی بنیاد پرست اور ان کے ’’سیکولر‘‘ حریف بھی سی آئی اے کے ایجاد کردہ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظرئیے کو سماج پر مسلط کر کے اپنے سیاسی اور مالیاتی مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مصنوعی تنازعات اور تضادات میں عوام کو الجھائے رکھنے کی اس سامراجی واردات کے برعکس، دنیا بھر کی طرح ترقی یافتہ مغرب میں بھی محنت کشوں کی حقیقی لڑائی طبقاتی جدوجہد سے عبارت ہے۔ 2008ء میں شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کی علامت بن جانے والا یونان اس وقت یورپی یونین کی بنیادیں لرزا رہا ہے۔ 25 جنوری کو یونان میں عام انتخابات ہورہے ہیں۔ کئی حوالوں سے یہ الیکشن یونان سے زیادہ یورپ کے کئی دوسرے ممالک کے لئے اہم ہیں۔ گزشتہ سات سال کے دوران یورپی یونین کا مستقبل بڑی حد تک یونان کی سیاست سے منسلک ہوچکا ہے۔یونان کے حالیہ عام انتخابات میں ’’سائریزا‘‘ (ریڈیکل بائیں بازو کا اتحاد)کی کامیابی پورے یورپ کی سیاست پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرے گی۔ سائریزا کی انتخابی فتح کی گونج سپین میں بالخصوص سنائی دے گی جہاں بائیں بازو کی جماعت ’’پوڈیموس‘‘ پہلے سے ہی اقتدار کے ایوانوں پر دستک دے رہی ہے۔
29دسمبر کو فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ ’’یورپی یونین کی یہ کمزور کڑی (یونان) خطرہ پیدا کررہی ہے کہ عوام معاشی کٹوتیوں (Austerity) کو مسترد کرتے ہوئے اس نظام کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیں گے جس کے تحت یورپ کو ایک کرنسی کی لڑی میں پرویا گیا ہے۔ اگر یہ لڑی ٹوٹتی ہے تو قرضے، بیل آؤٹ اور کٹوتیوں سے تعمیر کیا گیا تاش کے پتوں کا یہ محل لڑکھڑا جائے گا۔‘‘
فنانشل ٹائمز دراصل ولادیمیر لینن کے الفاظ ہی دہرا رہا ہے کہ سرمایہ داری ہمیشہ اپنی کمزور کڑی سے ٹوٹتی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں یورپی سرمایہ داری کی یہ کمزور کڑی روس تھا۔ آج بلا شبہ یہ حیثیت یونان کو حاصل ہے۔ ریاستی اخراجات میں کٹوتیوں نے یونان کی معیشت اور عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یورپ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یونان کی ایک تہائی آبادی (تقریباً چالیس لاکھ افراد) خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ حالیہ سروے میں 47 فیصد افراد کا خیال تھا کہ ان کی آمدن خاندان کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔مجموعی بیروزگاری 25 فیصد سے زائد ہے اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 60 فیصد ہے۔ ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 176 فیصد سے تجاوز کر رہا ہے۔ 317 ارب یورو کے اس قرضے کا بڑا حصہ یورپی سنٹرل بینک، آئی ایم ایف اور یورپی کمیشن کو ادا کیا جانا ہے۔معمر افراد کی پنشن25 فیصد کم ہو چکی ہے اور دوسری عوامی سہولیات میں بھی مسلسل کمی کی جارہی ہے۔مالیاتی بحران کے بعد جی ڈی پی 30 فیصد سکڑ گیا ہے۔امن کے زمانے میں جی ڈی پی کی اتنی تیز گراوٹ اس سے قبل 1929ء کے گریٹ ڈپریشن کے دوران امریکہ میں ہوئی تھی۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبے تیزی سے زوال پزیر ہیں۔ میڈیکل سائنس کے مشہور جریدے ’’دی لانسٹ‘‘ کے مطابق یونان میں ’’پبلک ہیلتھ کیئر کی موت‘‘ واقع ہوچکی ہے۔
سائریزا کا منشور آسٹریٹی اور نجکاری کے خاتمے، اجرتوں اور عوامی سہولیات پر ریاستی اخراجات میں اضافے اور یونان کے ریاستی قرضے کی جزوی منسوخی پر مشتمل ہے۔ سائریزا نے کھرب پتی بینکاروں، سرمایہ داروں اور ان کے سیاسی گماشتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور سوئس بینک اکاؤنٹس رکھنے والے دو ہزار امیر یونانی شہریوں پر ٹیکس لگانے کی بات کی ہے۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف جدوجہد بلاشبہ ضروری ہے لیکن یہ بے سود رہے گی اگر ملٹی نیشنل اجارہ داریوں اور بڑے سرمایہ داروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔مشکل فیصلے کرنے کی گھڑی سائریزاکی قیادت کے سر پر آن پڑی ہے۔ یونان کے محنت کش عوام سیاسی وعدوں کی عملی تعبیر چاہتے ہیں۔ یورپی یونین کو چھوڑنایک لخت خود کشی کے مترادف ہے جبکہ یورپی یونین میں رہنے کا مطلب سست رفتار مگر اذیت ناک موت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود قیود میں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس نظام کے تضادات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں بائیں بازو کی انتہائی ریڈیکل اصلاحات کی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔
سائریزا اگر اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو زیادہ عرصہ برسر اقتدار نہیں رہ پائے گی۔ اگلے الیکشن میں ناگزیر طور پر دایاں بازو برسر اقتدار آئے گا جس میں گولڈن ڈان (انتہائی دائیں بازو کا فاشسٹ گروہ) کی شمولیت بھی خارج از امکان نہیں ہے۔اس صورت میں سیاسی اور سماجی انتشار کے نئے باب کا آغاز ہو گا۔مزید ہڑتالیں اور عام ہڑتالیں ہوں گی اور عین ممکن ہے عوام بڑے پیمانے پر انقلابی سرکشی کی طرف بھی بڑھیں۔
کھل کر نہ کہنے کے باوجود یورپ کا حکمران طبقہ تاثر یہی دے رہا ہے کہ سارا قصور جمہوریت کا ہے اور عوام ’’ذمہ دارای سے معاشی فیصلے کرنے‘‘ کے اہل نہیں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے آقاؤں کی یہ اصلیت ایسے غیر معمولی حالات میں ہی عیاں ہوتی ہے۔ دن رات ’’جمہوریت‘‘ کی رٹ لگانے والا حکمران طبقہ بوقت ضرورت معاشی جبر پر چڑھا جمہوری لبادہ اتار پھینکنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی منافقت بھی حکمران طبقہ معاشی ابھار کے ادوار میں ہی افورڈ کر سکتا ہے جب دولت کے انباروں میں چند ایک سکے عوام کی طرف اچھال دینے کی صلاحیت نظام میں موجود ہوتی ہے۔ اصلاح پسندی اور ’’ویلفیئر ریاست‘‘ ایسے ہی عہد کی پیداوار ہوتی ہیں۔ سرمایہ داری جب بحران کا شکار ہوتی ہے تو پارلیمانی جمہوریت کی مادی بنیادیں بھی لڑکھڑانے لگتی ہیں اور حکمران طبقہ کھلے ریاستی جبر سے بھی گریز نہیں کرتا ہے جس کا حتمی اظہار ’’فاشزم‘‘ ہوتا ہے۔
اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں لینن نے لکھا تھا کہ ’’اس نظام کی جمہوریت ہمیشہ معاشی استحصال کی تنگ حدود میں مقید ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ صرف امیر اور صاحب حیثیت طبقے کی جمہوریت بن جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں آزادی قریب قریب ویسی ہی ہوتی ہے جیسی قدیم یونانی ریپبلک میں ہوا کرتی تھی، یعنی غلاموں کی ملکیت رکھنے والے آقاؤں کی آزادی۔ سرمایہ داری کے استحصال نے جن حالات کو جنم دیا ہے ان میں اجرتی غلام اپنی محتاجی کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہیں کہ انہیں اس (نام نہاد) جمہوریت کی کوئی خاص فکر نہیں ہے، سیاست میں سر کھپانے کا وقت ان کے پاس نہیں ہے…آبادی کی بہت بڑی اکثریت سماجی اور سیاسی زندگی کے معاملات میں شراکت سے سراسر محروم ہے۔‘‘
اصلاح پسندی پر تبصرہ کرتے ہوئے لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ مخصوص حالات بعض اوقات اصلاح پسند رہنماؤں کو ان کی اپنی مرضی و منشا سے بہت آگے دھکیل دیتے ہیں۔ ٹیکس کے خوف یا حکومت کو سبوتاژ کرنے کے لئے سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی (جو اس وقت یونان سے شروع ہوچکی ہے) کا جواب نہ چاہتے ہوئے بھی نیشلائزیشن کے ذریعے دینا پڑتا ہے۔ اقتدار میں رہنے کے لئے سائریزا کو بھی لامحالہ طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے۔ بینکاروں اور سرمایہ داروں کا مقابلہ کرنے کے لئے بائیں بازو کی اس متوقع حکومت کو محنت کش طبقے سے رجوع کرنا ہوگا۔ سائریزا کے اند موجود کمیونسٹ رجحان اپنے انقلابی منشور کے گرد عام کارکنان اور عوام کو منظم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ یونان میں ایک حقیقی انقلابی سوشلسٹ حکومت کرہ ارض کے کروڑوں اربوں محنت کشوں اور نوجوانوں پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کا راستہ آشکار کرے گی۔ اس کے اثرات شاید 1917ء کے بالشویک انقلاب سے بھی زیادہ گہرے اور دور رس ہوں گے!
متعلقہ:
یورپ: برداشت، بغاوت اور انقلاب